چناؤ

تقسیم پاک و ہند سے پہلے پنجاب اسمبلی کے امیدوار کے انتخاب کی روداد۔

تقسیم پاک و ہند سے پہلے پنجاب اسمبلی کے امیدوار کے انتخاب کی روداد۔ فوٹو: سوشل میڈیا

JOHANNESBURG:
بھمبا کلاں اور بھمبا خورد دو چھوٹے سے گاؤں ہیں۔ ان کے درمیان تقریباً آدھے میل کا فاصلہ ہے۔ دونوں بستیاں بھلے شاہ کے مزار کے پاس مشن اسکول اور مٹی کے بکھرے ہوئے گھروں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس علاقے کو عام طور پر صرف بھمبا کہتے ہیں۔

بھمبا میں زیادہ تر سکھ کسان رہتے ہیں۔ یہاں کے زمین دار بھی سکھ ہیں۔ مسلمان ان کے لیے کھیتی کرتے ہیں۔ مکھار اور جلاہے بھی زیادہ تر مسلمان ہیں۔ شہر کی فصیل پر کچھ عیسائیوں کی جھونپڑیاں بھی ہیں۔ وہ بھی چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔ دکان دار ہندو ہیں۔ وہ تیل، صابن، نمک، کپڑا، مسالے، قینچی، آئینے اور جاپانی کھلونے بیچتے ہیں۔ بھمبا کی زندگی میں عموماً کوئی اتار چڑھاؤ نہیں ہوتا تھا۔ مرد کھیتوں میں کام کرتے، لڑکے گائیں چراتے اور عورتیں گھر میں کھانا پکاتیں، چرخا کاتتیں یا چکی پیستیں۔ دوپہر کے بعد لوگ آرام کرتے یا باتیں۔

بہار کی ایک دوپہر کا ذکر ہے۔ یکایک گاؤں میں کھلبلی مچ گئی۔ ایک موٹر کچی سڑک پر دھول اڑاتی بھمبا کی طرف آرہی تھی۔ وہ سلیٹی رنگ کی اسٹیشن ویگن تھی۔ اس میں پانچ چھے آدمی بیٹھے تھے۔ ویگن گاؤں کے میدان میں رکی، پانچ آدمی ویگن سے اترے، سب سے آگے انگریز ڈپٹی کمشنر مسٹر فورستھ تھے۔ وہ ایک ناٹے اور تگڑے آدمی تھے۔ ان کی وردی خاکی تھی اور سر پر ہیٹ تھا، ان کے ساتھ ایک ڈرائیور اور دو کانسٹیبل تھے۔ ان کے علاوہ اعزازی مجسٹریٹ سردار صاحب گنڈا سنگھ بھی تھے۔ وہ علاقے کے بڑے زمین دار اور گنڈا سنگھ والا گاؤں کے مالک تھے۔ ان کا گاؤں بھمبا سے زیادہ دور نہیں تھا۔

بھیڑ میں بھمبا کے ذیل دار اور تین نمبر دار کھڑے تھے۔ انھوں نے آگے بڑھ کے ڈپٹی کمشنر سے پوچھا۔ ''غریب پرور! ادھر کیسے تشریف لانا ہوا؟'' ڈپٹی کمشنر شفقت سے مسکرا دیا۔

ذیل دار مہمانوں کو عزت سے اپنے گھر لے آیا، مسٹر فورستھ بید کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ گاؤں والوں نے چاروں طرف حلقہ بنالیا۔ وہ زور زور سے مہمان کے گن گا رہے تھے۔

مسٹر فورستھ نے اپنا ہیٹ اتاردیا۔ انھوں نے اشاروں سے سمجھایا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ سب خاموش ہوگئے۔ سب سے پہلے انھوں نے گنڈا سنگھ کا تعارف کرایا۔ گنڈا سنگھ کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ علاقے میں سب اسے جانتے تھے۔ اس نے کسانوں کی تحریکیں کچلنے میں حکومت کی مدد کی تھی۔ اس خدمت کے عوض اسے زمینیں ملی تھیں، خطاب ملا تھا اور اعزازی مجسٹریٹ کا منصب حاصل ہوا تھا۔ وہ ڈاکوؤں، چوروں اور جعل سازوں کا جانا پہچانا سرپرست تھا۔ اس کے آدمی بے کھٹکے ڈاکے ڈالتے اور پولیس کے ساتھ چوری کا مال تقسیم کرتے۔ اس کے اڈوں پر کھلے عام دیسی شراب بنتی تھی۔ اپلوں کے ڈھیر میں تیار کی ہوئی مختلف شرابوں سے آب کاری کے افسروں کی ضیافت کی جاتی۔

