شعبہ صحت اور حکومت سندھ

ہمارے یہاں تو نہ اِس علم کو کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اِس شعبے سے وابستہ لوگوں کو اس کا مکمل ادراک ہے۔

دنیا بھر میں ترقی کا پیمانہ یہ ہے کہ تمام تر پالیسیاں اور قانون سازی انسان کی قدر و قیمت و توقیر میں اضافے کے اُصولوں پر تیار کی جائے۔ حکومتیں اپنے ملک و عوام کی خدمت کے لیے کام کرتی ہیں۔

انسان کو زندگی گذارنے کے لیے پُر آسائش و صحت مند ماحول کی فراہمی کے لیے بڑے پیمانے پر عملی اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن جب ملک پیارے پاکستان پر نظرڈالتے ہیں تو یہاں جو قوانین اور پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اُن سے انسان کہلوانے والی یہاں کی مخلوق یعنی عوام کی پریشانیوں میں اضافہ زیادہ اور آسائش کم نظر آتی ہے۔

یونانی فلسفی سقراط اور ارسطو کے بقول علم سیاسیات کی روح کے مطابق سیاست عوام کی خدمت جیسی عبادت کا بہترین طریقہ ہے لیکن ہمارے یہاں تو نہ اِس علم کو کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اِس شعبے سے وابستہ لوگوں کو اس کا مکمل ادراک ہے۔

یہاں تو سیاست کو ایک جدی پشتی منافع بخش کاروبار سمجھ کر قانونی و غیر قانونی طریقوں کی بناء پر اِس کاروبار سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے باعث عوام کی خدمت کا بنیادی پہلو کہیں دب کر رہ گیاہے اور حکومتی اُمور میں اس کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ دیگرسب باتوں و چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف بنیادی سہولیات کی بات کریں تو نہ یہاں تعلیم کا حصول آسان اور سستا و معیاری ہے اور نہ یہاں صحت مند ماحول ، صاف ستھری غذا ، فضا، پانی و آب و ہوا میسر ہے اور نہ ہی صحت اور علاج و معالجے کی بہتر سہولیات نظر آتی ہیں۔ اسپتالوں کی کمی کی تو کیا بات کریں ،جو یہاںاسپتال موجود ہیں تو وہاں ڈاکٹرو عملے اور ادویات و سہولیات کی کمی واضح طور پر نظر آتی ہے۔

موجودہ دور میں علاج معالجے کے جدید طریقہ (ایلوپیتھک) کی اس خطے میں جو ابتدا میں اسپتال قائم ہوئے اُن میں حیدرآباد میں دیوان دیا رام گدومل کے نام سے قائم گدوبندر مینٹل اسپتال (سرکاری نام سر کاؤس جی جہانگیر انسٹی ٹیوٹ آف سائیکاٹری) اپنی نوعیت کا شاہکار ادارہ ہے۔

اس اسپتال میں ذہنی و دماغی اور اعصابی بیماریوں کا نہ صرف بہترین و مفت علاج کیا جاتا تھابلکہ لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے مریض کو اسپتال پہنچانے کا خرچہ بھی دیا جاتا تھا۔ جب کہ 1898ء میں کراچی ، حیدرآباد ، کوئٹہ اور شکارپورمیں ایک برطانوی نواب کی بیوی لیڈی ہیریٹ ڈیفرن کے نام پر قائم ہونے والی لیڈی ڈیفرن اسپتال بھی بہترین اسپتال تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ شکارپور میں 1909میں شری ہیرانند مینڈھا نے آنکھوں کا اسپتال بنوایا ۔ جہاں اُس وقت کے عالمی شہرت یافتہ برطانوی ڈاکٹر سر ہنری ترسترام ہالینڈ مفت علاج کیا کرتے تھے۔

