ایمنسٹی سکیم تو وزیر اعظم کا اپنے ’’وزیر اعظم‘‘ کو ریلیف ہے
کرپٹ اور لالچی اہلِ اقتدار نے بانیانِ پاکستان کی چھوڑی گئی تمام میراث لُوٹ لی۔
ملک و قوم کی بہتری ، ترقی، عظمت اور خوشحالی کے لیے آئیڈیل صورتحال وہی ہے جس کی طرف ہمارے چیف جسٹس میاں ثاقب نثارصاحب نے اشارہ کیا۔ عدالتِ عظمیٰ میں ایک اہم مقدمے کی سماعت کرتے ہُوئے اُنہوں نے فرمایا ہے :''چین نے ترقی کے لیے400وزرا کو فارغ کیا تھا۔''
چیف جسٹس صاحب نے ایک غیر معمولی بات کہی۔ اور کیوں کہی ہے، یہ ہم اور آپ سب جانتے ہیں۔ دل کی گہرائیوں سے اور بالیقین جانتے اور مانتے ہیں کہ معاشرے اور حکومت کی کن کالی اور کرپٹ بھیڑوں کو سماج کی حدود اور حکومت کے ایوانوں سے نکال دیا جائے تو مملکتِ خداداد پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائے گا۔ اور اُن سب خوابوں میں تعبیر کے سارے رنگ بھرے جا سکیں گے جو خواب ہمارے بلند ہمت بانیانِ پاکستان نے دیکھے تھے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ بانیانِ پاکستان کی آنکھیں بند ہوتے ہی اِن خوابوں کو ہمارے جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں نے اپنے لالچی پاؤں تلے وحشت سے روند ڈالا ہے ۔ ورنہ عظمت ورفعت حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس کس شئے کی کمی تھی؟ اللہ کریم نے تو ہمیں سبھی اسباب اور وسائل سے مالا مال کررکھا تھا۔ کمی رہی تو بس یہی کہ ہم مخلص اور بے ریا حکمرانوں سے محروم رہے۔
کرپٹ اور لالچی اہلِ اقتدار نے بانیانِ پاکستان کی چھوڑی گئی تمام میراث لُوٹ لی۔ ہمیں یہاں تک کنگال کر دیا گیا کہ اپنا ایک طاقتور اور بڑا بازو بھی کاٹ ڈالا گیا لیکن ذمے داران کا پتہ چلایا گیا نہ ذمے داروں کو سزا ہی دی گئی۔ اگر برقت اور عبرت ناک سزا دیدی جاتی تو آج ہمیں اُن کرپٹ اور بد عنوان حکمرانوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو ہماری قومی دولت دن دیہاڑے لُوٹ کر باہر لے گئے لیکن ہم ابھی تک اُن کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے۔
ہماری بے بسی کی بھی کوئی حد ہے نہ ہماری بے حسی کی۔جیسا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ چین نے ترقی کے لیے 400کرپٹ وزرا فارغ کیے، سچ ہی تو کہا ہے اور اگر ہم بھی اِسی راستے اور چینی نقوشِ قدم پر عمل کرتے ہُوئے اپنے 40کرپٹ اور لُٹیرے وزرا کو ''فارغ'' کردیتے تو آج ساری قوم سُکھ اور چَین کی بانسری بجا رہی ہوتی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ اور قافلہ اور وقت ہماری خواہشات اور قومی آدرشوں کو روندتا ہُواآگے بڑھ گیا۔
یہ قانونِ فطرت ہے کہ جو قوم، خاندان اور حکمران وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے میں ناکام رہتے ہُوئے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، وقت کا ریلہ اُنہیں ایسے ہی روندتا اور کچلتا ہُوا آگے بڑھ جاتا ہے جیسے اُس نے ہم سب کو روند ڈالا ہے اور ہم آج بائیس کروڑ عوام بے بسی سے ناکامی میں ہاتھ مَل رہے ہیں۔ وائے ناکامی، کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!! لیکن ابھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا ہے۔
ایک پنجابی محاورے کے مطابق، ابھی بکھرے بیروں کو دوبارہ سمیٹا جا سکتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ ہمارا قومی اور اجتماعی ضمیر پوری طرح بیدار ہو جائے۔ اگرہم اقربا پروری کی لعنت سے نجات حاصل کرلیں ۔ اگر ہم بدعنوان عناصر کا ٹیٹوا دبا سکیں۔ اگر ہم قوم کے سارے مجرموں کا بے لاگ احتساب کرسکیں۔ اگر ہم گندے اور بد بُودارانڈوں کو اُٹھا کر کوڑے دانوں میں پھینک سکیں ، حالانکہ ہم ان گندے انڈوں کو خوب جانتے پہچانتے بھی ہیں۔پھر بھی ہم ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
اگر ہم قومی دولت لُوٹ کر بیرونِ ملک لے جانے والوں کے لیے یکساں اور فوری میزان قائم کر سکیں۔ اگر ہم چین کی طرح کرپٹ وزرا کو''فارغ'' کرنے کی جرأت کر سکیں ۔ تو وقتی طور پر بکھرے'' بیر'' ہمارا قومی نقصان ثابت نہیں ہو سکتے۔ ہم نئی ہمتوں کے ساتھ دوبارہ اپنے پاؤں پر اُٹھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں واقعی غیر معمولی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔
شرط ہے تو بس یہ کہ ہم 40کالی بھیڑوں کا صفایا کر سکیں ۔ اور اِن 40کالی بھیڑوں کو ہم سب اِسی طرح جانتے ہیں جیسے ہم اپنے ہاتھوں کی ریکھاؤں ، لکیروں کو جانتے ہیں۔لیکن اگر ہمارا یہ حال ہو کہ ہمارے بعض صحافی حضرات اور بعض اینکرز صاحبان جو حکمرانوں کی ڈیوٹی پر ہیں''نیب'' میں واجد ضیاء کے بیانات کو اپنی خواہشات کا رنگ دیکر سامنے لاتے رہینگے تو پھر ہو چکا انصاف۔ خدا کی پناہ اِس حد تک بھی صحافتی بد دیانتی ہو سکتی ہے کہ ''نیب'' کے اندر نواز شریف اور اُنکی صاحبزادی کی جائیدادوں اور منی لانڈرنگ کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کا یوں مُثلہ کر دیا جائے؟ یوں بھی حلیہ بگاڑا جا سکتا ہے؟
