تاحیات نااہلی اور مستقبل

ن لیگی رہنماؤں کا ردعمل اشارہ کررہا ہے کہ وہ اپنے قائد کو ’’بڑے گھر‘‘ بھجوانے کےلیے سیاسی مخالفین سے زیادہ بے چین ہیں

آج پھر پاکستان کے تیسری مرتبہ منتخب وزیراعظم کو تاحیات نااہل کیا گیا۔ فوٹو:انٹرنیٹ

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی کی مدت کا تعین کر دیا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کی توقعات کے عین مطابق سابق وزیراعظم کو ''تاحیات نا اہل'' قرار دے دیا گیا ہے۔ جمعہ کے روز 14 فروری 2018 کو محفوظ کیے جانے والے فیصلے پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے تمام ججوں نے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں نواز شریف اور جہانگیر ترین کے تاحیات نااہل ہونے کے فیصلے پر تاریخی مہر ثبت کی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جو صادق اور امین نہ ہو، اسے آئین تاحیات نااہل قرار دیتا ہے۔ جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے، نااہلی رہے گی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کا سیاسی مستقبل مکمل طور پر تاریک ہو چکا ہے اور (ن) لیگی سیاست میں چھوٹے میاں شہباز شریف کلیدی اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ مذکورہ فیصلہ ہی ملکی سیاست اور آئندہ انتخابات میں نئی حکومت کے قیام کی راہ متعین کرے گا۔

فیصلے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور وفاقی وزراء کی جانب سے متوقع سخت رد عمل دیکھنے میں آیا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ حکمران جماعت مستقبل قریب میں بھی مزاحمتی سیاست کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ سب سے زیادہ دلچسپ بیانیہ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا منظر عام پر آیا ہے۔ وزیر مملکت نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ وہی فیصلہ ہے جس سے شہید بھٹو کو پھانسی چڑھایا گیا اور بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، آج پھر پاکستان کے تیسری مرتبہ منتخب وزیراعظم کو تاحیات نااہل کیا گیا۔ مریم اورنگزیب کا یہ بیانیہ نواز شریف کے منہ سے ''اڈیالہ '' کے تذکرے کا تسلسل لگ رہا ہے۔

نواز شریف کی نا اہلی کے بعد (ن) لیگی رہنماؤں کا رد عمل اشارہ کررہا ہے کہ وہ اپنے قائد کو ''بڑے گھر'' بھجوانے کےلیے اپنے سیاسی مخالفین سے زیادہ بے چین ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ (ن) لیگی قیادت تین بار مرکز میں حکومت قائم کرنے کے باوجود آج تک وہی غلطیاں دُہراتی آرہی ہے جو ماضی میں اس کیلئے وبال جان بنی رہیں۔ اگر آپ میاں نواز شریف کے موجودہ حواریوں کی فہرست دیکھیں تو آپ کو وہی چہرے نظر آئیں گے جو گزشتہ ادوار میں ''لوٹوں'' کا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر چکے ہیں۔ وہی ''لوٹے'' اب منظرنامہ تبدیل ہونے پر یکے بعد دیگر ''اُڑان'' بھر رہے رہیں۔

ان فصلی بٹیروں کے ایک بار پھر ساتھ چھوڑ جانے پر (ن) لیگی قیادت خاصی پریشان نظر آرہی ہے۔ تاہم اب یہ پریشانی ایک نہ ختم ہونے والے دردِ سر میں تبدیل ہوچکی ہے، کیونکہ جنوبی پنجاب کو مسلسل نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہاں کے ہیوی ویٹ چیمپئن بھی اکھاڑا تبدیل کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جہانگیر ترین ہیں جنہیں ان کے مخالفین بھی ''قربانی کا بکرا'' کہہ رہے ہیں۔ ان کا اپنی تاحیات نا اہلی پر کہنا ہے کہ میرے اور نواز شریف کے کیس میں فرق ہے۔ میں نے کوئی چیز نہیں چھپائی، میرا کاروبار شفاف ہے۔ نواز شریف نے پیسہ منی لانڈرنگ اور میں نے بذریعہ بینک باہر بھجوایا تھا۔


موجودہ سیاسی منظر نامے میں پیپلز پارٹی سب سے زیادہ ''انجوائے'' کر رہی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کےلیے بھی آنے والے دنوں میں چند بری خبریں ہیں۔ پاکستانی عوام اب اتنے باشعور ہوچکے ہیں کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں، اس بات کا ثبوت سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے گٹھ جوڑ پر دونوں پارٹیوں کے اپنے ہی کارکنوں کی جانب سے سخت تنقیدی رویہ ہے۔

1947 سے مسائل کی چکی میں پسنے والے لوگ بلا تخصیص تمام سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کے احتساب کے خواہاں ہیں۔

اب قانون نافذ کرنے والے، احتساب کے اداروں بشمول سپریم کورٹ پر یہ پابندی عائد ہوتی ہے کہ وہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کی طرح تمام کرپٹ، جھوٹے اور مکارعوامی نمائندوں کا کڑا احتساب کرے، چاہے ان نمائندوں کا تعلق پی پی پی، (ن) لیگ، تحریک انصاف سمیت کسی بھی سیاسی جماعت یا قومی ادارے سے ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو تاریخ مذکورہ فیصلوں کو متنازعہ اور جانب دار فیصلوں کے طور پر یاد رکھے گی۔ مزید برأں، موجودہ سیاسی منظرنامے میں فوج اور ایجنسیوں کا کردار بھی واضح ہونا چاہیے۔

سیاسی کارکنوں اور دائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کی جانب سے تیسری قوت کے کھلم کھلا عمل دخل کا جو الزام عائد کیا جا رہا ہے اس پر بھی سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ آخر میں غلام ہمدانی مصحفی کا شعر:


نا اہل ہم ہیں ورنہ سراپا میں یار کے
وہ عضو کون سا ہے کہ عشق آفریں نہیں


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story