دن بہ دن گھٹتے زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دینے کی کوشش
ایمنسٹی سکیم کالا دھن سفید کرنے کی حکومتی پالیسی کامیاب ہو سکے گی ؟
کسی بھی ملک کی معیشت میں دیگر عوامل کے علاوہ مختلف ٹیکسز کے نفاذ سے حکومتی آمدنی بڑھانا ایک اہم ذریعہ شمار کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں قانون پر مؤثر عملدرآمد کی بدولت ٹیکس چوری آسان نہیں اسی لیے وہاں کرپشن کی شرح کافی کم ہوتی ہے لیکن ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ممالک میں طاقتور حکمران اور امیر لوگ اپنے اثرورسوخ اور وسائل پر قبضے کے اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سا کالا دھن بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب ممالک کے کرپٹ لوگوں کے اس کالے دھن کو دنیا کے کئی ممالک میں بغیر کسی پوچھ گچھ کے چھپانے پر کوئی قدغن نہیں۔ وہ ممالک اپنی معیشت کو ترقی دینے کے لیے ایسے قوانین بناتے ہیں کہ جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری دنیا سے کالا دھن ان ملکوں کے بینکوں میں جمع ہوتا ہے۔ یا پھر وہاں سے قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر دنیا بھر میں بے نامی جائیداد خریدنے کے کام آتا ہے۔
اس تمام تر صورتحال سے نمٹنے اور ایسے لوگوں کو اپنا کالا دھن سفید کرنے کا موقع دینے کے لیے حکومتیں محدود مدت کے لیے ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کا اعلان کرتی ہیں تاکہ اس کالے دھن کا کچھ فائدہ انہیں بھی حاصل ہوسکے جو بصورت دیگر صرف اور صرف اس کے مالکان یا پھر اس ملک کے لیے ہی فائدہ مند ہوتا ہے جہاں وہ چھپایا گیا ہو۔
ایسی ہی ایک ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان گزشتہ سے پیوستہ روز وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس کا نظام فرسودہ ہے اور قوانین کے کمزور ہونے کی وجہ سے لاکھوں وہ لوگ جنہیں ٹیکس دینا چاہیے اس نیٹ ورک سے باہر ہیں اور پینسٹھ فیصد دولت کالے دھن پر مشتمل ہے۔ اسی وجہ سے ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
امیر طبقہ ٹیکس دینے کو تیار نہیں اور بلا واسطہ ٹیکسوں نے غریب عوام کو غربت کی آخری لکیر سے بھی نیچے لاپٹخا ہے۔ ساری دنیا میں اسی فیصد براہء راست ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ترانوے فیصد ٹیکس بالواسطہ لیے جاتے ہیں اور اس پر ایف بی آر کی کرپشن مستزاد ہے۔ گزشتہ دنوں ڈالر کی اونچی اڑان اور روپے کی قدر میں تاریخی کمی نے مہنگائی کے طوفان میں ہوشربا اضافہ کردیا اور ملکی قرضوں میں بیٹھے بٹھائے اربوں کا بوجھ معیشت کی کمر مزید دوہری کرنے لگا۔
اسی تناظر میں حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اجرا کیا جس سے 30 جون تک فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ گو اس طرح کی سکیمیں ٹیکس نیٹ ورک میں بڑھوتری کا جامع حل نہیں ہوتیں مگر جس طرح ہمارے ملک میں ہر کام ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے بعینہٖ یہ قدم بھی بظاہر ''بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی'' کے مصداق دکھائی دیتا ہے۔
حکومت کی اس ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے پانچ نکات ہیں۔ حکومت کے مطابق ملک میں صرف سات لاکھ لوگ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ان میں سے بھی 90 فیصد تنخواہ دار طبقہ ہے جن کا ٹیکس سورس پر ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔ بیس کروڑ کے ملک میں ٹیکس دینے والوں کو اتنی کم تعداد معاشی مسائل کو جنم دے رہی ہے جس سے قومی خزانہ مزید زیر بار ہوتا ہے۔
لوگوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانے کے لیے حکومت نے کئی پرکشش مراعات کا اعلان کیا ہے جس میں یکم جولائی 2018ء سے انکم ٹیکس کی شرحوں میں غیر معمولی کمی کرنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ سکیم کے تحت 30 جون سے قبل غیر ظاہر شدہ آمدن سے اندرون ملک بنائی گئی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیدادیں مثلاً سونا، بانڈز اور جائیداد وغیرہ 5 فیصد جرمانے کی ادائیگی پر قانونی بنائی جاسکتی ہیں۔
یکم جولائی 2018ء سے ایف بی آر جائیداد کے ریٹ ختم کردے گا اور صوبوں سے بھی کہا جارہا ہے کہ وہ بھی ڈی سی (ڈپٹی کلکٹر) ریٹ منسوخ کر دیںاور پراپرٹی رجسٹریشن کے لیے صوبائی یا مقامی نوعیت کے ٹیکسوں کا حجم محض ایک فیصد رکھیں۔ حکومت کے مطابق جو پیسہ اس وقت کالے دھن کی صورت میں بنایا جارہا ہے اسے پراپرٹی میں ڈال کر چھپایا جاتا ہے۔ اس لیے آئندہ مالی سال سے وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان میں رجسٹرڈ کرائی گئی جائیداد خرید سکے۔
پہلے درجے میں وفاقی حکومت اگر جائیداد کی ظاہر کردہ قیمت سے مطمئن نہ ہوئی تو وہ رجسٹریشن کے چھ ماہ کے اندر ظاہر کردہ مالی قدر کے سو فیصد کے برابر اضافی رقم دے کر بانڈز خرید سکے گی۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک لاکھ ماہانہ آمدن رکھنے والوں پر ٹیکس کی شرح صفر کردی گئی ہے۔ 12 لاکھ سالانہ سے 24 لاکھ سالانہ آمدن پر 5 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ 24 سے 48 لاکھ سالانہ آمدن پر 10 فیصد جبکہ 48 لاکھ سے زائد آمدن پر 15 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ آئندہ ہر شہری کا شناختی کارڈ نمبر ہی اس کا ٹیکس نمبر ہوگا، یوں ٹیکس وصولی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔
ہر شخص کی مالیاتی ٹرانزکشن جیسے یوٹیلیٹی بلز، ہر سال عمرے کے سفر اور بچوں کی فیس، سب لاکھوں میں جاپہنچتے ہیں لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ ان شہریوں کی ہر خریداری، آمدن، اخراجات، اندرون و بیرون ملک ہوائی سفر اور دوسرے آمدن و اخراجات پر ٹیکس کی تشخیص کرکے ان سے وصولی کی جائے گی اور اس طرح 30 لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جائے گا۔
بیرون ملک پڑے کالے دھن اور اثاثہ جات کو سفید کرنے کے لیے اعلان کی جانے والی پالیسی کے تحت غیر ملکی زرمبادلہ کی واپسی پر 2 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ اس میں بھی دو آپشنز دی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ 5 سالہ بانڈز کی خریداری کی صورت میں 3 فیصد سالانہ منافع حکومت کو دیا جائے گا اور ان بانڈز کو ایک سال تک فروخت کرنے کی ممانعت ہوگی جبکہ ایک سال کے بعد بھی ان کی خریدو فروخت انٹربینک ڈالر ریٹ کے مطابق پاکستانی روپے میں ادا کی جائے گی۔ غیر ملکی زرمبادلہ رکھنے والے مقامی افراد بھی یہ بانڈز خرید سکیں گے۔
دوسرے یہ کہ ڈالر اکائونٹ رکھنے والے پاکستانی شہری کالے دھن سے خریدے جانے والے ڈالرز کو 2 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر اسے قانونی حیثیت دلوا سکیں گے۔ علاوہ ازیں بیرون ملک چھپائے گئے غیر منقولہ اثاثہ جات کو بھی 3 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔
ملکی اور غیر ملکی ڈالر اکائونٹس میں پڑے منقولہ اثاثہ جات جیسے کیش، سکیورٹیز اور بانڈز کو بھی 5 فیصد ادائیگی پر قانونی حیثیت دلوائی جاسکے گی۔ انفرادی ایک لاکھ ڈالرز سے کم اثاثہ جات بغیر کسی پوچھ گچھ کے پاکستان لانے کی اجازت ہوگی جن پر ٹیکس کی چھوٹ ہوگی اور ذریعۂ آمدن بھی نہیں پوچھا جائے گا۔ تاہم ایک لاکھ ڈالر سالانہ سے زائد لانے پر ٹیکس کی چھوٹ تو ہوگی پر ایف بی آر ذرائع پوچھ سکے گا۔
