واقعہ معراج اور کائنات کی روحانی تعبیر

واقعہ معراج میں وجود باری تعالیٰ اور اس کی صفات کاملہ خصوصاً سبحان اور قدیر کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

KARACHI:
توحید، رسالت اور آخرت، اسلامی تعلیمات کے بنیادی نکات ہیں۔ رسول اکرمؐ کا تیرہ سالہ مکی دور، انسان کے عقل و حواس اور دل و نگاہ سے انھی ابدی حقیقتوں، صداقتوں اور سچائیوں کو تسلیم کروانے میں بسر ہوا۔

ان بنیادی نکات کی دعوت میں آپ کو ایسے ایسے مصائب و شدائد کا سامنا کرنا پڑا جن کے تصور سے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن آپؐ نے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور دعوت حق سے منہ نہ موڑا۔ مکی زندگی آپؐ کی اخلاقی بلندی کی بین دلیل تھی۔ اس دور کی انتہا اور مدنی زندگی کی ابتدا کے دوران ''واقعہ معراج'' آپؐ کی روحانی بلندی کے ثبوت میں پیش کیا گیا۔

مکہ سے سایہ رحمت رسالتؐ کے رخصت ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے واقعہ معراج آخری حجت کے طور پر کفار مکہ کے سامنے پیش کیا تاکہ جو زندہ رہنا چاہے بینات کے ساتھ زندہ رہے اور جو مرنا چاہے بینات کے ساتھ مرے۔ آپؐ کی صداقت اور امانت کو تسلیم کروانے کے بعد آپؐ کی رسالت اور توحید اور آخرت کو منوانے کی عقل سلیم اور دل بینا کے لیے یہ آخری حجت تھی۔ کیونکہ اب آپؐ کا دور مکی اختتام پذیر ہوا ہی چاہتا تھا۔ وہ لوگ جو علم نہیں بلکہ تجربہ اور مشاہدہ کے قائل ہوتے ہیں۔ کہنے پر نہیں، دیکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔

انھی کے عطا کردہ صادق اور امین خطاب یافتہ انسان نے جو کچھ اب تک کہا تھا اور ان کے کانوں نے اس کی زبان مبارک سے جو کچھ سنا تھا۔ انھی باتوں کے متعلق آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہے تاکہ حجت تمام ہوجائے۔ تشکیک اورتکذیب کی بھول بھلیوں میں کھویا ہوا انسان تصدیق کی راہ ہدایت اختیار کرکے اپنے رب سے ملاقات کرے۔ واقعہ مراج انسان سے مطالبہ کرتا ہے:

نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور

چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے

جہاں عقل کی انتہا ہے وہاں سے معراج کی ابتدا ہے۔ انسان کے ذہن کی آزمائش کا سامان ہے ایمان اور عشق کا امتحان ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ:

''ہم نے اس معراج کو معیارِ آزمائش ٹھہرایا ہے'' (القرآن)

اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسان اس واقعہ معراج سے بمثل پروانہ شمع ایمان کی طرف آتا ہے یا شمع کفر کی طرف جاتا ہے اس سے ہدایت پکڑتا ہے یا ضلالت کی دلدل میں پھنستا ہے، اسے خواب تصورکرتا ہے یا حقیقت اور اللہ کی قدرت سمجھتا ہے۔

اسی طرح واقعہ معراج کا تعلق ان مومن لوگوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر یقین کامل رکھتے ہیں اس کی ذات اور صفات پر شک نہیں کرتے بلکہ اس کی ہر بات کو سچ سمجھتے ہیں۔ اسلام نام ہے تسلیم کا (یعنی بلا چوں و چرا فرمانبرداری) اور تسلیم ہے یقین اور یقین نام ہے تصدیق کا اور تصدیق کے ضمن میں سب سے اول اور سب سے آخر نام نامی اسم گرامی ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنھوں نے واقعہ معراج بزبان رسالت نور عقل سے گزر کر دل کی نگاہ سے دیکھا اور سنا اور برجستہ پکار اٹھے صدقت یا رسول اللہ۔

واقعہ معراج میں وجود باری تعالیٰ اور اس کی صفات کاملہ خصوصاً سبحان اور قدیر کی واضح نشانیاں موجود ہیں اور قرآنی آیت ''بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے'' کی عملی تعبیر ہے۔واقعہ معراج کے ذریعے حیات اور کائنات کی روحانی تعبیر پیش کی گئی ہے تاکہ انسان اپنی عقل سے حیات اور کائنات کی مادی حقیقت کا پردہ غفلت و جہالت اتار کر اپنی اخروی سعادت کا سامان کرے۔ محبوب خدا کے تجربے اور مشاہدے میں یہ بات لائی گئی کہ انسان کا ہر عمل نیک ہو یا بد اپنا اثر اور وزن رکھتا ہے اور محفوظ رہتا ہے۔ تاکہ آپؐ کے تجربے اور مشاہدے پر یقین کرکے انسان زندگی کی اصل سمجھ سکے اور عقل عبرت پکڑ کر زاد راہ سفر کے لیے نیکیوں کا انتخاب اور بدیوں سے اجتناب کرے۔

عالم برزخ میں آپؐ کو شہیدان راہ حق کی جزا، تاریک الصلوٰۃ و زکوٰۃ، زانی اور زانیہ، گمراہ کرنے والے واعظ، حرام خور، یتیم خور، سود خور اور چغل خور وغیرہ کی حالت زار کا عینی مشاہدہ کرایا گیا۔ تاکہ صادق و مصدوق کی عینی شہادت کے بیان کو سن کر آنکھوں والے عبرت پکڑیں اور اپنی زندگی کو سنجیدگی کے ساتھ نیکی کی راہ پر چلائیں۔

