اچھا پلیئر دوسرے موقع کا انتظار نہیں کرتا چیف سلیکٹر
ٹیم تشکیل نو کے مرحلے سے گزر رہی ہے، ہمارے پاس کوالٹی ریزرو کھلاڑیوں کا پول نہیں، کرکٹرز ٹیم میں جگہ پکی نہیں۔۔۔
پاکستانی چیف سلیکٹر اقبال قاسم کا کہنا ہے کہ اچھا پلیئر دوسرے موقع کا انتظار نہیں کرتا۔
درحقیقت ہمارے پاس ریزرو کوالٹی کھلاڑیوں کا پول نہیں ہے، حتمی الیون کی ابھی بیشتر جگہوں پر کھلاڑی مستقل نہیں ہوپائے ہیں، اسی لیے ہم کھلاڑیوں کو تواتر سے مواقع فراہم کررہے ہیں، ہم ہر پوزیشن کیلیے بہترین پلیئر کو سامنے لانا چاہتے ہیں، پاکستان میں روٹیشن پالیسی کا کلچر نہیں ہے، ٹیم سے ڈراپ ہوجانے پر کھلاڑی خود کو غیرمحفوظ سمجھنا شروع کردیتے ہیں، موجودہ کھلاڑیوں کیساتھ ٹیم تبدیلی اور بننے کے عمل سے گزر رہی ہے، پاکستان نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کیلیے 30 رکنی اسکواڈ کا اعلان کررکھا ہے جسے مختصر کرکے آئندہ ماہ تک 15 پلیئرز تک محدود کردیا جائیگا اور غالب امکان ہے کہ یہی اسکواڈ چیمپئنز ٹرافی سے قبل مئی میں اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کیخلاف ون ڈے سیریز بھی کھیلے گا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے چیف سلیکٹر اقبال قاسم کا اصرار ہے کہ قومی ٹیم ابھی تشکیل نو کے مرحلے سے گزر رہی ہے، انھوں نے سلیکشن میں ہونے والی تغیرات کو ' ٹیکٹیکل موو' قرار دیا، جس کے ذریعے وہ ملک کے نوجوان ٹیلنٹ کو آزمارہے ہیں۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں کرکٹ کو بحران کا سامنا ہے، ویب سائٹ کو دیے گئے انٹرویو میں ماضی کے مایہ ناز اسپنر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ درحقیقت ہمارے پاس کوالٹی پلیئرز کا 'پول' نہیں ہے، حتمی الیون کی بہت سی پوزیشنز ابھی تک طے نہیں ہوپائی ہیں، کھلاڑی اتنا کچھ نہیں کرپارہے جس سے ان جگہوں پر ان کے قدم مضبوط ہوجائیں، ہم انھیں مواقع فراہم کررہے ہیں، وہ اپنے کھیل کا معیار بہتر بناکر مواقع حاصل کررہے ہیں، انھوں نے مزید کہاکہ اچھا پلیئر دوسرے موقع کا انتظارنہیں کرتا اور ہمیں ہر پوزیشن پر بہترین کھلاڑی ہی درکار ہیں۔
چیف سلیکٹر نے کہا کہ تشکیل نو کا مرحلہ کرکٹ میں تمام ٹیموں کیلیے ہی مشکل ہوتا ہے، چاہے ان کی ماضی کی پرفارمنس کتنی ہی شاندار رہی ہو، آسٹریلیا سمیت ایسا ہرجگہ ہوتا ہے، ہم نوجوان کرکٹرز کو سامنے لارہے ہیں، لیکن ہماری ڈومیسٹک کرکٹ کی صورتحال بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، ناقدین سلیکشن میں عدم تسلسل کی بات تو کرتے ہیں لیکن اس کے دوسری جانب ہم پاکستان ٹیم کیلیے بہترین کامبی نیشن تلاش کررہے ہیں، بطور سلیکٹر ہماری ذمہ داری بہترین پلیئرز کا انتخاب ہے اور اس کے بعد یہ پلیئرز پر ہے کہ وہ عمدہ پرفارمنس دے کر ٹیم میں اپنی جگہ پکی کریں۔
ماضی قریب میں پاکستان نے سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم، وقاریونس، اور شعیب اختر جیسے مایہ ناز بولرز دنیا کو دیے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان بولنگ بھی جدوجہد کرتے دکھائی دیتی ہے، خصوصاً آصف اور عامر کے منظرنامے سے ہٹ جانے کے بعد ایسا لگ رہا ہے، ان کے بعد سے پاکستان نے 10 بولرز کو آزمایا ہے لیکن صرف جنید خان اور محمد عرفان ہی اپنا نام بناپائے ہیں، اسی طرح بیٹنگ لائن میں بھی سلیکٹرز محمد یوسف کا متبادل تلاش کرنے میں تاحال ناکام دکھائی دیتے ہیں، اگرچہ انھوں نے درجن بھر بیٹسمینوں کو قسمت آزمانے کا موقع دیا ہے۔