1935میںشکارپور میں ہی 226بیڈز پر مشتمل رائے بہادر اودھو داس تارا چند اسپتال تعمیر ہوا جو جناب اودھو داس نے سندھ و ہند بھر سے چندہ جمع کرکے بنوایا تھا ۔ یہ اور ایسے کئی اسپتال ان لوگوں نے انسانی خدمت کے جذبے کے تحت فلاحی طور پر تعمیر کروائے ،جہاں مفت علاج ہوتا تھا ۔

اس کے علاوہ سول اسپتال کراچی کے ساتھ ساتھ دیگر سرکاری چھوٹے بڑے اسپتال قائم ہوئے جن میں وقت کے ساتھ ساتھ خاصہ اضافہ ہوتا چلا گیا ۔حالانکہ آج بھی LRBT، الابراہیم آئی ٹرسٹ ملیر میمن گوٹھ، انڈس اسپتال اور SIUTجیسے کئی ادارے عوام کی خدمت کے عالمی اُصولوں پر گامزن ہیں لیکن تعداد میں کم ہونے کہ وجہ سے وہ بھی شدید دباؤ میں نظر آتے ہیں اور صوبہ کی ضروریات کو پورا نہیں کرپاتے اور اُن اداروں کی بہترین کارکردگی کے پیچھے بھی کوئی سرکاری محرکات شامل نہیں بلکہ کسی نہ کسی ادیب رضوی اور ڈاکٹر رتھ فاؤ (کوڑھ کے مرض کے خاتمے کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے والی مسیحا )جیسے انسان دوست ڈاکٹر یا انتظامی افسر کی فرض شناسی کارفرما ہے۔

جب کہ فطرتی و تولیدی طور پر بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ غیر فطرتی طریقہ سے آبادی کی شرح میں ہونے والے بے ہنگم اضافے خصوصاً1947کے بعد ، اور انتظامی اُمور میں برتی گئی لاپرواہیوں ، بدعنوانیوں کے مچائے ہوئے بازار نے انسانی خدمت کے جذبہ کے اس بہترین شعبہ صحت کو بھی کمرشلائیز یعنی کمائی کا ذریعہ بنادیا۔


ہمارے ملک پاکستان کو مملکت ِ خداداد (یعنی خدا کی جانب سے عطا کردہ مملکت ) بھی کہا جاتا ہے لیکن جب بھی یہ جملہ سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو سوچ و اندیشوں کے سائے نہایت گہرے ہوجاتے ہیں کہ اگر ہمیں یہ مملکت خدا نے عطا کی ہے تو اس کا مطلب یہ اللہ کی نعمت ہے، تو پھر جو اس ملک کی حالت کی گئی ہے کیا وہ اللہ رب العزت کی نعمتوں کو جھٹلانے کے برابر نہیں ۔؟ عوام کو قدرت کی جانب سے میسر فطرتی ماحول کو بھی انتظامی نااہلی کی وجہ سے تباہ و برباد کردیا گیا ہے ۔ قدرتی جنگلات ختم کردیے گئے۔ سمندر کو آلودہ کردیا گیا۔

قدرتی طور پر تازہ پانی کی ایشیا کی سب بڑی جھیل منچھر جھیل میں بالائی علاقوں سے آنیولا نکاسی ِ آب و کارخانوں کا زہریلا پانی چھوڑا گیا اور پھر وہ دریائے سندھ کے پانی میں ملاکر عوام کو پینے کے لیے دیا جاتا رہا ہے جو تمام بیماریوں بالخصوص کالرہ، گیسٹرو اور خاص طور پر ہیپاٹائٹس کا باعث ہے ۔جس کی روک تھام کے لیے ایک عوامی ہمدرد اور سماجی ورکر نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی جس کی بناء پر عدالت ِ عالیہ سندھ نے جسٹس ریٹائرڈ امیر ہانی مسلم کی سرپرستی میں ایک کمیشن قائم کیا ہے جو صوبہ بھر میں عوام کو فراہم ہونے والی انسانی صحت کے لیے خطرناک اشیاء، غذا، پانی و غیر موزوں ماحول کی روک تھام کرکے صاف ستھری غذا، صاف و شفاف اور صحت مند پانی کی سپلائی اور علاج و معالجے کی بہتر سہولیات کے مکمل انتظامات تک قائم رہے گا۔اس مقدمے کی سماعت کے دوران حکومت کی کوتاہیوں ، لاپرواہیوں اور بدعنوانیوں سے لے کر انتظامی اُمور میں نااہلیت کی داستان کے ابواب میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے ۔