لیکن ایسا ہو رہا ہے اور نواز شریف اپنے صحافتی کارندوں کی اس شرمناک اور افسوسناک حرکت پر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں ۔ اِسی لیے تو اُن کا اصرار بڑھ گیا ہے کہ مجھے ''کلین چِٹ'' دی جائے۔ اُنکی صاحبزادی بھی بلند آہنگ سے یہ کہتے سنائی دے رہی ہیں کہ کچھ نہیں نکلا، اسٹار گواہ بھی ہمارے خلاف کچھ ثابت نہیں کر سکا۔ اگر ہمارے بعض صحافیوں اور مبصروں کا یہی رویہ رہا تو یقینا وہ قارئین اور سامعین کا اعتبار کھو بیٹھیں گے، ہاں یہ ممکن ہے کہ اِس جھوٹ کے بدلے وہ کچھ مالی مفادات حاصل کر لیں مگر یہ کب تک اُنکا ساتھ دیگا؟
سیانے لوگ بجا طور پر استفسار کرنے لگے ہیں کہ''نیب'' کی اندرونی کارروائی کا حلیہ کس کی ایما پر بگاڑنے کی جسارت کی جارہی ہے؟کون کروا رہا ہے؟ اور کیا یہ معاملات قانون شکنی کی زَد میں نہیں آتے؟ اب تو قانون شکنی اِس حد تک تجاوز کر چکی ہے کہ رواں ہفتے سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے شریک ملزم منصور رضوی کے وکیل جاوید اکبر شاہ نے احتساب عدالت میں فاضل جج محمد بشیرکے سامنے بد تمیزی کی ساری حدیں عبور کر لیں۔
اُنہوں نے جج صاحب کے سامنے جن الفاظ کا استعمال کیا، وہ کسی بھی طرح متذکرہ وکیل کو زیب نہیں دیتے تھے لیکن جاوید اکبر شاہ نے عدالت کے ڈیکورم کی پرواہ کی نہ جج صاحب کے احترام کا پاس رکھا۔ ہم سمجھتے ہیں یہ اسلیے ہُوا ہے کہ اسحق ڈار کے قائد اور اُنکی صاحبزادی ہمارے معزز جج صاحبان اور محترم عدالتوں کے بارے میں جو رویہ اختیار کیے ہُوئے ہیں اور جو زبان استعمال کررہے ہیں، جاوید اکبر شاہ نے یہ حوصلہ وہیں سے حاصل کیا ہے۔
اس کی انتہا کہاں ہو گی اور اس کی آخری شکل کیا ہوگی، اس بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ججوں اور عدلیہ کے بارے میں جن رویوں کو سابق نااہل وزیر اعظم نواز شریف اور اُنکی ملزم بیٹی نے فروغ دیا اور متعارف کروایا ہے، انکے نتائج بڑے ہی بھیانک نظر آرہے ہیں۔کچھ نتائج تو سامنے آنے بھی لگے ہیں لیکن ہمیں یقینِ کامل ہے کہ ہماری محترم عدلیہ اِن رویوں کا کامیابی سے انسداد کر یگی۔ انشاء اللہ۔ وگرنہ ایسے معاشرے کا تصور کرتے ہی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں عدلیہ کا احترام ہو نہ عادلوں کا۔
حکومتی جماعت کی قانون شکنیوں ہی کا یہ ''کمال'' ہے کہ سیالکوٹ میں ایک نون لیگی یُو سی سیاستدان نے دن دیہاڑے ایک معمولی سی بات پر معروف اخبار نویس کا خون کر دیا ہے۔ سارے ملک کے اخبار نویس اس سانحہ پر نواز شریف، نون لیگ اور سیالکوٹ میں وزیردفاع خواجہ آصف کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہُوئے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے بھی اِس پر سوؤ موٹو لے لیا ہے جسے دیکھ کر ہماری وزیر مملکت برائے اطلاعات نے بھی اخبار نویس کے قاتل کی مذمت میں بیان داغ ڈالا ہے اور چونکہ ہمارے حکمران خود قانون پر عمل کرنے کے بجائے قانون کا مذاق اڑاتے ہیں اور قانون کا نفاذ کرنیوالوں کا بھی، اس لیے عوام اور سرکش گروہ بھی اِسی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔
یہ افسوسناک صورتحال ہم نے اِسی ہفتے لاہور میں عملی طور پر بھی دیکھی ہے۔ پہلے لیڈی ہیلتھ وزیٹرز نے تنخواہوں کے مسئلے پر پورے لاہور کو دو دن کے لیے بند کر دیا لیکن حکومت کچھ نہ کر سکی۔ ابھی یہ جھگڑا ختم ہُوا ہی تھا کہ مزدا اور چھوٹے ٹرانسپورٹروں نے ٹول ٹیکس کے مسئلے پر سارا لاہور بند کر دیا مگر حکومت پھر بھی کچھ نہ کر سکی اور لاہور کے کروڑوں شہری دو دن تک عذاب میں مبتلا رہے۔ پھر یہ تنازع خدا خدا کرکے ختم ہُوا ہی تھا کہ ایک عالمِ دین نے حکومت کی کہہ مکرنیوں اور مبینہ وعدہ شکنیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہُوئے ایسا دھرنا دیا ہے کہ سارا لاہور پھر بند پڑا ہے۔ ساتھ ہی پراپرٹی ڈیلروں نے مال روڈ پر احتجاج کرتے ہُوئے ڈیرے ڈال لیے اور حکومت کے ہاتھ پاؤں مسلسل پھولے رہے۔
حکومت اتنی بے بس ہے کہ خدا کی پناہ ۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت اور حکمرانوں کے دل میں چور ہے جس نے اُنکی جرأتوں کو سلب کر لیا ہے؛ یہ ہیں ہمارے حکمران اور یہ ہے اُن کی حکومتی رِٹ !! اور یوں ملک میں ایک ایسی لہر بھی اُٹھتی نظر آرہی ہے جو بتا رہی ہے کہ نون لیگ کی مقبولیت تیزی سے نیچے جارہی ہے۔ اِسی کا اثر ہے کہ مسلم لیگ ن کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی دھڑا دھڑ ن لیگ سے جان چھڑا کر پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔
یہ ایک تہلکہ خیز سیاسی واقعہ ہے کہ جو افراد بھی ن لیگ کی جان چھوڑ رہے ہیں معروف معنوں میں ہر صورت انتخاب میں کامیاب ہونیوالوں میں شامل ہیں۔ نون لیگ مگر اپنے ہی ہوا کے گھوڑے پر بگٹٹ بھاگ رہی ہے اور اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے قومی معاملات میں کامل بے حسی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
ہم تو اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سَینا کشمیری مسلمانوں کا بیدردی سے خون کی ندیاں بہا رہی ہے اور ہمارے سابق و حاضر حکمران منہ میں گھنگنیاں ڈالے نظر آرہے ہیں۔ہمارے دفترِ خارجہ نے رٹا رٹایا جملہ کہا ہے کہ ہم دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھائیں گے۔درست کہا ہے مگر یہ اقدام کب کیا جائے گا؟ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی ہماری وزارتِ خارجہ کے ترجمان بتانے پر تیار ہیں۔
ہمارا سابق وزیر اعظم بھی کشمیری تھا، ہمارے ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ بھی خود کو کشمیری کہتا ہے اور ہمارا وزیر خارجہ بھی کشمیری ہے لیکن اِن سب نے مظلوم و مجبور کشمیریوں کے حق میں اور غاصب و قابض بھارت کے خلاف کیا آواز بلند کی ہے؟ اللہ غارت کرے بھارتی قابض افواج کو جنھوں نے صرف ایک دن کے دوران 20سے زائد کشمیری نوجوان شہید کر دیے ہیں، یہ خونی سانحہ پچھلی اتوار کو وقوع پذیر ہُوا تھا۔ اس کے ردِ عمل میں سارا مقبوضہ کشمیر بند پڑا ہے۔
کشمیر کی بزرگ اور جوان حریت پسند قیادت کو دو سال بعد دوبارہ یا تو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے یا اُنہیں حوالاتوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ یہ تازہ ظلم اتنا خونی اور غیر انسانی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پُتلی حکمران بھی تڑپ اُٹھے ہیں اور محبوبہ مفتی نئی دہلی میں نریندر مودی سے ملاقاتیں کررہی ہے۔ سرینگر اور اس کے مضافات میں کشمیریوں کو تہ تیغ کیا جارہا ہے اور یہ کٹھ پُتلی حکمران بھارتی دارالحکومت میں اپنے آقاؤں سے ملاقاتیں کررہی ہے۔ یہ ملاقاتیں نہیں بلکہ مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔
بھارتی میڈیا بھی تمام غیر انسانی ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے ۔ بھارتی صحافی مظلوم اور حق وانصاف کے ساتھ نہیں بلکہ ظالم ، ظلم اور انیائے کے ساتھ ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی پوری طرح برہنہ ہو گیا ہے اور یہ بھی کہ سارے انڈین جرنلسٹ دراصل انڈین اسٹیبلشمنٹ کی ڈگڈگی پر ناچتے ہی نظر آتے ہیں۔ ہمارے آرمی چیف جنرل باجوہ نے تو کھل کر مظلوم کشمیریوں کی حمائیت کی ہے لیکن وہ حکمران جنہیں اس نازک موقع پر سامنے آ کر کشمیریوں کہ ہمت افزائی کرنی چاہیے تھی، سب اپنی اپنی بِلوں میں گھسے نظر آتے ہیں۔
گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مصداق ، وزیر اعظم کے زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس یقینا ہُوا ہے لیکن اس کا اعلامیہ اور اعلان نہائیت ہی بے جان اور بے رُوح سامنے آیا ہے۔وزیر اعظم نے اِسی سلسلے میں ایک پریس کانفرنس بھی کر ڈالی ہے لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ اندازہ تو یہ تھا کہ وزیراعظم کشمیر میں ڈھائے جانے والے تازہ بھارتی مظالم پر کچھ جرأت کا مظاہرہ کرینگے لیکن اُنہوں نے اِس بارے میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ ساری پریس کانفرنس صرف ''نئی ایمنسٹی اسکیم''کی تعریفوں کے پُل باندھنے اور اس کی صفتیںکرنے میں صَرف کر دی۔
اس اسکیم کے تحت کالے دَھن والوں کو پیشکش کی گئی ہے کہ اپنا کالا پیسہ باہر نکالیے، دو فیصد ادا کیجئے اور سارا کالا مال سفید کروالیجئے۔سوال یہ ہے کہ اِس ایمنسٹی سے پاکستان کے غریب طبقات کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ یہ بھی سوال ہے کہ ہمیشہ نون لیگ کی حکومت ہی ایسی ایمنسٹیاں کیوں سامنے لاتی ہے؟ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کسی اہم سوال کا ڈھنگ سے جواب نہیں دے سکے ۔
وہ اس سوال کا بھی اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر رہے کہ یہ ایمنسٹی دراصل ایک فرد کے خاندان اشارہ نواز شریف کی طرف تھا کو فائدے پہنچانے کی ناکام کوشش ہے ۔ اُنہوں نے تو اس کا جواب نہیں دیالیکن اب یہی سوال وطنِ عزیز کے ہر شہری کی زبان پر بھی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم تو پریس کانفرنس کے دوران یہ سننے کے منتظر ہی رہے کہ وزیر اعظم مظلوم کشمیریوں کے حق میں بھی لب کشائی کرینگے لیکن ہماری خواہش پوری نہ ہو سکی۔