ان میں بھی سے دو نوجوان عمراکمل اور اسدشفیق نے ظاہر کیا ہے کہ وہ ٹیم میں مستقل بنیادوں پر جگہ برقرار رکھ سکتے ہیں، کامران اکمل بھی گذشتہ پانچ برس سے پاکستانی وکٹ کیپنگ کا بوجھ سنبھالے ہوئے ہیں، اگرچہ اس شعبے میں حالیہ برسوں میں ذوالقرنین حیدر، سرفراز احمد، محمد سلمان اور عدنان اکمل کو بھی آزمایاگیا ہے، چیف سلیکٹر نے اس تمام صورتحال پر گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہم پلیئرز کی پرفارمنس میں تسلسل دیکھنا چاہتے ہیں۔
تاکہ طویل مدت تک پاکستان کیلیے کھیل پائیں، بدقسمتی سے پرفارمنس میں تواتر برقرار رکھنے میں ناکامی سے نہ انھیں اور نہ ہی ہمیں کچھ مدد مل پائی، ہمیں امید ہے کہ جلد یابدیر ہمارے سسٹم میں ایک مرتبہ پھر کوالٹی کھلاڑی آجائیںگے لیکن اس کیلیے ہمیں تحمل رکھنا ہوگا، ہم نے حارث سہیل، جنید خان اور احسان عادل کو مستقبل کیلیے نظروں میں رکھا ہوا ہے اور ہم ہر پوزیشن کیلیے مزید معیاری کھلاڑیوں کو دیکھ رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی کمیابی بھی ہمارے لیے بڑا دھچکا ہے جس کی وجہ سے ہمارے پلیئرز کو بین الاقوامی معیار پر اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کے مواقع بھی نہیں مل پارہے، ہمیں انڈر19 اور اے ٹیم کی سطح پر انٹرنیشنل کرکٹ درکار ہے، روٹیشن پالیسی کے معاملے پر انھوں نے کہا کہ یہ نظام ہمارے یہاں نہیں چل سکتا، کھلاڑی کبھی بھی ٹیم سے ڈراپ ہونا نہیں چاہے گا، ٹیم سے باہر کیے جانے پر پلیئرز خود کو غیرمحفوظ سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔
درحقیقت ہمارے پاس ریزرو کوالٹی کھلاڑیوں کا پول نہیں ہے، حتمی الیون کی ابھی بیشتر جگہوں پر کھلاڑی مستقل نہیں ہوپائے ہیں، اسی لیے ہم کھلاڑیوں کو تواتر سے مواقع فراہم کررہے ہیں، ہم ہر پوزیشن کیلیے بہترین پلیئر کو سامنے لانا چاہتے ہیں، پاکستان میں روٹیشن پالیسی کا کلچر نہیں ہے، ٹیم سے ڈراپ ہوجانے پر کھلاڑی خود کو غیرمحفوظ سمجھنا شروع کردیتے ہیں، موجودہ کھلاڑیوں کیساتھ ٹیم تبدیلی اور بننے کے عمل سے گزر رہی ہے، پاکستان نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کیلیے 30 رکنی اسکواڈ کا اعلان کررکھا ہے جسے مختصر کرکے آئندہ ماہ تک 15 پلیئرز تک محدود کردیا جائیگا اور غالب امکان ہے کہ یہی اسکواڈ چیمپئنز ٹرافی سے قبل مئی میں اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کیخلاف ون ڈے سیریز بھی کھیلے گا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے چیف سلیکٹر اقبال قاسم کا اصرار ہے کہ قومی ٹیم ابھی تشکیل نو کے مرحلے سے گزر رہی ہے، انھوں نے سلیکشن میں ہونے والی تغیرات کو ' ٹیکٹیکل موو' قرار دیا، جس کے ذریعے وہ ملک کے نوجوان ٹیلنٹ کو آزمارہے ہیں۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں کرکٹ کو بحران کا سامنا ہے، ویب سائٹ کو دیے گئے انٹرویو میں ماضی کے مایہ ناز اسپنر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ درحقیقت ہمارے پاس کوالٹی پلیئرز کا 'پول' نہیں ہے، حتمی الیون کی بہت سی پوزیشنز ابھی تک طے نہیں ہوپائی ہیں، کھلاڑی اتنا کچھ نہیں کرپارہے جس سے ان جگہوں پر ان کے قدم مضبوط ہوجائیں، ہم انھیں مواقع فراہم کررہے ہیں، وہ اپنے کھیل کا معیار بہتر بناکر مواقع حاصل کررہے ہیں، انھوں نے مزید کہاکہ اچھا پلیئر دوسرے موقع کا انتظارنہیں کرتا اور ہمیں ہر پوزیشن پر بہترین کھلاڑی ہی درکار ہیں۔
