خزانہ اور منصوبہ بندی کی وزارتوں میں ترقیاتی بجٹ پر اختلافات
وزارت خزانہ نے پی ایس ڈی پی حد محض 750 ارب روپے تجویزکی۔
ترقیاتی بجٹ کے معاملے پر وزارت خزانہ اور وزارت منصوبہ بندی کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے۔
وزارت منصوبہ بندی نے آئندہ مالی سال سرکاری ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 1300 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی ہے تاہم وزارت خزانہ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے 750ارب روپے کی حد رکھنے کی سفارش کی ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی بجٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے 15یا 16 اپریل کو سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات نے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کی تیاری کا عمل شروع کردیا ہے جس کے لیے ترجیحی کمیٹیوں کے اجلاس بھی جاری ہیں اور وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی بجٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے 15یا 16اپریل کو سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بلائے جانے کا مکان ہے۔
دوسری جانب آئندہ مالی سا ل کے ترقیاتی پروگرام کو تشکیل دینے کے لیے وفاقی وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کو مشکلات درپیش ہیں جس کی ایک بڑی وجہ آئندہ مالی سال کے لیے منصوبوں کی بڑی تعداد کے برعکس وزارت خزانہ کی جانب سے ترقیاتی پروگرام میں بجٹ سیلنگ محض 750ارب روپے تک رکھنا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت وفاقی وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے انفرااسٹرکچر اور پاور سیکٹر کے منصوبوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن صرف نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے ہی وفاقی حکومت سے شاہراہوں کی تعمیر ومرمت کے منصوبوں کے لیے 790ارب روپے مانگے گئے ہیں جس کی بڑی وجہ اس وقت ملک بھر میں سی پیک سمیت شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کے منصوبوں کا جاری ہونا ہے تاہم شاہراہوں کے منصوبوں کے لیے آئندہ مالی سال کے دوران این ایچ اے کی 790ارب روپے ڈیمانڈ کے برعکس 250 ارب روپے تک این ایچ اے کو ملنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
اسی طرح ملک میں زراعت کے مختلف شعبوں میں ریسرچ کے لیے وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کی جانب سے مانگے جانے والے 4ارب 18کروڑ روپے کے برعکس 2.2ارب روپے تک ملنے کی توقع ہے، اسی طرح پاور ڈویژن کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 100ارب روپے رکھے جانے کی توجہ ہے۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ کی تیاری کے دوران وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے پاور ڈویژن، انفرااسٹرکچر پر فوکس کیا جا رہا ہے تاکہ ملک میں توانائی بحران کے حل کے ساتھ سی پیک کے تحت شروع منصوبوں کو اپنی مقررہ مدت میں مکمل کیا جا سکے تاہم ترقیاتی بجٹ کے لیے 750ارب روپے مختص کیے جانے کی صورت میں بڑی تعداد میں نئی ترقیاتی اسکیمیں شروع نہیں کی جا سکیں گی جس کے باعث توانائی سیکٹر اور مواصلات کے بھی منصوبوں کی بڑی تعداد پر آئندہ مالی سال کے دوران پیش رفت نہیں ہو سکے گی۔
ذرائع کے مطابق ابھی تک وزارت خزانہ کی جانب سے وزارت منصوبہ بندی کو بھیجے جانے والے لیٹر میں 750ارب روپے میں سے 105ارب روپے خصوصی ترقیاتی پروگراموں اور بلاک ایلوکیشن کے لیے بھی مختص کرنے کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کی جانب سے آئندہ مالی سال کے دوران ترقیاتی پروگراموں کے لیے رواں مالی سال کے 1001 ارب روپے ترقیاتی بجٹ کے مقابلے میں کم سے کم 10فیصد اضافے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جس کے لیے وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کی جانب سے وزارت خزانہ کو لیٹر بھی لکھا گیا ہے۔
وزارت منصوبہ بندی نے آئندہ مالی سال سرکاری ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 1300 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی ہے تاہم وزارت خزانہ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے 750ارب روپے کی حد رکھنے کی سفارش کی ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی بجٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے 15یا 16 اپریل کو سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات نے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کی تیاری کا عمل شروع کردیا ہے جس کے لیے ترجیحی کمیٹیوں کے اجلاس بھی جاری ہیں اور وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی بجٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے 15یا 16اپریل کو سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بلائے جانے کا مکان ہے۔
دوسری جانب آئندہ مالی سا ل کے ترقیاتی پروگرام کو تشکیل دینے کے لیے وفاقی وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کو مشکلات درپیش ہیں جس کی ایک بڑی وجہ آئندہ مالی سال کے لیے منصوبوں کی بڑی تعداد کے برعکس وزارت خزانہ کی جانب سے ترقیاتی پروگرام میں بجٹ سیلنگ محض 750ارب روپے تک رکھنا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت وفاقی وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے انفرااسٹرکچر اور پاور سیکٹر کے منصوبوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن صرف نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے ہی وفاقی حکومت سے شاہراہوں کی تعمیر ومرمت کے منصوبوں کے لیے 790ارب روپے مانگے گئے ہیں جس کی بڑی وجہ اس وقت ملک بھر میں سی پیک سمیت شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کے منصوبوں کا جاری ہونا ہے تاہم شاہراہوں کے منصوبوں کے لیے آئندہ مالی سال کے دوران این ایچ اے کی 790ارب روپے ڈیمانڈ کے برعکس 250 ارب روپے تک این ایچ اے کو ملنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
اسی طرح ملک میں زراعت کے مختلف شعبوں میں ریسرچ کے لیے وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کی جانب سے مانگے جانے والے 4ارب 18کروڑ روپے کے برعکس 2.2ارب روپے تک ملنے کی توقع ہے، اسی طرح پاور ڈویژن کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 100ارب روپے رکھے جانے کی توجہ ہے۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ کی تیاری کے دوران وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے پاور ڈویژن، انفرااسٹرکچر پر فوکس کیا جا رہا ہے تاکہ ملک میں توانائی بحران کے حل کے ساتھ سی پیک کے تحت شروع منصوبوں کو اپنی مقررہ مدت میں مکمل کیا جا سکے تاہم ترقیاتی بجٹ کے لیے 750ارب روپے مختص کیے جانے کی صورت میں بڑی تعداد میں نئی ترقیاتی اسکیمیں شروع نہیں کی جا سکیں گی جس کے باعث توانائی سیکٹر اور مواصلات کے بھی منصوبوں کی بڑی تعداد پر آئندہ مالی سال کے دوران پیش رفت نہیں ہو سکے گی۔
ذرائع کے مطابق ابھی تک وزارت خزانہ کی جانب سے وزارت منصوبہ بندی کو بھیجے جانے والے لیٹر میں 750ارب روپے میں سے 105ارب روپے خصوصی ترقیاتی پروگراموں اور بلاک ایلوکیشن کے لیے بھی مختص کرنے کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کی جانب سے آئندہ مالی سال کے دوران ترقیاتی پروگراموں کے لیے رواں مالی سال کے 1001 ارب روپے ترقیاتی بجٹ کے مقابلے میں کم سے کم 10فیصد اضافے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جس کے لیے وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کی جانب سے وزارت خزانہ کو لیٹر بھی لکھا گیا ہے۔