فیصلے جلدی ہوں تو قیدی مستقل اذیت سے آزاد ہوسکتے ہیں
پولیس ایمان داری سے تفتیش کرتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی
KARACHI:
یہ31 دسمبر 1998کا واقعہ ہے۔ رمضان کا دوسرا عشرہ اپنے اختتام پر تھا۔ کراچی کے علاقے ملیر میں ایک گھر میں تین افراد کا قتل ہوا۔ مقتولین میں اسماء نواب کے والد نواب احمد خان، والدہ ابرار بیگم، اور بھائی آصف شامل تھے، جنہیں انتہائی بے رحمی سے گلا کاٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ واردات کے بعد اسماء نواب کا کہنا تھا کہ جس وقت یہ سانحہ ہوا اس وقت اسماء نواب کالج سے داخلہ فارم لینے گئی ہوئی تھیں، جب وہ گھر واپس آئیں تو دروازہ کھلا ہوا تھا اور ماں، باپ اور بھائی کی گلہ کٹی لاشیں گھر میں پڑی تھیں۔
حواس باختہ اسماء فوراً بھاگ کر قریب ہی واقع اپنی خالہ کے گھر گئیں اور اور انھیں سارا ماجرا سنایا۔ اخبارات نے ایک ہی خاندان کے تین افراد کے قتل کے اس واقعے کو نمایاں کوریج دی اور شام کے اخبارات نے اسے شہ سرخیوں میں جگہ دی، اس خبر نے تہلکہ مچادیا۔ والدین کی تجہیز و تکفین کے بعد بعد دوسرے دن پولیس نے اسماء کو بیان لینے کے بلوایا۔ وہ اپنی خالہ اور کزن کے ساتھ پولیس اسٹیشن پہنچیں، جہاں اس کیس کے تفتیشی افسر ممریز خان نے اسماء کی خالہ اور کزن کو یہ کہہ کر گھر واپس بھیج دیا کہ ہم اسماء کو چوبیس گھنٹے تفتیش کے لیے تھانے میں رکھنے کے بعد اگلے روز چھوڑ دیں گے۔ کچھ دیر بعد پولیس نے اخباری نمائندوں کو بلوا کر انہیں یہ خبر دی کہ تہرے قتل کی واردات میں خود اسماء نواب ملوث ہیں اور انہیں اور ان کے تین دوستوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ اس سارے دورانیے میں پولیس نے ملیر ماڈل کالونی میں رہنے والے فرحان نامی نوجوان اس کے بھانجے اور اس کے دوست جاوید احمد صدیقی کو گرفتار کرکے یہ کیس بنا دیا کہ ان تینوں ملزمان نے ڈکیتی میں مزاحمت پر اسماء نواب کے گھر والوں کو قتل کیا۔
اسی دوران اسماء نواب کی خالہ نے پولیس کو بیان دیا کہ اسماء کی فرحان نامی ملزم کے ساتھ دوستی تھی اور اس نے ان تینوں کو ڈکیتی کے لیے بلایا تھا اور ''مزاحمت پر میری بہن، بہنوئی اور بھانجے کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا اور اسماء نے یہ ساری بات چھپائی۔'' خالہ کے اس بیان کے بعد سے اسماء نواب کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ پولیس نے میڈیا کو ملزمان کے اقبال جرم کرنے اور آلہ قتل برآمد کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے عدالت میں اس کیس کا چالان جمع کروادیا۔ بارہ دن ہی میں اس کیس کا فیصلہ ہوگیا اور اسماء اور دیگر دو ملزمان کو سزائے موت سنادی گئی۔ پھر اس کیس کی ہائی کورٹ میں اپیل لگادی گئی، لیکن ہائی کورٹ نے اس کیس پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ چوںکہ اس قتل میں کوئی آتشیں ہتھیار استعمال نہیں ہوا، اس لیے یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نہیں چل سکتا، جس کے بعد یہ کیس سیشن کورٹ میں چلا گیا۔
اس کے بعد اس کیس کے وکیل جاوید چھتاری نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کو حکم دیا کہ اس کیس کا فیصلہ تیکنیکی بنیادوں کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے۔ ہائی کورٹ نے جب میرٹ پر فیصلہ کیا تو دو ججوں میں اختلاف ہوگیا۔ جسٹس رانا شمیم نے سزا برقرار رکھتے ہوئے اسماء نواب کے خلاف فیصلہ دیا، جب کہ جسٹس علی سائیں ڈنو میتھلو نے اسماء کو بری کرنے کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ایسی کوئی شہادت نہیں ہے جس کی بنیاد پر ملزمان کو کیپیٹل پنشمنٹ دی جاسکے۔ ججوں کے اختلاف رائے کی وجہ سے، پہلے ریفری جج جسٹس مقبول باقر تھے، ان کے بعد جسٹس عبدل الرسول میمن صاحب کو ریفری جج بنایا گیا، جنہوں نے ملزمہ کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے سزا برقرار رکھی۔ اس کے بعد2015 میں اسما نواب کے وکیل نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ تین اپریل 2018کو پینتیس منٹ کی سماعت کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنے متفقہ فیصلے میں اسما نواب اور دیگر ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنا پر میں بری کردیا۔ اپنے دور کے اس ہائی پروفائل کیس کی مرکزی ملزمہ اسماء نواب سے ہم نے ان کی جیل میں گزری زندگی اور دیگر حوالوں سے گفتگو کی، جو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: جیل میں آپ کے دوستوں اور رشتے داروں کا آنا جانا رہا؟ انھوں نے آپ کی مدد کی؟ جیل میں گزرے دنوں میں رشتے داروں میں سب سے زیادہ کس نے آپ کا ساتھ دیا۔
اسماء نواب: رشتے داروں میں صرف میرے ایک خالو مجھ سے ملنے آتے رہے اور وہی میری مدد کرتے رہتے تھے۔ وہ اس کیس کے ایک مدعی بھی تھے، اس کے علاوہ میرے بھائی کے ایک دوست نے بھی مجھے بہت سپورٹ کیا، وہ باقاعدگی سے مجھ سے ملنے آتے تھے۔ انہوں نے بڑے بھائی کی طرح میری ہر ممکن مدد کی۔
ایکسپریس: کیا آپ کی دوستوں اور کزنز وغیرہ سے قید کے بعد آپ نے ملنے کی خواہش کی اور وہ آئیں۔
اسماء نواب: جیل میں جانے کے بعد کالج کی کچھ سہیلیاں مجھ سے ملنے آئیں، لیکن میں نے ان سے ملنے سے انکار کردیا، کیوں کہ اس وقت میں خود اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی، نہ ہی کسی سے بات کرنے کا دل چاہتا تھا اور نہ ہی کسی سے ملنے کا۔ انہوں نے کئی بار مجھ سے ملنے کی کوشش کی لیکن میں ایک بار بھی ان سے نہیں ملی اور بالاخر انہوں نے بھی تنگ آکر جیل آنا چھوڑ دیا۔
ایکسپریس: جیل میں کسے اپنا زیادہ غم گسار اور دوست پایا۔
اسماء نواب: یہ میری خوش قسمتی رہی کہ جیل میں مجھے اچھی دوستوں کا ساتھ میسر رہا۔ جیل میں ہم چھے لڑکیوں کا گروپ تھا، ہم اپنے سارے دکھ سکھ ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے، چاہے وہ عدالت کا معاملہ ہو یا کوئی اور مسئلہ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مجھے اپنے والدین کی یاد آتی تھی تو وہ مجھے دلاسا دیتی تھیں۔ جیل کی دوستوں میں دو خواتین سے میرے بہت بنتی تھی، یہ خالہ بھانجی تھیں، جن پر اغوا برائے تاوان کے کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت سے 25 سال قید کی فرد جرم عاید کی گئی تھی، لیکن 2015 ء میں ہائی کورٹ نے انہیں بھی بے قصور قرار دے کر رہا کردیا۔ ان کی رہائی کا سُن کر مجھے دکھ بھی ہوا اور خوشی بھی، دکھ اس بات کا تھا کہ میری غم گسار اب میرے ساتھ نہیں رہیں گی، تو دوسری طرف اس بات کی خوشی بھی تھی کہ اب وہ آزاد فضا میں سانس لے سکیں گی۔