ہماری کشمیر کمیٹی بھی خاموش اور اس کے چیئرمین بھی۔ بلکہ چیئرمین نے تو ایک پریس کانفرنس میں سوال کرنیوالے اخبار نویس کا مذاق اڑایا ہے اور کہا:'' مَیں اگر کشمیر کمیٹی کا اجلاس باقاعدہ بلاؤں تو اس کے اخراجات کون ادا کریگا؟'' اُنہوں نے مزید ارشاد فرمایا اور جہادِ کشمیر کا ٹھٹھہ یوں اڑایا:''کیا مقبوضہ کشمیر پر مَیں حملہ کر دوں؟ کیا تم میرے ساتھ حملہ کرنے جاؤ گے؟'' اور پھر قہقہہ لگا کر بھری مجلس میں ہنس دیے۔ اُنکی ہنسی دیکھ کر مقبوضہ کشمیریوں کے دل پر جو گزری ہو گی، کیا اُسکا ہم یہاں پُرامن پاکستان میں بیٹھ کر اندازہ بھی لگا سکتے ہیں؟
ایسے میں پی ٹی آئی نے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہم ان حضرت سے کشمیر کمیٹی کے اخراجات کا حساب لینے والے ہیںاور اگر انھوں نے حساب نہ دیا تو ان کے خلاف وائیٹ پیپر شائع کرینگے۔ ارے، کوئی تو احتساب کے لیے قدم بڑھائے، اُنکا جن کا کبھی احتساب ہُوا ہے نہ حساب۔ حیرانی کی بات ہے کہ اُدھر بھارتی فوج کشمیریوں کا قتلِ عام کررہی ہے اور اِدھر اِس قتلِ عام کے دوسرے روز ہی ہمارے مشیر قومی سلامتی جنرل(ر) ناصر خان جنجوعہ پاکستان میں متعین بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ سے ملاقاتیں کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
ہمارا خیال ہے ناصر جنجوعہ صاحب کو یہ ملاقات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اِس ملاقات سے کشمیریوں کے دلوں پر کیا گزری ہوگی، اس کا شائد ہم یا جنجوعہ صاحب آسانی سے اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اِس ملاقات کے پس منظر میں چوہدری نثار علی خان نے جس غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور جو سوالات اٹھائے ہیں، ہم اُنسے سو فیصد اتفاق کرتے ہیں۔کشمیریوں کے قاتلوں کے نمائندے سے یہ ملاقات ہر گز نہیں ہونی چاہیے تھی اور بھارت ہے کہ وہ تو ہمارے نامور کرکٹر شاہد آفریدی کی محض اس بنیاد پر کردار کشی پر اُتر آیا ہے کہ آفریدی نے کشمیریوں کے حق میں ٹویٹ کیوں کیا ہے؟
ہاں، پاکستانی عوام پر شاباش ہے جو اپنے تمام سیاسی اور مسلکی اختلافات بھلا کر کشمیری عوام کے ساتھ یکجہت نظر آئے ہیں۔ جمعتہ المبارک کے موقع پر ساری پاکستانی قوم نے یومِ یکجہتی کشمیر کا نعقاد کر کے پھر دنیا پر عیاں کر دیا ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ کشمیر اورکشمیریوں کے ساتھ ہے۔ ہمقدم اور ہم نفس!!ہمارے حکمرانوں پر البتہ سخت افسوس ہے۔ عالمِ اسلام پر بھی افسوس ہے۔
سوائے ایران اور ترکی کے، کوئی بھی بڑا اسلامی ملک مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند نہیں کر سکا ہے۔ ہائے عالمِ اسلام کی یہ بے حسی۔تاجدار کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کا پاک ارشادِ گرامی ہے کہ تمام ملّتِ اسلامیہ تو ایک جسدِ واحد کی مانند ہے کہ اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ اِسی تصورِ اسلامی اخوت کے تحت مولانا ظفر علی خان نے شعر کی زبان میں کہا تھا:''اخوت اِس کو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابل میں/تو ہندوستاں کا ہر پِیروجواںبے تاب ہو جائے۔''
صد افسوس کہ یہاں ایک ہندو ملک لاکھوں مسلمان کشمیریوں کا خون شب و روز بہا رہا ہے لیکن ملتِ اسلامیہ کا کثیر حصہ مہر بہ لب ہے۔ بالکل بے حس و حرکت۔ عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم ''او آئی سی'' بھی ساکت و جامد ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ''او آئی سی'' سے رابطہ کیا ہے لیکن اس رابطے کا نتیجہ فی الحال صفر ہی ہے۔کسی عرب حکمران کی زبان بھی خون میں لَت پَت کشمیری مسلمانوں کے لیے حرکت میں نہیں آئی ہے۔ یہ مسلمان حکمران آخر اللہ کے دربار میں یومِ آخرت کو کیا جواب دے سکیں گے؟
عرب حکمرانوں سے تو ہمیں اور کشمیریوں اور فلسطینیوں کو کوئی امید ہی نہیں رکھنی چاہیے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے منسوب جو بیانات عالمی میڈیا کی زینت بن رہے ہیں، وہ ایسے ہیں کہ اکثریتی مسلمانوں کے دل ٹوٹ کر رہ گئے ہیں۔امریکا میں شہزادہ صاحب کا مبینہ طور پر یہ کہنا کہ اسرائیلی یہودیوں کو اپنا علیحدہ وطن بنانے کا پورا حق ہے۔ اس کا واضح مطلب تو یہ ہُوا کہ مسئلہ فلسطین تو ''صاف'' ہو گیا۔اسرائیلی یہودیوں کو وطن بنانے کا ''حق'' دیا گیا ہے تو وہ یہ حق غاصبانہ طور پر مقبوضہ فلسطین پر آزما رہے ہیں۔
مزاحم فلسطینیوں کا خون بہا رہے ہیں۔ اسرائیل پچھلے 75برسوں سے فلسطینیوں کی زمینوں پر زبردستی قبضے کر کے اپنی بستیاں آباد کررہا ہے۔اِس ظلم پر اقوامِ متحدہ بھی خاموش ہے اور نیشنل سیکیورٹی کونسل بھی۔ ویٹو طاقت رکھنے والے بھی خاموش ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی جاری ہے لیکن ایسے میں کشمیری بھلا سعودی عرب ، سعودی شہزادوں اور سعودی حکمرانوں سے کیا امید رکھ سکتے ہیں؟
