کرنٹ اکائونٹ… نامہ اعمال
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے درآمدی پہلوکی طرف، درآمدات درحقیقت طلب کی عکاس ہوتی ہیں۔
KARACHI:
سیاستدان چالاک ہوتے ہیں وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں کیونکہ وہ ہر طرح کے حالات کا رخ اپنے حق میں موڑنے کا گر جانتے ہیں، جب ایکسپورٹ گر رہی تھی توکہتے تھے یہ عالمی کساد بازاری کا نتیجہ ہے اور جب بڑھنے لگی تو کہتے ہیں یہ حکومتی اقدامات کا ثمر ہے، اب کوئی پوچھے کہ ایسے کیااقدامات آپ نے کیے کہ ایکسپورٹ بحال ہونے لگی، برآمدکنندگان اور صنعت کاروں کا سب سے بڑا مطالبہ بجلی وگیس کی سستے نرخوں پر بلاتعطل فراہمی ہے۔
پانچ سال گزر گئے لیکن اس معاملے پر پیشرفت صفر، ٹیکسوں کو معقول بنانا دوسرا مطالبہ، یہاں معاملہ الٹ ہے، ریفنڈزکی فراہمی تیسرا بڑا مطالبہ، اس معاملے میں بھی بڑے دعوے مگرکام سرخ فیتہ یعنی سرکاری کام میں آسانی چوتھا بڑا مطالبہ، اس کا جواب بھی دعوے اور زمینی حقائق بالکل مختلف، آڈٹ پرآڈٹ، بدعنوانی، سست روی، چھاپے، پکڑ دھکڑ، کاغذی کارروائیوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
اس کے مقابلے میں حکومت برابرگیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھا رہی ہے،کبھی ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے تو کبھی ٹیکس کم کرنے کے بجائے پٹرولیم مصنوعات مہنگی کر دی جاتی ہیں اورکبھی روپے کی قدر گرادی جاتی ہے، مختلف اسکیموں کے ذریعے برآمدات بڑھانے کے لیے سبسڈی کے اعلانات لیکن کلیمز داخل کر کے لگ جا بیٹا لائن میں، کبھی تو نکل ہی آئے گی۔
پھر مارکیٹ میں مسابقت کے نام پر بار بار دخل دیا جاتاہے اور مسابقت کی ہی ایسی تیسی کردی جاتی ہے، اب دیکھیے نہ کہ آٹو سیکٹر کو سیدھا کرنے کے لیے ٹیڑھی انگلی سے گھی بصورت پرانی گاڑیوں کی درآمد نکالا جا رہا ہے اور پھر ڈیلرزکو سیدھا کرنے کیلیے درآمدی عمل سخت کر دیا جاتا ہے، اس سے ٹرمینل آپریٹرز جیسے بعض پلیئرز کی چاندی ہو گئی اور ایک محکمے کی ساری انگلیاں گھی میں اور سرکڑھائی میں، سمجھ تو گئے ہوں گے آپ، یہ ہے حکومت کے معاشی ترقی کے اقدامات، تو اس کا پھل کیسے میٹھا ہوگا بات اس مثال کی طرح سیدھی ہے کہ جب آدمی گرجائے تو پھر اس کے پاس گنوانے کے لیے کیا رہ جاتا ہے اس لیے کہ وہ مزید نیچے نہیں جا سکتا، اس لیے اٹھنے کے لیے جب وہ کوئی حرکت کرتا ہے تو یہ اس کی بحالی کہلاتی ہے، ہماری برآمدات بھی اس قدر گریں کہ اب مزید کھونے کے لیے کچھ نہیں رہ گیا تھا اورچونکہ تہہ یاپیندے کو لگی چیزکی طرح مزید نیچے نہیں جا سکتی تھیں اس لیے ایکسپورٹ کو تو بڑھنا ہی تھا، لیکن ہر دو صورتوں میں اقتدار کے سوداگروں نے اعدادوشمار کو خوب استعمال کیا اور خوب سیاست کمائی، واہ واہ ... واہ واہ... واہ واہ...