ایکسپریس: جیل میں خواتین کے ساتھ عام طور پر برے سلوک کی بات عام ہے۔ کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اور سلوک برتا گیا جس کی شکایت دیگر خواتین کرتی ہیں۔
اسما نواب: جب میرا جیل میں پہلا دن تھا تو مجھے کسی سے ملنے نہیں دیا گیا، کیوں کہ اس وقت میں بہت پریشان تھی۔ جیل میں بہت ساری عورتیں تھیں جنہیں دیکھ کر مجھے وحشت ہورہی تھی۔ تو اس وقت کی جیل سپرنٹنڈنٹ نجمہ پروین صاحبہ نے دوسری قیدی عورتوں کو سختی سے منع کردیا تھا کہ وہ مجھ سے کوئی سوال جواب یا ایسی بات سے نہ کریں جس سے میرا دل دُکھے۔ خود ان کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا، اور ریٹائرمنٹ تک انہوں نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک رکھا۔
ایکسپریس: جیل اگرچہ کوئی اچھی جگہ نہیں، اس ماحول میں آپ نے کوئی مثبت بات محسوس کی۔
اسماء نواب: یہ بات ٹھیک ہے کہ جیل اچھی جگہ نہیں ہے اور میرے ذہن میں بھی اس بارے میں بہت منفی خیالات تھے، لیکن ایک بات بتائوں کہ جیل کا لفظ تو صرف مرکزی دروازے پر لکھا ہے ، لیکن جب میں اندر گئی تو وہاں ایک جملہ لکھا ہوا دیکھا جو کچھ یوں تھا 'یوتھ فل اوفینڈرز انڈسٹریل اسکول' یہ دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ جیل میں کوئی چھوٹا جرم کرکے آتا ہے، تو کوئی بڑا جرم کرکے آتا ہے، لیکن وہاں اس کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ جیل میں آپ کے ساتھ بیرک میں رہنے والی ہر قیدی عورت اچھی نہیں ہوتی، لیکن یہ میری خوش قسمتی رہی کہ مجھے بیرک میں ایسی عورتوں کا ساتھ ملا جنہوں نے مجھے بہت اچھی باتیں سکھائیں، چھوٹی بہن کی طرح میرا خیال رکھا، مجھے اچھے بُرے کی تمیز سکھائی۔ جیل میں گزرا سب سے بُرا دور کال کوٹھری کا رہا، جب مجھے موت کی سزا ہوئی تو عدالتی قواعد کے مطابق نو ماہ تک کال کوٹھری میں قیدتنہائی میں رکھا گیا۔ مجھے بہت ڈر لگتا تھا، تنہائی کا احساس ہوتا تھا۔ بیرک میں بہت ساری عورتیں ہوتی تھیں تو وقت گزر جاتا تھا، لیکن کال کوٹھری میں گزرے دن بہت اذیت ناک رہے۔ میری کوئی ملاقات نہیں آتی تھی، نہ کوئی کہنے والا نہ کوئی سننے والا۔ صبح سے شام، شام سے رات ہوجاتی تھی، اور میں بس اس تنگ و تاریک کمرے کے درو دیوار کو تکتی رہتی تھی۔
ایکسپریس: کسی سماجی تنظیم کی جانب کوئی مدد ملی۔ اگر ہاں تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ایسی تنظیمیں جیل کی قیدی عورتوں کے لیے اچھا کام کر رہی ہیں؟
اسماء نواب: جیل میں قیدی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نام نہاد سماجی تنظیموں کا کردار بہت ہی شرم ناک ہے۔ شروع شروع میں جب میں جیل گئی تو وہاں ایسی سماجی تنظیموں (این جی اوز) کی خواتین بہت آتی تھیں۔ وہ ہم سے جھوٹی ہم دردی جتاتی تھیں، ہمارے کیس کی تفصیلات پوچھتی تھیں اور پھر جاتے ہوئے کہتی تھیں کہ ہم آپ کے لیے کچھ نہیں کرسکتے، آپ نے کچھ کیا ہے تو آپ اللہ سے معافی مانگیں۔ ان کا رویہ ہمارے ساتھ ایسا ہی تھا جیسا چڑیا گھر میں جانوروں کو دیکھنے والے افراد کا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک ہم بھی جنگلے میں بند جانوروں کی طرح تھے۔
وہ آتی تھیں، بات کرتی تھیں، ہمارا مذاق اڑاتی تھیں اور اپنا وقت پورا کرکے چلی جاتی تھیں۔ جیل میں آنے والی ہر نئی قیدی خاتون کے ساتھ ان کا رویہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ایسی کسی این جی او نے ہمارا مذاق اڑانے اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کے علاوہ ہماری کسی قسم کی کوئی مدد کی ہو۔ جب پاکستان میں طالبان کے مسئلے نے زور پکڑا تو سیکیوریٹی خدشات کے پیش نظر جیل میں بہت سی این جی اوز کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی، لیکن جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد صاحب کی این جی او لیگل ایڈ سوسائٹی پورے خلوص کے ساتھ قیدیوں کے حقوق کے لیے کام رہی ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد صاحب کے دوست اقتدار علی ہاشمی ایڈووکیٹ نے مجھے ہائی کورٹ کے لیے اپنے وکیل دیے۔ جب میرا رہائی کا فیصلہ آیا تو انہوں نے خاص طور پر پیغام بھجوایا کہ آپ کو رہائش کی، پیسوں کی، ملازمت کی، جس چیز کی بھی ضرورت ہو تو ہم ہر وقت آپ کے لیے حاضر ہیں۔
ایکسپریس: وکیل کرنے اور مقدمہ لڑنے میں کیا مشکلات پیش آئیں؟ کیا وکلاء انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
اسماء نواب: وکیل کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی، کیوں کہ پہلے دن ہی سے جاوید احمد چھتاری صاحب میرے ساتھ تھے۔ تھانے میں جس دن میرا پہلا دن تھا یہ اس دن سے میرے ساتھ ہیں۔ درمیان میں کچھ مسئلے بھی ہوئے، میری وجہ سے ان کی کردارکشی کی گئی اس کے باوجود انہوں نے میرا بہت ساتھ دیا۔
ایکسپریس: لیڈی پولیس کا رویہ مرد پولیس کے مقابلے میں کیسا پایا؟
اسماء نواب؛ لیڈی پولیس اہل کاروں کا رویہ ہمارے ساتھ بہت دوستانہ ہوتا تھا، وہ کبھی وہ ڈانٹ کر، کبھی ہلکی پھلکی سزا دے کر وہاں کے معاملات حل کرلیتی ہیں، ہم جیسی پرانی قیدیوں کو بھی ایک طرح سے جیل کے عملے میں ہی شمار کیے جاتا ہے۔ وہ ہمیں قیدی نہیں ایک طرح سے اپنی دوست تصور کرتی ہیں۔ ایک دوست کی طرح اپنی باتیں شیئر کرتی تھیں، ساتھ کھانا پینا ہوتا تھا۔ مختلف امور سرانجام دینے میں ہماری مدد کرتی تھی۔ موجودہ جیلر شیبا شاہ اور عملے کا رویہ تو خواتین قیدیوں سے اور زیادہ دوستانہ ہے۔ مرد اہل کاروں سے ہمارا براہ راست تعلق صرف عدالت جاتے وقت ہی ہوتا تھا ور انہوں نے بھی کبھی قیدی خواتین کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روا نہیں رکھا۔
ایکسپریس: کیا مجرم عورتوں کو جیل میں سزا بھگتنے کے دوران عزت و احترام اور وقار سے زندہ رہنے کا حق دیا جاتا ہے؟
اسماء نواب: اچھے بُرے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں، لیکن جیل میں پولیس اہل کاروں کی جانب سے کبھی میری عزت نفس پر حملہ نہیں کیا گیا، کیوں کہ میں نے کبھی کسی قیدی عورت یا عملے سے بدتمیزی نہیں کی تو انہوں نے بھی کبھی مجھ سے کوئی بدتمیزی یا غلط بات نہیں کی۔
ایکسپریس: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ سزا یافتہ عورتوں کو جیل سے رہائی کے بعد جینے کا حق مل جاتا ہے؟