علاقے کے لوگوں کو گنڈا سنگھ سے نفرت تھی۔ وہ بھی یہ جانتا تھا، اسی لیے جہاں جاتا دو بندوق بردار اس کی ساتھ ہوتے۔ خود اس کے کندھوں سے بھی کارتوسوں سے بھری ہوئی کالے چمڑے کی پیٹی لٹکی رہتی۔ پیٹی کے آخر میں ریوالور پڑا رہتا۔ بھمبا کا ہر شخص اسے خوب جانتا تھا اس کی کلف دار پگڑی کا ایک سرا سر پر تنا ہوتا اور دوسرا سرا گردن پر لٹکتا رہتا۔ سرمے کی وجہ سے اس کی آنکھیں اور کالی نظر آتیں اس کی داڑھی سلیقے سے کتری اور چھنٹی ہوتی۔ تیل کی چکنائی نے اس میں چمک پیدا کردی تھی۔ وہ صورت ہی سے عیاش آدمی نظر آتا تھا۔ فورستھ نے گنڈا سنگھ کی تعریف کی اور کہا کہ سردار صاحب گنڈا سنگھ اس علاقے کی شان ہیں۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ سردار صاحب پنجاب اسمبلی کے آنے والے چناؤ میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں انھیں سکھ فرقے کے لوگوں نے نام زد کیا ہے اور ان کی نام زدگی میں حکومت کی رضامندی بھی شامل ہے۔

لوگوں میں سرگوشیاں شروع ہوگئیں۔ فورستھ نے انھیں رخصت کردیا۔ لوگ چلے گئے تو فورستھ نے ذیل دار نمبر داروں سے کام کی بات شروع کردی۔ فورستھ ایک نمبردار سے بات کرنے میں مشغول تھا اور تھوڑی دور پر گنڈا سنگھ دوسرے نمبردار کے کندھوں پر ہاتھ رکھے کہہ رہا تھا۔ '' میں ڈی سی صاحب سے نمبرداروں کا ہر کام کروا سکتا ہوں۔''

ایک نمبردار کو بندوق کا لائسنس درکار تھا۔ دوسرے کا نام اسیسر بننے کے لیے ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا ہوا تھا، تیسرے کا بھتیجا آب کاری قانون کے تحت کسی معاملے میں پھنسا ہوا تھا۔ ڈپٹی کمشنر مجسٹریٹ کو اشارہ بھی کردے کہ ملزم ان کا آدمی ہے تو کام بننے کی پوری امید ہے۔

گنڈا سنگھ نے سب باتیں اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیں۔ نمبردار نے اس سے وعدہ کیا کہ چناؤ میں پورا گاؤں اس کا ساتھ دے گا اور جیت اسی کی ہوگی، نمبردار نے یہ بھی کہا کہ ''یہ سکھوں کی عزت کا سوال ہے۔'' ایک کسان بھی انتخاب میں امیدوار تھا۔ وہ ایک آزاد خیال آدمی تھا اس کا کوئی مذہب نہیں تھا، حکومت اسے پسند نہیں کرتی تھی وہ کئی بار جیل جا چکا تھا۔

فورستھ اور گنڈا سنگھ شام کو واپس چلے گئے ان کے دورے سے بھمبا کے ساکت پانی میں بلبلے اٹھنے لگے بھمبا کا سکون ختم ہوگیا۔

دوسرے دن بھی لوگ دھوپ میں بیٹھے چکی کی چھک چھک سن رہے تھے، اچانک بچوں میں شور اٹھا اور کتوں کے بھونکنے کی آواز آئی چند لمحوں بعد بادامی رنگ کی ایک لاری گاؤں میں داخل ہوئی اس کی چھت پر لاؤڈ اسپیکر لگا ہوا تھا اور مڈ گارڈ کے دونوں طرف مضبوط بانسوں پر نیشنلسٹ پارٹی کے بڑے بڑے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ غبار کے مرغولوں میں یہ دیکھنا مشکل تھا کہ لاری کے اندر کون ہے۔ اچانک لاؤڈ اسپیکر پر کھانس کے گلا صاف کرنے کی اگیا اور ایک آواز آئی۔ ''بھمبا کے رہنے والو! کیا آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب اسمبلی کے چناؤ قریب ہیں۔ کیا آپ چناؤ میں اپنا فرض جانتے ہیں۔ آپ کا فرض ہے سردار کرتار سنگھ ایڈووکیٹ کو ووٹ دینا۔ سردار کرتار سنگھ کو ووٹ دیجیے وہ نیشنلسٹ پارٹی کے نمائندے ہیں۔''