چیف سلیکٹر نے کہا کہ تشکیل نو کا مرحلہ کرکٹ میں تمام ٹیموں کیلیے ہی مشکل ہوتا ہے، چاہے ان کی ماضی کی پرفارمنس کتنی ہی شاندار رہی ہو، آسٹریلیا سمیت ایسا ہرجگہ ہوتا ہے، ہم نوجوان کرکٹرز کو سامنے لارہے ہیں، لیکن ہماری ڈومیسٹک کرکٹ کی صورتحال بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، ناقدین سلیکشن میں عدم تسلسل کی بات تو کرتے ہیں لیکن اس کے دوسری جانب ہم پاکستان ٹیم کیلیے بہترین کامبی نیشن تلاش کررہے ہیں، بطور سلیکٹر ہماری ذمہ داری بہترین پلیئرز کا انتخاب ہے اور اس کے بعد یہ پلیئرز پر ہے کہ وہ عمدہ پرفارمنس دے کر ٹیم میں اپنی جگہ پکی کریں۔
ماضی قریب میں پاکستان نے سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم، وقاریونس، اور شعیب اختر جیسے مایہ ناز بولرز دنیا کو دیے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان بولنگ بھی جدوجہد کرتے دکھائی دیتی ہے، خصوصاً آصف اور عامر کے منظرنامے سے ہٹ جانے کے بعد ایسا لگ رہا ہے، ان کے بعد سے پاکستان نے 10 بولرز کو آزمایا ہے لیکن صرف جنید خان اور محمد عرفان ہی اپنا نام بناپائے ہیں، اسی طرح بیٹنگ لائن میں بھی سلیکٹرز محمد یوسف کا متبادل تلاش کرنے میں تاحال ناکام دکھائی دیتے ہیں، اگرچہ انھوں نے درجن بھر بیٹسمینوں کو قسمت آزمانے کا موقع دیا ہے۔
ان میں بھی سے دو نوجوان عمراکمل اور اسدشفیق نے ظاہر کیا ہے کہ وہ ٹیم میں مستقل بنیادوں پر جگہ برقرار رکھ سکتے ہیں، کامران اکمل بھی گذشتہ پانچ برس سے پاکستانی وکٹ کیپنگ کا بوجھ سنبھالے ہوئے ہیں، اگرچہ اس شعبے میں حالیہ برسوں میں ذوالقرنین حیدر، سرفراز احمد، محمد سلمان اور عدنان اکمل کو بھی آزمایاگیا ہے، چیف سلیکٹر نے اس تمام صورتحال پر گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہم پلیئرز کی پرفارمنس میں تسلسل دیکھنا چاہتے ہیں۔
تاکہ طویل مدت تک پاکستان کیلیے کھیل پائیں، بدقسمتی سے پرفارمنس میں تواتر برقرار رکھنے میں ناکامی سے نہ انھیں اور نہ ہی ہمیں کچھ مدد مل پائی، ہمیں امید ہے کہ جلد یابدیر ہمارے سسٹم میں ایک مرتبہ پھر کوالٹی کھلاڑی آجائیںگے لیکن اس کیلیے ہمیں تحمل رکھنا ہوگا، ہم نے حارث سہیل، جنید خان اور احسان عادل کو مستقبل کیلیے نظروں میں رکھا ہوا ہے اور ہم ہر پوزیشن کیلیے مزید معیاری کھلاڑیوں کو دیکھ رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی کمیابی بھی ہمارے لیے بڑا دھچکا ہے جس کی وجہ سے ہمارے پلیئرز کو بین الاقوامی معیار پر اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کے مواقع بھی نہیں مل پارہے، ہمیں انڈر19 اور اے ٹیم کی سطح پر انٹرنیشنل کرکٹ درکار ہے، روٹیشن پالیسی کے معاملے پر انھوں نے کہا کہ یہ نظام ہمارے یہاں نہیں چل سکتا، کھلاڑی کبھی بھی ٹیم سے ڈراپ ہونا نہیں چاہے گا، ٹیم سے باہر کیے جانے پر پلیئرز خود کو غیرمحفوظ سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