مگر ہم جو ایک ایٹمی طاقت ہیں
بھارت اب روائتی جنگ سے ہٹ کر ثقافتی جنگ لڑ رہا ہے جس میں وہ جیت رہا ہے بلکہ جیت چکا ہے۔
آزادی کے بعد ایک طویل مدت تک بھارت پر نہرو خاندان کی حکومت رہی جس کی وجہ سے بھارت میں سیاسی استحکام کی نعمتیں جڑپکڑتی رہیں اور بھارتی عوام اس سے لطف اٹھاتے رہے۔ اس دوران ہم یہاں پاکستان میں کبھی مارشل لاؤں اور کبھی منتخب آمریتوں کے سائے میں سسکتے رہے۔ بھارتی عوام ہماری اس حالت پر ہنستے رہے اور جب ہم اپنا آدھا ملک ہی بھارت کے ہاتھوں گنوا بیٹھے تو شاید بھارتی ہم پر ہنسنا بھی وقت کا ضیاع سمجھنے لگے۔
ہم پہلے جیسے بھی تھے اپنے آپ کو بھارت کا مدمقابل سمجھتے تھے اور اس کے پنجے میں پنجا بھی ڈال لیتے تھے لیکن ڈھاکہ کی شکست کے بعد بھارتیوں نے ہمیں حقارت سے دیکھنا شروع کر دیا اور ہماری شکست خوردگی ہمیں یہ موقع نہ دے سکی کہ ہم کبھی آنکھیں اٹھا کر بھی دیکھ سکتے۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد کے طویل برسوں میں ہم سال بہ سال مشرقی پاکستان کی قبر پر پھول چڑھاتے رہے، اس کی مٹی کو آنسوؤں میں بھگوتے رہے لیکن ہم بھارت کے ساتھ اپنا حساب صاف کرنے کا کبھی نہ سوچ سکے بلکہ ایسا سوچنا تو درکنارہم رفتہ رفتہ بھارت کو ایک آئیڈیل ملک سمجھنے لگے لیکن غیروں سے کیا اپنے آپ سے بھی ہم کبھی اس کا اقرار کرنے کی جرات نہ کر سکے جب کہ یہ ایک حقیقت تھی۔بھارت تو خیر بڑی بات تھی ہم یہاں اس کے کھلے ایجنٹوں کے بھی پاؤں پڑتے رہے اور آج تک ان ایجنٹوں کے مرہون منت ہیں اور ان کو اپنے دائیں بائیں کھڑا کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔
جب سے کشمیر کے بہادر اور غیرت مند مسلمانوں نے بھارت کے خلاف اعلان بغاوت کر رکھا ہے اور تن تنہا اس کی سزا کئی دہائیوں سے بھگت رہے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے بھی ہمارے اندر اتنی جرات پیدا نہ ہو سکی کہ ہم اس بغاوت میں کھلم کھلا ان کی مدد کرتے حالانکہ ہمارا فلسفہ ہی یہ تھا کہ اگر بھارت میں اقلیتو ں کے ساتھ زیادتی کی گئی تو ہم اسے بچانے کے لیے مداخلت کریں گے۔ قائد اعظم نے ایسا کہتے ہوئے اس ضمن میں امریکا میں انگریز اقلیت کو بچانے کے لیے انگریزوں کی مداخلت کی مثال دی تھی لیکن ہم جس ملک سے اپنا ملک نہ بچا سکے اپنی ہم مذہب اقلیت کو اس ملک سے کیسے بچا سکتے ہیں ۔
بھارت میں موجود اقلیتوں جن میں ان کے ہم مذہب ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد بھی ہے ان کے خلاف بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کسی سے پوشیدہ نہیں اور ان کو نچلے درجے کا ہندو قرار دے کر ان کا استحصال پچھلے ستر سال سے جاری ہے۔ اسی طرح بھارت میں بسنے والی دوسری مذہبی اقلیتوں جن میں مسلمان اور سکھ بڑی تعداد میں ہیں ان کے خلاف بھی بھارت کی دشمنیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اور مسلمان تو ان کا پسندیدہ نشانہ ہیں جن کو کبھی گاؤ ماتا کی بے حرمتی کا بہانہ بنا کر اور کبھی اپنے زمینی خداؤں کی بے حرمتی کا عذر کر کے ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی بہترین مثال کشمیر میں اس کا فوجی کردارہے جہاں پر لاکھوں کی تعداد میں فوج نہتے کشمیریوں پر گولیاں برسا رہی ہے اور بہادر کشمیری اپنی بقا کے لیے پتھروں سے لڑ کر جواب دے رہے ہیں جب کہ عالمی برادری کے ٹھیکیدار اس بربریت پر خاموش ہیں لیکن کشمیریوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ، وہ اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کا سب سے بڑا حمائتی پاکستان بھارتی حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے ان کی غیبی امداد پر بھی پابندیاں عائد کر چکا ہے۔
