پیپلزپارٹی نے 2008 کے کئی کامیاب امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا
2اہم رہنما ذوالفقار مرزا اور پیر مظہر انتخابات سے آئوٹ، دونوں کے بیٹے الیکشن لڑیں گے
پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ سے ایسے کئی امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا جو 2008 کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ کچھ امیدواروں کی سیٹوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔
بدین سے سابق رکن قومی اسمبلی پیر آفتاب شاہ جیلانی اور ان کے بھائی پی ایس 50 حیدرآباد سے سابقہ رکن سندھ اسمبلی پیر امجد شاہ جیلانی کو ٹکٹ نہ دینا پیپلز پارٹی کے اندرونی اور سیاسی حلقوں کے لیے باعث حیرت ہے۔ پیر امجد شاہ جیلانی کی نشست پر ٹکٹ سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو دیا گیا ہے۔ گھوٹکی میں مہر برادران کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد سیٹوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ پی ایس 1 سے سید خورشید شاہ کے معتمد خاص ڈاکٹر نصر اللہ بلوچ کو ٹکٹ نہیں دیا گیاجبکہ پی ایس 2 سکھر سے محمد انور مہر کو پی ایس 1 کا ٹکٹ دیا گیا ہے۔ پی ایس 2 سے مہر گروپ کے سید ناصر حسین شاہ کو ٹکٹ ملا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پی ایس 3 سکھر سے جام سیف اللہ دھاریجو کے بھائی اکرام اللہ دھاریجو کو ٹکٹ ملا ہے جو گزشتہ انتخابات میں پی ایس 6 گھوٹکی سے کامیاب ہوئے تھے۔ پی ایس 6 پر سردار علی نواز خان مہر کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ پی ایس 4 سے سید جاوید حسین شاہ کو ٹکٹ نہیں ملا، ان کی جگہ سید خورشید شاہ کے داماد سید اویس شاہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے 2 اہم رہنما پیر مظہر الحق اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا حصہ نہیں لیں گے۔ پی ایس 71 دادو سے پیر مظہر الحق کے صاحبزادے پیر مجیب الرحمن کو ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی نشست پی ایس 57 پر بدستور ان کے صاحبزادے حسنین مرزا الیکشن لڑیں گے۔
پی ایس 40 قمبر شہداد کوٹ سے سابق وزیر خوراک میر نادر مگسی جعلی ڈگری کیس میں نااہل ہوگئے ہیں۔ ان کی نشست پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ ٹھٹھہ کی نشستوں پر بھی پیپلز پارٹی فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔ پی ایس 8 گھوٹکی IV سے سردار رحیم بخش بوزدار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، وہ گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کی جگہ سردار محمد بخش مہر کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس طرح مہر برادران کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پیپلز پارٹی کے 3 ارکان صوبائی اسمبلی کو ٹکٹ نہیں ملے۔ پی ایس 13 جیکب آباد I سے غلام محمد شاہلیانی کی جگہ ممتاز جاکھرانی اور پی ایس 14 جیکب آباد II سے مقیم خان کھوسو کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
سابق صوبائی وزیر سید مراد علی شاہ کی نشست پی ایس 73 دادو پر بھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ پی ایس 56 سے میر حسن تالپور، پی ایس 56 سے بشیر احمد لغاری، پی ایس 76 سے عمران ظفر لغاری کی نشستوں پر بھی فیصلہ موخر کیا گیا ہے۔ سابق چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی سندھ سردار جام تماچی انڑ کو بھی پی ایس 28 نواب شاہ سے ٹکٹ نہیں دیا گیا۔پی ایس 38 لاڑکانہ IV سے حاجی منور علی عباسی کی جگہ خورشید جونیجو کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
لاڑکانہ سے نثار احمد کھوڑو کی نشست، پی ایس 47 حیدرآباد III پر سابق صوبائی وزیر زاہد علی بھرگڑی کی نشست پر بھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ امداد علی پتافی کی نشست پی ایس 52 ٹنڈوالہیار چار پر بھی فیصلہ موخر ہوگیا۔ نوشہرو فیروز سے سید ظفر علی شاہ اور ان کے بھائی ڈاکٹر احمد علی شاہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے تھے۔ قومی اسمبلی کی نشست این اے 212 نوشہرو فیروز سے سید اصغر علی شاہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
