کل کےلیے آج کا دن خراب نہ کیجیے
اگر آپ اپنا آج کا دن بہترین گزاریں گے تو آپکا ماضی بھی اچھا ہوجائے گا اور مستقبل میں بھی بہتری کی امید ہوجائیگی
چین کی تاریخی کتابوں کا مطالعہ کریں تو پر لطف زندگی گزارنے اور خوش رہنے کے طریقوں کے حوالے سے بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ لیکن ایک واقعہ ایسا ہے جس کا ذکر بارہا کیا گیا ہے۔ آج کے بلاگ میں اسی کا ذکر کروں گا۔
چین کے بادشاہی دور حکومت میں ایک وزیر کو کسی جرم کی پاداش میں پھانسی کی سزا سنادی گئی۔ چین میں رواج تھا کہ جب بھی کسی وزیر کو پھانسی گھاٹ پر چڑھانا ہوتا تو پھانسی دینے سے قبل بادشاہ، وزیر سے ملنے جاتا تھا اور اس سے آخری خواہش پوچھتا تھا۔ حسب روایت بادشاہ اپنی گھوڑی پر سوار ہوا اور وزیر سے ملاقات کرنے چلا گیا۔
پھانسی دینے سے قبل بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ بتاؤ تمھاری آخری خواہش کیا ہے؟ وزیر خوش تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نہیں تھے۔ اس نے کہا کہ میری کوئی آخری خواہش نہیں ہے۔ وزیر نے بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ جس گھوڑی پر تشریف لائے ہیں یہ آپ نے کہاں سے خریدی ہے؟ بادشاہ نے بتایا کہ دوست ملک کے بادشاہ نے مجھے یہ گھوڑی تحفے میں دی ہے۔ وزیر نے کہا کہ آپ کی یہ گھوڑی بہت شاندار، خوبصورت اور نایاب نسل کی ہے۔ اس گھوڑی میں اڑنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ بادشاہ نے کہا لیکن یہ تو کبھی نہیں اڑی۔ وزیر نے جواب دیا کہ اسے اڑنا سکھانا پڑے گا۔ اس کی تربیت کرنی ہوگی۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اسے اڑنے کی تربیت کون دے گا۔ وزیر نے کہا کہ میں اسے اڑنے کی تربیت دوں گا۔ بادشاہ نے پوچھا کتنا وقت لگے گا؟ وزیر نے جواب دیا چھ ماہ لگیں گے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ وزیر کی سزائے موت چھ ماہ کےلیے مؤخر کر دی جائے اور یہ گھوڑی بھی اس کے حوالے کر دی جائے۔
جب وزیر گھوڑی پر سوار ہو کر اپنے گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے صف ماتم بچھائی ہوئی تھی کہ آج میرے شوہر کو پھانسی ہوجائے گی۔ شوہر نے بیوی کو ساری کہانی سے آگاہ کیا کہ گھوڑی اڑ نہیں سکتی۔ میں نے اپنی جان بچانے کےلیے بادشاہ کو جھوٹی تسلی دی ہے تو بیوی نے پھر گریہ زاری شروع شروع کر دی کہ ہائے ''تمھیں چھ ماہ بعد پھانسی ہو جائے گی۔ ہائے میں لٹ گئی! ہائے میں برباد ہوگئی۔''
وزیر نے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تم کل کے بارے میں سوچ کر آج کا دن کیوں برباد کررہی ہو؟ کل کیا ہونا ہے یہ اللہ جانتا ہے۔ اگر آج اللہ کو میری جان بچائی ہے تو وہ کل بھی بچا سکتا ہے۔ لہذا خوش رہو۔ زندگی کا لطف اٹھاؤ۔ کھاؤ، پیو، گھومو اور عیش کرو۔ بلکہ تم مرے ساتھ چلو۔ شاہی گھوڑی میرے پاس ہے۔ میں تمھیں وہ مناظر بھی دکھا کر لاتا ہوں جو آج تک ہم نے نہیں دیکھے ہیں۔
بیوی نے کہا کہ تم پاگل ہوگئے ہو۔ چھ ماہ بعد تمھیں پھانسی ہو جائے گی اور تم خوش رہنے اور گھومنے پھرنے کی باتیں کر رہے ہو۔ وزیر نے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ خدا پر یقین رکھو۔ اگر میری موت طے ہے تو تمھارے رونے سے رک نہیں سکتی اور اگر میری زندگی ابھی باقی ہے تو مجھے موت نہیں آسکتی۔ جو وقت اللہ نے ہمیں دیا ہے اسے رونے کے بجائے خوش رہ کر گزارتے ہیں۔ لیکن بیوی نے اس کی ایک نہ سنی۔ وزیر نے کہا کہ میری بیوی تو بیوقوف ہے لہذا اس نے بیوی کو چھوڑا اور دنیا کی سیر کےلیے نکل گیا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس نے وہ جگہیں بھی دیکھیں جن کے بارے میں وہ صرف سوچا کرتا تھا اور شاہی گھوڑی کی وجہ سے لوگ اس کی عزت بھی کرتے تھے۔ وہ جگہ جگہ کے کھانے کھاتا، لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آتا، حقوق العباد کا خیال کرتا، لوگوں کو اپنی ذات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ دینے کی کوشش کرتا، خدا کا شکر ادا کرتا اور زندگی کا ہر دن آخری دن سمجھ کر گزارتا تھا۔