ایک طرف تو کشمیر وقفے وقفے سے جل رہا ہے، پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھارت کی خلاف ورزیاں روز کا معمول ہیں جن کا جواب بھی بھر پور طریقے سے دیا جار ہا ہے تو دوسری طرف ہم بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے مرے جارہے تھے ۔یہ وہی تجارت تھی جس کے لیے بھارت پچھلے ستر برسوں سے کوششیں کر رہاتھا مگر ہم اسے پلہ نہیں پکڑاتے تھے، آج معاملہ الٹ ہے۔ جندال اور مودی دن دہاڑے بغیر ویزہ کے پاکستان کے دورے کر رہے ہیں ۔
ہمارے سینماؤں میں بھارتی فلمیں پاکستانی تماش بینوں کے ذوق کی تسکین کے لیے دکھائی جارہی ہیں۔ پہلے ہم یہ فلمیں گھروں میں چھوٹی اسکرینوں پر چھپ کر دیکھتے تھے، اب ہم نے ان کو بڑی اسکرینوںپر منتقل کر دیا ہے اور ہمارے نوجوان نسل بھی ان فلموں کی دلدادہ ہے اور بڑے شوق سے ٹکٹوں پر بھاری رقم خرچ کر کے سینماؤں کا رخ کر رہی ہے۔
بھارت اب روائتی جنگ سے ہٹ کر ثقافتی جنگ لڑ رہا ہے جس میں وہ جیت رہا ہے بلکہ جیت چکا ہے اور دہلی کے قریبی شہر لاہور میں اب بھارتی فلمیں بڑے دھوم دھڑکے سے دیکھی جاتی ہیں حالانکہ یہی لاہور کبھی بھارت کا سب سے بڑا مخالف تھا اور بھارت جنگی طیارے جب گرتے تھے تو زندہ دلان لاہوریئے بو کاٹا کی آوازیں لگاتے تھے ۔ بھارت کی ان دیکھی جمہوریت تو ہمارے لیے کوئی الہامی چیز تھی جس کے ذکر پر ہم اپنے آپ سے شرمانے لگتے اور حسرت کرتے کہ کاش ہم بھی کبھی اس قسم کی جمہوریت سے سرفرا ز ہوسکیں گے، ان دیکھی چیزیں ہمیشہ سہانی لگتی ہیں لیکن جب ان کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے تو پھر ان سے گھن آنے لگتی ہے۔
بھارت کا نام نہاد سیکولر ازم جس کی حقیقت کم ازکم برصغیر کے مسلمانوں کو بخوبی معلوم ہے، یہ دراصل سیکولر ازم نہیں بلکہ ہندو ازم ہے جسے سیکولر ازم کے پردے میں چھپا کر رکھا گیا تھا اور اب یہ پردہ چاک ہو چکا ہے اور اس میں سے ہندو ازم نکل کر دنیا میں متعارف ہوا ہے ۔ گو کہ بھارت میں تواتر سے الیکشن ہوئے اور سیاسی استحکام کی بات کی گئی مگر جو استحکام نہرو دور میں تھا، اب ختم ہو چکا ہے اور اندر سے ہندو بھارت نکل آیا ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت ہندوؤں کا ہی ہے اور اس میں کسی دوسری قوم کی کوئی گنجائش نہیں ۔ وہ بھارت ختم ہو گیا جس نے سیکولر ازم اور جمہوریت پر اپنی تعمیر کی تھی۔
وہ اب دنیا میں ہندو ازم کا پرچار کر تا ہے اور دنیا میں ہندوؤں کا واحد ملک ہے جس کے بارے میں ضیاء الحق نے ان سے کہا تھا کہ مسلمان تو دنیا بھر میںکئی ملکوںمیں آباد ہیں مگر ہندوؤں کا ملک ایک ہی ہے، اس لیے اس کو پاکستان سے کسی قسم کی جارحیت سے پہلے سوچ لینا چاہیئے مگر ہماری بد قسمتی کہ ضیاء الحق جیسے حکمران اب کہاں ۔ ان کے بعد جنرل مشرف نے بھارتیوں کو آنکھیں دکھائی تھیں مگر ضیاء کے سیاسی جانشینوں میں اتنی طاقت نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے کہ وہ بھارت کو دشمن بھارت کہہ سکیں حالانکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے اور اس سے انکار اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے مگر ہم یہ دھوکا کھانے پر راضی ہیں اور یہ سب ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود۔
