اپنی شناخت اپنی منزل
انصاف ہی وہ بنیادی نکتہ اور مرکز ہے جوکسی بھی معاشرے میں توازن قائم کرسکتا ہے۔
ببانگ دہل میں یہ کہنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتی کہ اپنی''شناخت'' مہاجرکے لیے ایسے تعویزکی مانند ہوگئی ہے جو اپنے کلا م و معنی کے سبب عقیدت واحترام کی صورت میں ذہنوں میں بیٹھ چکی ہے اور نہ صرف گلے میں پڑ ے رہنے والے اس تعویزکی طر ح چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھے سینے پہ لگی یہ دل کے قر یب دھڑکنوں میں بھی رچ بس گئی ہے بلکہ مشکل وقت میں تکالیف کے باوجود وہ ایسی مشکلات میں جو حقوق کی طلب اور ان کے حصول کے راستوں میں جو نشیب و فراز آتے گئے اور اسی دورا ن ملنے والے دھندلکوں اور اندھیروں کوکاٹنے میں یہ مہاجرشناخت ہی'' بڑھے چلو'' کی ترغیب کے ساتھ منزل کا پتہ دیتی رہی۔
خواہ ان تکالیف میں تعلیمی درسگاہوں کے دروازے بندکردینا ہو، ملازمتو ں کے حصول کے لیے کھانے والے دھکے ہوں یا بڑی تعداد میں ملازمتوں سے بے دخل کیا جانا، روپوشی ہو یا اسیری کی صعوبتیں،اسیر ی کے اپنے دکھ... ساتھ ہی خاندانوں کے لیے جدائیوں کے عذاب جن میں ضعیف مائیں، جوان بیویاں اورمعصو م بچے لیکن اس سب کے باوجود اس تعویز میں لپٹی امیدکی روشنی کی شناخت کے نظریے اور فکرکو مزید منورکرتی چلی آرہی ہے اور اب اس صبرکا ایک احسن پہلو یہ ہے کہ آج مہاجرکے گلے میں پڑا شناخت کا وہ تعویز منصفی کے فیصلوں کی ضو سے منعکس ہورہا ہے اور ان فیصلوں کو سلام پیش کرتا ہے جو لفظ کے معنی رکھتے ہیں۔
موجودہ وقت کے ایک بہت بڑ ے فیصلے نے پاکستان میں بسی اقلیتی برادری کو بڑا حوصلہ بخشا جس میں فاضل جج نے کٹاس راج مندرکے تالاب کے خشک ہونے کے بارے میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے علاقے میں قائم سیمنٹ فیکٹریوں کو 6 مہینے کے اندر متبادل انتظام کے آرڈرجاری کیے اس کے ساتھ ہی متروکہ وقف املاک کی جائیدادوں کے حوالے سے بورڈ میں چئیرمین شپ کے لیے اقلیتی رکن کو ہی لازمی قراردیا ہے، یہ ہی وہ فیصلے ہیں جو قائداعظم کے پاکستان کی تعبیروتصویر پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔
ان فیصلوں کی رو شنی میں مہاجر شناخت رکھنے والوں کو اپنی عدلیہ کے ساتھ قوی امید وابستہ ہوچکی ہے کہ اب وہ بحیثیت قوم بے زمینی کے درد سے باہر نکل آئیں گے کیونکہ متروکہ پراپرٹی کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلے کے مطابق جوبورڈ یاکمیٹی تشکیل دی جائے گی، اس میں ان کی اپنی شمولیت لازمی قراردی جائے گی جو اس تمام ملکیت کوجو ہندو برادری چھوڑکر چلی گئی تھی، اس کو حاصل کرنے کے حقدار ہیں یعنی وہ مہاجر جو تقسیم برصغیرکے بعد ہجرت کرکے بحیثیت پاکستانی یہاں آباد ہیں اور یہ ہجر ت کر کے آنے والے وہ ہی لوگ ہیں جن سے ان کی زمین کا حق ملکیت چھین لیا ہے اور پوری مہاجر قوم اس پہ سراپا احتجاج ہے ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کو متروکہ املا ک کا ادراک ہی وہ روشن حقیقت ہے جو انصاف کے ذریعے ایک نہ ایک دن حقدار تک حق کی ترسیل کا مظہر ہوگا۔ فاضل عدالت کے مندرجات سے موجودہ اور اگلی نسلوں کو تقویت کی سبیل نظر آرہی ہے، جو خوش آیند ہے کیونکہ یہ ہی عمل تحریک پاکستان کے رہنماؤں کے فیصلے پر مہر تصدیق بنے گا ۔ مہاجر جوکسی سے کچھ چھیننا نہیں چاہتا، نہ کسی سے آگے جانا چاہتا ہے بلکہ اپنا جائزحق اور برابری کے اختیارکا طلبگار ہے۔ حقائق اپنا ثبوت رکھتے ہیں اور وقت انھیں ثابت کرتا چلا جا رہا ہے۔