پھر مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کی مدد اور اعانت کے لیے کون آگے بڑھے گا؟ہم تو حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کی زبانی کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں کے لیے بددعا ہی کر سکتے ہیں:''توڑاُس دستِ جفاکیش کو یارب جس نے/رُوحِ آزادیِ کشمیر کو پامال کیا۔''
چیف جسٹس صاحب نے ایک غیر معمولی بات کہی۔ اور کیوں کہی ہے، یہ ہم اور آپ سب جانتے ہیں۔ دل کی گہرائیوں سے اور بالیقین جانتے اور مانتے ہیں کہ معاشرے اور حکومت کی کن کالی اور کرپٹ بھیڑوں کو سماج کی حدود اور حکومت کے ایوانوں سے نکال دیا جائے تو مملکتِ خداداد پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائے گا۔ اور اُن سب خوابوں میں تعبیر کے سارے رنگ بھرے جا سکیں گے جو خواب ہمارے بلند ہمت بانیانِ پاکستان نے دیکھے تھے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ بانیانِ پاکستان کی آنکھیں بند ہوتے ہی اِن خوابوں کو ہمارے جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں نے اپنے لالچی پاؤں تلے وحشت سے روند ڈالا ہے ۔ ورنہ عظمت ورفعت حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس کس شئے کی کمی تھی؟ اللہ کریم نے تو ہمیں سبھی اسباب اور وسائل سے مالا مال کررکھا تھا۔ کمی رہی تو بس یہی کہ ہم مخلص اور بے ریا حکمرانوں سے محروم رہے۔
کرپٹ اور لالچی اہلِ اقتدار نے بانیانِ پاکستان کی چھوڑی گئی تمام میراث لُوٹ لی۔ ہمیں یہاں تک کنگال کر دیا گیا کہ اپنا ایک طاقتور اور بڑا بازو بھی کاٹ ڈالا گیا لیکن ذمے داران کا پتہ چلایا گیا نہ ذمے داروں کو سزا ہی دی گئی۔ اگر برقت اور عبرت ناک سزا دیدی جاتی تو آج ہمیں اُن کرپٹ اور بد عنوان حکمرانوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو ہماری قومی دولت دن دیہاڑے لُوٹ کر باہر لے گئے لیکن ہم ابھی تک اُن کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے۔
ہماری بے بسی کی بھی کوئی حد ہے نہ ہماری بے حسی کی۔جیسا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ چین نے ترقی کے لیے 400کرپٹ وزرا فارغ کیے، سچ ہی تو کہا ہے اور اگر ہم بھی اِسی راستے اور چینی نقوشِ قدم پر عمل کرتے ہُوئے اپنے 40کرپٹ اور لُٹیرے وزرا کو ''فارغ'' کردیتے تو آج ساری قوم سُکھ اور چَین کی بانسری بجا رہی ہوتی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ اور قافلہ اور وقت ہماری خواہشات اور قومی آدرشوں کو روندتا ہُواآگے بڑھ گیا۔
یہ قانونِ فطرت ہے کہ جو قوم، خاندان اور حکمران وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے میں ناکام رہتے ہُوئے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، وقت کا ریلہ اُنہیں ایسے ہی روندتا اور کچلتا ہُوا آگے بڑھ جاتا ہے جیسے اُس نے ہم سب کو روند ڈالا ہے اور ہم آج بائیس کروڑ عوام بے بسی سے ناکامی میں ہاتھ مَل رہے ہیں۔ وائے ناکامی، کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!! لیکن ابھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا ہے۔
ایک پنجابی محاورے کے مطابق، ابھی بکھرے بیروں کو دوبارہ سمیٹا جا سکتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ ہمارا قومی اور اجتماعی ضمیر پوری طرح بیدار ہو جائے۔ اگرہم اقربا پروری کی لعنت سے نجات حاصل کرلیں ۔ اگر ہم بدعنوان عناصر کا ٹیٹوا دبا سکیں۔ اگر ہم قوم کے سارے مجرموں کا بے لاگ احتساب کرسکیں۔ اگر ہم گندے اور بد بُودارانڈوں کو اُٹھا کر کوڑے دانوں میں پھینک سکیں ، حالانکہ ہم ان گندے انڈوں کو خوب جانتے پہچانتے بھی ہیں۔پھر بھی ہم ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
اگر ہم قومی دولت لُوٹ کر بیرونِ ملک لے جانے والوں کے لیے یکساں اور فوری میزان قائم کر سکیں۔ اگر ہم چین کی طرح کرپٹ وزرا کو''فارغ'' کرنے کی جرأت کر سکیں ۔ تو وقتی طور پر بکھرے'' بیر'' ہمارا قومی نقصان ثابت نہیں ہو سکتے۔ ہم نئی ہمتوں کے ساتھ دوبارہ اپنے پاؤں پر اُٹھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں واقعی غیر معمولی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔
شرط ہے تو بس یہ کہ ہم 40کالی بھیڑوں کا صفایا کر سکیں ۔ اور اِن 40کالی بھیڑوں کو ہم سب اِسی طرح جانتے ہیں جیسے ہم اپنے ہاتھوں کی ریکھاؤں ، لکیروں کو جانتے ہیں۔لیکن اگر ہمارا یہ حال ہو کہ ہمارے بعض صحافی حضرات اور بعض اینکرز صاحبان جو حکمرانوں کی ڈیوٹی پر ہیں''نیب'' میں واجد ضیاء کے بیانات کو اپنی خواہشات کا رنگ دیکر سامنے لاتے رہینگے تو پھر ہو چکا انصاف۔ خدا کی پناہ اِس حد تک بھی صحافتی بد دیانتی ہو سکتی ہے کہ ''نیب'' کے اندر نواز شریف اور اُنکی صاحبزادی کی جائیدادوں اور منی لانڈرنگ کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کا یوں مُثلہ کر دیا جائے؟ یوں بھی حلیہ بگاڑا جا سکتا ہے؟