ہم پہلے جیسے بھی تھے اپنے آپ کو بھارت کا مدمقابل سمجھتے تھے اور اس کے پنجے میں پنجا بھی ڈال لیتے تھے لیکن ڈھاکہ کی شکست کے بعد بھارتیوں نے ہمیں حقارت سے دیکھنا شروع کر دیا اور ہماری شکست خوردگی ہمیں یہ موقع نہ دے سکی کہ ہم کبھی آنکھیں اٹھا کر بھی دیکھ سکتے۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد کے طویل برسوں میں ہم سال بہ سال مشرقی پاکستان کی قبر پر پھول چڑھاتے رہے، اس کی مٹی کو آنسوؤں میں بھگوتے رہے لیکن ہم بھارت کے ساتھ اپنا حساب صاف کرنے کا کبھی نہ سوچ سکے بلکہ ایسا سوچنا تو درکنارہم رفتہ رفتہ بھارت کو ایک آئیڈیل ملک سمجھنے لگے لیکن غیروں سے کیا اپنے آپ سے بھی ہم کبھی اس کا اقرار کرنے کی جرات نہ کر سکے جب کہ یہ ایک حقیقت تھی۔بھارت تو خیر بڑی بات تھی ہم یہاں اس کے کھلے ایجنٹوں کے بھی پاؤں پڑتے رہے اور آج تک ان ایجنٹوں کے مرہون منت ہیں اور ان کو اپنے دائیں بائیں کھڑا کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔
جب سے کشمیر کے بہادر اور غیرت مند مسلمانوں نے بھارت کے خلاف اعلان بغاوت کر رکھا ہے اور تن تنہا اس کی سزا کئی دہائیوں سے بھگت رہے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے بھی ہمارے اندر اتنی جرات پیدا نہ ہو سکی کہ ہم اس بغاوت میں کھلم کھلا ان کی مدد کرتے حالانکہ ہمارا فلسفہ ہی یہ تھا کہ اگر بھارت میں اقلیتو ں کے ساتھ زیادتی کی گئی تو ہم اسے بچانے کے لیے مداخلت کریں گے۔ قائد اعظم نے ایسا کہتے ہوئے اس ضمن میں امریکا میں انگریز اقلیت کو بچانے کے لیے انگریزوں کی مداخلت کی مثال دی تھی لیکن ہم جس ملک سے اپنا ملک نہ بچا سکے اپنی ہم مذہب اقلیت کو اس ملک سے کیسے بچا سکتے ہیں ۔
بھارت میں موجود اقلیتوں جن میں ان کے ہم مذہب ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد بھی ہے ان کے خلاف بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کسی سے پوشیدہ نہیں اور ان کو نچلے درجے کا ہندو قرار دے کر ان کا استحصال پچھلے ستر سال سے جاری ہے۔ اسی طرح بھارت میں بسنے والی دوسری مذہبی اقلیتوں جن میں مسلمان اور سکھ بڑی تعداد میں ہیں ان کے خلاف بھی بھارت کی دشمنیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اور مسلمان تو ان کا پسندیدہ نشانہ ہیں جن کو کبھی گاؤ ماتا کی بے حرمتی کا بہانہ بنا کر اور کبھی اپنے زمینی خداؤں کی بے حرمتی کا عذر کر کے ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی بہترین مثال کشمیر میں اس کا فوجی کردارہے جہاں پر لاکھوں کی تعداد میں فوج نہتے کشمیریوں پر گولیاں برسا رہی ہے اور بہادر کشمیری اپنی بقا کے لیے پتھروں سے لڑ کر جواب دے رہے ہیں جب کہ عالمی برادری کے ٹھیکیدار اس بربریت پر خاموش ہیں لیکن کشمیریوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ، وہ اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کا سب سے بڑا حمائتی پاکستان بھارتی حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے ان کی غیبی امداد پر بھی پابندیاں عائد کر چکا ہے۔
