جمہوریت لیاری اور ووٹ
غور کیجیے ،ہم روشنیوں کے نام نہاد شہر میں ایک غریب علاقے کا درد انگیز اور ہولناک منظر نامہ دکھا رہے ہیں۔
چنگیز خان اپنے آپ کو پیغمبر کہتا تھا مسلمانوں کا دشمن تھا، اس کا پوتا ہلاکو خان بھی مسلمانوں کا سخت دشمن تھا جس نے ماوراء النہر، سمرقند، بخارا، غزنی، بغداد وغیرہ میں تباہی پھیلائی، قتل و غارت کی، مگر پھر اسی ہلاکو کا بیٹا مسلمان ہوا اور سلطان احمد کے لقب سے مشہور ہوا جب کہ اس کے بھتیجے کا بیٹا سلطان ابو سعید بہت ہی عادل بادشاہ بنا۔
وقت کے چنگیز خان اور ہلاکو خان ہر دور میں مل جاتے ہیں، ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس خیال سے اتفاق نہ کریں، مگر کراچی شہر میں اس سے کچھ مختلف نہیں ہوا۔ یہ ابھی حال ہی کی بات ہے جب ایک نہیں کئی اخبارات نے خبر دی کہ لیاری کے ایک بدنام زمانہ شخص کو اس کے چند ساتھیوں سمیت مخالف گروہ نے دن دہاڑے پکڑ کر سرعام تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے علاقے میں گھمایا اور سر قلم کرکے لاشیں تک جلادیں۔
غور کیجیے ،ہم روشنیوں کے نام نہاد شہر میں ایک غریب علاقے کا درد انگیز اور ہولناک منظر نامہ دکھا رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ مارنے اور قتل ہونے والے افراد ظالم تھے یا مظلوم، بہیمانہ تشدد کا جس طرح سے کھلے عام اظہار کیا گیا اس سے نہ صرف چنگیز اور ہلاکو خان کی یاد ذہن میں تازہ ہوگئی بلکہ یہ احساس بھی ہوا کہ اس عہد کے چنگیز اور ہلاکو خان کس قدر مضبوط ہیں اور ریاستی ادارے کس قدر بے حس و مجبور ہیں کہ وہ ایک عام شہری کی طرح تماشا دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔بڑا تماشا پولیس و رینجرز کے وہ جعلی چھاپے ہیں جن میں کوئی ہلاکو اور چنگیز پکڑا نہیں جاتا۔
لیاری کے علاقے میں مظالم کا یہ ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ ان واقعات کا تسلسل تھا جس میں نوجوانوں کے گروہ ایک دوسرے کے سر قلم کرکے بدترین تشدد کا مظاہرہ کرتے تھے، عوام تو یرغمال اور مجبور تھے لیکن ریاستی ادارے خاص کر حکومت وقت نہ جانے کیوں لیاری کے باشندوں کو روٹی، کپڑا، مکان اور تعلیم و صحت کا اچھا ماحول دینے کے بجائے انھیں وقت کے چنگیز اور ہلاکو خان کے حوالے کر رہی تھی، شاید پانچ سال تک جمہوریت کو ملک میں اسی طرح قائم رکھنا تھا؟ ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والی عوام کی طرح لیاری کے عوام نے پانچ سال جمہوریت کو اس طرح برداشت تو کرلیا لیکن شاید اب اس کی قیمت چکانے کا وقت آگیا ہے۔
راقم نے گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر عوامی رائے سے متعلق پروگرام دیکھا جس میں میزبان خاتون مائیک ہاتھ میں لیے لیاری کے گلی کوچوں میں عوام سے ان کی حالت زار پر بھی بات کر رہی تھیں اور گزشتہ پانچ سال میں حکومتی نمایندوں کی کارکردگی خصوصاً ان علاقوں کے منتخب نمایندوں کی کارکردگی پر بات کر رہی تھیں۔
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جو انٹرویو گلی کوچوں میں ریکارڈ کرکے ٹی وی چینل پر دکھائے گئے وہ صد فی صد رائے عامہ کو ظاہر کر رہے تھے البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس عمل سے رائے عامہ کی ایک بڑی تعداد کے رجحانات کا بخوبی اندازہ ہوگیا۔ اس انٹرویو میں تقریباً تمام ہی لوگوں نے گزشتہ حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنایا بلکہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو اپنے گزشتہ منتخب نمایندوں سے سخت نالاں تھی اور ان کا کہنا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے اس مرتبہ انتخابات میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔
