گھاس پھوس سے بنے گھر کم خرچ بالانشیں اور آرام دہ

گھاس پھوس سے گھر بنانا اس لیے آسان ہے کیونکہ یہ زراعت کی ذیلی پیداوار ہے اور آسانی سے مل جاتی ہے۔

گھاس پھوس سے گھر بنانا اس لیے آسان ہے کیونکہ یہ زراعت کی ذیلی پیداوار ہے اور آسانی سے مل جاتی ہے۔ فوٹو : فائل

اکتوبر 2005 ء کے خطرناک زلزلے میں آزاد کشمیر کی مکین،روبینہ سلیم کا گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ وہ خود بھی زندگی بھر کے لیے مفلوج ہو گئیں کیونکہ گھر کے ملبے تلے دب گئی تھیں۔ان کی زندگی دوبارہ پہلے جیسی کبھی نہیں ہو سکتی، پھر بھی وہ خوش قسمت ہیں کہ ایک غیرسرکاری تنظیم پاکسبیب (PAKSBAB) نے انہیں راولپنڈی کے مضافاتی علاقے میں گھاس پھوس سے ایک مضبوط گھر بنا دیا۔

وہیل چیئر پر بیٹھی باون سالہ روبینہ کا کہنا ہے''اس گھر میں کم توانائی خرچ ہوتی ہے۔ہمارا پچھلا گھر اینٹوں اور پتھروں سے بنا تھا۔ اس کے برعکس یہ گرمی اور سردی کے دونوں موسموں میں آرام دہ رہتا ہے۔"

سرخ اینٹوں سے بنے گھروں کے درمیان روبینہ کا گھاس پھوس سے بنا گھر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اتنا ہی مضبوط نظر آتا ہے جتنا کہ اس کے ارد گرد کے پکے گھر۔وہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ اس گھر میں رہتی ہیں۔ اب وہ ان گھاس پھوس سے بنے گھروں کی حمایت کرتی ہے، خاص طور پر ان پہاڑی علاقوں کے لیے جہاں اکثر زلزلے آنے کا اندیشہ رہتا ہے۔اس کا کہنا ہے ''اگر زلزلے کے وقت میں اسی طرح کے گھر میں ہوتی، تو مجھے یقین ہے کہ میری ریڑھ کی ہڈی کبھی نہ ٹوٹتی۔''

یاد رہے، پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں زلزلے سب سے زیادہ آتے ہیں۔لہذا خاص طور پر پہاڑی علاقوں کے باسی گھاس پھوس سے بنے گھروں رہ کر اپنی زندگیاں محفوظ بنا سکتے ہیں۔

گھاس پھوس سے گھر بنانا اس لیے آسان ہے کیونکہ یہ زراعت کی ذیلی پیداوار ہے اور آسانی سے مل جاتی ہے۔ پہلے اس کی گانٹھیں بنائی جاتی ہیں۔ پھر دیواریں بنانے کے لیے اس کو باقاعدہ ایک فریم میں فٹ کرنے کے بعد مٹی سے پلسترکر دیا جاتا ہے۔ چھت اور دیواریں مضبوط کرنے کے لیے لکڑی کے ایک فریم سے سہارا دیا جاتا ہے۔




ایسے گھروں کی تعمیر کی لاگت، مزدوری اور مٹیریل کی قمیت شامل کر کے تقریبا 700 روپے فی مربع فٹ آتی ہے۔قیمت کسی حد تک مٹیریل کی دستیابی اور گھر کے ڈیزائن پر بھی منحصر ہوتی ہے۔پھر بھی پاکستان میں متوسط طبقے کے گھروں کی تعمیر کی لاگت ان گھروں سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے جو کہ 2500 روپے فی مربع فٹ تک بنتے ہیں۔ پوش علاقوں میں تو گھروں کی تعمیر کی لاگت کہیں زیادہ ہے۔

پاکسبیب پاکستان میں اب تک ستر کے قریب مقامی ماہرینِ تعمیرات کو گھاس پھوس سے گھر بنانے کی تربیت دے چکی ۔ایسے گھروں کی کئی خوبیاں ہیں جن میں بجلی کا کم استعمال، گرمی کے خلاف مزاحمت اور کم پیسوں میں ان کی تعمیر شامل ہے۔ لیکن حکومتی عدم توجہی کے سبب انہیں پاکستان میں تاحال وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حقدار ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگ ان گھروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ آیا یہ زلزلوں، سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے خلاف مؤثر ثابت ہو سکیں گے یا نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ زلزلہ پروف اور کم بجلی خرچ کرنے والی عمارتوں کی تعمیر نہ ہونے کے سبب قدرتی آفات اور زلزلوں کی صورت میں جانی اور مالی نقصان کا اندیشہ کہیں بڑھ جاتا ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم ،پاکستان گرین بلڈنگ کونسل کے سینئر معمار منیب حیدر کا کہنا ہے کہ گرین عمارتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ماحولیات پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ گھاس پھوس سے بنی عمارتیں نہ صرف کم کاربن خارج کرتیں بلکہ سخت موسم اور ہیٹ ویو جیسے عمل روکنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔

شفیق خان
Load Next Story