آج کل کرنٹ اکاؤنٹ پر بڑی لے دے ہو رہی ہے، چلیے جانتے ہیں کہ یہ ہے کیا بلا۔
کرنٹ اکاؤنٹ ملک کی مالیاتی سرحد ہے جہاں سے بیرون ملک سے لین دین ہوتا ہے، یہ صرف تجارت نہیں بلکہ ہرقسم کے زرمبادلہ میں لین دین کا احاطہ کرتا ہے، غرض یہ ڈالرکی دوطرفہ گزرگاہ ہے، خسارے کا مطلب ہے کہ ملک سے ڈالر زیادہ باہر گئے اور آئے کم، فاضل اس کا الٹ ہے یعنی ڈالر زیادہ آئے اورگئے کم،کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں جانے سے کیا ہوسکتا ہے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائے اوراس کا نتیجہ بھی اسی طرح کا نکلے گا جب کوئی کمائی سے زیادہ خرچ کرے یعنی ملک مقروض ہو جائے گا اور جس قدرتیزی کے ساتھ اور زیادہ خسارہ ہوگا اتنی تیزی کے ساتھ اور زیادہ قرض بھی ہوگا۔
گویا ہماری مالیاتی ذمے داریاں زیادہ ہیں اورہم انھیں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے، اس کے لیے ہمیں قرض لے کریہ ذمے داریاں پوری کرنی پڑتی ہیں، اس تناظر میں موجودہ حالات پر نظررکھی جائے تو بلند شرح نمو یا ترقی کی گزشتہ 10 سال کی سب سے زیادہ شرح کا کیا فائدہ؟ اگر ملکی معیشت بہت تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے تواسی تیزی کے ساتھ آمدنی بھی بڑھنی چاہیے اور حکومت سمیت ہر ایک کی بڑھنی چاہیے یعنی عوام تک اس کا فائدہ پہنچنا چاہیے اور حکومتی خزانہ بھی بھرا ہونا چاہیے، آمدنی زیادہ ہوگی تو حکومت کو قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر یہاں ایسا نہیں تو پھر اس ترقی پر ہے سوالیہ نشان؟ گویا یہ حقیقی ترقی نہیں، تمام اشاریے ایک دوسرے کا تسلسل نہیں بلکہ متصادم ہیں یعنی کہیں کچھ غلط ہے۔
یہاں بتایا جا رہا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مشینری، آلات اور پٹرولیم مصنوعات کی زیادہ درآمدات کی وجہ سے بڑھ رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ برآمدات میں کمی بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ 2013-14ء میں برآمدات 25ارب ڈالر سے زیادہ تھیں جو گزشتہ سال کے اختتام پر 20ارب ڈالر رہ گئیں یعنی 2007-08ء کی سطح پر پہنچ گئیں (دلچسپ بات،معاشی ترقی 10 سال کی بلند ترین سطح پر اوربرآمدات 10سال کی کم ترین سطح پر) ان 4 یا 5 سال میں برآمدات اوسطاً ایک ارب ڈالر (ماہانہ صرف 8.5کروڑ ڈالر) بھی بڑھتیں تو 4سے 5 ارب ڈالر اضافہ ہوتا ، اس طرح کمی اور ممکنہ اضافہ ملا کر مجموعی نقصان9 سے 10ارب ڈالر ہوا، اس حساب سے اگر ہماری ایکسپورٹ گزشتہ مالی سال 20 کے بجائے29 سے 30ارب ڈالر ہوتی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ سال ساڑھے12 کے بجائے محض ڈھائی سے ساڑھے3 ارب ڈالر ہوتا، اس صورت میں زرمبادلہ ذخائر کم ہوتے نہ بڑے پیمانے پر قرضے لینے کی ضرورت پڑتی مگر صرف ایکسپورٹ پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور یہ بس اتنا نہیں کہ لکھ دیا اور بات ختم بلکہ اس کے معاشرے پر بڑے منفی اور وسیع اثرات مرتب ہوئے جس سے حکومت سمیت تمام شعبے متاثر ہوئے۔
ایکسپورٹ میں ممکنہ9سے10ارب ڈالر کی کمی کا مطلب برآمدی آمدنی میں کھربوں روپے کی کمی ہے، بات یہاں رکی نہیں بلکہ آمدنی میں یہ کھربوں روپے کی کمی پاکستانی اشیا کی طلب میں کمی کاآئینہ ہے، جب اشیا کی طلب کمی ہوئی تو فیکٹریوں نے اشیا کم بنائی ہوں گی یعنی فیکٹریوں میں جو کام پہلے تین شفٹوں میں ہو رہاتھا اب اس سے کم شفٹوں میں ہو رہا ہوگا اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ کام پہلے سے کم لوگوں نے کیا ہوگا یعنی لوگ بیروزگار ہوئے، شفٹیں ہی نہیں بلکہ بعض فیکٹریاں بھی بند ہوئی ہوں گی۔
