سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی سے 11 لاپتہ قیدیوں کا تمام ریکارڈ مانگ لیا

بغیرثبوت ایک سیکنڈبھی حراست میںنہیںرکھاجاسکتا،ان قیدیوں کوقبائلی انتظامیہ کے حوالے کرنیوالوںپرمقدمہ ہوسکتاہے،چیف جسٹس

بغیرثبوت ایک سیکنڈبھی حراست میں نہیں رکھا جاسکتا،ان قیدیوں کوقبائلی انتظامیہ کے حوالے کرنیوالوں پرمقدمہ ہوسکتا ہے،چیف جسٹس۔ فوٹو فائل

ISLAMABAD:
سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی سے اڈیالہ جیل سے اٹھائے گئے قیدیوں کا تمام ریکارڈ طلب کر لیاہے اور اٹارنی جنرل کو ان میں سے بچ جانے والے قیدیوںکو لنڈی کوتل کے حراستی مرکز میں رکھنے کے بارے میں معاونت کرنے کاکہا ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں فل بینچ نے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ان افرادکو زیر حراست رکھنے کا سخت نوٹس لیا اورآبزرویشن دی کہ مقدمہ چلائے بغیر ان افراد کو زیر حراست رکھنا غیر قانونی اور بلاجواز ہے،ان قیدیوںکو قبائلی انتظامیہ کے حوالے کرنے پر آئی ایس آئی کے متعلقہ افرادکے خلاف مقدمہ دائرکیا جا سکتا ہے۔آئی ایس آئی کے وکیل راجہ ارشاد نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ یہ افراد خطرناک دہشت گرد ہیں اس ضمن میں آئی ایس آئی کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ یہ افراد ایک تھری اسٹار جنرل کو مارنے،حمزہ کیمپ ،آئی ایس آئی اور فوج پر حملوں میں ملوث ہیں ۔


چیف جسٹس نے اس موقف کو مستردکرتے ہوئے کہا کہ بات بیان سے بہت آگے چلی گئی ہے،آئی ایس آئی نے اڈیالہ جیل سے11لوگ اٹھائے جن میں سے چار ہلاک ہوگئے ہیں، مرنے والوںکی لاشیں پٹرول پمپ سے ملیں یا کھیتوں سے، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ تمام افراد آئی ایس آئی کی تحویل میں تھے ۔چیف جسٹس نے کہا عدالت کسی مجرم کو ہرگز رہا نہیںکرے گی اگر ان افراد پر الزام تھا اور ثبوت تھے تو قانون کا تقاضا یہ تھا کہ ان کا ٹرائل ہوتا ۔آئی ایس آئی کے وکیل نے بتایا کہ عدم شہادتوںکی بنیاد پر ان کا ٹرائل نہیں ہو سکا ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگرکوئی قانون ہے تو وہ دستور ہے اور دستورکے مطابق ثبوت کے بغیرکسی کو ایک سیکنڈکیلیے بھی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ناکافی شہادت کا مطلب یہ ہے کہ ملزم کو بری ہونا چاہیے، اگر ثبوت نہیں تو اس کو حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ عدالت کی معاونت کریںکہ اگرحقائق میں تضاد نہ ہوتو پھر سپریم کورٹ کا دائرہ اختیارکیا ہو سکتا ہے ۔

این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افرادکیخلاف تھری اسٹار جنرل پر حملے کی ثبوت ہوں توپیش کئے جائیں، قیدیوں کیخلاف شہادتیں ہوئیں تو معاف نہیںکرینگے ۔ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد نے بتایاکہ ہم اپنا موقف تحریری طور پر دے چکے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ معاملہ بیانات سے بہت آگے آگیا ہے، سنگین ایشو ہے، بات آگے تک جائے گی، بتائیں ان قیدیوں کیخلاف کونسی عدالتوں میں مقدمہ چلایا اورکس جرم میں سزا دی گئی؟راجہ ارشاد نے بتایاکہ آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جانا تھا مگر عدم شہادت کی بنا پر نہیں چل سکا، چیف جسٹس نے کہاکہ ان قیدیوںکو5بار حراست میں لیا گیا، مضبوط شہادت کے بغیرکسی کو بھی حراست میں نہیں رکھا جاسکتا۔مزید سماعت تین ہفتے بعدکی جائے گی۔
Load Next Story