بی جے پی مودی کی ذاتی پارٹی ہے

آج تو ایسا لگا رہا ہے جیسے آر ایس ایس سب پر حاوی ہو چکی ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی اب بھارتیہ جنتا پارٹی میں سب سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں' انھوں نے اپنے سب سے قریبی ساتھی امیت شاہ کو پارٹی کا صدر مقرر کر دیا ہے تاہم عوام کی یادداشت بہت کمزور ہے 'اس پارٹی کے بانی اٹل بہاری واجپائی تھے جنہوں نے این ڈی اے حکومت کے مشترکہ محاذ کی قیادت کرتے ہوئے ملک کی وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔

یہ مخلوط حکومت کئی پارٹیوں کا مجموعہ تھی۔ کانگریس کی کرشماتی قیادت کا جادو جے پرکاش نارائن کی زیرقیادت ٹوٹا جو مہاتما گاندھی کے پیروکار تھے اور سوشلسٹ نظام حکومت پر یقین رکھتے تھے۔

کانگریس کے خلاف ان کی قیادت میں چلنے والی تحریک اس قدر طاقتور تھی کہ کانگریس کے علاوہ تمام پارٹیاں اس تحریک میں شامل ہو گئیں اور ایک متحدہ محاذ بنا لیا۔ پرانی جنتا سنگھ پارٹی کے قیام کے بعد اس کے ارکان آر ایس ایس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کے بہت آرزو مند تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ پارٹی کا ایجنڈا ہندوتوا ہی رہے گا مگر جے پرکاش کے جوتے ہندوتوا والی جن سنگھ کو پورے نہیں آئے۔

اس وقت پارٹی کا نام جن سنگھ تھا یہ جے پرکاش ہی تھے جنہوں نے اس پارٹی کو اندرا گاندھی کی آمرانہ حکومت میں اپوزیشن پارٹیوں میں شامل کیا۔ جے پرکاش کو مکمل احساس تھا کہ جن سنگھ آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے لیکن ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ دونوں پارٹیاں الگ الگ ہو جائیں گی۔

جے پرکاش نارائن عرف جے پی جانتے تھے کہ ملک میں ان لوگوں نے ایسی فضا قائم کر دی ہے جس میں ایک ہندو نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔ نتھورام گوڈسے نے گاندھی کے پیروں کا ہاتھ لگایا اور پھر قریبی فاصلے (پواینٹ بلینک)سے انھیں گولی مار دی۔ بعد میں سب کو پتہ چل گیا کہ یہ سب ایک طے شدہ منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ آر ایس ایس پر پابندی لگا دی گئی۔ تنظیم کے سربراہ ایم ایس گوالکر کو گرفتار کر لیا گیا لیکن سال بھر کے بعد اسے اس شرط پر رہا کر دیا گیا کہ آر ایس ایس انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی۔

یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اس حقیقت کو چھپا لیا کہ گاندھی کے قتل کے لیے تمام رہنمائی آر ایس ایس نے ہی فراہم کی تھی۔ آج یہی متعصب تنظیم ریاستی اسمبلی کے لیے بی جے پی کے امیدواروں کا چناؤ کر رہی ہے اور لوک سبھا کے انتخابات میں بھی یہی ٹرینڈ نظر آئے گا۔ آر ایس ایس نے جو تحریری وعدہ کیا تھا مگر اس وعدے کی آڑ میں وہ جنتا پارٹی میں شامل ہو گئی۔ جے پی جنتا سنگھی لیڈروں کو یاد دہانی کراتے رہے کہ اپنے وعدے کا پاس کریں مگر انھوں نے کان بند کر رکھے تھے۔

آخر وہ ایسا کیوں نہ کرتے جب کہ جنتا سنگھ خود آر ایس ایس کی اپنی تخلیق تھی جس کا مقصد بھارت میں ہندو راشٹرا قائم کرنا تھا۔ شروع میں جنتا سنگھ کے ارکان بی جے کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ آر ایس ایس ایسی پارٹی نہیں جیسے سمجھا جا رہا ہے لیکن جب حقیقت کھل کر سامنے آ گئی تو انھوں نے آر ایس ایس سے ناطہ توڑنے سے صاف انکار کر دیا۔ جے پی کو محسوس ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے لیکن تب وہ اس قدر بیمار اور لاغر ہو چکے تھے کہ لوگوں کے پاس جا کر وضاحت کرنے کے قابل نہ رہے تھے البتہ یہ بات انھوں نے عوام کو کہہ دی کہ انھیں دھوکا دیا گیا ہے اور ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے لیکن اپنی خرابی صحت کے ہاتھوں وہ لاچار تھے۔