ایک طرف تو کشمیر وقفے وقفے سے جل رہا ہے، پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھارت کی خلاف ورزیاں روز کا معمول ہیں جن کا جواب بھی بھر پور طریقے سے دیا جار ہا ہے تو دوسری طرف ہم بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے مرے جارہے تھے ۔یہ وہی تجارت تھی جس کے لیے بھارت پچھلے ستر برسوں سے کوششیں کر رہاتھا مگر ہم اسے پلہ نہیں پکڑاتے تھے، آج معاملہ الٹ ہے۔ جندال اور مودی دن دہاڑے بغیر ویزہ کے پاکستان کے دورے کر رہے ہیں ۔
ہمارے سینماؤں میں بھارتی فلمیں پاکستانی تماش بینوں کے ذوق کی تسکین کے لیے دکھائی جارہی ہیں۔ پہلے ہم یہ فلمیں گھروں میں چھوٹی اسکرینوں پر چھپ کر دیکھتے تھے، اب ہم نے ان کو بڑی اسکرینوںپر منتقل کر دیا ہے اور ہمارے نوجوان نسل بھی ان فلموں کی دلدادہ ہے اور بڑے شوق سے ٹکٹوں پر بھاری رقم خرچ کر کے سینماؤں کا رخ کر رہی ہے۔
بھارت اب روائتی جنگ سے ہٹ کر ثقافتی جنگ لڑ رہا ہے جس میں وہ جیت رہا ہے بلکہ جیت چکا ہے اور دہلی کے قریبی شہر لاہور میں اب بھارتی فلمیں بڑے دھوم دھڑکے سے دیکھی جاتی ہیں حالانکہ یہی لاہور کبھی بھارت کا سب سے بڑا مخالف تھا اور بھارت جنگی طیارے جب گرتے تھے تو زندہ دلان لاہوریئے بو کاٹا کی آوازیں لگاتے تھے ۔ بھارت کی ان دیکھی جمہوریت تو ہمارے لیے کوئی الہامی چیز تھی جس کے ذکر پر ہم اپنے آپ سے شرمانے لگتے اور حسرت کرتے کہ کاش ہم بھی کبھی اس قسم کی جمہوریت سے سرفرا ز ہوسکیں گے، ان دیکھی چیزیں ہمیشہ سہانی لگتی ہیں لیکن جب ان کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے تو پھر ان سے گھن آنے لگتی ہے۔
بھارت کا نام نہاد سیکولر ازم جس کی حقیقت کم ازکم برصغیر کے مسلمانوں کو بخوبی معلوم ہے، یہ دراصل سیکولر ازم نہیں بلکہ ہندو ازم ہے جسے سیکولر ازم کے پردے میں چھپا کر رکھا گیا تھا اور اب یہ پردہ چاک ہو چکا ہے اور اس میں سے ہندو ازم نکل کر دنیا میں متعارف ہوا ہے ۔ گو کہ بھارت میں تواتر سے الیکشن ہوئے اور سیاسی استحکام کی بات کی گئی مگر جو استحکام نہرو دور میں تھا، اب ختم ہو چکا ہے اور اندر سے ہندو بھارت نکل آیا ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت ہندوؤں کا ہی ہے اور اس میں کسی دوسری قوم کی کوئی گنجائش نہیں ۔ وہ بھارت ختم ہو گیا جس نے سیکولر ازم اور جمہوریت پر اپنی تعمیر کی تھی۔
وہ اب دنیا میں ہندو ازم کا پرچار کر تا ہے اور دنیا میں ہندوؤں کا واحد ملک ہے جس کے بارے میں ضیاء الحق نے ان سے کہا تھا کہ مسلمان تو دنیا بھر میںکئی ملکوںمیں آباد ہیں مگر ہندوؤں کا ملک ایک ہی ہے، اس لیے اس کو پاکستان سے کسی قسم کی جارحیت سے پہلے سوچ لینا چاہیئے مگر ہماری بد قسمتی کہ ضیاء الحق جیسے حکمران اب کہاں ۔ ان کے بعد جنرل مشرف نے بھارتیوں کو آنکھیں دکھائی تھیں مگر ضیاء کے سیاسی جانشینوں میں اتنی طاقت نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے کہ وہ بھارت کو دشمن بھارت کہہ سکیں حالانکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے اور اس سے انکار اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے مگر ہم یہ دھوکا کھانے پر راضی ہیں اور یہ سب ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود۔