اس سکیم کے مطابق آئندہ نئے فارن کرنسی اکائونٹس صرف ٹیکس فائلرز ہی کھلوا سکیں گے۔ بیرون ملک جائیدادوں کی مالیت ان کی قیمت خرید سے ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ نقد رقوم، آف شور کمپنیوں کے حصص، بانڈز اور پاکستان میں ظاہر کردہ آمدن سے بڑھ کر بنائے گئے فارن کرنسی اکائونٹس، سوئس بینکوں اور دنیا کے دیگر ممالک کے بینکوں میں رکھے گئے زرمبادلہ کے اکائونٹس میں موجود رقم پاکستان لانے کی ضرورت نہیں ہوگی تاہم انہیں گوشوارے میں دکھانا ہوگا۔
انکم ٹیکس کے سسٹم میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے افراد کے لیے چالیس لاکھ روپے مالیت سے زائد کی جائیداد خریدنے پر پابندی ہوگی۔ دوسری صورت میں انہیں اپنے آپ کو ٹیکس نیٹ ورک میں رجسٹرڈ کروانا ہوگا۔ بے نامی جائیدادوں کو مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ظاہر کرکے ایک فیصد جرمانے کی ادائیگی پر اپنے نام منتقل کروایا جاسکے گا۔ آف شور کمپنیوں، زرعی اور دوسرے ذرائع سے ہونے والی آمدنی کو ظاہر کرنا بھی ٹیکس نظام کے حصے کے طور پر ہی دیکھا جائے گا۔
اس سکیم کا اطلاق سرکاری افسروں، عوامی عہدے رکھنے والوں، سیاستدانوں اور ان کی بیگمات و بچوں اور ان پر انحصار کرنے والے دیگر زیر کفالت افراد پر نہیں ہوگا اور وہ اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے۔ نیز غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے اور ڈالر ملک میں واپس لانے کی اس سکیم کا اطلاق منی لانڈرنگ، ڈرگ سمگلنگ اور دہشت گردی فائننسنگ کرنے والے پر بھی نہیں ہوگا۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لائی جانے والی اس سکیم میں ایف بی آر یا نیب وغیرہ کے متعلقہ قوانین سے ان لوگوں کو استثنیٰ دیا جائے گا جو اس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔
یہ اسکیم کیونکہ حکومت کی مدت ختم ہونے کے قریب لائی گئی ہے اس لیے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ہیں کہ آیا یہ سکیم کامیاب بھی ہو پائے گی ؟
وزیراعظم کی ایمنسٹی سکیم آئین کے خلاف ہے
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی (ماہر معاشیات)
یہ سکیم ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے نہیں، بلکہ بنیادی طور پر کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے متعارف کرائی گئی ہے۔ اس لیے اس سے وہ لوگ فائدہ اٹھائیں گے جنہوں نے بدعنوانی، سمگلنگ، بینکوں سے قرض معاف کرانے یا کسی اور ناجائز طریقے سے قومی دولت لوٹی ہے۔ یہ دولت چاہے ملک کے اندر ہے یا بیرون ملک، وہ لوگ اس میں سے معمولی سا حصہ دے کر اپنے ناجائز سرمائے کو جائز کرا سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اس کے ذریعے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔
دوسری بات یہ کہ اس سکیم کے اطلاق کی صورت میں جائیداد کی خرید و فروخت میں رشوت کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ کیوں کہ حکومت نے اس میں یہ بات شامل کی ہے کہ وہ کسی جائیداد کو سو فیصد زیادہ رقم پر خرید سکتی ہے، اب ملک میں روزانہ جائیدادوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، حکومت کون کون سی جائیداد خریدے گی، اس لیے اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اس چیز کو سرکاری اہلکار زیادہ تر فریقین کو تنگ کرنے اور رشوت حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
خود حکومتی ادارے بھی اس سکیم سے مطمئن نہیں۔ فیڈرل بیورو آف ریوینیو (ایف بی آر) جو خود ٹیکس کرنے والا ادارہ ہے، اس نے بھی اپنے آپ کو اس سے دور کر لیا ہے۔ ہندوستان میں جب مودی سرکار آئی تو اس نے اپنی اس طرح کی سکیم میں 45 فیصد ادائیگی کا مطالبہ کیا اور اس طرح کئی سو ارب روپے حکومت کے خزانے میں آ گئے، جبکہ ہماری حکومت کی اس سکیم میں صرف دو سے پانچ فیصد تک رقم کی ادائیگی کا کہا گیا ہے۔