جب جنتا پارٹی نے رکنیت کے مسئلہ کا سوال اٹھایا تو جنا سنگھ کے اراکین نے واک آؤٹ کرنا زیادہ مناسب خیال کیا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس وقت تک انھیں قبول کر لیا گیا تھا اور ان کی جنتا سنگھ آج کی بی جے پی بن گئی ہے لیکن گاندھی جی کے قتل کی کئی دہائیوں بعد بھی قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔


جنتا پارٹی میں دو سال قیام اور اس کے مناصب کا استعمال بالخصوص مرکزی وزارت نے بی جے پی کی بہت مدد کی۔ ایک طرف یہ پارٹی نئے ارکان کو گیروے کپڑے پہنا رہی ہے جو ہندو یوگیوں کی علامت ہے اس کے علاوہ اہم پوسٹوں کے لیے اپنی بات منوانے والوں کو متعین کرتی ہے یعنی وزارت اطلاعات اور براڈ کاسٹنگ میں۔

آج تو ایسا لگا رہا ہے جیسے آر ایس ایس سب پر حاوی ہو چکی ہے۔ ایک وقت تھا جب بی جے پی نے بھی عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور مثبت رویہ اختیار کر لیا جس نے ہندو انٹیلی جنشیا کو کنفیوز کر دیا۔ جب اٹل بہاری واجپائی جیسے چوٹی کے لیڈر حالات و واقعات بڑے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے تھے تو انھوں نے توازن برقرار رکھا اور بیک وقت دو گھوڑوں پر کامیابی سے سواری کرتے رہے۔ بابری مسجد عرف رام بھومی کا تنازعہ جب اٹھ کھڑا ہوا لیکن اس قضیے میں کئی دیگر وجوہات بھی شامل تھیں۔

بالآخر بی جے پی نے لوک سبھا کے 545 نششتوں کے ایوان میں 181نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور پھر جے پی کے قریبی پیروکار بہانے بہانے سے حکومتی پارٹیوں میں شامل ہونے لگے تاکہ انھیں بھی اقتدار میں سے کچھ حصہ مل جائے۔

اس وقت تک یہ واضح ہو گیا تھا کہ بی جے پی اپنے لیے وسعت کی تلاش میں بے قرار ہو رہی ہے۔ ڈپٹی وزیراعظم ایل کے ایڈوانی نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی داخلی دوریاں کم کرنے کی کوشش کی۔ ایڈوانی نے ڈپٹی پرائم منسٹر کی حیثیت سے جہاں ہندوتوا کو مزید طاقتور کرنے کی کوشش کی اور رتھ یاترا کی رہنمائی بھی کی جس کی منزل شمال ہند کے دور دراز پہاڑوں پر تھی۔

یہ بے حد خطرناک مذہبی سفر تھا جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں فاصلے اور زیادہ بڑھا دیے حالانکہ دونوں صدیوں سے مل جل کر رہ رہے تھے۔ ایڈوانی اپنی اس کامیابی پر اس قدر مسرور تھے کہ اس طرح دونوں ملکوں میں واضح لائن کھچ گئی تھی اور یوں لوگ رتھ یاترا کو گاندھی کے سالٹ مارچ سے تشبیہہ دینے لگے (جب گاندھی نے نمک پر برطانوی حکومت کا ٹیکس عائد کرنے پر سمندری پانی سے نمک بنانا شروع کر دیا تھا جس سے انگریزوں نے ان پر لاٹھی چارج بھی کرایا) وزیراعظم مودی ہر دم یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ان کی ذات پارٹی سے بھی بہت بلند تر ہے۔

انھیں حکومت کرتے 4سال ہو گئے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ موصوف بھارت کو کس سمت میں لے جانا چاہتے ہیں یا ان کی 'دشا' کیا ہے۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ انھوں نے ہندوتوا میں جو نرمی پیدا کی ہے اس کی وجہ سے یہ ملک بھر میں پھیل رہی ہے لیکن جنوبی ریاستوں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں بلکہ وہ آج بھی یہ تاثر دے رہی ہیں کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔

ایک اور بڑا مسئلہ ہندی زبان کے رائج کرنے کی کوشش کا ہے جو اتنا ہی کٹھن نظر آ رہا ہے جس طرح پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور حکومت کے آخری ایام میں ہوا تھا۔ ان کے بعد ان کے جانشین لال بہادر شاشستری کو ایوان پارلیمنٹ میں یقین دہانی کرانی پڑی کہ ان ریاستوں میں جن کی زباں ہندی نہیں وہاں پر ہندی کا نفاذ اس ریاست کے عوام کے استصواب پر کیا جائے گا یعنی جب وہ لوگ خود ہندی کے لیے تیار ہوئے تب زبان بدلی جائے گی۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مودی اس معاملے میں کس طرح کامیاب ہوتے ہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story