عالمی یوم صحت

ایک مشکل سفر اختتام کو پہنچا مگر سرکاری اسپتال کا عملہ بھی زخمی کو امداد دینے پر تیار نہیں تھا۔

tauceeph@gmail.com

PESHAWAR:
شاہین اختر نفسیات کی پروفیسر ہیں اور سرکاری یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی سربراہ ہیں۔ پروفیسر شاہین اختر مارچ کے مہینے میں صبح 10:00 بجے اپنے گھر سے یونیورسٹی جانے لیے اپنی کار میں روانہ ہوئیں۔ ان کی گاڑی صفورا چوک سے کراچی یونیورسٹی کی طرف بڑھی تھی کہ سڑک کے کنارے ایک ہجوم نظر آیا۔

پروفیسر شاہین کی گاڑی جب ہجوم کے قریب پہنچی تو انھیں سڑک پر گرا ہوا ایک نوجوان نظر آیا۔ اس 30 سالہ نوجوان کے سر سے خون بہہ رہا تھا اورقریب ہی اس کی موٹر سائیکل گری ہوئی تھی۔ شاہین اختر نے ہجوم میں موجود لوگوں سے پوچھا کہ انھوں نے ایمبولینس بلوانے کے لیے کہیں ٹیلیفون کیا ہے تو لوگ خاموش ہوگئے۔

ہجوم سے آوازیں آئیں کہ یہ تو پولیس کیس ہے۔ پروفیسر صاحبہ نے اپنے ڈرائیور اور چند لوگوں کی مدد سے بے ہوش نوجوان کو کار میں سوارکرایا اور ڈرائیورکو علاقے کے بڑے میمن اسپتال لے جانے کوکہا۔ ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی دوڑائی۔ سڑک پر رش نہیں تھا، چند منٹوں میں اسپتال پہنچ کر ایمرجنسی وارڈ پر تعینات اہلکاروں سے کہا کہ زخمی کو ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کریں مگر ان لوگوں نے انکارکیا اور بیک زبان کہا کہ اسپتال پولیس کیس نہیں لیتا۔ پروفیسر صاحبہ نے پھر ہمت باندھی اور زخمی نوجوان کے سر سے خون رک ہی نہیں رہا تھا۔ وہ اپنی گاڑی کو ایک میڈیکل یونیورسٹی کے کیمپس لے گئیں۔

ایک مشکل سفر اختتام کو پہنچا مگر سرکاری اسپتال کا عملہ بھی زخمی کو امداد دینے پر تیار نہیں تھا اور اسپتال کے عملے کا اصرار تھا کہ یہ پولیس کیس ہے مگر جب پروفیسر صاحبہ نے شور مچایا اور پیشکش کی کہ پولیس کے طلب کرنے پر انھیں وہ گرفتاری دے دیں گی تو زخمی کو ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ پروفیسر شاہین نے مریض کے علاج کے لیے اپنے پرس میں موجود کل رقم بھی دی مگر یہ نوجوان زیادہ خون بہہ جانے کی بناء پر جاں بحق ہوگیا۔ جب نوجوان کے لواحقین اسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ بدقسمت نوجوان کی شادی ایک سال قبل ہوئی تھی ۔

ملک میں حادثات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی شرح خاصی زیادہ ہے۔ کراچی میں گزشتہ سال ٹریفک کے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 800کے قریب تھی۔ ان میں سے بیشتر فوری طبی امدا د نہ ملنے کی بناء پر زندہ نہ رہ سکے۔ پاکستان یوں تو ایٹم بم بنانے والے دنیا کے بڑے ممالک کے کلب میں شامل ہے مگر اسی ملک میں صحت سے متعلق انڈیکیٹر انتہائی مایوس کن ہیں۔ پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زچہ وبچہ کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے اور صدی کے اٹھارہ سال گزرنے کے باوجود صورتحال ویسی ہی ہے جیسی گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں تھی۔ پاکستان میں ہر ساتواں آدمی ذیابیطس کے مرض کا شمار ہے۔