جب خاتون اینکر نے یہ سوال کیا کہ کیا وہ بلاول بھٹو کو بھی ووٹ نہیں دیں گے تو ایک صاحب نے حیران کن مگردلچسپ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے تو اپنے نمایندے کو ڈیفنس کی کوٹھیوں میں تلاش کرتے تھے کہ وہ ہمارے مسائل حل کرے اب بلاول کو ووٹ دے کر کیا ہم بیرون ملک اسے تلاش کریں گے؟ لہٰذا اب ہم اسے ہی ووٹ دیں گے جو لیاری ہی میں رہے گا کہیں اور شفٹ نہیں ہوگا۔
لیاری کراچی کا پاکستان بھر میں پاکستان پیپلزپارٹی کا سب سے مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے جہاں سے صرف پاکستان پیپلزپارٹی کا ہی امیدوار جیتتا ہے لیکن مسائل اور ظلم وستم سے تنگ آکر لیاری کے باسیوں کی ایک وسیع رائے عامہ اپنے ووٹ کے لیے بغاوت کا اعلان کررہی ہے۔ ان کا یہ فیصلہ غلط ہو یا صحیح لیکن تبدیلی کی طرف ضرور جاتا ہے اور تبدیلی سے ہی حالات بدلتے ہیں چنانچہ اگر اس مرتبہ لیاری کے عوام نے ووٹ کی بغاوت کی تو لیاری میں یقیناً تبدیلی آئے گی لیکن یہ تبدیلی اس بات پر بھی منحصر ہوگی کہ وہ متبادل کے طور پر کتنے باکردار شخص کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیاری کے عوام غالباً شاعر کا یہ پیغام سمجھ گئے ہیں کہ :
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
لیاری کے عوام کی جانب سے ملک کے باقی ماندہ ووٹرز کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ اگر وہ اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں تو ''ووٹ کی بغاوت'' کا راستہ اپنائیں۔ اگر ملک کے عوام واقعی ووٹ کی بغاوت کے لیے آمادہ ہوجائیں اور ووٹ کے فیصلے کے لیے ذات، برادری، زبان، صوبہ پرستی اور ذاتی مفادات کے بجائے صرف اور صرف بہتر سے بہتر کردار کے حامل امیدوار شخص کو تلاش کریں تو ووٹ کی بغاوت ملک میں بڑی تبدیلی لاسکتی ہے۔ بے شک جمہوریت بہترین انتقام ہے، لیکن اس سے بھی بڑا ''ووٹ کا انتقام'' ہے۔
کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں عوام کو چار پانچ برسوں کے بعد ہی موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعتوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے مسائل کی طرف متوجہ کرسکے، منتخب ہونے کے بعد پانچ برسوں تک عوام بے بس و لاچار ہوکر حکومت وقت کی جانب دیکھتے ہیں۔ لہٰذا دانشمندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ووٹ دیتے وقت ایسی صورتحال پیدا کردی جائے کہ ووٹ لینے والے کو اس طویل عرصے کے دوران یہ احساس رہے کہ ووٹر اپنا فیصلہ آیندہ بدل سکتا ہے، اپنے قیمتی ووٹ کو کسی ایک جماعت کی جھولی میں اس طرح ڈال دینا کہ امیدوار پہلے ہی مطمئن ہوجائے کہ اس نے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنی ہی کرنی ہے تو بھلا اسے اپنے ووٹر کے مسائل سے کیا غرض ہوسکتی ہے۔
یہ صورتحال لیاری والوں کے ساتھ ایک عرصے سے جاری رہی ہے اسی لیے لیاری کے باسی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے آج بھی محروم ہیں۔ شاید لیاری سے اس مرتبہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی جیت جائے لیکن لیاری کے عوام کی جانب سے ووٹ کے نام پر بغاوت کا اعلان اور انتخابی مقابلے کو مزید کانٹے کا بنانے سے اس قدر خوش کن ضرور ہو سکے گا کہ آیندہ لیاری کے نمایندے اپنے حلقے کی رائے عامہ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکیں گے۔
پاکستان بھر کے ایسے حلقوں کے ووٹرز جو اپنے اپنے سابقہ منتخب امیدواروں سے سخت نالاں ہوں وہ بھی لیاری کے باسیوں کے اس عمل کو اپنا کر ایک نیا تجربہ کر سکتے ہیں، ویسے بھی ہمارے سیاستدانوں نے نجانے کتنے تجربات کرکے ملک و قوم کا حشر نشر کردیا ہے اگر ہمارے ووٹر اس بار ان کا حشر نشر کردیں تو ذرایع ابلاغ کو بھی ان کا یہ حال نشر کرنے کا سنہری موقع میسر آجائے گا۔ کہتے ہیں کہ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ راقم کا کام تجزیہ کرنا اور مشورہ دینا تھا اب یہ عوام کی مرضی ہے کہ وہ اپنی اس '' حشر گاہ'' سے نکلنے کی کس قدر اور کیسی کوشش کرتے ہیں۔
