انتخابات کا نتیجہ کیا نکلے گا ایک مشکل سوال ہے

عمران کے خوف کے باعث نواز شریف نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کو پھر گلے لگا لیا

عمران کے خوف کے باعث نواز شریف نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کو پھر گلے لگا لیا. فوٹو فائل

پاکستان کی حالیہ تاریخ کے یہ غالبا پہلے ایسے انتخابات ہیں جس میں نہ تو کسی فوجی حکمران کے حق میں یا خلاف ووٹ ڈالنے کا سوال ہے اور نہ پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی محرک دکھائی دے رہا ہے۔

گنتی کے چند لیڈروں کو چھوڑ کر تقریباً سب قابل ذکر جماعتوں کے ایک جیسے امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ کسی بھی حلقے میں سب سے طاقتور امیدوار کا پارٹی ٹکٹ چھین کر دوسرے نمبر کے امیدوار کو پکڑا دیا جائے تو لگتا ہے کہ ووٹروں کے لیے کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں۔ پیپلز پارٹی جسے ضیاء الحق، اسلم بیگ اور حمید گل جیسے سابق جرنیل ختم نہ کر سکے اسے ایک مبصر کے بقول پہلے بے نظیر بھٹو نے فوجی جرنیلوں کو منانے کی کوششیں کر کے نیم جاں کیا اور پھر ان کے جانشین آصف زرداری نے مفاہمت سے اس کا گلا گھونٹ دیا۔

نظریاتی جماعت کہلانی والی پیپلز پارٹی کا آج نظریہ کیا ہے؟ شاید ہی کسی کو معلوم ہو۔ حالیہ معاشی تنزلی کے بعد کتنے لوگ روٹی کپڑا اورمکان کے نعرے پر ووٹ دینے کی ہمت کریں گے؟ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے ساری زندگی پیپلز پارٹی مخالف سیاست کی لیکن جب ایک فوجی آمر سے معاہدے کے تحت جلا وطنی اِختیار کرنے پر راضی ہوئے تو میثاق جمہوریت کے لیے بے نظیر بھٹو سے ہی مشاورت شروع کر دی۔ نواز شریف جب وطن واپس آئے تو اپنے بے وفا سیاسی ساتھیوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں تھے لیکن پھر سیاست میں عمران خان نمودار ہوئے اور مقامی سیاستدان تحریک انصاف میں اس طرح لینڈ کرنے لگے جس طرح سب سے اونچے چوبارے پر کبوتروں کی ڈار جا بیٹھتی ہے۔


عمران خان کے خوف نے نون لیگ کی سیاسی اناکے غبارے سے بھی ہوا نکال دی اور نواز شریف نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کو پھر گلے لگا لیا۔ پاکستان میں سب کو علم ہے کہ اس مرتبہ جب پیپلز پارٹی وفاق میں تھی تو پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت تھی۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ بے روزگار اور غریب اسی صوبے نے پیدا کیے، سب سے زیادہ صنعتیں اور کاروبار اسی صوبے میں تباہ ہوئے یہ صوبہ خودکشیوں میں بھی نمبر ون رہا۔ توسوچنا یہ ہے کہ اب مسلم لیگ نون کے مالی خوشحالی کے لالی پاپ کو کون منہ لگائے گا؟ عمران خان کی تحریک انصاف کی سونامی کو اس کے پارٹی الیکشن نے واپس سمندر میں بھیج دیا ہے۔ نوجوانوں میں عمران خان کی ٹی وی تقریریں سن کر جن روایتی سیاستدانوں سے جان چھڑائے جانے کی امید پیدا ہوئی تھی عمران خان نے انہی کو اپنی پارٹی میں شامل کر لیا۔

ایم کیو ایم کے پاس بھی بیچنے کو کوئی نیا سودا نہیں۔ ایم کیو ایم 'جب تک تیرا اقتدار چلا مجھ سے اتحاد چلا' کے فارمولے پرکاربند ہے اور ماضی سے تو یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اس 'اصول' پر ڈٹی رہے گی۔ عبدالغفار خان اور ولی خان کی سرخ پوش پارٹی سرمایہ دار امریکہ سے شاباشیاں لینے کے علاوہ پیپلز پارٹی سے بھی بغل گیر ہو چکی ہے۔ پانچ سال مسلم لیگ نون کے خلاف تقریریں کرنے والے جماعت اسلامی کے لیڈر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے بغل میں فائلیں دبائے کبھی نون لیگ تو کبھی عمران خان کے در کے چکر لگا رہے ہیں۔

مسلم لیگ قاف کے رہنماء چودھری شجاعت حسین اپنے والد چوہدری ظہور الہی کے قتل کا الزام جس پارٹی پر لگاتے تھے اسی پیپلز پارٹی کو اپنی اور اپنی جماعت کی بقا سمجھ رہے ہیں۔ مبصرین کاکہنا ہے کہ معشیت، خارجہ پالیسی، انتہاپسندی اور توانائی کے بارے میں سب بڑی جماعتوں کے منشور تقریباً ایک ہی جیسے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی کسی کا نہ تو کوئی نظریہ باقی بچا ہے اور نہ ہی کسی پر تبدیلی لانے کا اعتبار باقی رہا ہے تو پھر انتخابات کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس بظاہر سادہ سوال کا جواب بہت مشکل ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story