ون ٹوون مقابلہ پی پی کوآبائی نشست سے محروم کرسکتا ہے
انتخابات پی پی اورمخالفین دونوں کیلیے چشم کشا ہونگے، جیالے صدمے سے دوچارہیں
پاکستان پیپلزپارٹی کے مضبوط ترین گڑھ لاڑکانہ سے اس کے انتخاب میں کامیابی کے امکانات اب بھی موجود ہیں تاہم پہلی بار کسی 'بھٹو' کی موجودگی کے بغیر الیکشن لڑنے میں انھیں پریشانیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔
40سال تک پاکستانی سیاست کا محورومرکز رہنے والی، بھٹو خاندان کی آبائی اور روایتی نشست پر بھٹو نام کا حامل ایک ہی امیدوار ان کے پاس ہے اور وہ بھی صرف صوبائی حلقے میں، محمد علی بھٹو ولد مشتاق بھٹو۔ حقیقت یہ ہے کہ 1970سے لاڑکانہ کا ٹرن آؤٹ کبھی بھی 50فیصد تک نہیں پہنچا، نہ ہی کبھی بھٹو خاندان کو ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ اگر پیپلزپارٹی کے گڑھ میں کار فرما ووٹنگ کے اس رجحان کو پیش نظر رکھا جائے تو کوئی بھی مضبوط پی پی مخالف اتحاد اسے یہاں شکست سے ہمکنار کرسکتاہے۔
کبھی ان نشستوں پر بھٹو خاندا ن کے علاوہ کسی کی کامیابی کا سوچا بھی نہیں جاسکتاتھا۔ لیکن اب اگر ون ٹو ون مقابلہ ہوا تو پی پی یہ سیٹ ہارسکتی ہے کیونکہ مقابلے پر ممتازبھٹو کا بیٹا امیربخش بھٹو ہے۔ 1970میں این اے 116لاڑکانہ ون سے ذوالفقارعلی بھٹو اور این اے117لاڑکانہ ٹو سے ان کے کزن ممتازبھٹو منتخب ہوئے تھے۔ 1988 میں ان نشستوں سے بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو بالترتیب 83,449 اور 82,229 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ بھٹو کو 1970میں71554 ووٹ ملے تھے۔1997 میں بی بی کو46,992ووٹ ملے جبکہ بیگم بھٹو کے ووٹ کم ہوکر 39,045رہ گئے۔
مشرف کے الیکشن میں بی بی کو باہر رکھاگیا تاہم ان کا ووٹ بینک قائم رہا اور پی پی کے امیدوار انورعلی بھٹو 46,745ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ دوسری سیٹ پی پی ہی کے حزب اللہ بگھیو کو ملی جو آئندہ بھی پارٹی کے امیدوار ہوںگے اوران کی کام یابی کے امکانات بھی ہیں۔ 2002این اے 207 اور 2008 میں این اے 204 سے غنویٰ بھٹو کے خلاف ریکارڈ مارجن سے فتح حاصل کرنے والے شاہد بھٹو کو نظرانداز کردیا گیا ۔ 2002میں این اے 205 سے پی پی کے حزب اللہ کے 45,097کے مقابلے میں ن لیگ کے الطاف انڑ نے 44,473ووٹ حاصل کرلیے تھے جبکہ 1997میں پی پی کے سردار شبیرچانڈیو کے 35,377 ووٹوں کے مقابلے میں غنویٰ بھٹو 24,085ووٹوں تک پہنچ گئی تھیں۔
آئندہ انتخابات کے لیے پی پی نے این اے204سے ایازسومرو، این اے205سے نذیر بگھیو، این اے206 سے امیرمگسی، این اے 207 سے فریال تالپور کو ٹکٹ دیے ہیں۔ ان میں موخرالذکر 3 نشستوں پر جیت کے امکانات ہیں جبکہ پہلی پر سخت مقابلہ متوقع ہے۔ ناقدین کے مطابق فریال تالپور لاڑکانہ سے تعلق نہیں رکھتیں چنانچہ یہ نشست کسی 'بھٹو' کو دینی چاہیے یا پھر وہ اعلان کریں کہ یہ سیٹ بی بی کے بچوں کے لیے مخصوص ہے۔ بے نظیر کے قتل کے بعد اس سیٹ پر فریال بلامقابلہ منتخب ہوئی تھیں۔ امکان یہی ہے کہ بچوں کو انتخابی اہلیت ملتے ہی فریال اس پر براجمان رہنے کے بجائے اسے چھوڑ دیںگی۔
پاکستان اور بالخصوص سندھ میں موروثی سیاست اب بھی بہت مستحکم ہے لیکن گزشتہ 40 برس میں پی پی کے ووٹوں کااتار چڑھاؤ ظاہر کرتاہے کہ بعض مضبوط اور یقینی نشستوں کے بارے میں بھی اب یقین سے نہیں کہاجا سکتاکہ وہ پیپلزپارٹی کو ہی ملیںگی۔ اس کی وجہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی ہے۔ یہ انتخابات پی پی اور پی پی مخالفین دونوں کے لیے چشم کشا ہوں گے۔ 4اپریل کو بھٹو کی پھانسی کے موقع پر کسی بڑی میٹنگ یا جلسے کا نہ ہونا، حتیٰ کہ سی ای سی کی روایتی میٹنگ اور پھانسی کے وقت ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے سے انحراف نے پارٹی ورکرز کو شدید صدمے سے دوچار کیا ہے۔ ان کے لیے مخلصانہ اور مفت مشورہ ہے کہ وہ لاڑکانہ میں ووٹنگ رجحان کے اتارچڑھاؤ کا عمیق نظروں سے مشاہدہ کریں۔