پھر حکومت نے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، نیب وغیرہ ان اثاثے ظاہر کرنے والوں سے کوئی چھان بین نہیں کر سکتے، صرف ایف بی آر سوال کر سکتا ہے، یہ بات بھی آئین کے خلاف ہے۔ اس سکیم میں کئی چیزیں ایسی ہیں، جو آئین کے خلاف ہیں۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اگر اپنی مخالفت میں سنجیدہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں پراپرٹی کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق لے آئیں، اس طرح سکیم کا یہ حصہ غیرموثر ہو جائے گا۔
یہ مشکل نظر آ رہا ہے کہ ملک کے اندر کالا دھن اور خفیہ اثاثے رکھنے والے لوگ اس سکیم سے فائدہ اٹھائیں، کیوں کہ آئین کے مطابق اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے افرادسے چھان بین کی جائے۔ حکومت نے اصل معاملے سے توجہ ہٹانے اور لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اس میں یہ بات بھی شامل کر دی ہے کہ ٹیکس کی شرح میں کمی لائی جا رہی ہے۔ یہ چیز تو بجٹ سے متعلق ہے، اس کا اعلان تو بجٹ کے ساتھ کرنا چاہیے تھا۔بہرحال شرح ٹیکس کم کرنے سے ملک بھر میں تنخواہ دار طبقے کو فائدہ ہو گا۔
معاشی صورتحال کی وجہ سے حکومت کو یہ قدم اٹھانا پڑا
ڈاکٹر سلمان شاہ (سابق مشیر خزانہ)
وزیراعظم کی حالیہ ایمنسٹی سکیم کے کئی پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ بیرون ملک آف شور کمپنیاں اور دوسرے غیرعلانیہ اثاثوں کو ظاہر کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے۔ تیسرا یہ کہ جائیداد کو جس قیمت پر فروخت کیا جائے گا اس کا ایک فیصد وفاقی حکومت لے گی اور ایک فیصد صوبائی حکومت کے لینے کی بات بھی کی گئی ہے۔ اس میں یہ بات بھی کی گئی ہے کہ حکومت چاہے تو چھ ماہ کے اندر سو فیصد زیادہ قیمت پر وہ جائیداد خرید سکتی ہے۔
اس طرح کچھ اور چیزیں بھی اس سکیم میں شامل ہیں۔ جہاں تک پہلے پہلو کا تعلق ہے تو کہا جا رہا ہے کہ یہ سکیم کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے ہے اور یہ بات درست ہے۔ کیوں کہ حکومت فارن کرنسی ریزروز میں اضافہ کرنا چاہتی ہے تاکہ ملکی معیشت کو سنبھالا ملے۔ اگر اس سکیم کے نتیجے میں باہر سے رقم آتی ہے، تو آپ کو اتنا قرضہ نہیں لینا پڑے گا۔ اخلاقی اصولوں کی روشنی میں بہرحال بحث کی گنجائش رہتی ہے کہ چوروں، بدعنوانوں کو فائدہ دیا جا رہا ہے۔ تاہم اس سکیم کے جو دوسرے پہلو ہیں، وہ ملکی معیشت کے لیے اچھے ہیں۔
حکومت نے ٹیکس کی شرح کم کی ہے، اس سے ٹیکس نیٹ بڑھنے کا امکان ہے، کیونکہ ایسی صورت میں ٹیکس چوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو بھی فائدہ ہو گا۔ پاکستانی معیشت میں ریئل اسٹیٹ کا اہم حصہ ہے، اب امید ہے کہ اس میں بھی زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو سکے گا۔ بہرحال پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم شاہد خان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے یہ فیصلہ کیا ہے، جس سے ان کو اچھے نتائج ملنے کی توقع ہے۔
اسحاق ڈار کے پاس تو ان چیزوں پر غور کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا تھا۔ اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو حکومت اچھے طریقے سے اپنا نقطہ نظر پیش کر کے عدالت کو قائل کر سکتی ہے۔ ہاں، حکومت عدالت عظمیٰ کو قائل نہ کر سکی تو پھر اس کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔
اس سکیم سے سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو باہر رکھا گیا ہے، کیوں کہ یہ زیادہ تر کاروباری طبقے اور چھوٹے صنعت کاروں کے لیے ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ اس سے وہ لوگ فائدہ اٹھائیں جو ٹیکس چوری کرتے رہے ہیں، نہ کہ وہ لوگ جنہوں نے دوسرے طریقوں سے بدعنوانی کر کے ناجائز اثاثے بنائے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب ممالک کے کرپٹ لوگوں کے اس کالے دھن کو دنیا کے کئی ممالک میں بغیر کسی پوچھ گچھ کے چھپانے پر کوئی قدغن نہیں۔ وہ ممالک اپنی معیشت کو ترقی دینے کے لیے ایسے قوانین بناتے ہیں کہ جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری دنیا سے کالا دھن ان ملکوں کے بینکوں میں جمع ہوتا ہے۔ یا پھر وہاں سے قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر دنیا بھر میں بے نامی جائیداد خریدنے کے کام آتا ہے۔
اس تمام تر صورتحال سے نمٹنے اور ایسے لوگوں کو اپنا کالا دھن سفید کرنے کا موقع دینے کے لیے حکومتیں محدود مدت کے لیے ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کا اعلان کرتی ہیں تاکہ اس کالے دھن کا کچھ فائدہ انہیں بھی حاصل ہوسکے جو بصورت دیگر صرف اور صرف اس کے مالکان یا پھر اس ملک کے لیے ہی فائدہ مند ہوتا ہے جہاں وہ چھپایا گیا ہو۔
ایسی ہی ایک ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان گزشتہ سے پیوستہ روز وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس کا نظام فرسودہ ہے اور قوانین کے کمزور ہونے کی وجہ سے لاکھوں وہ لوگ جنہیں ٹیکس دینا چاہیے اس نیٹ ورک سے باہر ہیں اور پینسٹھ فیصد دولت کالے دھن پر مشتمل ہے۔ اسی وجہ سے ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
امیر طبقہ ٹیکس دینے کو تیار نہیں اور بلا واسطہ ٹیکسوں نے غریب عوام کو غربت کی آخری لکیر سے بھی نیچے لاپٹخا ہے۔ ساری دنیا میں اسی فیصد براہء راست ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ترانوے فیصد ٹیکس بالواسطہ لیے جاتے ہیں اور اس پر ایف بی آر کی کرپشن مستزاد ہے۔ گزشتہ دنوں ڈالر کی اونچی اڑان اور روپے کی قدر میں تاریخی کمی نے مہنگائی کے طوفان میں ہوشربا اضافہ کردیا اور ملکی قرضوں میں بیٹھے بٹھائے اربوں کا بوجھ معیشت کی کمر مزید دوہری کرنے لگا۔
اسی تناظر میں حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اجرا کیا جس سے 30 جون تک فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ گو اس طرح کی سکیمیں ٹیکس نیٹ ورک میں بڑھوتری کا جامع حل نہیں ہوتیں مگر جس طرح ہمارے ملک میں ہر کام ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے بعینہٖ یہ قدم بھی بظاہر ''بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی'' کے مصداق دکھائی دیتا ہے۔
حکومت کی اس ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے پانچ نکات ہیں۔ حکومت کے مطابق ملک میں صرف سات لاکھ لوگ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ان میں سے بھی 90 فیصد تنخواہ دار طبقہ ہے جن کا ٹیکس سورس پر ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔ بیس کروڑ کے ملک میں ٹیکس دینے والوں کو اتنی کم تعداد معاشی مسائل کو جنم دے رہی ہے جس سے قومی خزانہ مزید زیر بار ہوتا ہے۔
لوگوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانے کے لیے حکومت نے کئی پرکشش مراعات کا اعلان کیا ہے جس میں یکم جولائی 2018ء سے انکم ٹیکس کی شرحوں میں غیر معمولی کمی کرنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ سکیم کے تحت 30 جون سے قبل غیر ظاہر شدہ آمدن سے اندرون ملک بنائی گئی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیدادیں مثلاً سونا، بانڈز اور جائیداد وغیرہ 5 فیصد جرمانے کی ادائیگی پر قانونی بنائی جاسکتی ہیں۔