لیکن ایسا ہو رہا ہے اور نواز شریف اپنے صحافتی کارندوں کی اس شرمناک اور افسوسناک حرکت پر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں ۔ اِسی لیے تو اُن کا اصرار بڑھ گیا ہے کہ مجھے ''کلین چِٹ'' دی جائے۔ اُنکی صاحبزادی بھی بلند آہنگ سے یہ کہتے سنائی دے رہی ہیں کہ کچھ نہیں نکلا، اسٹار گواہ بھی ہمارے خلاف کچھ ثابت نہیں کر سکا۔ اگر ہمارے بعض صحافیوں اور مبصروں کا یہی رویہ رہا تو یقینا وہ قارئین اور سامعین کا اعتبار کھو بیٹھیں گے، ہاں یہ ممکن ہے کہ اِس جھوٹ کے بدلے وہ کچھ مالی مفادات حاصل کر لیں مگر یہ کب تک اُنکا ساتھ دیگا؟
سیانے لوگ بجا طور پر استفسار کرنے لگے ہیں کہ''نیب'' کی اندرونی کارروائی کا حلیہ کس کی ایما پر بگاڑنے کی جسارت کی جارہی ہے؟کون کروا رہا ہے؟ اور کیا یہ معاملات قانون شکنی کی زَد میں نہیں آتے؟ اب تو قانون شکنی اِس حد تک تجاوز کر چکی ہے کہ رواں ہفتے سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے شریک ملزم منصور رضوی کے وکیل جاوید اکبر شاہ نے احتساب عدالت میں فاضل جج محمد بشیرکے سامنے بد تمیزی کی ساری حدیں عبور کر لیں۔
اُنہوں نے جج صاحب کے سامنے جن الفاظ کا استعمال کیا، وہ کسی بھی طرح متذکرہ وکیل کو زیب نہیں دیتے تھے لیکن جاوید اکبر شاہ نے عدالت کے ڈیکورم کی پرواہ کی نہ جج صاحب کے احترام کا پاس رکھا۔ ہم سمجھتے ہیں یہ اسلیے ہُوا ہے کہ اسحق ڈار کے قائد اور اُنکی صاحبزادی ہمارے معزز جج صاحبان اور محترم عدالتوں کے بارے میں جو رویہ اختیار کیے ہُوئے ہیں اور جو زبان استعمال کررہے ہیں، جاوید اکبر شاہ نے یہ حوصلہ وہیں سے حاصل کیا ہے۔
اس کی انتہا کہاں ہو گی اور اس کی آخری شکل کیا ہوگی، اس بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ججوں اور عدلیہ کے بارے میں جن رویوں کو سابق نااہل وزیر اعظم نواز شریف اور اُنکی ملزم بیٹی نے فروغ دیا اور متعارف کروایا ہے، انکے نتائج بڑے ہی بھیانک نظر آرہے ہیں۔کچھ نتائج تو سامنے آنے بھی لگے ہیں لیکن ہمیں یقینِ کامل ہے کہ ہماری محترم عدلیہ اِن رویوں کا کامیابی سے انسداد کر یگی۔ انشاء اللہ۔ وگرنہ ایسے معاشرے کا تصور کرتے ہی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں عدلیہ کا احترام ہو نہ عادلوں کا۔
حکومتی جماعت کی قانون شکنیوں ہی کا یہ ''کمال'' ہے کہ سیالکوٹ میں ایک نون لیگی یُو سی سیاستدان نے دن دیہاڑے ایک معمولی سی بات پر معروف اخبار نویس کا خون کر دیا ہے۔ سارے ملک کے اخبار نویس اس سانحہ پر نواز شریف، نون لیگ اور سیالکوٹ میں وزیردفاع خواجہ آصف کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہُوئے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے بھی اِس پر سوؤ موٹو لے لیا ہے جسے دیکھ کر ہماری وزیر مملکت برائے اطلاعات نے بھی اخبار نویس کے قاتل کی مذمت میں بیان داغ ڈالا ہے اور چونکہ ہمارے حکمران خود قانون پر عمل کرنے کے بجائے قانون کا مذاق اڑاتے ہیں اور قانون کا نفاذ کرنیوالوں کا بھی، اس لیے عوام اور سرکش گروہ بھی اِسی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔
یہ افسوسناک صورتحال ہم نے اِسی ہفتے لاہور میں عملی طور پر بھی دیکھی ہے۔ پہلے لیڈی ہیلتھ وزیٹرز نے تنخواہوں کے مسئلے پر پورے لاہور کو دو دن کے لیے بند کر دیا لیکن حکومت کچھ نہ کر سکی۔ ابھی یہ جھگڑا ختم ہُوا ہی تھا کہ مزدا اور چھوٹے ٹرانسپورٹروں نے ٹول ٹیکس کے مسئلے پر سارا لاہور بند کر دیا مگر حکومت پھر بھی کچھ نہ کر سکی اور لاہور کے کروڑوں شہری دو دن تک عذاب میں مبتلا رہے۔ پھر یہ تنازع خدا خدا کرکے ختم ہُوا ہی تھا کہ ایک عالمِ دین نے حکومت کی کہہ مکرنیوں اور مبینہ وعدہ شکنیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہُوئے ایسا دھرنا دیا ہے کہ سارا لاہور پھر بند پڑا ہے۔ ساتھ ہی پراپرٹی ڈیلروں نے مال روڈ پر احتجاج کرتے ہُوئے ڈیرے ڈال لیے اور حکومت کے ہاتھ پاؤں مسلسل پھولے رہے۔
حکومت اتنی بے بس ہے کہ خدا کی پناہ ۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت اور حکمرانوں کے دل میں چور ہے جس نے اُنکی جرأتوں کو سلب کر لیا ہے؛ یہ ہیں ہمارے حکمران اور یہ ہے اُن کی حکومتی رِٹ !! اور یوں ملک میں ایک ایسی لہر بھی اُٹھتی نظر آرہی ہے جو بتا رہی ہے کہ نون لیگ کی مقبولیت تیزی سے نیچے جارہی ہے۔ اِسی کا اثر ہے کہ مسلم لیگ ن کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی دھڑا دھڑ ن لیگ سے جان چھڑا کر پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔
یہ ایک تہلکہ خیز سیاسی واقعہ ہے کہ جو افراد بھی ن لیگ کی جان چھوڑ رہے ہیں معروف معنوں میں ہر صورت انتخاب میں کامیاب ہونیوالوں میں شامل ہیں۔ نون لیگ مگر اپنے ہی ہوا کے گھوڑے پر بگٹٹ بھاگ رہی ہے اور اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے قومی معاملات میں کامل بے حسی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