جنت اور دوزخ دکھائی گئی۔ آپؐ نے دیکھا کہ غربت اور جنت میں نسبت خاص ہے آپؐ نے فرمایا ''میں نے دیکھا، جنت کے مکانات موتی جیسے تھے اس کی مٹی میں بھینی بھینی خوشبوکی مہک تھی۔ جو لوگ غربت کی وجہ سے دنیا میں برباد رہے وہ کثرت سے وہاں آباد تھے جنھیں دنیا والے نظر تحقیر سے دیکھتے تھے۔''

اور دوزخ کے متعلق آپؐ نے فرمایا ''اس میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا'' جب صحابہ کرامؓ نے وجہ دریافت کی تو آپؐ نے فرمایا ''نعمت شکر سے محرومی۔ اگر تم عورت کا دامن خوشیوں سے بھر دو لیکن اگر کبھی وہ تمہارے کسی رویہ سے ناراض ہوجائے تو فوراً شکر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے گی اور فوراً تمہارے احسانات کو بھول جائے گی اور چیخ اٹھے گی ''میں نے تمہارا اچھا سلوک دیکھا ہی نہیں۔''(مفہوم احادیث)۔

یہ تو چند جزئیات خیر و شر کے مشاہدات تھے جس سے دل مومن کلیات خیر و شر کے انجام کا بخوبی اندازہ لگاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعہ معراج میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں اور عبرت پکڑنے کا سامان ہے۔

جب اللہ کی نشانیاں اور مختلف عجائبات قدرت، عالم برزخ، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کرنے کے بعد مختلف منازل و مراحل و مقامات سے گزر کر مقام قاب قوسین و ادنیٰ پر پہنچے تو اپنے رب کریم غفور و رحیم کے سامنے حمد و ثنا کا یہ تحفہ پیش کیا:


''سب زبانی، سب بدنی اور سب مالی عبادتیں صرف اللہ کے لیے ہیں۔''

اس حمد و ثنا کے جواب میں آپ کی شان میں رب دو جہان نے فرمایا:

''اے نبیؐ تجھ پر اللہ کا سلام اور اس کی رحمتیں اور برکتیں۔''

اپنے اوپر فضل و کرم کی برسات دیکھ کر رؤف و رحیم رسول کریمؐ کو اپنی امت کا خیال آیا اور آپؐ کے لبوں پر دل کی تمنا دعا بن کر اس طرح آئی:

''سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔''

ملائکہ نے جب رحمت اور شفقت کی اس دو بدو گفتگو کو سنا تو پکار اٹھے:

اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمدًا عبدہ و رسولہ

یہی وہ عبد اور معبود کے درمیان سلسلہ تکلم ہے جس کو آپؐ کی امت کا ہر فرد نماز میں اول و آخر میں دہراتا ہے۔

دیدار الٰہی اور شرف ہمکلامی کے بعد وقت رخصت بارگاہ صمدیت سے بارگاہ رسالت کو تین تحائف پیش کیے گئے:

اول سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات جو ایمانیات کا اعادہ ہیں۔

دوم پنج وقتہ اقامت صلوٰۃ جو اللہ کی یاد دل میں آباد رکھنے کا نسخہ رحمانی ہے۔

سوم یہ روحانی رحمت کی نوید مسرت کہ آپؐ کی امت میں جو بھی فرد شرک سے اجتناب کرے گا وہ مغفرت کی امید سے مایوس نہ ہو اور جو شخص نیکی کی نیت کرے اور نہ کرسکے تو ایک نیکی کے اجر کا اہل ہوگا اور اگر نیکی پر عمل کرے گا تو ایک کی دس لکھی جائے گی اور اگر کوئی شخص بدی کی نیت کرے مگر اس پر عمل نہ کرے تو وہ ایسا ہی رہا گویا اس نے بدی کی ہی نہیں اور اگر بدنیتی پر عمل کیا تو ایک ہی بدی لکھی جائے گی۔

یہ تو تھا معراج کا روحانی فلسفہ لیکن اس میں شرف و عظمت انسان کا نشان بھی ملتا ہے۔ معراج، انسان کی مادی ترقی کی جادہ پیمائی کی بانگ درا ہے کہ آنے والا دور مادی ترقی اور عروج کا دور ہوگا۔ ہمت والے، حکمت والے مادی ترقی کی عظمتوں کو چھولیں گے ستاروں پر کمند ڈالیں گے۔ تسخیر کائنات، عقل و حکمت کی مٹی میں ہوگی اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے ہمیں

کہ عالم بشریت کی زد میں ہیں افلاک

یہ سب معراج ہی کی حقیقت کو پا لینے اور سمجھ لینے کا نتیجہ ہے کہ آج انسان سمندر میں مچھلی کی طرح تیر رہا ہے فضا میں پرندوں کی طرح اڑ رہا ہے ذرات کا جگر چیر کر توانائی حاصل کر رہا ہے براق نما برق رفتار تیز فضائی سواریاں ایجاد کر رہا ہے۔ لیکن واقعہ معراج میں یہ حقیقت بھی نہاں ہے کہ ہمت والے، حکمت والے اگر اللہ والے نہ ہوئے ان کی حکمت کی بنیاد ایمان نہ ہوئی تو یہی انسان کا مادی عروج اس کے زوال، ہلاکت گویا قیامت کی دعوت بھی ہوگی۔
Load Next Story