سندھ کے شہری علاقوں میں آباد یہ کمیونٹی 70 سال سے محرومیوں کا شکارکی جاتی رہی جن کی ایک طویل فہرست ہے کہ کنوئیں انھوں نے کھودے اور پانی کسی اورکا، کلانچی کوکراچی بنایا، دارالخلافہ کی صورت دی لیکن دارالخلافہ کہیں اور لے جایا گیا، صنعتوں کو فروغ دیا تو ان کی بھی گزشتہ دو دہائیوں سے جوق درجوق تبدیلی کی جاتی رہی جو اب بھی جاری و ساری ہے۔
ماضی میں ہجرت کرکے آنے والے ابوالحسن اصفہانی کی سرمایہ کاری اورکاوشوں سے بننے والی پاکستانی ایئرلائن جو کامیابی سے مقامی و بین الاقوامی فرائض انجام دیتے ہوئے دنیا میں اپنے معیارکے ساتھ مال اور نام دونوں ہی کما رہی تھی ،آہستہ آہستہ بانیان کی برخاستگی اور ایک دو نہیں بیک جنبش قلم ہزاروں مقامی لوگوں کی ملازمتوں سے بے دخلی کی گئی پھر جہازوں کے رخ موڑکر آج کراچی جیسے شہرکو بین الاقوا می پروازوں سے محروم کردیا ہے،گزشتہ برس ترقی کے نام پر پریمئر پروازیں لندن کے لیے چلا ئی بھی گئیں تو صرف لاہور اور اسلام آباد سے ہی یہاں بھی کراچی ندارد ... یہ ہی صورتحال اب قومی مالیاتی اداروں کی نظرآرہی ہے۔
میں اپنے گزشتہ کالموں میںبھی تحریرکرچکی ہوں کہ یہ تبدیلیاں غیر فطری ہیں ۔ نامناسب ترجیحات صرف مسائل کو جنم دیتی ہیں ۔ انصاف ہی وہ بنیادی نکتہ اور مرکز ہے جوکسی بھی معاشرے میں توازن قائم کرسکتا ہے اور توازن کے ذریعے ہی ایسا پاکستان وجود میں آسکتا ہے جو سب کا وطن اورکسی ایک کے لیے نہیں سب کے لیے''اپنا پاکستان'' ہوگا اور اب مہاجرکی منزل اس بگڑے پاکستان کو بچانا اور سب کا پاکستان بنانا ہے ۔
خواہ ان تکالیف میں تعلیمی درسگاہوں کے دروازے بندکردینا ہو، ملازمتو ں کے حصول کے لیے کھانے والے دھکے ہوں یا بڑی تعداد میں ملازمتوں سے بے دخل کیا جانا، روپوشی ہو یا اسیری کی صعوبتیں،اسیر ی کے اپنے دکھ... ساتھ ہی خاندانوں کے لیے جدائیوں کے عذاب جن میں ضعیف مائیں، جوان بیویاں اورمعصو م بچے لیکن اس سب کے باوجود اس تعویز میں لپٹی امیدکی روشنی کی شناخت کے نظریے اور فکرکو مزید منورکرتی چلی آرہی ہے اور اب اس صبرکا ایک احسن پہلو یہ ہے کہ آج مہاجرکے گلے میں پڑا شناخت کا وہ تعویز منصفی کے فیصلوں کی ضو سے منعکس ہورہا ہے اور ان فیصلوں کو سلام پیش کرتا ہے جو لفظ کے معنی رکھتے ہیں۔
موجودہ وقت کے ایک بہت بڑ ے فیصلے نے پاکستان میں بسی اقلیتی برادری کو بڑا حوصلہ بخشا جس میں فاضل جج نے کٹاس راج مندرکے تالاب کے خشک ہونے کے بارے میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے علاقے میں قائم سیمنٹ فیکٹریوں کو 6 مہینے کے اندر متبادل انتظام کے آرڈرجاری کیے اس کے ساتھ ہی متروکہ وقف املاک کی جائیدادوں کے حوالے سے بورڈ میں چئیرمین شپ کے لیے اقلیتی رکن کو ہی لازمی قراردیا ہے، یہ ہی وہ فیصلے ہیں جو قائداعظم کے پاکستان کی تعبیروتصویر پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔
ان فیصلوں کی رو شنی میں مہاجر شناخت رکھنے والوں کو اپنی عدلیہ کے ساتھ قوی امید وابستہ ہوچکی ہے کہ اب وہ بحیثیت قوم بے زمینی کے درد سے باہر نکل آئیں گے کیونکہ متروکہ پراپرٹی کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلے کے مطابق جوبورڈ یاکمیٹی تشکیل دی جائے گی، اس میں ان کی اپنی شمولیت لازمی قراردی جائے گی جو اس تمام ملکیت کوجو ہندو برادری چھوڑکر چلی گئی تھی، اس کو حاصل کرنے کے حقدار ہیں یعنی وہ مہاجر جو تقسیم برصغیرکے بعد ہجرت کرکے بحیثیت پاکستانی یہاں آباد ہیں اور یہ ہجر ت کر کے آنے والے وہ ہی لوگ ہیں جن سے ان کی زمین کا حق ملکیت چھین لیا ہے اور پوری مہاجر قوم اس پہ سراپا احتجاج ہے ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کو متروکہ املا ک کا ادراک ہی وہ روشن حقیقت ہے جو انصاف کے ذریعے ایک نہ ایک دن حقدار تک حق کی ترسیل کا مظہر ہوگا۔ فاضل عدالت کے مندرجات سے موجودہ اور اگلی نسلوں کو تقویت کی سبیل نظر آرہی ہے، جو خوش آیند ہے کیونکہ یہ ہی عمل تحریک پاکستان کے رہنماؤں کے فیصلے پر مہر تصدیق بنے گا ۔ مہاجر جوکسی سے کچھ چھیننا نہیں چاہتا، نہ کسی سے آگے جانا چاہتا ہے بلکہ اپنا جائزحق اور برابری کے اختیارکا طلبگار ہے۔ حقائق اپنا ثبوت رکھتے ہیں اور وقت انھیں ثابت کرتا چلا جا رہا ہے۔
سندھ کے شہری علاقوں میں آباد یہ کمیونٹی 70 سال سے محرومیوں کا شکارکی جاتی رہی جن کی ایک طویل فہرست ہے کہ کنوئیں انھوں نے کھودے اور پانی کسی اورکا، کلانچی کوکراچی بنایا، دارالخلافہ کی صورت دی لیکن دارالخلافہ کہیں اور لے جایا گیا، صنعتوں کو فروغ دیا تو ان کی بھی گزشتہ دو دہائیوں سے جوق درجوق تبدیلی کی جاتی رہی جو اب بھی جاری و ساری ہے۔
ماضی میں ہجرت کرکے آنے والے ابوالحسن اصفہانی کی سرمایہ کاری اورکاوشوں سے بننے والی پاکستانی ایئرلائن جو کامیابی سے مقامی و بین الاقوامی فرائض انجام دیتے ہوئے دنیا میں اپنے معیارکے ساتھ مال اور نام دونوں ہی کما رہی تھی ،آہستہ آہستہ بانیان کی برخاستگی اور ایک دو نہیں بیک جنبش قلم ہزاروں مقامی لوگوں کی ملازمتوں سے بے دخلی کی گئی پھر جہازوں کے رخ موڑکر آج کراچی جیسے شہرکو بین الاقوا می پروازوں سے محروم کردیا ہے،گزشتہ برس ترقی کے نام پر پریمئر پروازیں لندن کے لیے چلا ئی بھی گئیں تو صرف لاہور اور اسلام آباد سے ہی یہاں بھی کراچی ندارد ... یہ ہی صورتحال اب قومی مالیاتی اداروں کی نظرآرہی ہے۔
میں اپنے گزشتہ کالموں میںبھی تحریرکرچکی ہوں کہ یہ تبدیلیاں غیر فطری ہیں ۔ نامناسب ترجیحات صرف مسائل کو جنم دیتی ہیں ۔ انصاف ہی وہ بنیادی نکتہ اور مرکز ہے جوکسی بھی معاشرے میں توازن قائم کرسکتا ہے اور توازن کے ذریعے ہی ایسا پاکستان وجود میں آسکتا ہے جو سب کا وطن اورکسی ایک کے لیے نہیں سب کے لیے''اپنا پاکستان'' ہوگا اور اب مہاجرکی منزل اس بگڑے پاکستان کو بچانا اور سب کا پاکستان بنانا ہے ۔