یوں تو محکمہ صحت ،حکومت ِسندھ نے '' صحت سب کے لیے '' کے نعرے کے تحت عوام کو سستے یا مفت علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کئی عشرے پہلے سے عملدرآمدی منصوبہ تشکیل دیا اور ضلعی سطح پر سول اسپتال ، تعلقہ سطح پر تعلقہ اسپتال سے لے کر یونین سطح تک بنیادی صحت مراکز ( بیسک ہیلتھ یونٹس) قائم کیے ہیں ۔ لیکن نہ تو حکومت اپنے ان سرکاری اسپتالوں کو درست طریقے سے چلاپارہی ہے اور نہ ہی صوبہ بھر میں اچھی دیکھ بھال کے نام پر قائم بے شمار چھوٹے بڑے اسپتالوں کے لیے بھی کوئی عوام دوست قوانین یا پالیسیاں بنانے پر مناسب توجہ دے پائی ہے اورنہ ہی ان اسپتالوں کی نگرانی کا کوئی نظام قائم کر پائی ہے۔

اسی طرح حکومت نے شعبہ صحت میں کئی پروگرام تو ترتیب دیے ہیں لیکن جس پروگرام پر بھی نظر ڈالتے ہیں تو وہ فائلوں اور دستاویزات میں شاہکار نظر آتا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں جیسے اگر EPIپروگرام کی بات کریں تو 1958سے یہ پروگرام جاری و ساری ہے لیکن آج تک ہمارے نونہال خسرہ اور پولیو جیسے امراض کے حملوں کا شکار ہورہے ہیں ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ بدعنوانی اور لاپرواہی کے ساتھ ساتھ مانیٹرنگ کا مؤثر نظام نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے وفاقی و صوبائی حکومت کے اپنے سالانہ بجٹ کے علاوہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ، یونیسکو ، یونیسیف اور ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی اداروں اور کئی ممالک سے ملنے والی مالی و فنی امداد کے باوجود ان امراض پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے ۔

حد تو یہ ہے کہ جعلی ادویات کے استعمال میں بھی محکمہ صحت پیش پیش رہا ہے ، رواں ماہ کی ایک مقامی اخباری رپورٹ کے مطابق مالی سال 2015-16میںدو (2) ارب روپے مالیت کی میعاد ختم ہونے والی(Expired) ادویات خریدی گئیں جن کا استعمال عام ہے ۔ حال ہی میں مٹھی تھر میں پولیو کیExpired ویکسین لگنے سے بچوں کی ہلاکتوں کا واقعہ رونما ہوا جس کا چیف جسٹس آف پاکستان نے از خود نوٹس لیا اور کیس زیر سماعت ہے ۔

اسی طرح نیوٹریشن سپورٹ پروگرام تو چل رہا ہے لیکن عمومی طور پر سندھ بھر میں اور بالخصوص تھر و کوہستان اور ٹھٹہ و بدین کے ساحلی علاقہ جات میں تو بچوں میں کمی اِس قدر شدید ہے کہ وہ بچے اور مائیں تیل و گیس کوئلے جیسی قدرتی معدنیات اور زرعی، تجارتی و صنعتی طور پر مالا مال سندھ کے بجائے ایتھوپیا اور صومالیہ کے قحط زدہ علاقوں کے باسی محسوس ہوتے ہیں ۔ جب کہ سندھ حکومت کی پلاننگ کا تو یہ عالم ہے کہ جینیٹکس عمل کے ذریعے نسل در نسل بچوں میں منرلز اور وٹامنز کی ہونے والی کمی کاسائنسی حل نکالنے کے بجائے وہ لوگوں کو گندم کی خیرات دینے جیسی سخاوت کرکے خود کو حاتم طائی کے وارث کے طور پر پیش کررہی ہے ۔