وقت کے چنگیز خان اور ہلاکو خان ہر دور میں مل جاتے ہیں، ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس خیال سے اتفاق نہ کریں، مگر کراچی شہر میں اس سے کچھ مختلف نہیں ہوا۔ یہ ابھی حال ہی کی بات ہے جب ایک نہیں کئی اخبارات نے خبر دی کہ لیاری کے ایک بدنام زمانہ شخص کو اس کے چند ساتھیوں سمیت مخالف گروہ نے دن دہاڑے پکڑ کر سرعام تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے علاقے میں گھمایا اور سر قلم کرکے لاشیں تک جلادیں۔
غور کیجیے ،ہم روشنیوں کے نام نہاد شہر میں ایک غریب علاقے کا درد انگیز اور ہولناک منظر نامہ دکھا رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ مارنے اور قتل ہونے والے افراد ظالم تھے یا مظلوم، بہیمانہ تشدد کا جس طرح سے کھلے عام اظہار کیا گیا اس سے نہ صرف چنگیز اور ہلاکو خان کی یاد ذہن میں تازہ ہوگئی بلکہ یہ احساس بھی ہوا کہ اس عہد کے چنگیز اور ہلاکو خان کس قدر مضبوط ہیں اور ریاستی ادارے کس قدر بے حس و مجبور ہیں کہ وہ ایک عام شہری کی طرح تماشا دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔بڑا تماشا پولیس و رینجرز کے وہ جعلی چھاپے ہیں جن میں کوئی ہلاکو اور چنگیز پکڑا نہیں جاتا۔
لیاری کے علاقے میں مظالم کا یہ ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ ان واقعات کا تسلسل تھا جس میں نوجوانوں کے گروہ ایک دوسرے کے سر قلم کرکے بدترین تشدد کا مظاہرہ کرتے تھے، عوام تو یرغمال اور مجبور تھے لیکن ریاستی ادارے خاص کر حکومت وقت نہ جانے کیوں لیاری کے باشندوں کو روٹی، کپڑا، مکان اور تعلیم و صحت کا اچھا ماحول دینے کے بجائے انھیں وقت کے چنگیز اور ہلاکو خان کے حوالے کر رہی تھی، شاید پانچ سال تک جمہوریت کو ملک میں اسی طرح قائم رکھنا تھا؟ ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والی عوام کی طرح لیاری کے عوام نے پانچ سال جمہوریت کو اس طرح برداشت تو کرلیا لیکن شاید اب اس کی قیمت چکانے کا وقت آگیا ہے۔
راقم نے گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر عوامی رائے سے متعلق پروگرام دیکھا جس میں میزبان خاتون مائیک ہاتھ میں لیے لیاری کے گلی کوچوں میں عوام سے ان کی حالت زار پر بھی بات کر رہی تھیں اور گزشتہ پانچ سال میں حکومتی نمایندوں کی کارکردگی خصوصاً ان علاقوں کے منتخب نمایندوں کی کارکردگی پر بات کر رہی تھیں۔
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جو انٹرویو گلی کوچوں میں ریکارڈ کرکے ٹی وی چینل پر دکھائے گئے وہ صد فی صد رائے عامہ کو ظاہر کر رہے تھے البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس عمل سے رائے عامہ کی ایک بڑی تعداد کے رجحانات کا بخوبی اندازہ ہوگیا۔ اس انٹرویو میں تقریباً تمام ہی لوگوں نے گزشتہ حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنایا بلکہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو اپنے گزشتہ منتخب نمایندوں سے سخت نالاں تھی اور ان کا کہنا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے اس مرتبہ انتخابات میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔
جب خاتون اینکر نے یہ سوال کیا کہ کیا وہ بلاول بھٹو کو بھی ووٹ نہیں دیں گے تو ایک صاحب نے حیران کن مگردلچسپ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے تو اپنے نمایندے کو ڈیفنس کی کوٹھیوں میں تلاش کرتے تھے کہ وہ ہمارے مسائل حل کرے اب بلاول کو ووٹ دے کر کیا ہم بیرون ملک اسے تلاش کریں گے؟ لہٰذا اب ہم اسے ہی ووٹ دیں گے جو لیاری ہی میں رہے گا کہیں اور شفٹ نہیں ہوگا۔