چار ماہ بعد وزیر کو اطلاع ملی کہ ملک پر دشمنوں نے حملہ کر دیا ہے۔ حملے میں بادشاہ مارا گیا ہے اور اس کی بیوی بھی شوہر کی چھ ماہ بعد متوقع موت کے صدمے سے مر چکی ہے۔ لہذا اب وہ شاہی گھوڑی کا مالک تھا۔ اسے سزائے موت سنانے والا بادشاہ مر چکا تھا اور اس کی متوقع سزائے موت پر ماتم کرنے والی بیوی بھی مرچکی تھی۔ لیکن وہ زندہ تھا اور خوش بھی تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس کی خوشی کی وجہ اس کا اس بات پر یقین تھا کہ آنے والے کل کے بارے میں سوچ کر آج کا دن خراب نہیں کرناچاہیے۔
آپ اس واقعے کا بغور جائزہ لیں گے تو آپ بھی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ کل کے بارے میں سوچ کر آج کا دن خراب نہیں کرناچاہیے۔ وقت کا کام ہی گزرنا اور گزرتے رہنا ہے؛ سو وہ گزر ہی جائے گا۔ لیکن یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ وہ وقت کیسے گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ رو کر، ماتم کرکے اور گریہ زاری میں وقت گزارتے ہیں تو وہ وقت بری یادوں کا حصہ ہوگا اور اگر آپ وہی وقت خوش رہ کر، خدا پر بھروسہ رکھ کر گزارتے ہیں تو وہ زندگی کی سنہری یادوں کا حصہ ہوگا۔
لیکن زندگی گزارنے کا یہ طریقہ اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک اللہ پر آپ کا ایمان پختہ نہ ہو۔ جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ اللہ نے انسان کو آنے والے وقت کی خبر نہ دے کر اضطراب سے بچایا ہے۔ جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ آپ کا آج ہی سب کچھ ہے۔ اگر آپ اپنے آج کے دن کو بہترین گزاریں گے تو آپ کا ماضی بھی اچھا ہوجائے گا اور مستقبل میں بھی بہتری کی امید ہوجائے گی۔ لیکن اگر آپ آج کا دن برباد کر تے رہیں گے تو آپ کا ماضی بھی تاریک رہے گا، حال بھی برا رہے گا اور مستقبل میں بہتری کی بھی کوئی امید نہیں بن سکے گی۔ لہذا اپنے آج کو بہتر بنائیں کل خودبخود بہتر ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
چین کے بادشاہی دور حکومت میں ایک وزیر کو کسی جرم کی پاداش میں پھانسی کی سزا سنادی گئی۔ چین میں رواج تھا کہ جب بھی کسی وزیر کو پھانسی گھاٹ پر چڑھانا ہوتا تو پھانسی دینے سے قبل بادشاہ، وزیر سے ملنے جاتا تھا اور اس سے آخری خواہش پوچھتا تھا۔ حسب روایت بادشاہ اپنی گھوڑی پر سوار ہوا اور وزیر سے ملاقات کرنے چلا گیا۔
پھانسی دینے سے قبل بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ بتاؤ تمھاری آخری خواہش کیا ہے؟ وزیر خوش تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نہیں تھے۔ اس نے کہا کہ میری کوئی آخری خواہش نہیں ہے۔ وزیر نے بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ جس گھوڑی پر تشریف لائے ہیں یہ آپ نے کہاں سے خریدی ہے؟ بادشاہ نے بتایا کہ دوست ملک کے بادشاہ نے مجھے یہ گھوڑی تحفے میں دی ہے۔ وزیر نے کہا کہ آپ کی یہ گھوڑی بہت شاندار، خوبصورت اور نایاب نسل کی ہے۔ اس گھوڑی میں اڑنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ بادشاہ نے کہا لیکن یہ تو کبھی نہیں اڑی۔ وزیر نے جواب دیا کہ اسے اڑنا سکھانا پڑے گا۔ اس کی تربیت کرنی ہوگی۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اسے اڑنے کی تربیت کون دے گا۔ وزیر نے کہا کہ میں اسے اڑنے کی تربیت دوں گا۔ بادشاہ نے پوچھا کتنا وقت لگے گا؟ وزیر نے جواب دیا چھ ماہ لگیں گے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ وزیر کی سزائے موت چھ ماہ کےلیے مؤخر کر دی جائے اور یہ گھوڑی بھی اس کے حوالے کر دی جائے۔