یکم جولائی 2018ء سے ایف بی آر جائیداد کے ریٹ ختم کردے گا اور صوبوں سے بھی کہا جارہا ہے کہ وہ بھی ڈی سی (ڈپٹی کلکٹر) ریٹ منسوخ کر دیںاور پراپرٹی رجسٹریشن کے لیے صوبائی یا مقامی نوعیت کے ٹیکسوں کا حجم محض ایک فیصد رکھیں۔ حکومت کے مطابق جو پیسہ اس وقت کالے دھن کی صورت میں بنایا جارہا ہے اسے پراپرٹی میں ڈال کر چھپایا جاتا ہے۔ اس لیے آئندہ مالی سال سے وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان میں رجسٹرڈ کرائی گئی جائیداد خرید سکے۔
پہلے درجے میں وفاقی حکومت اگر جائیداد کی ظاہر کردہ قیمت سے مطمئن نہ ہوئی تو وہ رجسٹریشن کے چھ ماہ کے اندر ظاہر کردہ مالی قدر کے سو فیصد کے برابر اضافی رقم دے کر بانڈز خرید سکے گی۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک لاکھ ماہانہ آمدن رکھنے والوں پر ٹیکس کی شرح صفر کردی گئی ہے۔ 12 لاکھ سالانہ سے 24 لاکھ سالانہ آمدن پر 5 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ 24 سے 48 لاکھ سالانہ آمدن پر 10 فیصد جبکہ 48 لاکھ سے زائد آمدن پر 15 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ آئندہ ہر شہری کا شناختی کارڈ نمبر ہی اس کا ٹیکس نمبر ہوگا، یوں ٹیکس وصولی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔
ہر شخص کی مالیاتی ٹرانزکشن جیسے یوٹیلیٹی بلز، ہر سال عمرے کے سفر اور بچوں کی فیس، سب لاکھوں میں جاپہنچتے ہیں لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ ان شہریوں کی ہر خریداری، آمدن، اخراجات، اندرون و بیرون ملک ہوائی سفر اور دوسرے آمدن و اخراجات پر ٹیکس کی تشخیص کرکے ان سے وصولی کی جائے گی اور اس طرح 30 لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جائے گا۔
بیرون ملک پڑے کالے دھن اور اثاثہ جات کو سفید کرنے کے لیے اعلان کی جانے والی پالیسی کے تحت غیر ملکی زرمبادلہ کی واپسی پر 2 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ اس میں بھی دو آپشنز دی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ 5 سالہ بانڈز کی خریداری کی صورت میں 3 فیصد سالانہ منافع حکومت کو دیا جائے گا اور ان بانڈز کو ایک سال تک فروخت کرنے کی ممانعت ہوگی جبکہ ایک سال کے بعد بھی ان کی خریدو فروخت انٹربینک ڈالر ریٹ کے مطابق پاکستانی روپے میں ادا کی جائے گی۔ غیر ملکی زرمبادلہ رکھنے والے مقامی افراد بھی یہ بانڈز خرید سکیں گے۔
دوسرے یہ کہ ڈالر اکائونٹ رکھنے والے پاکستانی شہری کالے دھن سے خریدے جانے والے ڈالرز کو 2 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر اسے قانونی حیثیت دلوا سکیں گے۔ علاوہ ازیں بیرون ملک چھپائے گئے غیر منقولہ اثاثہ جات کو بھی 3 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔
ملکی اور غیر ملکی ڈالر اکائونٹس میں پڑے منقولہ اثاثہ جات جیسے کیش، سکیورٹیز اور بانڈز کو بھی 5 فیصد ادائیگی پر قانونی حیثیت دلوائی جاسکے گی۔ انفرادی ایک لاکھ ڈالرز سے کم اثاثہ جات بغیر کسی پوچھ گچھ کے پاکستان لانے کی اجازت ہوگی جن پر ٹیکس کی چھوٹ ہوگی اور ذریعۂ آمدن بھی نہیں پوچھا جائے گا۔ تاہم ایک لاکھ ڈالر سالانہ سے زائد لانے پر ٹیکس کی چھوٹ تو ہوگی پر ایف بی آر ذرائع پوچھ سکے گا۔
اس سکیم کے مطابق آئندہ نئے فارن کرنسی اکائونٹس صرف ٹیکس فائلرز ہی کھلوا سکیں گے۔ بیرون ملک جائیدادوں کی مالیت ان کی قیمت خرید سے ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ نقد رقوم، آف شور کمپنیوں کے حصص، بانڈز اور پاکستان میں ظاہر کردہ آمدن سے بڑھ کر بنائے گئے فارن کرنسی اکائونٹس، سوئس بینکوں اور دنیا کے دیگر ممالک کے بینکوں میں رکھے گئے زرمبادلہ کے اکائونٹس میں موجود رقم پاکستان لانے کی ضرورت نہیں ہوگی تاہم انہیں گوشوارے میں دکھانا ہوگا۔