اسماء نواب: ہمارا معاشرہ تو جیل سے رہا ہونے کے بعد مردوں کو قبول نہیں کرتا، عورتوں کو قبول کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ جیل سے رہا ہونے والی کچھ خواتین کو ان کے گھر والے قبول کرلیتے ہیں جیسے میں نے آپ کو بتایا کہ جیل میں میرے ساتھ جو خالہ بھانجی تھیں انہیں ان کے گھر والوں نے قبول کرلیا، اور اب وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہی ہیں، لیکن بہت سی خواتین کو ان کے گھر والے قبول نہیں کرتے، ایسی خواتین یا تو کسی دارالامان میں چلی جاتی ہیں، یا پھر ناصر اسلم زاہد صاحب کے شیلٹرہائوس میں چلی جاتی ہیں۔
ایکسپریس: آپ اپنی زندگی کیسے گزاریں گی۔ کیا خواہشیں ہیں اور کیا کرنا چاہتی ہیں۔
اسماء نواب: میں نے جیل میں کمپیوٹر کے کورسز کیے، سلائی سیکھی، ٹیچنگ کورس کیا، میں وہاں قیدی خواتین کو پڑھاتی بھی تھی۔ سرٹیفیکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے میں جیل میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکی۔ اب نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنے ، تعلیم حاصل کرنے، اور ٹیچنگ کرنے کا ارادہ ہے۔
ایکسپریس: آپ کی زندگی میں ہونے والے افسوس ناک واقعے اور پھر آپ کی گرفتاری سے پہلے آپ کی زندگی کیسی گزر رہی تھی، کیا معمولات تھے، کیا خواہشیں اور خواب تھے؟
اسماء نواب: ان سب باتوں کے اب کوئی معنی نہیں ہے۔ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت میں نوجوان تھی اور ہر لڑکی طرح میری بھی کچھ خواہشات تھیں، زندگی میں کچھ بننے کے خواب تھے، لیکن یہ سب اب ماضی کا حصہ ہوچکے ہیں۔
ایکسپریس: یہ درست ہے کہ آپ کی زندگی کا ایک خوب صورت حصہ جیل کی دیواروں کے پیچھے گزر گیا، مگر اب آپ آزاد ہیں۔ کیا فقط اپنی زندگی کے دن گزارنا چاہتی ہیں یا پھر کچھ ایسا کرکے دکھانا چاہتی ہیں کہ لوگ آپ کو یاد رکھیں۔
اسماء نواب: میرے پیچھے کوئی نہیں تھا، مجھے اس وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہوا۔ اسی طرح جیل میں ایسی کئی خواتین ہیں، جن کا کوئی والی وارث نہیں، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں، ان کی مالی حالت ٹھیک نہیں، وکیل کرنے کے پیسے نہیں، کچھ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ جیل میں رہ رہی ہیں، تو میں ایسی خواتین کے لیے، ان کی رہائی کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں۔ میں لیگل ایڈ سوسائٹی کے ساتھ مل کر قیدی خواتین کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں۔
ایکسپریس: جیل میں کیا سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ دن رات کیسے کاٹے؟
اسماء نواب: جیل میں کرنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ وہاں پارلر ہے، کمپیوٹر ہے، قرآن کلاسز ہوتی ہیں، تعلیم بالغان ہے، سلائی سکھانے کا مرکز ہے، اسپتال ہے، ڈسپنسری ہے، تو ہر قیدی کی اس کی تعلیم یا مہارت کی بنیاد پر متعلقہ شعبے میں ڈیوٹی لگادی جاتی تھی۔ اس طرح یہ بیس سال گزرگئے۔
ایکسپریس: آپ کی نظر میں ہمارے عدالتی نظام اور جیل کے نظام میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہییں جن سے مجرم اور اس کے اہل خانہ کو بھی تکلیف اور پریشانی سے بچایا جاسکے۔
اسماء نواب: جیل کے اندر سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ایک ایک کیس میں سالوں لگ جاتے ہیں، کوئی شنوائی نہیں ہوتی، کبھی تاریخ مل جاتی ہے، کبھی جج نہیں ہوتے، کبھی وکیل نہیں ہوتے، کبھی کوئی ہڑتال آجاتی ہے۔ اگر فیصلے جلدی ہوں تو نہ صرف قیدیوں بل کہ ان کے اہل خانہ بھی ایک مستقل اذیت سے آزاد ہوسکتے ہیں۔
ایکسپریس: سنگین جرائم کے سزا یافتگان کو رہائی کے بعد انہیں اہل خانہ عموماً قبول نہیں کرتے۔ وہ کس طرح سماجی طور پر خود کو منوا سکتے ہیں؟
اسماء نواب: یہاں پر لیگل ایڈ سوسائٹی جیسی مزید این جی اوز کا قیام بہت ضروری ہے، کیوں کہ ان کی وکلاء خواتین کے گھر والوں سے بات کرتی ہیں، انہیں سمجھاتی ہیں، کہ وہ اس سزا یافتہ خاتون کو قبول کرلیں، وہ انہیں منانے ، سمجھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، وہ ان کے گھر والوں کو متعلقہ خاتون سے ملاقات کرنے پر راضی کرتی ہیں۔ میں سمجھتی ہو کہ جیل سے رہا ہونے کہ بعد خواتین کو ایسے کام کام کرنے چاہییں کہ لوگ ان کے اچھے کاموں کی مثالیں دیں۔
ایکسپریس: آپ نے جیل میں اپنے بعد آنے والی عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ کیا ان کی ڈھارس بندھائی اور مدد کی؟
اسماء نواب: جی ہاں، بہت زیادہ۔ جب میں جیل میں گئی تو مجھے بھی کئی عورتوں نے حوصلہ دیا، میری ہمت افزائی کی۔ میرے بعد جیل میں ایسی بہت سی عورتیں آئیں جو بہت پریشان تھیں، تو انہیں دیکھ کر مجھے اپنا وقت یاد آتا تھا، مجھ سے کئی عورتیں کہتی تھیں کہ بس ہماری ساری زندگی اب یہیں گزرے گی لیکن میں ان سے یہی کہتی تھی کہ نہیں خدا کی ذات سے امید رکھو۔ میں انہیں بتاتی تھی کہ جیل جانے کے بعد کافی عرصے تک کسی نے مجھ سے بات تک نہیں کی تھی، سب مجھے قصوروار سمجھتے تھے، مجھ سے ڈرتے تھے پاس نہیں آتے، وہ کہتے تھے کہ یہ واقعی مجرم ہے، اس نے اپنے گھر والوں کو قتل کیا ہے۔
ایکسپریس: آپ کو بیس سال جرم ثابت ہوئے بغیر جیل میں گزارنا پڑے۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟
اسماء نواب: شروع دن سے آج تک میں یہ بات کہتی آرہی ہوںکہ میں بے قصور ہوں۔ اس کیس کے تفتیشی افسر ممریز خان درانی نے مجھے دھوکے سے بیان لینے کے بہانے بلوایا کہ جی بیان لے کر آپ کو جانے دیں گے، بیان لیتے وقت بھی انہوں نے کافی غلط زبان استعمال کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک گھنٹے پہلے ایف آئی آر کٹ گئی ہے کہ آپ اپنے گھر کے قریب سے، محلے سے واردات کرتے ہوئے گزری ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ سر! ایک بات بتائیے کہ اتنی پُررونق جگہ پر آپ کو وہ تین لڑکے اور میں ہی نظر آئی کہ آپ نے کچھ پوچھے بغیر ہی ایف آئی آر کاٹ دی اور مجھے دھوکے سے بلواکر گرفتار کرلیا ہے۔ تو کیا میں ہی آپ کو ملز م نظر آئی ہوں؟ تھانے میں میری خالہ اور میرے کزن بھی ساتھ گئے تھے لیکن انہوں نے انہیں دوسرے کمرے میں بٹھا کر مجھ سے اپنے دفتر میں بیان لیا تھا۔ میں اپنی زندگی کی بربادی کا ذمے دار مرحوم تفتیشی افسر ممریز خان کو گردانتی ہوں۔ اگر پولیس اس وقت ایمان داری سے تفتیش کرتی، تو آج صورت حال مختلف ہوتی، ان کی دانستہ یا دانستہ غلطی نے میری زندگی کے بیس قیمتی سال برباد کردیے۔