چند لمحوں کے لیے خاموشی چھاگئی۔ لاؤڈ اسپیکر پر کسی نے آواز لگائی۔ ''سردار کرتار سنگھ'' کچھ لوگوں نے مل کر زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ لاری کی اگلی نشست سے سردار کرتار سنگھ ایڈووکیٹ اترے۔ پھر گاندھی ٹوپی پہنے ہوئے دس بارہ نوجوان نکلے، ان کے ہاتھوں میں پوسٹروں کے بنڈل تھے۔ کرتار سنگھ پہلے کبھی بھمبا نہیں آیا تھا مگر گاؤں والے اسے جانتے تھے۔ کئی لوگوں نے فوج داری مقدموں میں بھاری فیسیں دے کر اسے اپنا وکیل کیا تھا، انھوں نے اکثر و بیشتر اسے انگریزی لباس میں دیکھا تھا۔ کالا کوٹ، ٹائی اور دھاری دار پتلون، لیکن آج وہ لمبا کرتا، پاجامہ اور چپلیں پہنے ہوئے تھا۔ اس کے ساتھ ایک کالا سا موٹا آدمی تھا۔ وہ انگریزی لباس پہنے ہوئے تھا۔ وہ دونوں ذیل دار کے گھر کی طرف گئے اور ان کے ساتھ پورے گاؤں میں پوسٹر چپکانے نکل گئے۔ ذیل دار گھر میں نہیں تھا اسے تلاش کروایا گیا مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا، گاؤں والوں نے بتایا کہ جب لاری آئی تھی وہ انہی کے ساتھ تھا۔ کسی نے خیال ظاہر کیا کہ شاید وہ مہمانوں کے لیے بندوبست کرنے چلا گیا ہو۔

کرتار سنگھ اور اس کا ساتھی واپس آگئے۔ چند لمحوں بعد کرتار سنگھ اپنے ساتھی کے ہم راہ لاری میں چھت پر چڑھ گیا مائیکرو فون اسے تھما دیا گیا۔ کرتار سنگھ نے اپنے ساتھی سیٹھ سکھ تنکر کا تعارف کرایا۔ سیٹھ ایک مشہور نیشنلسٹ لیڈر اور پنجاب اسمبلی کے لیے بلامقابلہ چُنا جاچکا تھا، وہ کروڑ پتی آدمی تھا، کئی کپڑا ملوں کا مالک اور ولایتی کے بائیکاٹ کی تحریک چل رہی تھی تو سیٹھ سکھ تنکر نے دونوں ہاتھوں سے دولت بٹوری۔ پھر جنگ کے پانچ برسوں میں اس کی دولت کا کوئی حساب نہ رہا اسے حکومت سے بالکل ہم دردی نہیں تھی، وہ صاف دلی سے کالے بازار میں کپڑا خریدتا اور بیچتا تھا، لوگ بھوکے ننگے تھے لیکن سیٹھ نے بے پناہ گہیوں ذخیرہ کر رکھا تھا وہ یہ گہیوں بہت مہنگے داموں بیچتا تھا، انگریزوں کا وہ پرجوش مخالف تھا اس کی خواہش تھی کہ سب ہندوستانی متحد ہوجائیں۔ سیٹھ کو سوشلزم سے بھی بڑی چڑ تھی۔ اس کے نزدیک سارے سوشلسٹ غدار تھے، وہ اس کی ملوں میں ایسے وقت ہڑتال کراتے جب سارا ولایتی مال بازار سے نکال کر اپنا سستا مال بیچا جاسکتا تھا وہ انھیں ولایتی ایجنٹ کہتا تھا۔

سیٹھ سکھ تنکر کی تعریفوں کے بعد کرتار سنگھ نے گنڈا سنگھ کا ذکر چھیڑ دیا۔ ''میں گنڈا سنگھ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں آپ بھی اس کی اصلیت سے بے خبر نہیں ہیں۔ ایسے شخص کو ہرگز ووٹ نہیں دینا چاہیے۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ چلے گئے۔

پھر تو یہ روز کا معمول ہوگیا نئے نئے لوگ بھمبا آتے اور تقریریں کرتے۔ دونوں امیدوار ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے تھے لیکن اس بات پر دونوں میں اتفاق تھا کہ کسان پارٹی کو چناؤ سے الگ رکھا جائے اب تک کسان پارٹی کا کوئی نمائندے بھمبا نہیں آیا تھا۔ گاؤں والے خدا کو نہ ماننے والے بدکرداروں اور غداروں کے منتظر تھے۔