انکم ٹیکس کے سسٹم میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے افراد کے لیے چالیس لاکھ روپے مالیت سے زائد کی جائیداد خریدنے پر پابندی ہوگی۔ دوسری صورت میں انہیں اپنے آپ کو ٹیکس نیٹ ورک میں رجسٹرڈ کروانا ہوگا۔ بے نامی جائیدادوں کو مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ظاہر کرکے ایک فیصد جرمانے کی ادائیگی پر اپنے نام منتقل کروایا جاسکے گا۔ آف شور کمپنیوں، زرعی اور دوسرے ذرائع سے ہونے والی آمدنی کو ظاہر کرنا بھی ٹیکس نظام کے حصے کے طور پر ہی دیکھا جائے گا۔
اس سکیم کا اطلاق سرکاری افسروں، عوامی عہدے رکھنے والوں، سیاستدانوں اور ان کی بیگمات و بچوں اور ان پر انحصار کرنے والے دیگر زیر کفالت افراد پر نہیں ہوگا اور وہ اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے۔ نیز غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے اور ڈالر ملک میں واپس لانے کی اس سکیم کا اطلاق منی لانڈرنگ، ڈرگ سمگلنگ اور دہشت گردی فائننسنگ کرنے والے پر بھی نہیں ہوگا۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لائی جانے والی اس سکیم میں ایف بی آر یا نیب وغیرہ کے متعلقہ قوانین سے ان لوگوں کو استثنیٰ دیا جائے گا جو اس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔
یہ اسکیم کیونکہ حکومت کی مدت ختم ہونے کے قریب لائی گئی ہے اس لیے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ہیں کہ آیا یہ سکیم کامیاب بھی ہو پائے گی ؟
وزیراعظم کی ایمنسٹی سکیم آئین کے خلاف ہے
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی (ماہر معاشیات)
یہ سکیم ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے نہیں، بلکہ بنیادی طور پر کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے متعارف کرائی گئی ہے۔ اس لیے اس سے وہ لوگ فائدہ اٹھائیں گے جنہوں نے بدعنوانی، سمگلنگ، بینکوں سے قرض معاف کرانے یا کسی اور ناجائز طریقے سے قومی دولت لوٹی ہے۔ یہ دولت چاہے ملک کے اندر ہے یا بیرون ملک، وہ لوگ اس میں سے معمولی سا حصہ دے کر اپنے ناجائز سرمائے کو جائز کرا سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اس کے ذریعے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔
دوسری بات یہ کہ اس سکیم کے اطلاق کی صورت میں جائیداد کی خرید و فروخت میں رشوت کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ کیوں کہ حکومت نے اس میں یہ بات شامل کی ہے کہ وہ کسی جائیداد کو سو فیصد زیادہ رقم پر خرید سکتی ہے، اب ملک میں روزانہ جائیدادوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، حکومت کون کون سی جائیداد خریدے گی، اس لیے اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اس چیز کو سرکاری اہلکار زیادہ تر فریقین کو تنگ کرنے اور رشوت حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
خود حکومتی ادارے بھی اس سکیم سے مطمئن نہیں۔ فیڈرل بیورو آف ریوینیو (ایف بی آر) جو خود ٹیکس کرنے والا ادارہ ہے، اس نے بھی اپنے آپ کو اس سے دور کر لیا ہے۔ ہندوستان میں جب مودی سرکار آئی تو اس نے اپنی اس طرح کی سکیم میں 45 فیصد ادائیگی کا مطالبہ کیا اور اس طرح کئی سو ارب روپے حکومت کے خزانے میں آ گئے، جبکہ ہماری حکومت کی اس سکیم میں صرف دو سے پانچ فیصد تک رقم کی ادائیگی کا کہا گیا ہے۔