ایکسپریس: جیل کی زندگی کے وہ اہم واقعات جو آپ بھلا نہ پائیں گی۔
اسماء نواب: ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں کچھ اچھے ہیں کچھ بُرے، لیکن میں جیل میں ہونے والی مثبت باتوں کو یاد رکھ کر زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔
ایکسپریس: اُس دن، جب آپ کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا، کیا ہوا تھا؟ آپ کے والدین اور بھائی قتل ہوئے، پھر آپ پر الزام لگا، اور آپ بیس سال سلاخوں کے پیچھے رہیں، مُڑ کر دیکھتی ہیں تو کیا مناظر دکھائی دیتے ہیں؟
اسماء نواب: جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مجھے سب کچھ خالی دکھائی دیتا ہے۔ وہ گھر جہاں میں نے اپنی زندگی کے حَسین دن بتائے ، وہ گھرجہاں سے مجھے اسی باپ کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جہاں میں نے باپ کی انگلیاں پکڑ کر گھٹنوں گھٹنوں چلنا سیکھا، وہی گھر جہاں سے مجھے اسی ماں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا جس نے مجھے جنم دیا، جس نے مجھے زمانے کے سردوگرم سے بچائے رکھا، وہی گھر جہاں مجھے اسی بھائی کا قاتل قرار دیا گیا جو میرا محافظ تھا، جس کے ساتھ کھیلتے کھیلتے میں بڑی ہوئی، وہی گھر جہاں میں نے ایک خوب صورت زندگی کے خواب دیکھے۔ رہائی کے بعد جب میں اپنے گھر گئی، جس حالت میں اپنے گھر کو دیکھا، اسے میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔ دیواروں پر ٹنگا اس سال کا کلینڈر جس سال سے میری بربادی شروع ہوئی۔ تو بس یہی منظر آنکھوں میں گھومتا ہے۔
ایکسپریس: اس سارے معاملے کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟
اسما نواب: اس سارے معاملے کے پیچھے اہم کردار میری خالہ کا تھا، جنہوں نے میری امی کو ملنے والی گولڈن شیک ہینڈ کی رقم اور مکان ہتھیانے کے لیے یہ سارا پلان تیار کیا تھا۔ خیر اب وہ خالہ بھی اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن جن پیسوں کے لیے، مکان کے لیے انہوں نے میری زندگی تباہ کی وہ ابھی تک موجود ہے۔
''سزا پانے والا زرتلافی کا مقدمہ فائل کرسکتا ہے''
جاوید احمد چھتاری ایڈووکیٹ سے گفتگو
ایکسپریس: ایسے افراد جو الزام ثابت ہوئے بغیر طویل مدت قید میں گزار دیتے ہیں کیا وہ ریاست، پولیس یا کسی بھی متعلقہ ادارے پر کمپنسیشن کے لیے مقدمہ کرسکتے ہیں؟
جاوید احمد چھتاری : اس کو قانون کی زبان میں 'بدنیتی پر مبنی استغاثہ' کہتے ہیں، جس کے تحت سزا پانے والے فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مدعی مقدمہ، پولیس، تفتیشی افسر اور جھوٹی گواہی دینے والوں پر ڈیمجز (زرتلافی) فائل کرسکتا ہے۔ لیکن اسماء نواب کے کیس میں معاملہ الگ ہے، کیوں کہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے اور ایسے مقدمے لڑنے کے لیے اچھے خاصے پیسوں اور بھاگ دوڑ کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ ان حالات میں اس کی متحمل نہیں ہوسکتی، اگر حالات موافق رہے تو آگے اس بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
ملزم رہائی کے بعد اپنے جرم کا اعتراف کرلے تو کیا سزا پائے گا؟
جاوید احمد چھتاری: اقبال جرم کرنے کا ایک طریقۂ کار ہے ۔ ضابطۂ فوجداری 164کے تحت اقبالی بیان دینے کے لیے ملزم کا پولیس کی تحویل میں، ریمانڈ پر یا شامل تفتیش ہونا ضروری ہے۔ تفتیشی افسر مجسٹریٹ کو اقبالی بیان لینے کے لیے درخواست دیتا ہے پھر کہیں جاکر 164کا بیان لینے کی تیاری ہوتی ہے۔ ملزم کو مجسٹریٹ کے پاس ہتھکڑی کھول کر اکیلے کمرے میں پیش کیا جاتا ہے، جو ملزم کو بتاتا ہے کہ تم پر اقبالی بیان دینے کے لیے کوئی زور زبردستی، دبائو نہیں ہے، تم چاہو تو اس سے انکار بھی کرسکتے ہو۔ بیان دینے یا نہ دینے، دونوں صورتوں میں ہم تمہیں پولیس کے حوالے سے نہیں کریں گے، بل کہ براہ راست جیل بھیجیں گے۔ اس کے بعد ملزم کو اعصابی طور پر پُرسکون ہونے کے لیے دو گھنٹے کا ریفلیکشن ٹائم دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر ملزم کہتا ہے کہ میں اقبالی بیان دینے کے لیے راضی ہوں تو پھر مجسٹریٹ اپنی ہاتھ سے ملزم کا اقبالی بیان تحریر کرتا ہے، جس کے بعد جیل کسٹڈی کردی جاتی ہے۔ اب جب ایک آدمی بَری ہونے کے بعد اقبال جرم کرنا چاہتا ہے تو بَری ہونے کے بعد اس کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ایکسپریس: آپ نے رضاکارانہ طور پر اسماء نواب کا مقدمہ لڑا، اس کے لیے کس بات نے آپ کو آمادہ کیا؟
جاوید احمد چھتاری: جس وقت یہ واقعہ ہوا ان دنوں شام کے اخبارات کا دور تھا، ان میں کچھ اخبارات کا کام ہی سنسنی پھیلانا تھا۔ میں نے اخبار میں خبر پڑھی اور ریمانڈ کے وقت میں یہ دیکھنے گیا کہ یہ لڑکی کون ہے؟ میں نے اسماء نواب سے پوچھا کہ تمھارے ساتھ کون ہے تو اس نے کہا کوئی نہیں، تو میں نے اسماء کو بغیر فیس کے کیس لڑنے کی پیش کش کی،اس نے وکالت نامہ سائن کردیا۔ اس وقت میں ایک جونیئر وکیل تھا کبھی کسی سنیئر وکیل سے مدد لینے گیا تو جاتے ہوئے کوئی تحفہ لے گیا۔ کبھی کسی وکیل کو فیس دے کر کوئی مشورہ لیا۔ سنیئرو جونیئر وکلا کے مشوروں کی وجہ سے یہ مقدمہ اپنے آغاز سے ہی اچھا چلا۔ دوسری بات یہ کہ جس وقت میں نے یہ کیس لیا اس وقت میڈیا تقسیم ہوگیا تھا کچھ اخبارات اس کے حق میں تھے اور کچھ اخبارات اسماء نواب اور مجھ پر بہت سے الزامات لگا رہے تھے۔
جس کی تردید اسماء نواب نے اپنے بیانات میں بھی کی۔ تو بات یہ ہے کہ ان بیس سالوں میں بہت نشیب و فراز آتے رہے لیکن میں اپنی کمٹمنٹ پر قائم رہا۔ میرے ذہن میں یہی بات تھی کہ مجھے اس لاوارث یتیم بچی کو انصاف دلانا ہے اور اللہ نے مجھے اس کا اجر دیا ہے۔ اس پورے عرصے میں جب بھی اسماء نے مجھ سے کسی بھی چیز کی فرمائش کی وہ میں نے پوری کی، میں ہر ماہ اس کو خرچہ بھیجتا رہا، عید بقرعید اور ہر تہوار پر اس کو کپڑے بھیجتا رہا۔ میں نے اس کو بنا فیس کے مقدمہ لڑنے کی زبان دی تھی، جس پر میں قائم رہا اور ان بیس سالوں میں میرا جو بھی پیسہ، وقت خرچ ہوا وہ میرا اور اللہ کا معاملہ ہے، اس کا اسماء نواب پر کوئی احسان نہیں ہے۔ اسماء کی خوش قسمتی یہ ہے کہ جب اس کا کیس سپریم کورٹ میں گیا تو اس وقت تک میرا سپریم کورٹ کا لائسنس بن چکا تھا ورنہ مجھے بہت پریشانی ہوتی، مجھے پتا نہیں کس کس کی خوشامد کرنی پڑتی، اور شاید کوئی دوسرا وکیل اس مقدمے کو اس جذباتیت سے، اتنی شدت اتنی محنت سے نہیں لڑ پاتا۔