موسم بہار کی دوپہر تھی۔ اچانک کسان امیدوار گاؤں میں داخل ہوا گاؤں کے بچوں یا کتوں نے اس کا خیر مقدم نہیں کیا کیوں کہ کسی نے اس کی آہٹ نہیں سنی تھی۔ وہ اپنی پگڑی کی طرح سفید گھوڑے پر سوار ہوکر آیا تھا، اس کا سینہ لمبی داڑھی سے ڈھکا ہوا تھا، یہ بابا رام سنگھ تھے۔ بھمبا کے تمام لوگوں نے ان کا نام سنا تھا۔ وہ کسان تحریکوں میں شریک ہوکر کئی بار گرفتار ہوچکے تھے۔ ان کی عمر کا زیادہ حصہ جیل میں گزرا تھا، ان کی ساری زمین سرکار نے ضبط کرلی تھی، اب ان کا اپنا کوئی گھر بھی نہیں تھا۔ ہاں گاؤں کے سب دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ سب انھیں ان کی بزرگی اور نیکی کی وجہ سے باباجی کہتے تھے، گاؤں والے باباجی کے چاروں طرف جمع ہوکے ان کے گندے جوتے اور گھوڑے کی رکاب چومنے لگے۔ ''بابا جی! بھمبا کیسے آنا ہوا؟'' انھوں نے بتایا میں کسان پارٹی کے ٹکٹ پر قانون ساز اسمبلی کا چناؤ لڑ رہا ہوں، خوب تالیاں بجیں۔ لوگ کانا پھوسی کرنے لگے کہ باباجی کو غدار کہا جاتا ہے، مگر ان کی تو ساری زندگی کسانوں کی خدمت میں گزری ہے، انھیں بدکردار مشہور کیا جاتا ہے لیکن یہ تو گرو کی طرح ہیں، نہ شراب پیتے ہیں نہ داڑھی کٹواتے ہیں۔

بابا رام سنگھ زیادہ دیر نہیں ٹھیرے۔ وہ کسانوں سے ووٹ لینے آئے تھے کیوں کہ ان کی آزادی کے لیے وہ انگریزوں کے خلاف لڑنا چاہتے تھے، وہ زمین داروں کے استحصال کے خلاف بھی لڑنا چاہتے تھے اور پولیس کی ناانصافیوں اور بدکردار انتظامیہ کے خلاف بھی لڑنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے مخالف امیدواروں کا نام بھی نہیں لیا۔

پھر کوئی کسان نمائندہ بھمبا نہیں آیا۔ نہ بابا خود آئے۔ وہ پُرامن طریقے سے اکیلے گاؤں گاؤں گئے اور فورستھ کی حکومت اور سکھ تنکر کی ناجائز دولت کے خلاف بولتے رہے، وہ بہت جوش سے بولتے تھے جیسے کوئی آندھی کے سامنے روئی کے ہلکے پھلکے گالے اڑائے۔ چناؤ سے ایک دن پہلے انھیں حکومت کے خلاف تقریریں کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔

بھمبا اور آس پاس کے علاقوں میں ووٹنگ شروع ہوگئی۔ میلے کچیلے کسان سیٹھ سکھ تنکر کی لاریوں سے گنڈا سنگھ کی شراب کے نشے میں جھومتے ہوئے نکلے لیکن انھیں معلوم تھا کہ ووٹ کسے دینا ہے۔ ہزاروں کسانوں نے ان پڑھ ہونے کی وجہ سے اپنے امیدوار کا نام زبانی بتایا اور پیدل گھر واپس گئے۔ دس دن بعد فورستھ کے دفتر میں ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی باہر لوگوں کا ایک گروہ گنڈا سنگھ کے اور دوسرا کرتار سنگھ کے نعرے لگا رہا تھا۔ بابا رام سنگھ کا نام کسی نے نہیں لیا۔ گیارہ بجے بھاری بھرکم فورستھ سیڑھیوں پر نظر آیا۔ نتیجے کا اعلان کرتے وقت اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی وہ بولا سردار گنڈا سنگھ آنریری مجسٹریٹ، دس ہزار پانچ سو ساٹھ ووٹ۔

سردار کرتار سنگھ ایڈووکیٹ آٹھ ہزار تین سو چالیس ووٹ۔

بابا رام سنگھ سات سو ساٹھ ووٹ آخری امیدوار کی ضمانت ضبط ہوگئی۔''

عوام نے فیصلہ کردیا تھا ۔ عوام کا فیصلہ خدا کا فیصلہ ہوتا ہے۔

مترجم: سعدیہ دہلوی
Load Next Story