جب وزیر گھوڑی پر سوار ہو کر اپنے گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے صف ماتم بچھائی ہوئی تھی کہ آج میرے شوہر کو پھانسی ہوجائے گی۔ شوہر نے بیوی کو ساری کہانی سے آگاہ کیا کہ گھوڑی اڑ نہیں سکتی۔ میں نے اپنی جان بچانے کےلیے بادشاہ کو جھوٹی تسلی دی ہے تو بیوی نے پھر گریہ زاری شروع شروع کر دی کہ ہائے ''تمھیں چھ ماہ بعد پھانسی ہو جائے گی۔ ہائے میں لٹ گئی! ہائے میں برباد ہوگئی۔''
وزیر نے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تم کل کے بارے میں سوچ کر آج کا دن کیوں برباد کررہی ہو؟ کل کیا ہونا ہے یہ اللہ جانتا ہے۔ اگر آج اللہ کو میری جان بچائی ہے تو وہ کل بھی بچا سکتا ہے۔ لہذا خوش رہو۔ زندگی کا لطف اٹھاؤ۔ کھاؤ، پیو، گھومو اور عیش کرو۔ بلکہ تم مرے ساتھ چلو۔ شاہی گھوڑی میرے پاس ہے۔ میں تمھیں وہ مناظر بھی دکھا کر لاتا ہوں جو آج تک ہم نے نہیں دیکھے ہیں۔
بیوی نے کہا کہ تم پاگل ہوگئے ہو۔ چھ ماہ بعد تمھیں پھانسی ہو جائے گی اور تم خوش رہنے اور گھومنے پھرنے کی باتیں کر رہے ہو۔ وزیر نے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ خدا پر یقین رکھو۔ اگر میری موت طے ہے تو تمھارے رونے سے رک نہیں سکتی اور اگر میری زندگی ابھی باقی ہے تو مجھے موت نہیں آسکتی۔ جو وقت اللہ نے ہمیں دیا ہے اسے رونے کے بجائے خوش رہ کر گزارتے ہیں۔ لیکن بیوی نے اس کی ایک نہ سنی۔ وزیر نے کہا کہ میری بیوی تو بیوقوف ہے لہذا اس نے بیوی کو چھوڑا اور دنیا کی سیر کےلیے نکل گیا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس نے وہ جگہیں بھی دیکھیں جن کے بارے میں وہ صرف سوچا کرتا تھا اور شاہی گھوڑی کی وجہ سے لوگ اس کی عزت بھی کرتے تھے۔ وہ جگہ جگہ کے کھانے کھاتا، لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آتا، حقوق العباد کا خیال کرتا، لوگوں کو اپنی ذات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ دینے کی کوشش کرتا، خدا کا شکر ادا کرتا اور زندگی کا ہر دن آخری دن سمجھ کر گزارتا تھا۔
چار ماہ بعد وزیر کو اطلاع ملی کہ ملک پر دشمنوں نے حملہ کر دیا ہے۔ حملے میں بادشاہ مارا گیا ہے اور اس کی بیوی بھی شوہر کی چھ ماہ بعد متوقع موت کے صدمے سے مر چکی ہے۔ لہذا اب وہ شاہی گھوڑی کا مالک تھا۔ اسے سزائے موت سنانے والا بادشاہ مر چکا تھا اور اس کی متوقع سزائے موت پر ماتم کرنے والی بیوی بھی مرچکی تھی۔ لیکن وہ زندہ تھا اور خوش بھی تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس کی خوشی کی وجہ اس کا اس بات پر یقین تھا کہ آنے والے کل کے بارے میں سوچ کر آج کا دن خراب نہیں کرناچاہیے۔
آپ اس واقعے کا بغور جائزہ لیں گے تو آپ بھی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ کل کے بارے میں سوچ کر آج کا دن خراب نہیں کرناچاہیے۔ وقت کا کام ہی گزرنا اور گزرتے رہنا ہے؛ سو وہ گزر ہی جائے گا۔ لیکن یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ وہ وقت کیسے گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ رو کر، ماتم کرکے اور گریہ زاری میں وقت گزارتے ہیں تو وہ وقت بری یادوں کا حصہ ہوگا اور اگر آپ وہی وقت خوش رہ کر، خدا پر بھروسہ رکھ کر گزارتے ہیں تو وہ زندگی کی سنہری یادوں کا حصہ ہوگا۔
لیکن زندگی گزارنے کا یہ طریقہ اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک اللہ پر آپ کا ایمان پختہ نہ ہو۔ جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ اللہ نے انسان کو آنے والے وقت کی خبر نہ دے کر اضطراب سے بچایا ہے۔ جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ آپ کا آج ہی سب کچھ ہے۔ اگر آپ اپنے آج کے دن کو بہترین گزاریں گے تو آپ کا ماضی بھی اچھا ہوجائے گا اور مستقبل میں بھی بہتری کی امید ہوجائے گی۔ لیکن اگر آپ آج کا دن برباد کر تے رہیں گے تو آپ کا ماضی بھی تاریک رہے گا، حال بھی برا رہے گا اور مستقبل میں بہتری کی بھی کوئی امید نہیں بن سکے گی۔ لہذا اپنے آج کو بہتر بنائیں کل خودبخود بہتر ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