عکاسی: راشد اجمیری
یہ31 دسمبر 1998کا واقعہ ہے۔ رمضان کا دوسرا عشرہ اپنے اختتام پر تھا۔ کراچی کے علاقے ملیر میں ایک گھر میں تین افراد کا قتل ہوا۔ مقتولین میں اسماء نواب کے والد نواب احمد خان، والدہ ابرار بیگم، اور بھائی آصف شامل تھے، جنہیں انتہائی بے رحمی سے گلا کاٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ واردات کے بعد اسماء نواب کا کہنا تھا کہ جس وقت یہ سانحہ ہوا اس وقت اسماء نواب کالج سے داخلہ فارم لینے گئی ہوئی تھیں، جب وہ گھر واپس آئیں تو دروازہ کھلا ہوا تھا اور ماں، باپ اور بھائی کی گلہ کٹی لاشیں گھر میں پڑی تھیں۔
حواس باختہ اسماء فوراً بھاگ کر قریب ہی واقع اپنی خالہ کے گھر گئیں اور اور انھیں سارا ماجرا سنایا۔ اخبارات نے ایک ہی خاندان کے تین افراد کے قتل کے اس واقعے کو نمایاں کوریج دی اور شام کے اخبارات نے اسے شہ سرخیوں میں جگہ دی، اس خبر نے تہلکہ مچادیا۔ والدین کی تجہیز و تکفین کے بعد بعد دوسرے دن پولیس نے اسماء کو بیان لینے کے بلوایا۔ وہ اپنی خالہ اور کزن کے ساتھ پولیس اسٹیشن پہنچیں، جہاں اس کیس کے تفتیشی افسر ممریز خان نے اسماء کی خالہ اور کزن کو یہ کہہ کر گھر واپس بھیج دیا کہ ہم اسماء کو چوبیس گھنٹے تفتیش کے لیے تھانے میں رکھنے کے بعد اگلے روز چھوڑ دیں گے۔ کچھ دیر بعد پولیس نے اخباری نمائندوں کو بلوا کر انہیں یہ خبر دی کہ تہرے قتل کی واردات میں خود اسماء نواب ملوث ہیں اور انہیں اور ان کے تین دوستوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ اس سارے دورانیے میں پولیس نے ملیر ماڈل کالونی میں رہنے والے فرحان نامی نوجوان اس کے بھانجے اور اس کے دوست جاوید احمد صدیقی کو گرفتار کرکے یہ کیس بنا دیا کہ ان تینوں ملزمان نے ڈکیتی میں مزاحمت پر اسماء نواب کے گھر والوں کو قتل کیا۔
اسی دوران اسماء نواب کی خالہ نے پولیس کو بیان دیا کہ اسماء کی فرحان نامی ملزم کے ساتھ دوستی تھی اور اس نے ان تینوں کو ڈکیتی کے لیے بلایا تھا اور ''مزاحمت پر میری بہن، بہنوئی اور بھانجے کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا اور اسماء نے یہ ساری بات چھپائی۔'' خالہ کے اس بیان کے بعد سے اسماء نواب کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ پولیس نے میڈیا کو ملزمان کے اقبال جرم کرنے اور آلہ قتل برآمد کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے عدالت میں اس کیس کا چالان جمع کروادیا۔ بارہ دن ہی میں اس کیس کا فیصلہ ہوگیا اور اسماء اور دیگر دو ملزمان کو سزائے موت سنادی گئی۔ پھر اس کیس کی ہائی کورٹ میں اپیل لگادی گئی، لیکن ہائی کورٹ نے اس کیس پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ چوںکہ اس قتل میں کوئی آتشیں ہتھیار استعمال نہیں ہوا، اس لیے یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نہیں چل سکتا، جس کے بعد یہ کیس سیشن کورٹ میں چلا گیا۔
اس کے بعد اس کیس کے وکیل جاوید چھتاری نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کو حکم دیا کہ اس کیس کا فیصلہ تیکنیکی بنیادوں کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے۔ ہائی کورٹ نے جب میرٹ پر فیصلہ کیا تو دو ججوں میں اختلاف ہوگیا۔ جسٹس رانا شمیم نے سزا برقرار رکھتے ہوئے اسماء نواب کے خلاف فیصلہ دیا، جب کہ جسٹس علی سائیں ڈنو میتھلو نے اسماء کو بری کرنے کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ایسی کوئی شہادت نہیں ہے جس کی بنیاد پر ملزمان کو کیپیٹل پنشمنٹ دی جاسکے۔ ججوں کے اختلاف رائے کی وجہ سے، پہلے ریفری جج جسٹس مقبول باقر تھے، ان کے بعد جسٹس عبدل الرسول میمن صاحب کو ریفری جج بنایا گیا، جنہوں نے ملزمہ کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے سزا برقرار رکھی۔ اس کے بعد2015 میں اسما نواب کے وکیل نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ تین اپریل 2018کو پینتیس منٹ کی سماعت کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنے متفقہ فیصلے میں اسما نواب اور دیگر ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنا پر میں بری کردیا۔ اپنے دور کے اس ہائی پروفائل کیس کی مرکزی ملزمہ اسماء نواب سے ہم نے ان کی جیل میں گزری زندگی اور دیگر حوالوں سے گفتگو کی، جو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: جیل میں آپ کے دوستوں اور رشتے داروں کا آنا جانا رہا؟ انھوں نے آپ کی مدد کی؟ جیل میں گزرے دنوں میں رشتے داروں میں سب سے زیادہ کس نے آپ کا ساتھ دیا۔
اسماء نواب: رشتے داروں میں صرف میرے ایک خالو مجھ سے ملنے آتے رہے اور وہی میری مدد کرتے رہتے تھے۔ وہ اس کیس کے ایک مدعی بھی تھے، اس کے علاوہ میرے بھائی کے ایک دوست نے بھی مجھے بہت سپورٹ کیا، وہ باقاعدگی سے مجھ سے ملنے آتے تھے۔ انہوں نے بڑے بھائی کی طرح میری ہر ممکن مدد کی۔
ایکسپریس: کیا آپ کی دوستوں اور کزنز وغیرہ سے قید کے بعد آپ نے ملنے کی خواہش کی اور وہ آئیں۔
اسماء نواب: جیل میں جانے کے بعد کالج کی کچھ سہیلیاں مجھ سے ملنے آئیں، لیکن میں نے ان سے ملنے سے انکار کردیا، کیوں کہ اس وقت میں خود اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی، نہ ہی کسی سے بات کرنے کا دل چاہتا تھا اور نہ ہی کسی سے ملنے کا۔ انہوں نے کئی بار مجھ سے ملنے کی کوشش کی لیکن میں ایک بار بھی ان سے نہیں ملی اور بالاخر انہوں نے بھی تنگ آکر جیل آنا چھوڑ دیا۔
ایکسپریس: جیل میں کسے اپنا زیادہ غم گسار اور دوست پایا۔
اسماء نواب: یہ میری خوش قسمتی رہی کہ جیل میں مجھے اچھی دوستوں کا ساتھ میسر رہا۔ جیل میں ہم چھے لڑکیوں کا گروپ تھا، ہم اپنے سارے دکھ سکھ ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے، چاہے وہ عدالت کا معاملہ ہو یا کوئی اور مسئلہ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مجھے اپنے والدین کی یاد آتی تھی تو وہ مجھے دلاسا دیتی تھیں۔ جیل کی دوستوں میں دو خواتین سے میرے بہت بنتی تھی، یہ خالہ بھانجی تھیں، جن پر اغوا برائے تاوان کے کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت سے 25 سال قید کی فرد جرم عاید کی گئی تھی، لیکن 2015 ء میں ہائی کورٹ نے انہیں بھی بے قصور قرار دے کر رہا کردیا۔ ان کی رہائی کا سُن کر مجھے دکھ بھی ہوا اور خوشی بھی، دکھ اس بات کا تھا کہ میری غم گسار اب میرے ساتھ نہیں رہیں گی، تو دوسری طرف اس بات کی خوشی بھی تھی کہ اب وہ آزاد فضا میں سانس لے سکیں گی۔