40سال تک پاکستانی سیاست کا محورومرکز رہنے والی، بھٹو خاندان کی آبائی اور روایتی نشست پر بھٹو نام کا حامل ایک ہی امیدوار ان کے پاس ہے اور وہ بھی صرف صوبائی حلقے میں، محمد علی بھٹو ولد مشتاق بھٹو۔ حقیقت یہ ہے کہ 1970سے لاڑکانہ کا ٹرن آؤٹ کبھی بھی 50فیصد تک نہیں پہنچا، نہ ہی کبھی بھٹو خاندان کو ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ اگر پیپلزپارٹی کے گڑھ میں کار فرما ووٹنگ کے اس رجحان کو پیش نظر رکھا جائے تو کوئی بھی مضبوط پی پی مخالف اتحاد اسے یہاں شکست سے ہمکنار کرسکتاہے۔
کبھی ان نشستوں پر بھٹو خاندا ن کے علاوہ کسی کی کامیابی کا سوچا بھی نہیں جاسکتاتھا۔ لیکن اب اگر ون ٹو ون مقابلہ ہوا تو پی پی یہ سیٹ ہارسکتی ہے کیونکہ مقابلے پر ممتازبھٹو کا بیٹا امیربخش بھٹو ہے۔ 1970میں این اے 116لاڑکانہ ون سے ذوالفقارعلی بھٹو اور این اے117لاڑکانہ ٹو سے ان کے کزن ممتازبھٹو منتخب ہوئے تھے۔ 1988 میں ان نشستوں سے بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو بالترتیب 83,449 اور 82,229 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ بھٹو کو 1970میں71554 ووٹ ملے تھے۔1997 میں بی بی کو46,992ووٹ ملے جبکہ بیگم بھٹو کے ووٹ کم ہوکر 39,045رہ گئے۔
مشرف کے الیکشن میں بی بی کو باہر رکھاگیا تاہم ان کا ووٹ بینک قائم رہا اور پی پی کے امیدوار انورعلی بھٹو 46,745ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ دوسری سیٹ پی پی ہی کے حزب اللہ بگھیو کو ملی جو آئندہ بھی پارٹی کے امیدوار ہوںگے اوران کی کام یابی کے امکانات بھی ہیں۔ 2002این اے 207 اور 2008 میں این اے 204 سے غنویٰ بھٹو کے خلاف ریکارڈ مارجن سے فتح حاصل کرنے والے شاہد بھٹو کو نظرانداز کردیا گیا ۔ 2002میں این اے 205 سے پی پی کے حزب اللہ کے 45,097کے مقابلے میں ن لیگ کے الطاف انڑ نے 44,473ووٹ حاصل کرلیے تھے جبکہ 1997میں پی پی کے سردار شبیرچانڈیو کے 35,377 ووٹوں کے مقابلے میں غنویٰ بھٹو 24,085ووٹوں تک پہنچ گئی تھیں۔
آئندہ انتخابات کے لیے پی پی نے این اے204سے ایازسومرو، این اے205سے نذیر بگھیو، این اے206 سے امیرمگسی، این اے 207 سے فریال تالپور کو ٹکٹ دیے ہیں۔ ان میں موخرالذکر 3 نشستوں پر جیت کے امکانات ہیں جبکہ پہلی پر سخت مقابلہ متوقع ہے۔ ناقدین کے مطابق فریال تالپور لاڑکانہ سے تعلق نہیں رکھتیں چنانچہ یہ نشست کسی 'بھٹو' کو دینی چاہیے یا پھر وہ اعلان کریں کہ یہ سیٹ بی بی کے بچوں کے لیے مخصوص ہے۔ بے نظیر کے قتل کے بعد اس سیٹ پر فریال بلامقابلہ منتخب ہوئی تھیں۔ امکان یہی ہے کہ بچوں کو انتخابی اہلیت ملتے ہی فریال اس پر براجمان رہنے کے بجائے اسے چھوڑ دیںگی۔
پاکستان اور بالخصوص سندھ میں موروثی سیاست اب بھی بہت مستحکم ہے لیکن گزشتہ 40 برس میں پی پی کے ووٹوں کااتار چڑھاؤ ظاہر کرتاہے کہ بعض مضبوط اور یقینی نشستوں کے بارے میں بھی اب یقین سے نہیں کہاجا سکتاکہ وہ پیپلزپارٹی کو ہی ملیںگی۔ اس کی وجہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی ہے۔ یہ انتخابات پی پی اور پی پی مخالفین دونوں کے لیے چشم کشا ہوں گے۔ 4اپریل کو بھٹو کی پھانسی کے موقع پر کسی بڑی میٹنگ یا جلسے کا نہ ہونا، حتیٰ کہ سی ای سی کی روایتی میٹنگ اور پھانسی کے وقت ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے سے انحراف نے پارٹی ورکرز کو شدید صدمے سے دوچار کیا ہے۔ ان کے لیے مخلصانہ اور مفت مشورہ ہے کہ وہ لاڑکانہ میں ووٹنگ رجحان کے اتارچڑھاؤ کا عمیق نظروں سے مشاہدہ کریں۔