ہم تو اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سَینا کشمیری مسلمانوں کا بیدردی سے خون کی ندیاں بہا رہی ہے اور ہمارے سابق و حاضر حکمران منہ میں گھنگنیاں ڈالے نظر آرہے ہیں۔ہمارے دفترِ خارجہ نے رٹا رٹایا جملہ کہا ہے کہ ہم دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھائیں گے۔درست کہا ہے مگر یہ اقدام کب کیا جائے گا؟ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی ہماری وزارتِ خارجہ کے ترجمان بتانے پر تیار ہیں۔
ہمارا سابق وزیر اعظم بھی کشمیری تھا، ہمارے ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ بھی خود کو کشمیری کہتا ہے اور ہمارا وزیر خارجہ بھی کشمیری ہے لیکن اِن سب نے مظلوم و مجبور کشمیریوں کے حق میں اور غاصب و قابض بھارت کے خلاف کیا آواز بلند کی ہے؟ اللہ غارت کرے بھارتی قابض افواج کو جنھوں نے صرف ایک دن کے دوران 20سے زائد کشمیری نوجوان شہید کر دیے ہیں، یہ خونی سانحہ پچھلی اتوار کو وقوع پذیر ہُوا تھا۔ اس کے ردِ عمل میں سارا مقبوضہ کشمیر بند پڑا ہے۔
کشمیر کی بزرگ اور جوان حریت پسند قیادت کو دو سال بعد دوبارہ یا تو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے یا اُنہیں حوالاتوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ یہ تازہ ظلم اتنا خونی اور غیر انسانی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پُتلی حکمران بھی تڑپ اُٹھے ہیں اور محبوبہ مفتی نئی دہلی میں نریندر مودی سے ملاقاتیں کررہی ہے۔ سرینگر اور اس کے مضافات میں کشمیریوں کو تہ تیغ کیا جارہا ہے اور یہ کٹھ پُتلی حکمران بھارتی دارالحکومت میں اپنے آقاؤں سے ملاقاتیں کررہی ہے۔ یہ ملاقاتیں نہیں بلکہ مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔
بھارتی میڈیا بھی تمام غیر انسانی ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے ۔ بھارتی صحافی مظلوم اور حق وانصاف کے ساتھ نہیں بلکہ ظالم ، ظلم اور انیائے کے ساتھ ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی پوری طرح برہنہ ہو گیا ہے اور یہ بھی کہ سارے انڈین جرنلسٹ دراصل انڈین اسٹیبلشمنٹ کی ڈگڈگی پر ناچتے ہی نظر آتے ہیں۔ ہمارے آرمی چیف جنرل باجوہ نے تو کھل کر مظلوم کشمیریوں کی حمائیت کی ہے لیکن وہ حکمران جنہیں اس نازک موقع پر سامنے آ کر کشمیریوں کہ ہمت افزائی کرنی چاہیے تھی، سب اپنی اپنی بِلوں میں گھسے نظر آتے ہیں۔
گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مصداق ، وزیر اعظم کے زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس یقینا ہُوا ہے لیکن اس کا اعلامیہ اور اعلان نہائیت ہی بے جان اور بے رُوح سامنے آیا ہے۔وزیر اعظم نے اِسی سلسلے میں ایک پریس کانفرنس بھی کر ڈالی ہے لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ اندازہ تو یہ تھا کہ وزیراعظم کشمیر میں ڈھائے جانے والے تازہ بھارتی مظالم پر کچھ جرأت کا مظاہرہ کرینگے لیکن اُنہوں نے اِس بارے میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ ساری پریس کانفرنس صرف ''نئی ایمنسٹی اسکیم''کی تعریفوں کے پُل باندھنے اور اس کی صفتیںکرنے میں صَرف کر دی۔
اس اسکیم کے تحت کالے دَھن والوں کو پیشکش کی گئی ہے کہ اپنا کالا پیسہ باہر نکالیے، دو فیصد ادا کیجئے اور سارا کالا مال سفید کروالیجئے۔سوال یہ ہے کہ اِس ایمنسٹی سے پاکستان کے غریب طبقات کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ یہ بھی سوال ہے کہ ہمیشہ نون لیگ کی حکومت ہی ایسی ایمنسٹیاں کیوں سامنے لاتی ہے؟ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کسی اہم سوال کا ڈھنگ سے جواب نہیں دے سکے ۔
وہ اس سوال کا بھی اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر رہے کہ یہ ایمنسٹی دراصل ایک فرد کے خاندان اشارہ نواز شریف کی طرف تھا کو فائدے پہنچانے کی ناکام کوشش ہے ۔ اُنہوں نے تو اس کا جواب نہیں دیالیکن اب یہی سوال وطنِ عزیز کے ہر شہری کی زبان پر بھی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم تو پریس کانفرنس کے دوران یہ سننے کے منتظر ہی رہے کہ وزیر اعظم مظلوم کشمیریوں کے حق میں بھی لب کشائی کرینگے لیکن ہماری خواہش پوری نہ ہو سکی۔
ہماری کشمیر کمیٹی بھی خاموش اور اس کے چیئرمین بھی۔ بلکہ چیئرمین نے تو ایک پریس کانفرنس میں سوال کرنیوالے اخبار نویس کا مذاق اڑایا ہے اور کہا:'' مَیں اگر کشمیر کمیٹی کا اجلاس باقاعدہ بلاؤں تو اس کے اخراجات کون ادا کریگا؟'' اُنہوں نے مزید ارشاد فرمایا اور جہادِ کشمیر کا ٹھٹھہ یوں اڑایا:''کیا مقبوضہ کشمیر پر مَیں حملہ کر دوں؟ کیا تم میرے ساتھ حملہ کرنے جاؤ گے؟'' اور پھر قہقہہ لگا کر بھری مجلس میں ہنس دیے۔ اُنکی ہنسی دیکھ کر مقبوضہ کشمیریوں کے دل پر جو گزری ہو گی، کیا اُسکا ہم یہاں پُرامن پاکستان میں بیٹھ کر اندازہ بھی لگا سکتے ہیں؟