لیاری کراچی کا پاکستان بھر میں پاکستان پیپلزپارٹی کا سب سے مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے جہاں سے صرف پاکستان پیپلزپارٹی کا ہی امیدوار جیتتا ہے لیکن مسائل اور ظلم وستم سے تنگ آکر لیاری کے باسیوں کی ایک وسیع رائے عامہ اپنے ووٹ کے لیے بغاوت کا اعلان کررہی ہے۔ ان کا یہ فیصلہ غلط ہو یا صحیح لیکن تبدیلی کی طرف ضرور جاتا ہے اور تبدیلی سے ہی حالات بدلتے ہیں چنانچہ اگر اس مرتبہ لیاری کے عوام نے ووٹ کی بغاوت کی تو لیاری میں یقیناً تبدیلی آئے گی لیکن یہ تبدیلی اس بات پر بھی منحصر ہوگی کہ وہ متبادل کے طور پر کتنے باکردار شخص کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیاری کے عوام غالباً شاعر کا یہ پیغام سمجھ گئے ہیں کہ :
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
لیاری کے عوام کی جانب سے ملک کے باقی ماندہ ووٹرز کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ اگر وہ اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں تو ''ووٹ کی بغاوت'' کا راستہ اپنائیں۔ اگر ملک کے عوام واقعی ووٹ کی بغاوت کے لیے آمادہ ہوجائیں اور ووٹ کے فیصلے کے لیے ذات، برادری، زبان، صوبہ پرستی اور ذاتی مفادات کے بجائے صرف اور صرف بہتر سے بہتر کردار کے حامل امیدوار شخص کو تلاش کریں تو ووٹ کی بغاوت ملک میں بڑی تبدیلی لاسکتی ہے۔ بے شک جمہوریت بہترین انتقام ہے، لیکن اس سے بھی بڑا ''ووٹ کا انتقام'' ہے۔
کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں عوام کو چار پانچ برسوں کے بعد ہی موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعتوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے مسائل کی طرف متوجہ کرسکے، منتخب ہونے کے بعد پانچ برسوں تک عوام بے بس و لاچار ہوکر حکومت وقت کی جانب دیکھتے ہیں۔ لہٰذا دانشمندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ووٹ دیتے وقت ایسی صورتحال پیدا کردی جائے کہ ووٹ لینے والے کو اس طویل عرصے کے دوران یہ احساس رہے کہ ووٹر اپنا فیصلہ آیندہ بدل سکتا ہے، اپنے قیمتی ووٹ کو کسی ایک جماعت کی جھولی میں اس طرح ڈال دینا کہ امیدوار پہلے ہی مطمئن ہوجائے کہ اس نے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنی ہی کرنی ہے تو بھلا اسے اپنے ووٹر کے مسائل سے کیا غرض ہوسکتی ہے۔
یہ صورتحال لیاری والوں کے ساتھ ایک عرصے سے جاری رہی ہے اسی لیے لیاری کے باسی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے آج بھی محروم ہیں۔ شاید لیاری سے اس مرتبہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی جیت جائے لیکن لیاری کے عوام کی جانب سے ووٹ کے نام پر بغاوت کا اعلان اور انتخابی مقابلے کو مزید کانٹے کا بنانے سے اس قدر خوش کن ضرور ہو سکے گا کہ آیندہ لیاری کے نمایندے اپنے حلقے کی رائے عامہ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکیں گے۔
پاکستان بھر کے ایسے حلقوں کے ووٹرز جو اپنے اپنے سابقہ منتخب امیدواروں سے سخت نالاں ہوں وہ بھی لیاری کے باسیوں کے اس عمل کو اپنا کر ایک نیا تجربہ کر سکتے ہیں، ویسے بھی ہمارے سیاستدانوں نے نجانے کتنے تجربات کرکے ملک و قوم کا حشر نشر کردیا ہے اگر ہمارے ووٹر اس بار ان کا حشر نشر کردیں تو ذرایع ابلاغ کو بھی ان کا یہ حال نشر کرنے کا سنہری موقع میسر آجائے گا۔ کہتے ہیں کہ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ راقم کا کام تجزیہ کرنا اور مشورہ دینا تھا اب یہ عوام کی مرضی ہے کہ وہ اپنی اس '' حشر گاہ'' سے نکلنے کی کس قدر اور کیسی کوشش کرتے ہیں۔