ٹی بی کے جراثیم اس مرض کے تدارک کے لیے دی جانے والی دوائیوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں جس بناء پر ٹی بی کا مرض ختم ہونے کے بجائے پھیل رہا ہے، اگرچہ گزشتہ صدی میں چیچک اور خسرہ کی بیماریوں کے بارے میں یقین دلایا گیا تھا کہ ریاستی اداروں کی جامع کوششوں کے بعد ان امراض پر قابو پالیا گیا ہے مگر سندھ کے مختلف شہروں سے ملنے والی اطلاعات سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ خسرہ اور چیچک وبائی صورت اختیارکررہی ہیں۔

اخبارات میں شایع ہونے والے فیچرزکے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں ہیپاٹائیٹس بی اور سی کا مرض وبائی شکل اختیار کرگیا ہے۔ حکومت کی اس مرض کے خاتمے کی کوششیں کارآمد ثابت نہیں ہوئیں ۔

ہیپاٹائٹس کی خطرناک اقسام بی اور سی اور ایڈز کا مرض خون کی منتقلی سے پھیلتا ہے۔ انجکشن کی سوئی، ڈرپ کی نڈل اور حجام کا استرا ان امراض کو پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں مگر وفاقی اورصوبائی حکومتیں اس مرض کے بارے میں شعور پھیلانے اور رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ بچوں کو پولیوکے قطرے پلانے سے پاؤں کو معذور بنانے سے روکنے کی کوششوں کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک موجودہے مگر ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ابھی تک پولیوکی مہم کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اب تک سوشل میڈیا بھی پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف مہم میں مؤثر حصہ بن گیا ہے۔

ملک میں معذور بچوں کی حمایت میں کوئی مؤثر تحریک ارتقاء پذیر نہیں ہوئی۔ اب تو بین الاقوامی ادارۂ صحت (W.H.O) کے پاس پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا، مگر ہر دفعہ جب ملک کے مختلف علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع ہوتی ہے تو پولیو کے قطرے پلانے والے اہلکاروں پر حملوں اور ان کے شہید ہونے کی خبریں آتی ہیں۔


18 ویں ترمیم کے بعد اب صحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے مگر دوائیوں کے اجراء کے لیے لائسنس کے اجراء اور قیمتوں کے تعین کا معاملہ ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے سپرد ہے۔ یہ اتھارٹی وفاقی وزارت صحت کے تحت کام کرتی ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اتھارٹی دوائیوں کی قیمتوں کو بڑھانے کا فریضہ انجام دینے کے لیے قائم ہوئی ہے۔

پاکستان شاید دنیا کا وہ بدقسمت ملک ہے جہاں شوگر لیول ناپنے کے لیے استعمال ہونے والی اسٹرپ کے ڈبے کی قیمت 1200 روپے ہے۔ ایک ڈبے میں صرف 50 اسٹرپ ہوتی ہیں۔ اسی طرح کینسر، ڈائیلیسز اورگردہ ٹرانسپلانٹ کے مرض کی دوائیوں کی قیمتیں لاکھوں روپے میں ہیں، اگرکسی فرد کوکینسر کا مرض لاحق ہوجائے اور گردے کام کرنا بندکر دیں تو اس مریض کا خاندان والوں کو فوری طور پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔

صوبوں نے صحت کے شعبے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی ہے، اگرچہ مالیاتی ایوارڈ کے نئے فارمولے کے تحت صوبوں کی آمدنی بڑھ گئی ہے مگر چاروں صوبوں نے جدید اسپتالوں کی تعمیر ، ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تربیت پر توجہ نہیں دی۔

یہی وجہ ہے کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں پر دباؤ زیادہ ہے۔ پورے ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ علاج کرنے کے لیے ان شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ سندھ حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے سول اور جناح اسپتال کے حالات بہتر ہیں مگر بلدیہ کراچی کے زیر انتظام عباسی شہید اسپتال زبوں حالی کا شکار ہے۔ چھوٹے شہروں کے اسپتالوں میں معقول سہولتیں موجود نہیں ہیں۔