کچھ اپنی بقا کے لیے بیرون ملک منتقل ہوئی ہوں گی یعنی بیروزگاری پھیلی، لوگوں کی آمدنی میں کمی، ان کے معیار زندگی کے خراب ہونے اور ملک میں غربت پھیلنے کو ثابت کرتی ہے، صنعتوں کی حالت اگر یہ ہو تو زرعی شعبے کا بھی حال ایسا ہی ہوگا کیونکہ ہماری اہم صنعت زراعت پرمبنی ہے، پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا انحصار روئی پر ہے، لیدر سیکٹر کا تعلق لائیواسٹاک پر ہے،گنے کے کاشت کار پریشان ہیں کہ ملرز خریدتے نہیں، ادائیگیاں نہیں کرتے، پھٹی کے دام بھی محنت کا صلہ نہیں، کاشت کار کی آمدنی متاثر ہونے کا مطلب ملک کی بڑی آبادی کا متاثر ہونا ہے، اگر صنعتی وزرعی شعبہ دگرگوں ہے تو معاشی ترقی کی رفتار کیسے بڑھ رہی ہے۔
اب آتے ہیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے درآمدی پہلوکی طرف، درآمدات درحقیقت طلب کی عکاس ہوتی ہیں، اگر درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ مقامی ڈیمانڈ تیزی سے بڑھ رہی ہے جو ٹھوس معاشی ترقی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے مگر چونکہ ایکسپورٹ گری تو صنعتیں بھی کم چلیں تو اس صورت میں زیادہ درآمدات ٹھوس طلب کی عکاسی تو ہے مگر یہ معیشت کے قلاش ہونے کا بھی اشارہ ہے کہ ملک میں کچھ نہیں، ضرورت کا سارا سامان باہر سے آ رہا ہے جس میں دال، مسالے، چائے کی پتی، کھانے کا تیل اور پرانے کپڑوں سے لے کر روئی، کھاد، زرعی ادویہ، مشینری، لوہا اور فولاد سمیت بہت سی اشیا شامل ہیں لیکن آج سیمنٹ، اسٹیل اور آٹو سیکٹر کی پیداوار بڑھنے کی وجہ سے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے تو یہ ملک میں طبقاتی تقسیم مزید گہری ہونے کی جانب اشارہ ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ غریب کو چھت دستیاب نہیں اور صاحب کے دروازے پرگاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
سیاستدان چالاک ہوتے ہیں وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں کیونکہ وہ ہر طرح کے حالات کا رخ اپنے حق میں موڑنے کا گر جانتے ہیں، جب ایکسپورٹ گر رہی تھی توکہتے تھے یہ عالمی کساد بازاری کا نتیجہ ہے اور جب بڑھنے لگی تو کہتے ہیں یہ حکومتی اقدامات کا ثمر ہے، اب کوئی پوچھے کہ ایسے کیااقدامات آپ نے کیے کہ ایکسپورٹ بحال ہونے لگی، برآمدکنندگان اور صنعت کاروں کا سب سے بڑا مطالبہ بجلی وگیس کی سستے نرخوں پر بلاتعطل فراہمی ہے۔
پانچ سال گزر گئے لیکن اس معاملے پر پیشرفت صفر، ٹیکسوں کو معقول بنانا دوسرا مطالبہ، یہاں معاملہ الٹ ہے، ریفنڈزکی فراہمی تیسرا بڑا مطالبہ، اس معاملے میں بھی بڑے دعوے مگرکام سرخ فیتہ یعنی سرکاری کام میں آسانی چوتھا بڑا مطالبہ، اس کا جواب بھی دعوے اور زمینی حقائق بالکل مختلف، آڈٹ پرآڈٹ، بدعنوانی، سست روی، چھاپے، پکڑ دھکڑ، کاغذی کارروائیوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
اس کے مقابلے میں حکومت برابرگیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھا رہی ہے،کبھی ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے تو کبھی ٹیکس کم کرنے کے بجائے پٹرولیم مصنوعات مہنگی کر دی جاتی ہیں اورکبھی روپے کی قدر گرادی جاتی ہے، مختلف اسکیموں کے ذریعے برآمدات بڑھانے کے لیے سبسڈی کے اعلانات لیکن کلیمز داخل کر کے لگ جا بیٹا لائن میں، کبھی تو نکل ہی آئے گی۔