ایسے میں پی ٹی آئی نے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہم ان حضرت سے کشمیر کمیٹی کے اخراجات کا حساب لینے والے ہیںاور اگر انھوں نے حساب نہ دیا تو ان کے خلاف وائیٹ پیپر شائع کرینگے۔ ارے، کوئی تو احتساب کے لیے قدم بڑھائے، اُنکا جن کا کبھی احتساب ہُوا ہے نہ حساب۔ حیرانی کی بات ہے کہ اُدھر بھارتی فوج کشمیریوں کا قتلِ عام کررہی ہے اور اِدھر اِس قتلِ عام کے دوسرے روز ہی ہمارے مشیر قومی سلامتی جنرل(ر) ناصر خان جنجوعہ پاکستان میں متعین بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ سے ملاقاتیں کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
ہمارا خیال ہے ناصر جنجوعہ صاحب کو یہ ملاقات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اِس ملاقات سے کشمیریوں کے دلوں پر کیا گزری ہوگی، اس کا شائد ہم یا جنجوعہ صاحب آسانی سے اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اِس ملاقات کے پس منظر میں چوہدری نثار علی خان نے جس غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور جو سوالات اٹھائے ہیں، ہم اُنسے سو فیصد اتفاق کرتے ہیں۔کشمیریوں کے قاتلوں کے نمائندے سے یہ ملاقات ہر گز نہیں ہونی چاہیے تھی اور بھارت ہے کہ وہ تو ہمارے نامور کرکٹر شاہد آفریدی کی محض اس بنیاد پر کردار کشی پر اُتر آیا ہے کہ آفریدی نے کشمیریوں کے حق میں ٹویٹ کیوں کیا ہے؟
ہاں، پاکستانی عوام پر شاباش ہے جو اپنے تمام سیاسی اور مسلکی اختلافات بھلا کر کشمیری عوام کے ساتھ یکجہت نظر آئے ہیں۔ جمعتہ المبارک کے موقع پر ساری پاکستانی قوم نے یومِ یکجہتی کشمیر کا نعقاد کر کے پھر دنیا پر عیاں کر دیا ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ کشمیر اورکشمیریوں کے ساتھ ہے۔ ہمقدم اور ہم نفس!!ہمارے حکمرانوں پر البتہ سخت افسوس ہے۔ عالمِ اسلام پر بھی افسوس ہے۔
سوائے ایران اور ترکی کے، کوئی بھی بڑا اسلامی ملک مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند نہیں کر سکا ہے۔ ہائے عالمِ اسلام کی یہ بے حسی۔تاجدار کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کا پاک ارشادِ گرامی ہے کہ تمام ملّتِ اسلامیہ تو ایک جسدِ واحد کی مانند ہے کہ اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ اِسی تصورِ اسلامی اخوت کے تحت مولانا ظفر علی خان نے شعر کی زبان میں کہا تھا:''اخوت اِس کو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابل میں/تو ہندوستاں کا ہر پِیروجواںبے تاب ہو جائے۔''
صد افسوس کہ یہاں ایک ہندو ملک لاکھوں مسلمان کشمیریوں کا خون شب و روز بہا رہا ہے لیکن ملتِ اسلامیہ کا کثیر حصہ مہر بہ لب ہے۔ بالکل بے حس و حرکت۔ عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم ''او آئی سی'' بھی ساکت و جامد ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ''او آئی سی'' سے رابطہ کیا ہے لیکن اس رابطے کا نتیجہ فی الحال صفر ہی ہے۔کسی عرب حکمران کی زبان بھی خون میں لَت پَت کشمیری مسلمانوں کے لیے حرکت میں نہیں آئی ہے۔ یہ مسلمان حکمران آخر اللہ کے دربار میں یومِ آخرت کو کیا جواب دے سکیں گے؟
عرب حکمرانوں سے تو ہمیں اور کشمیریوں اور فلسطینیوں کو کوئی امید ہی نہیں رکھنی چاہیے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے منسوب جو بیانات عالمی میڈیا کی زینت بن رہے ہیں، وہ ایسے ہیں کہ اکثریتی مسلمانوں کے دل ٹوٹ کر رہ گئے ہیں۔امریکا میں شہزادہ صاحب کا مبینہ طور پر یہ کہنا کہ اسرائیلی یہودیوں کو اپنا علیحدہ وطن بنانے کا پورا حق ہے۔ اس کا واضح مطلب تو یہ ہُوا کہ مسئلہ فلسطین تو ''صاف'' ہو گیا۔اسرائیلی یہودیوں کو وطن بنانے کا ''حق'' دیا گیا ہے تو وہ یہ حق غاصبانہ طور پر مقبوضہ فلسطین پر آزما رہے ہیں۔
مزاحم فلسطینیوں کا خون بہا رہے ہیں۔ اسرائیل پچھلے 75برسوں سے فلسطینیوں کی زمینوں پر زبردستی قبضے کر کے اپنی بستیاں آباد کررہا ہے۔اِس ظلم پر اقوامِ متحدہ بھی خاموش ہے اور نیشنل سیکیورٹی کونسل بھی۔ ویٹو طاقت رکھنے والے بھی خاموش ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی جاری ہے لیکن ایسے میں کشمیری بھلا سعودی عرب ، سعودی شہزادوں اور سعودی حکمرانوں سے کیا امید رکھ سکتے ہیں؟
پھر مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کی مدد اور اعانت کے لیے کون آگے بڑھے گا؟ہم تو حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کی زبانی کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں کے لیے بددعا ہی کر سکتے ہیں:''توڑاُس دستِ جفاکیش کو یارب جس نے/رُوحِ آزادیِ کشمیر کو پامال کیا۔''