بدین سے سابق رکن قومی اسمبلی پیر آفتاب شاہ جیلانی اور ان کے بھائی پی ایس 50 حیدرآباد سے سابقہ رکن سندھ اسمبلی پیر امجد شاہ جیلانی کو ٹکٹ نہ دینا پیپلز پارٹی کے اندرونی اور سیاسی حلقوں کے لیے باعث حیرت ہے۔ پیر امجد شاہ جیلانی کی نشست پر ٹکٹ سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو دیا گیا ہے۔ گھوٹکی میں مہر برادران کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد سیٹوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ پی ایس 1 سے سید خورشید شاہ کے معتمد خاص ڈاکٹر نصر اللہ بلوچ کو ٹکٹ نہیں دیا گیاجبکہ پی ایس 2 سکھر سے محمد انور مہر کو پی ایس 1 کا ٹکٹ دیا گیا ہے۔ پی ایس 2 سے مہر گروپ کے سید ناصر حسین شاہ کو ٹکٹ ملا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پی ایس 3 سکھر سے جام سیف اللہ دھاریجو کے بھائی اکرام اللہ دھاریجو کو ٹکٹ ملا ہے جو گزشتہ انتخابات میں پی ایس 6 گھوٹکی سے کامیاب ہوئے تھے۔ پی ایس 6 پر سردار علی نواز خان مہر کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ پی ایس 4 سے سید جاوید حسین شاہ کو ٹکٹ نہیں ملا، ان کی جگہ سید خورشید شاہ کے داماد سید اویس شاہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے 2 اہم رہنما پیر مظہر الحق اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا حصہ نہیں لیں گے۔ پی ایس 71 دادو سے پیر مظہر الحق کے صاحبزادے پیر مجیب الرحمن کو ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی نشست پی ایس 57 پر بدستور ان کے صاحبزادے حسنین مرزا الیکشن لڑیں گے۔
پی ایس 40 قمبر شہداد کوٹ سے سابق وزیر خوراک میر نادر مگسی جعلی ڈگری کیس میں نااہل ہوگئے ہیں۔ ان کی نشست پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ ٹھٹھہ کی نشستوں پر بھی پیپلز پارٹی فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔ پی ایس 8 گھوٹکی IV سے سردار رحیم بخش بوزدار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، وہ گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کی جگہ سردار محمد بخش مہر کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس طرح مہر برادران کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پیپلز پارٹی کے 3 ارکان صوبائی اسمبلی کو ٹکٹ نہیں ملے۔ پی ایس 13 جیکب آباد I سے غلام محمد شاہلیانی کی جگہ ممتاز جاکھرانی اور پی ایس 14 جیکب آباد II سے مقیم خان کھوسو کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
سابق صوبائی وزیر سید مراد علی شاہ کی نشست پی ایس 73 دادو پر بھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ پی ایس 56 سے میر حسن تالپور، پی ایس 56 سے بشیر احمد لغاری، پی ایس 76 سے عمران ظفر لغاری کی نشستوں پر بھی فیصلہ موخر کیا گیا ہے۔ سابق چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی سندھ سردار جام تماچی انڑ کو بھی پی ایس 28 نواب شاہ سے ٹکٹ نہیں دیا گیا۔پی ایس 38 لاڑکانہ IV سے حاجی منور علی عباسی کی جگہ خورشید جونیجو کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
لاڑکانہ سے نثار احمد کھوڑو کی نشست، پی ایس 47 حیدرآباد III پر سابق صوبائی وزیر زاہد علی بھرگڑی کی نشست پر بھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ امداد علی پتافی کی نشست پی ایس 52 ٹنڈوالہیار چار پر بھی فیصلہ موخر ہوگیا۔ نوشہرو فیروز سے سید ظفر علی شاہ اور ان کے بھائی ڈاکٹر احمد علی شاہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے تھے۔ قومی اسمبلی کی نشست این اے 212 نوشہرو فیروز سے سید اصغر علی شاہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