پھر مارکیٹ میں مسابقت کے نام پر بار بار دخل دیا جاتاہے اور مسابقت کی ہی ایسی تیسی کردی جاتی ہے، اب دیکھیے نہ کہ آٹو سیکٹر کو سیدھا کرنے کے لیے ٹیڑھی انگلی سے گھی بصورت پرانی گاڑیوں کی درآمد نکالا جا رہا ہے اور پھر ڈیلرزکو سیدھا کرنے کیلیے درآمدی عمل سخت کر دیا جاتا ہے، اس سے ٹرمینل آپریٹرز جیسے بعض پلیئرز کی چاندی ہو گئی اور ایک محکمے کی ساری انگلیاں گھی میں اور سرکڑھائی میں، سمجھ تو گئے ہوں گے آپ، یہ ہے حکومت کے معاشی ترقی کے اقدامات، تو اس کا پھل کیسے میٹھا ہوگا بات اس مثال کی طرح سیدھی ہے کہ جب آدمی گرجائے تو پھر اس کے پاس گنوانے کے لیے کیا رہ جاتا ہے اس لیے کہ وہ مزید نیچے نہیں جا سکتا، اس لیے اٹھنے کے لیے جب وہ کوئی حرکت کرتا ہے تو یہ اس کی بحالی کہلاتی ہے، ہماری برآمدات بھی اس قدر گریں کہ اب مزید کھونے کے لیے کچھ نہیں رہ گیا تھا اورچونکہ تہہ یاپیندے کو لگی چیزکی طرح مزید نیچے نہیں جا سکتی تھیں اس لیے ایکسپورٹ کو تو بڑھنا ہی تھا، لیکن ہر دو صورتوں میں اقتدار کے سوداگروں نے اعدادوشمار کو خوب استعمال کیا اور خوب سیاست کمائی، واہ واہ ... واہ واہ... واہ واہ...
آج کل کرنٹ اکاؤنٹ پر بڑی لے دے ہو رہی ہے، چلیے جانتے ہیں کہ یہ ہے کیا بلا۔
کرنٹ اکاؤنٹ ملک کی مالیاتی سرحد ہے جہاں سے بیرون ملک سے لین دین ہوتا ہے، یہ صرف تجارت نہیں بلکہ ہرقسم کے زرمبادلہ میں لین دین کا احاطہ کرتا ہے، غرض یہ ڈالرکی دوطرفہ گزرگاہ ہے، خسارے کا مطلب ہے کہ ملک سے ڈالر زیادہ باہر گئے اور آئے کم، فاضل اس کا الٹ ہے یعنی ڈالر زیادہ آئے اورگئے کم،کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں جانے سے کیا ہوسکتا ہے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائے اوراس کا نتیجہ بھی اسی طرح کا نکلے گا جب کوئی کمائی سے زیادہ خرچ کرے یعنی ملک مقروض ہو جائے گا اور جس قدرتیزی کے ساتھ اور زیادہ خسارہ ہوگا اتنی تیزی کے ساتھ اور زیادہ قرض بھی ہوگا۔
گویا ہماری مالیاتی ذمے داریاں زیادہ ہیں اورہم انھیں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے، اس کے لیے ہمیں قرض لے کریہ ذمے داریاں پوری کرنی پڑتی ہیں، اس تناظر میں موجودہ حالات پر نظررکھی جائے تو بلند شرح نمو یا ترقی کی گزشتہ 10 سال کی سب سے زیادہ شرح کا کیا فائدہ؟ اگر ملکی معیشت بہت تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے تواسی تیزی کے ساتھ آمدنی بھی بڑھنی چاہیے اور حکومت سمیت ہر ایک کی بڑھنی چاہیے یعنی عوام تک اس کا فائدہ پہنچنا چاہیے اور حکومتی خزانہ بھی بھرا ہونا چاہیے، آمدنی زیادہ ہوگی تو حکومت کو قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر یہاں ایسا نہیں تو پھر اس ترقی پر ہے سوالیہ نشان؟ گویا یہ حقیقی ترقی نہیں، تمام اشاریے ایک دوسرے کا تسلسل نہیں بلکہ متصادم ہیں یعنی کہیں کچھ غلط ہے۔