ایکسپریس: جیل میں خواتین کے ساتھ عام طور پر برے سلوک کی بات عام ہے۔ کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اور سلوک برتا گیا جس کی شکایت دیگر خواتین کرتی ہیں۔
اسما نواب: جب میرا جیل میں پہلا دن تھا تو مجھے کسی سے ملنے نہیں دیا گیا، کیوں کہ اس وقت میں بہت پریشان تھی۔ جیل میں بہت ساری عورتیں تھیں جنہیں دیکھ کر مجھے وحشت ہورہی تھی۔ تو اس وقت کی جیل سپرنٹنڈنٹ نجمہ پروین صاحبہ نے دوسری قیدی عورتوں کو سختی سے منع کردیا تھا کہ وہ مجھ سے کوئی سوال جواب یا ایسی بات سے نہ کریں جس سے میرا دل دُکھے۔ خود ان کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا، اور ریٹائرمنٹ تک انہوں نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک رکھا۔
ایکسپریس: جیل اگرچہ کوئی اچھی جگہ نہیں، اس ماحول میں آپ نے کوئی مثبت بات محسوس کی۔
اسماء نواب: یہ بات ٹھیک ہے کہ جیل اچھی جگہ نہیں ہے اور میرے ذہن میں بھی اس بارے میں بہت منفی خیالات تھے، لیکن ایک بات بتائوں کہ جیل کا لفظ تو صرف مرکزی دروازے پر لکھا ہے ، لیکن جب میں اندر گئی تو وہاں ایک جملہ لکھا ہوا دیکھا جو کچھ یوں تھا 'یوتھ فل اوفینڈرز انڈسٹریل اسکول' یہ دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ جیل میں کوئی چھوٹا جرم کرکے آتا ہے، تو کوئی بڑا جرم کرکے آتا ہے، لیکن وہاں اس کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ جیل میں آپ کے ساتھ بیرک میں رہنے والی ہر قیدی عورت اچھی نہیں ہوتی، لیکن یہ میری خوش قسمتی رہی کہ مجھے بیرک میں ایسی عورتوں کا ساتھ ملا جنہوں نے مجھے بہت اچھی باتیں سکھائیں، چھوٹی بہن کی طرح میرا خیال رکھا، مجھے اچھے بُرے کی تمیز سکھائی۔ جیل میں گزرا سب سے بُرا دور کال کوٹھری کا رہا، جب مجھے موت کی سزا ہوئی تو عدالتی قواعد کے مطابق نو ماہ تک کال کوٹھری میں قیدتنہائی میں رکھا گیا۔ مجھے بہت ڈر لگتا تھا، تنہائی کا احساس ہوتا تھا۔ بیرک میں بہت ساری عورتیں ہوتی تھیں تو وقت گزر جاتا تھا، لیکن کال کوٹھری میں گزرے دن بہت اذیت ناک رہے۔ میری کوئی ملاقات نہیں آتی تھی، نہ کوئی کہنے والا نہ کوئی سننے والا۔ صبح سے شام، شام سے رات ہوجاتی تھی، اور میں بس اس تنگ و تاریک کمرے کے درو دیوار کو تکتی رہتی تھی۔
ایکسپریس: کسی سماجی تنظیم کی جانب کوئی مدد ملی۔ اگر ہاں تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ایسی تنظیمیں جیل کی قیدی عورتوں کے لیے اچھا کام کر رہی ہیں؟
اسماء نواب: جیل میں قیدی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نام نہاد سماجی تنظیموں کا کردار بہت ہی شرم ناک ہے۔ شروع شروع میں جب میں جیل گئی تو وہاں ایسی سماجی تنظیموں (این جی اوز) کی خواتین بہت آتی تھیں۔ وہ ہم سے جھوٹی ہم دردی جتاتی تھیں، ہمارے کیس کی تفصیلات پوچھتی تھیں اور پھر جاتے ہوئے کہتی تھیں کہ ہم آپ کے لیے کچھ نہیں کرسکتے، آپ نے کچھ کیا ہے تو آپ اللہ سے معافی مانگیں۔ ان کا رویہ ہمارے ساتھ ایسا ہی تھا جیسا چڑیا گھر میں جانوروں کو دیکھنے والے افراد کا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک ہم بھی جنگلے میں بند جانوروں کی طرح تھے۔
وہ آتی تھیں، بات کرتی تھیں، ہمارا مذاق اڑاتی تھیں اور اپنا وقت پورا کرکے چلی جاتی تھیں۔ جیل میں آنے والی ہر نئی قیدی خاتون کے ساتھ ان کا رویہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ایسی کسی این جی او نے ہمارا مذاق اڑانے اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کے علاوہ ہماری کسی قسم کی کوئی مدد کی ہو۔ جب پاکستان میں طالبان کے مسئلے نے زور پکڑا تو سیکیوریٹی خدشات کے پیش نظر جیل میں بہت سی این جی اوز کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی، لیکن جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد صاحب کی این جی او لیگل ایڈ سوسائٹی پورے خلوص کے ساتھ قیدیوں کے حقوق کے لیے کام رہی ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد صاحب کے دوست اقتدار علی ہاشمی ایڈووکیٹ نے مجھے ہائی کورٹ کے لیے اپنے وکیل دیے۔ جب میرا رہائی کا فیصلہ آیا تو انہوں نے خاص طور پر پیغام بھجوایا کہ آپ کو رہائش کی، پیسوں کی، ملازمت کی، جس چیز کی بھی ضرورت ہو تو ہم ہر وقت آپ کے لیے حاضر ہیں۔
ایکسپریس: وکیل کرنے اور مقدمہ لڑنے میں کیا مشکلات پیش آئیں؟ کیا وکلاء انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
اسماء نواب: وکیل کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی، کیوں کہ پہلے دن ہی سے جاوید احمد چھتاری صاحب میرے ساتھ تھے۔ تھانے میں جس دن میرا پہلا دن تھا یہ اس دن سے میرے ساتھ ہیں۔ درمیان میں کچھ مسئلے بھی ہوئے، میری وجہ سے ان کی کردارکشی کی گئی اس کے باوجود انہوں نے میرا بہت ساتھ دیا۔
ایکسپریس: لیڈی پولیس کا رویہ مرد پولیس کے مقابلے میں کیسا پایا؟
اسماء نواب؛ لیڈی پولیس اہل کاروں کا رویہ ہمارے ساتھ بہت دوستانہ ہوتا تھا، وہ کبھی وہ ڈانٹ کر، کبھی ہلکی پھلکی سزا دے کر وہاں کے معاملات حل کرلیتی ہیں، ہم جیسی پرانی قیدیوں کو بھی ایک طرح سے جیل کے عملے میں ہی شمار کیے جاتا ہے۔ وہ ہمیں قیدی نہیں ایک طرح سے اپنی دوست تصور کرتی ہیں۔ ایک دوست کی طرح اپنی باتیں شیئر کرتی تھیں، ساتھ کھانا پینا ہوتا تھا۔ مختلف امور سرانجام دینے میں ہماری مدد کرتی تھی۔ موجودہ جیلر شیبا شاہ اور عملے کا رویہ تو خواتین قیدیوں سے اور زیادہ دوستانہ ہے۔ مرد اہل کاروں سے ہمارا براہ راست تعلق صرف عدالت جاتے وقت ہی ہوتا تھا ور انہوں نے بھی کبھی قیدی خواتین کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روا نہیں رکھا۔
ایکسپریس: کیا مجرم عورتوں کو جیل میں سزا بھگتنے کے دوران عزت و احترام اور وقار سے زندہ رہنے کا حق دیا جاتا ہے؟
اسماء نواب: اچھے بُرے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں، لیکن جیل میں پولیس اہل کاروں کی جانب سے کبھی میری عزت نفس پر حملہ نہیں کیا گیا، کیوں کہ میں نے کبھی کسی قیدی عورت یا عملے سے بدتمیزی نہیں کی تو انہوں نے بھی کبھی مجھ سے کوئی بدتمیزی یا غلط بات نہیں کی۔
ایکسپریس: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ سزا یافتہ عورتوں کو جیل سے رہائی کے بعد جینے کا حق مل جاتا ہے؟