حکومت کے پاس ماہر ڈاکٹروں کو چھوٹے شہروں میں فرائض انجام دینے پر آمادہ کرنے کے لیے کوئی اسکیم موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کنسلٹنٹ کی بڑی تعداد بڑے شہروں میں ملتی ہے۔ جو ماہر ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں تعینات ہیں وہ بھی کھلے عام پرائیوٹ پریکٹس کرتے ہیں اور خوب رقم کماتے ہیں۔ حکومت کی صحت کی ناقص پالیسی کی بناء پر پرائیوٹ سیکٹر میں جدید اسپتال پورے ملک میں پھیل گئے ہیں۔

یہ اسپتال مریضوں سے اسی طرح رقم بٹورتے ہیں جس طرح ہوٹل والے اپنے مہمان مسافروں سے رقم لیتے ہیں۔ اب کراچی میں کنسلٹنٹ کی فیس آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ کنسلٹنٹ کی فیس ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے اور 5 ہزار روپے کو عبورکرتی ہے۔ جب مریض دوسری دفعہ کنسلٹنٹ کے پاس جاتے ہیں پھر بھی وہی فیس وصول کی جاتی ہے جو پہلی دفعہ لی گئی ہوتی ہے۔ جب مریض آئی سی یو میں منتقل کیا جاتا ہے اور اس کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے تو کنسلٹنٹ ڈاکٹر کو دویا زائد بار بلایا جاتا ہے تو وہ جتنی دفعہ معائنہ کرتے ہیں اتنی ہی زیادہ فیس وصول کرتے ہیں۔ جو ماہر ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں تعینات ہیں وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی پرائیوٹ پریکٹس کے اشتہار اخبارات میں شایع کراتے ہیں۔

کراچی گزشتہ 10 برسوں سے بلدیاتی امور سے محروم ہے جس کی بناء پر شہرکوڑے دان میں تبدیل ہوتا جارہا ہے، جس کی بناء پر چکن گونیا جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ پنجاب میں تو فوڈ کنٹرول اتھارٹی موجود ہے مگر سندھ میں اب بھی اتھارٹی کے قیام پر غور ہو رہا ہے۔ یوں ناقص اشیاء کے استعمال سے مختلف نوعیت کے امراض وبائی شکل اختیارکرچکے ہیں۔ حکومت نے والدین کوکم بچے پیدا کرنے کی طرف راغب کرنے کے معاملے کو فراموش کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ بیمار ماں کے بچوں کی اموات کی خبریں روزانہ ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں۔

گزشتہ مہینے عالمی ادارۂ صحت کی کوششوں سے دنیا بھر میں صحت کا دن منایا گیا ۔ اس دن ملک بھر میں تقاریب منعقد ہوئیں اور اخبارات کے خصوصی صفحے شایع کیے۔ الیکٹرونک میڈیا نے بھی بہت مختصر حصہ اس دن کے لیے مختص کیا مگر صحت کے عالمی دن کے موقعے پر ہم اسپتالوں کے عملے کی تربیت کے لیے کچھ نہ کرسکے کہ وہ ہر زخمی کا علاج کریں۔ شاہین اختر کوکسی زخمی کی جان بچانے کے لیے اسپتالوں کے چکر کاٹنے نہ پڑیں۔

عوام بغیر کسی خوف کے زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے پر توجہ دیں۔ ماہرکنسلٹنٹ اپنی فیسیں کم کریں یا پھر حکومت اس بارے میں جامع قانون بنائے۔ حکومت جان لیوا امراض کی ادویات مفت فراہم کرے۔ آیندہ انتخابات میں شرکت کرنے والی سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں ہر شہری کے علاج کے حق کو تسلیم کرنے کے لیے یہ حصہ شامل کریں۔
Load Next Story