یہاں بتایا جا رہا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مشینری، آلات اور پٹرولیم مصنوعات کی زیادہ درآمدات کی وجہ سے بڑھ رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ برآمدات میں کمی بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ 2013-14ء میں برآمدات 25ارب ڈالر سے زیادہ تھیں جو گزشتہ سال کے اختتام پر 20ارب ڈالر رہ گئیں یعنی 2007-08ء کی سطح پر پہنچ گئیں (دلچسپ بات،معاشی ترقی 10 سال کی بلند ترین سطح پر اوربرآمدات 10سال کی کم ترین سطح پر) ان 4 یا 5 سال میں برآمدات اوسطاً ایک ارب ڈالر (ماہانہ صرف 8.5کروڑ ڈالر) بھی بڑھتیں تو 4سے 5 ارب ڈالر اضافہ ہوتا ، اس طرح کمی اور ممکنہ اضافہ ملا کر مجموعی نقصان9 سے 10ارب ڈالر ہوا، اس حساب سے اگر ہماری ایکسپورٹ گزشتہ مالی سال 20 کے بجائے29 سے 30ارب ڈالر ہوتی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ سال ساڑھے12 کے بجائے محض ڈھائی سے ساڑھے3 ارب ڈالر ہوتا، اس صورت میں زرمبادلہ ذخائر کم ہوتے نہ بڑے پیمانے پر قرضے لینے کی ضرورت پڑتی مگر صرف ایکسپورٹ پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور یہ بس اتنا نہیں کہ لکھ دیا اور بات ختم بلکہ اس کے معاشرے پر بڑے منفی اور وسیع اثرات مرتب ہوئے جس سے حکومت سمیت تمام شعبے متاثر ہوئے۔
ایکسپورٹ میں ممکنہ9سے10ارب ڈالر کی کمی کا مطلب برآمدی آمدنی میں کھربوں روپے کی کمی ہے، بات یہاں رکی نہیں بلکہ آمدنی میں یہ کھربوں روپے کی کمی پاکستانی اشیا کی طلب میں کمی کاآئینہ ہے، جب اشیا کی طلب کمی ہوئی تو فیکٹریوں نے اشیا کم بنائی ہوں گی یعنی فیکٹریوں میں جو کام پہلے تین شفٹوں میں ہو رہاتھا اب اس سے کم شفٹوں میں ہو رہا ہوگا اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ کام پہلے سے کم لوگوں نے کیا ہوگا یعنی لوگ بیروزگار ہوئے، شفٹیں ہی نہیں بلکہ بعض فیکٹریاں بھی بند ہوئی ہوں گی۔
کچھ اپنی بقا کے لیے بیرون ملک منتقل ہوئی ہوں گی یعنی بیروزگاری پھیلی، لوگوں کی آمدنی میں کمی، ان کے معیار زندگی کے خراب ہونے اور ملک میں غربت پھیلنے کو ثابت کرتی ہے، صنعتوں کی حالت اگر یہ ہو تو زرعی شعبے کا بھی حال ایسا ہی ہوگا کیونکہ ہماری اہم صنعت زراعت پرمبنی ہے، پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا انحصار روئی پر ہے، لیدر سیکٹر کا تعلق لائیواسٹاک پر ہے،گنے کے کاشت کار پریشان ہیں کہ ملرز خریدتے نہیں، ادائیگیاں نہیں کرتے، پھٹی کے دام بھی محنت کا صلہ نہیں، کاشت کار کی آمدنی متاثر ہونے کا مطلب ملک کی بڑی آبادی کا متاثر ہونا ہے، اگر صنعتی وزرعی شعبہ دگرگوں ہے تو معاشی ترقی کی رفتار کیسے بڑھ رہی ہے۔
اب آتے ہیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے درآمدی پہلوکی طرف، درآمدات درحقیقت طلب کی عکاس ہوتی ہیں، اگر درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ مقامی ڈیمانڈ تیزی سے بڑھ رہی ہے جو ٹھوس معاشی ترقی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے مگر چونکہ ایکسپورٹ گری تو صنعتیں بھی کم چلیں تو اس صورت میں زیادہ درآمدات ٹھوس طلب کی عکاسی تو ہے مگر یہ معیشت کے قلاش ہونے کا بھی اشارہ ہے کہ ملک میں کچھ نہیں، ضرورت کا سارا سامان باہر سے آ رہا ہے جس میں دال، مسالے، چائے کی پتی، کھانے کا تیل اور پرانے کپڑوں سے لے کر روئی، کھاد، زرعی ادویہ، مشینری، لوہا اور فولاد سمیت بہت سی اشیا شامل ہیں لیکن آج سیمنٹ، اسٹیل اور آٹو سیکٹر کی پیداوار بڑھنے کی وجہ سے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے تو یہ ملک میں طبقاتی تقسیم مزید گہری ہونے کی جانب اشارہ ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ غریب کو چھت دستیاب نہیں اور صاحب کے دروازے پرگاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