اسماء نواب: ہمارا معاشرہ تو جیل سے رہا ہونے کے بعد مردوں کو قبول نہیں کرتا، عورتوں کو قبول کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ جیل سے رہا ہونے والی کچھ خواتین کو ان کے گھر والے قبول کرلیتے ہیں جیسے میں نے آپ کو بتایا کہ جیل میں میرے ساتھ جو خالہ بھانجی تھیں انہیں ان کے گھر والوں نے قبول کرلیا، اور اب وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہی ہیں، لیکن بہت سی خواتین کو ان کے گھر والے قبول نہیں کرتے، ایسی خواتین یا تو کسی دارالامان میں چلی جاتی ہیں، یا پھر ناصر اسلم زاہد صاحب کے شیلٹرہائوس میں چلی جاتی ہیں۔
ایکسپریس: آپ اپنی زندگی کیسے گزاریں گی۔ کیا خواہشیں ہیں اور کیا کرنا چاہتی ہیں۔
اسماء نواب: میں نے جیل میں کمپیوٹر کے کورسز کیے، سلائی سیکھی، ٹیچنگ کورس کیا، میں وہاں قیدی خواتین کو پڑھاتی بھی تھی۔ سرٹیفیکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے میں جیل میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکی۔ اب نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنے ، تعلیم حاصل کرنے، اور ٹیچنگ کرنے کا ارادہ ہے۔
ایکسپریس: آپ کی زندگی میں ہونے والے افسوس ناک واقعے اور پھر آپ کی گرفتاری سے پہلے آپ کی زندگی کیسی گزر رہی تھی، کیا معمولات تھے، کیا خواہشیں اور خواب تھے؟
اسماء نواب: ان سب باتوں کے اب کوئی معنی نہیں ہے۔ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت میں نوجوان تھی اور ہر لڑکی طرح میری بھی کچھ خواہشات تھیں، زندگی میں کچھ بننے کے خواب تھے، لیکن یہ سب اب ماضی کا حصہ ہوچکے ہیں۔
ایکسپریس: یہ درست ہے کہ آپ کی زندگی کا ایک خوب صورت حصہ جیل کی دیواروں کے پیچھے گزر گیا، مگر اب آپ آزاد ہیں۔ کیا فقط اپنی زندگی کے دن گزارنا چاہتی ہیں یا پھر کچھ ایسا کرکے دکھانا چاہتی ہیں کہ لوگ آپ کو یاد رکھیں۔
اسماء نواب: میرے پیچھے کوئی نہیں تھا، مجھے اس وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہوا۔ اسی طرح جیل میں ایسی کئی خواتین ہیں، جن کا کوئی والی وارث نہیں، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں، ان کی مالی حالت ٹھیک نہیں، وکیل کرنے کے پیسے نہیں، کچھ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ جیل میں رہ رہی ہیں، تو میں ایسی خواتین کے لیے، ان کی رہائی کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں۔ میں لیگل ایڈ سوسائٹی کے ساتھ مل کر قیدی خواتین کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں۔
ایکسپریس: جیل میں کیا سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ دن رات کیسے کاٹے؟
اسماء نواب: جیل میں کرنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ وہاں پارلر ہے، کمپیوٹر ہے، قرآن کلاسز ہوتی ہیں، تعلیم بالغان ہے، سلائی سکھانے کا مرکز ہے، اسپتال ہے، ڈسپنسری ہے، تو ہر قیدی کی اس کی تعلیم یا مہارت کی بنیاد پر متعلقہ شعبے میں ڈیوٹی لگادی جاتی تھی۔ اس طرح یہ بیس سال گزرگئے۔
ایکسپریس: آپ کی نظر میں ہمارے عدالتی نظام اور جیل کے نظام میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہییں جن سے مجرم اور اس کے اہل خانہ کو بھی تکلیف اور پریشانی سے بچایا جاسکے۔
اسماء نواب: جیل کے اندر سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ایک ایک کیس میں سالوں لگ جاتے ہیں، کوئی شنوائی نہیں ہوتی، کبھی تاریخ مل جاتی ہے، کبھی جج نہیں ہوتے، کبھی وکیل نہیں ہوتے، کبھی کوئی ہڑتال آجاتی ہے۔ اگر فیصلے جلدی ہوں تو نہ صرف قیدیوں بل کہ ان کے اہل خانہ بھی ایک مستقل اذیت سے آزاد ہوسکتے ہیں۔
ایکسپریس: سنگین جرائم کے سزا یافتگان کو رہائی کے بعد انہیں اہل خانہ عموماً قبول نہیں کرتے۔ وہ کس طرح سماجی طور پر خود کو منوا سکتے ہیں؟
اسماء نواب: یہاں پر لیگل ایڈ سوسائٹی جیسی مزید این جی اوز کا قیام بہت ضروری ہے، کیوں کہ ان کی وکلاء خواتین کے گھر والوں سے بات کرتی ہیں، انہیں سمجھاتی ہیں، کہ وہ اس سزا یافتہ خاتون کو قبول کرلیں، وہ انہیں منانے ، سمجھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، وہ ان کے گھر والوں کو متعلقہ خاتون سے ملاقات کرنے پر راضی کرتی ہیں۔ میں سمجھتی ہو کہ جیل سے رہا ہونے کہ بعد خواتین کو ایسے کام کام کرنے چاہییں کہ لوگ ان کے اچھے کاموں کی مثالیں دیں۔
ایکسپریس: آپ نے جیل میں اپنے بعد آنے والی عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ کیا ان کی ڈھارس بندھائی اور مدد کی؟
اسماء نواب: جی ہاں، بہت زیادہ۔ جب میں جیل میں گئی تو مجھے بھی کئی عورتوں نے حوصلہ دیا، میری ہمت افزائی کی۔ میرے بعد جیل میں ایسی بہت سی عورتیں آئیں جو بہت پریشان تھیں، تو انہیں دیکھ کر مجھے اپنا وقت یاد آتا تھا، مجھ سے کئی عورتیں کہتی تھیں کہ بس ہماری ساری زندگی اب یہیں گزرے گی لیکن میں ان سے یہی کہتی تھی کہ نہیں خدا کی ذات سے امید رکھو۔ میں انہیں بتاتی تھی کہ جیل جانے کے بعد کافی عرصے تک کسی نے مجھ سے بات تک نہیں کی تھی، سب مجھے قصوروار سمجھتے تھے، مجھ سے ڈرتے تھے پاس نہیں آتے، وہ کہتے تھے کہ یہ واقعی مجرم ہے، اس نے اپنے گھر والوں کو قتل کیا ہے۔
ایکسپریس: آپ کو بیس سال جرم ثابت ہوئے بغیر جیل میں گزارنا پڑے۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟
اسماء نواب: شروع دن سے آج تک میں یہ بات کہتی آرہی ہوںکہ میں بے قصور ہوں۔ اس کیس کے تفتیشی افسر ممریز خان درانی نے مجھے دھوکے سے بیان لینے کے بہانے بلوایا کہ جی بیان لے کر آپ کو جانے دیں گے، بیان لیتے وقت بھی انہوں نے کافی غلط زبان استعمال کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک گھنٹے پہلے ایف آئی آر کٹ گئی ہے کہ آپ اپنے گھر کے قریب سے، محلے سے واردات کرتے ہوئے گزری ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ سر! ایک بات بتائیے کہ اتنی پُررونق جگہ پر آپ کو وہ تین لڑکے اور میں ہی نظر آئی کہ آپ نے کچھ پوچھے بغیر ہی ایف آئی آر کاٹ دی اور مجھے دھوکے سے بلواکر گرفتار کرلیا ہے۔ تو کیا میں ہی آپ کو ملز م نظر آئی ہوں؟ تھانے میں میری خالہ اور میرے کزن بھی ساتھ گئے تھے لیکن انہوں نے انہیں دوسرے کمرے میں بٹھا کر مجھ سے اپنے دفتر میں بیان لیا تھا۔ میں اپنی زندگی کی بربادی کا ذمے دار مرحوم تفتیشی افسر ممریز خان کو گردانتی ہوں۔ اگر پولیس اس وقت ایمان داری سے تفتیش کرتی، تو آج صورت حال مختلف ہوتی، ان کی دانستہ یا دانستہ غلطی نے میری زندگی کے بیس قیمتی سال برباد کردیے۔