پھر حکومت نے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، نیب وغیرہ ان اثاثے ظاہر کرنے والوں سے کوئی چھان بین نہیں کر سکتے، صرف ایف بی آر سوال کر سکتا ہے، یہ بات بھی آئین کے خلاف ہے۔ اس سکیم میں کئی چیزیں ایسی ہیں، جو آئین کے خلاف ہیں۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اگر اپنی مخالفت میں سنجیدہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں پراپرٹی کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق لے آئیں، اس طرح سکیم کا یہ حصہ غیرموثر ہو جائے گا۔
یہ مشکل نظر آ رہا ہے کہ ملک کے اندر کالا دھن اور خفیہ اثاثے رکھنے والے لوگ اس سکیم سے فائدہ اٹھائیں، کیوں کہ آئین کے مطابق اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے افرادسے چھان بین کی جائے۔ حکومت نے اصل معاملے سے توجہ ہٹانے اور لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اس میں یہ بات بھی شامل کر دی ہے کہ ٹیکس کی شرح میں کمی لائی جا رہی ہے۔ یہ چیز تو بجٹ سے متعلق ہے، اس کا اعلان تو بجٹ کے ساتھ کرنا چاہیے تھا۔بہرحال شرح ٹیکس کم کرنے سے ملک بھر میں تنخواہ دار طبقے کو فائدہ ہو گا۔
معاشی صورتحال کی وجہ سے حکومت کو یہ قدم اٹھانا پڑا
ڈاکٹر سلمان شاہ (سابق مشیر خزانہ)
وزیراعظم کی حالیہ ایمنسٹی سکیم کے کئی پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ بیرون ملک آف شور کمپنیاں اور دوسرے غیرعلانیہ اثاثوں کو ظاہر کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے۔ تیسرا یہ کہ جائیداد کو جس قیمت پر فروخت کیا جائے گا اس کا ایک فیصد وفاقی حکومت لے گی اور ایک فیصد صوبائی حکومت کے لینے کی بات بھی کی گئی ہے۔ اس میں یہ بات بھی کی گئی ہے کہ حکومت چاہے تو چھ ماہ کے اندر سو فیصد زیادہ قیمت پر وہ جائیداد خرید سکتی ہے۔
اس طرح کچھ اور چیزیں بھی اس سکیم میں شامل ہیں۔ جہاں تک پہلے پہلو کا تعلق ہے تو کہا جا رہا ہے کہ یہ سکیم کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے ہے اور یہ بات درست ہے۔ کیوں کہ حکومت فارن کرنسی ریزروز میں اضافہ کرنا چاہتی ہے تاکہ ملکی معیشت کو سنبھالا ملے۔ اگر اس سکیم کے نتیجے میں باہر سے رقم آتی ہے، تو آپ کو اتنا قرضہ نہیں لینا پڑے گا۔ اخلاقی اصولوں کی روشنی میں بہرحال بحث کی گنجائش رہتی ہے کہ چوروں، بدعنوانوں کو فائدہ دیا جا رہا ہے۔ تاہم اس سکیم کے جو دوسرے پہلو ہیں، وہ ملکی معیشت کے لیے اچھے ہیں۔
حکومت نے ٹیکس کی شرح کم کی ہے، اس سے ٹیکس نیٹ بڑھنے کا امکان ہے، کیونکہ ایسی صورت میں ٹیکس چوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو بھی فائدہ ہو گا۔ پاکستانی معیشت میں ریئل اسٹیٹ کا اہم حصہ ہے، اب امید ہے کہ اس میں بھی زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو سکے گا۔ بہرحال پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم شاہد خان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے یہ فیصلہ کیا ہے، جس سے ان کو اچھے نتائج ملنے کی توقع ہے۔
اسحاق ڈار کے پاس تو ان چیزوں پر غور کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا تھا۔ اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو حکومت اچھے طریقے سے اپنا نقطہ نظر پیش کر کے عدالت کو قائل کر سکتی ہے۔ ہاں، حکومت عدالت عظمیٰ کو قائل نہ کر سکی تو پھر اس کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔
اس سکیم سے سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو باہر رکھا گیا ہے، کیوں کہ یہ زیادہ تر کاروباری طبقے اور چھوٹے صنعت کاروں کے لیے ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ اس سے وہ لوگ فائدہ اٹھائیں جو ٹیکس چوری کرتے رہے ہیں، نہ کہ وہ لوگ جنہوں نے دوسرے طریقوں سے بدعنوانی کر کے ناجائز اثاثے بنائے ہیں۔