اسی طرح'' ہیپا ٹائٹس سے پاک سندھ ''پروگرام کی تو سندھ حکومت نے ایسی درگت کی ہے کہ سندھ دنیا کے ہیپاٹائٹس فروغ پانے والے خطوں میں سر فہرست آگیا ہے ۔ لاکھوںافراد اس مرض میں مبتلا ہیں جس کی بڑی وجہ آلودہ و جراثیم زدہ پانی کی فراہمی ہے ۔ جب کہ ہیپاٹائٹس مراکز پر ادویات کی کمی ، اقربا پروری ، بدعنوانی اور سیاسی اثر و رسوخ کے بے جا استعمال کی وجہ سے یہ مراکز عوام کو کوئی فائدہ دینے کے بجائے ان کا منہ چڑاتے ہیں اور نجی طور پر ہیپاٹائٹس کا علاج اس قدر مہنگا ہے کہ صرف ہیپاٹائٹس کاتشخیصی (PCR) ٹیسٹ 3سے 4ہزار روپے کا ہے عام لوگوں میں یہ ٹیسٹ کروانے کی ہی مالی قوت نہیں تو وہ لاکھوں میں پڑنے والے ویکسینیشن کورس کو کیسے مکمل کروائیں گے ۔

جب کہ ڈاکٹرو ادویات بنانے والی کمپنیز کا گٹھ جوڑ تو گنے کے جوس کی مشین کی طرح ہے جو عوام کو گنے کی طرح بار بار نچوڑتا رہتا ہے ۔ڈاکٹر بلا ضرورت مریض کو مہنگی مہنگی اور مختلف اقسام کی ادویات دیکر کمپنیوں کی مصنوعات کی فروخت میں اضافہ کرکے بدلے میں دبئی و تھائی لینڈ اور یورپ کے فیملی ٹرپ کی مراعات لیتے ہیں ۔دوسری جانب صوبہ بھر میں قائم چھوٹے بڑے نجی اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ ڈاکٹروں کی توجہ داخل ہونے والے مریض کی بیماری ٹھیک کرنے کے بجائے اسپتال کے بل بڑھانے کی طرف ہوتی ہے۔ اس سارے ماحول میں ایک ذمے دار عوامی حکومت کا دور دور تک کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ۔

عوام کی اکثریت کی بے چارگی کا تویہ عالم ہے کہ وہ تعلیم کی کمی ، قوانین سے ناشناسائی اور کہیں کوئی داد و فریاد نہ ہونے کی لاچارگی کی وجہ سے آنکھیں بند کیے اپنی آمدنی کا دو تہائی حصہ اپنے بچوں کی صحت پر خرچ کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ بچے اقوام ِ عالم کے بچوں کے تندرستی کے گراف پر پورا نہیں اترتے۔جب کہ کمائی کا زیادہ حصہ علاج و معالجے پر خرچ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی زندگی کی سماجی ضروریات کے لیے یا تو قرضہ جات کے دلدل میں دھنستے جاتے ہیں یا پھر جرائم و بدعنوانیوں کو اپنا شیوہ بنالیتے ہیں اور یہیں سے ہمارے معاشرے کے بگاڑ کا آغاز ہوتا ہے، جو اب اس قدر سنگین ہوگیا ہے کہ بدعنوانی کو اب ہمارے یہاں برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اوپر کی کمائی کا بتاتے ہوئے الحمد لا اللہ جیسے کلمات ادا کیے جاتے ہیں ۔
Load Next Story