ایکسپریس: جیل کی زندگی کے وہ اہم واقعات جو آپ بھلا نہ پائیں گی۔
اسماء نواب: ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں کچھ اچھے ہیں کچھ بُرے، لیکن میں جیل میں ہونے والی مثبت باتوں کو یاد رکھ کر زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔
ایکسپریس: اُس دن، جب آپ کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا، کیا ہوا تھا؟ آپ کے والدین اور بھائی قتل ہوئے، پھر آپ پر الزام لگا، اور آپ بیس سال سلاخوں کے پیچھے رہیں، مُڑ کر دیکھتی ہیں تو کیا مناظر دکھائی دیتے ہیں؟
اسماء نواب: جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مجھے سب کچھ خالی دکھائی دیتا ہے۔ وہ گھر جہاں میں نے اپنی زندگی کے حَسین دن بتائے ، وہ گھرجہاں سے مجھے اسی باپ کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جہاں میں نے باپ کی انگلیاں پکڑ کر گھٹنوں گھٹنوں چلنا سیکھا، وہی گھر جہاں سے مجھے اسی ماں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا جس نے مجھے جنم دیا، جس نے مجھے زمانے کے سردوگرم سے بچائے رکھا، وہی گھر جہاں مجھے اسی بھائی کا قاتل قرار دیا گیا جو میرا محافظ تھا، جس کے ساتھ کھیلتے کھیلتے میں بڑی ہوئی، وہی گھر جہاں میں نے ایک خوب صورت زندگی کے خواب دیکھے۔ رہائی کے بعد جب میں اپنے گھر گئی، جس حالت میں اپنے گھر کو دیکھا، اسے میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔ دیواروں پر ٹنگا اس سال کا کلینڈر جس سال سے میری بربادی شروع ہوئی۔ تو بس یہی منظر آنکھوں میں گھومتا ہے۔
ایکسپریس: اس سارے معاملے کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟
اسما نواب: اس سارے معاملے کے پیچھے اہم کردار میری خالہ کا تھا، جنہوں نے میری امی کو ملنے والی گولڈن شیک ہینڈ کی رقم اور مکان ہتھیانے کے لیے یہ سارا پلان تیار کیا تھا۔ خیر اب وہ خالہ بھی اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن جن پیسوں کے لیے، مکان کے لیے انہوں نے میری زندگی تباہ کی وہ ابھی تک موجود ہے۔
''سزا پانے والا زرتلافی کا مقدمہ فائل کرسکتا ہے''
جاوید احمد چھتاری ایڈووکیٹ سے گفتگو
ایکسپریس: ایسے افراد جو الزام ثابت ہوئے بغیر طویل مدت قید میں گزار دیتے ہیں کیا وہ ریاست، پولیس یا کسی بھی متعلقہ ادارے پر کمپنسیشن کے لیے مقدمہ کرسکتے ہیں؟
جاوید احمد چھتاری : اس کو قانون کی زبان میں 'بدنیتی پر مبنی استغاثہ' کہتے ہیں، جس کے تحت سزا پانے والے فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مدعی مقدمہ، پولیس، تفتیشی افسر اور جھوٹی گواہی دینے والوں پر ڈیمجز (زرتلافی) فائل کرسکتا ہے۔ لیکن اسماء نواب کے کیس میں معاملہ الگ ہے، کیوں کہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے اور ایسے مقدمے لڑنے کے لیے اچھے خاصے پیسوں اور بھاگ دوڑ کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ ان حالات میں اس کی متحمل نہیں ہوسکتی، اگر حالات موافق رہے تو آگے اس بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
ملزم رہائی کے بعد اپنے جرم کا اعتراف کرلے تو کیا سزا پائے گا؟
جاوید احمد چھتاری: اقبال جرم کرنے کا ایک طریقۂ کار ہے ۔ ضابطۂ فوجداری 164کے تحت اقبالی بیان دینے کے لیے ملزم کا پولیس کی تحویل میں، ریمانڈ پر یا شامل تفتیش ہونا ضروری ہے۔ تفتیشی افسر مجسٹریٹ کو اقبالی بیان لینے کے لیے درخواست دیتا ہے پھر کہیں جاکر 164کا بیان لینے کی تیاری ہوتی ہے۔ ملزم کو مجسٹریٹ کے پاس ہتھکڑی کھول کر اکیلے کمرے میں پیش کیا جاتا ہے، جو ملزم کو بتاتا ہے کہ تم پر اقبالی بیان دینے کے لیے کوئی زور زبردستی، دبائو نہیں ہے، تم چاہو تو اس سے انکار بھی کرسکتے ہو۔ بیان دینے یا نہ دینے، دونوں صورتوں میں ہم تمہیں پولیس کے حوالے سے نہیں کریں گے، بل کہ براہ راست جیل بھیجیں گے۔ اس کے بعد ملزم کو اعصابی طور پر پُرسکون ہونے کے لیے دو گھنٹے کا ریفلیکشن ٹائم دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر ملزم کہتا ہے کہ میں اقبالی بیان دینے کے لیے راضی ہوں تو پھر مجسٹریٹ اپنی ہاتھ سے ملزم کا اقبالی بیان تحریر کرتا ہے، جس کے بعد جیل کسٹڈی کردی جاتی ہے۔ اب جب ایک آدمی بَری ہونے کے بعد اقبال جرم کرنا چاہتا ہے تو بَری ہونے کے بعد اس کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ایکسپریس: آپ نے رضاکارانہ طور پر اسماء نواب کا مقدمہ لڑا، اس کے لیے کس بات نے آپ کو آمادہ کیا؟
جاوید احمد چھتاری: جس وقت یہ واقعہ ہوا ان دنوں شام کے اخبارات کا دور تھا، ان میں کچھ اخبارات کا کام ہی سنسنی پھیلانا تھا۔ میں نے اخبار میں خبر پڑھی اور ریمانڈ کے وقت میں یہ دیکھنے گیا کہ یہ لڑکی کون ہے؟ میں نے اسماء نواب سے پوچھا کہ تمھارے ساتھ کون ہے تو اس نے کہا کوئی نہیں، تو میں نے اسماء کو بغیر فیس کے کیس لڑنے کی پیش کش کی،اس نے وکالت نامہ سائن کردیا۔ اس وقت میں ایک جونیئر وکیل تھا کبھی کسی سنیئر وکیل سے مدد لینے گیا تو جاتے ہوئے کوئی تحفہ لے گیا۔ کبھی کسی وکیل کو فیس دے کر کوئی مشورہ لیا۔ سنیئرو جونیئر وکلا کے مشوروں کی وجہ سے یہ مقدمہ اپنے آغاز سے ہی اچھا چلا۔ دوسری بات یہ کہ جس وقت میں نے یہ کیس لیا اس وقت میڈیا تقسیم ہوگیا تھا کچھ اخبارات اس کے حق میں تھے اور کچھ اخبارات اسماء نواب اور مجھ پر بہت سے الزامات لگا رہے تھے۔
جس کی تردید اسماء نواب نے اپنے بیانات میں بھی کی۔ تو بات یہ ہے کہ ان بیس سالوں میں بہت نشیب و فراز آتے رہے لیکن میں اپنی کمٹمنٹ پر قائم رہا۔ میرے ذہن میں یہی بات تھی کہ مجھے اس لاوارث یتیم بچی کو انصاف دلانا ہے اور اللہ نے مجھے اس کا اجر دیا ہے۔ اس پورے عرصے میں جب بھی اسماء نے مجھ سے کسی بھی چیز کی فرمائش کی وہ میں نے پوری کی، میں ہر ماہ اس کو خرچہ بھیجتا رہا، عید بقرعید اور ہر تہوار پر اس کو کپڑے بھیجتا رہا۔ میں نے اس کو بنا فیس کے مقدمہ لڑنے کی زبان دی تھی، جس پر میں قائم رہا اور ان بیس سالوں میں میرا جو بھی پیسہ، وقت خرچ ہوا وہ میرا اور اللہ کا معاملہ ہے، اس کا اسماء نواب پر کوئی احسان نہیں ہے۔ اسماء کی خوش قسمتی یہ ہے کہ جب اس کا کیس سپریم کورٹ میں گیا تو اس وقت تک میرا سپریم کورٹ کا لائسنس بن چکا تھا ورنہ مجھے بہت پریشانی ہوتی، مجھے پتا نہیں کس کس کی خوشامد کرنی پڑتی، اور شاید کوئی دوسرا وکیل اس مقدمے کو اس جذباتیت سے، اتنی شدت اتنی محنت سے نہیں لڑ پاتا۔
عکاسی: راشد اجمیری