آخری آپشن

ایم کیو ایم کے رہنما اپنے باہمی جھگڑوں کو ختم کرکے اپنے بچے کچھے ممبران کی فکر کریں۔

usmandamohi@yahoo.com

اس ماہ کی دو تاریخ کو روزنامہ امن میں ایم کیو ایم کے بانی کی تقریر کو فوٹو کے ساتھ اشاعت اور پھر مہاجر الائنس بنانے کے اعلان نے کئی سوالات کو پھر سے اٹھا دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کے دونوں متصادم دھڑے اب سخت مایوسی کا شکار ہوکر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پارٹی کو چلانے کے لیے پرانی سیاست کو پھر سے اختیار کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔

فاروق ستار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایم کیو ایم اب اس لیے بکھر رہی ہے کیونکہ ہمارے پاس وہ ڈنڈا نہیں جو بانی کے پاس تھا ۔ چنانچہ لگتا ہے بکھرتی ہوئی پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے اب واقعی ڈنڈے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے مگر یہ بات بھی مد نظر رہے کہ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے ایک وقت تھاجب ڈنڈا کارگر تھا اور اس کے سہارے پوری پارٹی متحد بھی رہی اور چلتی بھی رہی۔ تاہم طاقت کے زور پر سیاسی پارٹیوں کو نہیں چلایا جاسکتا پھر پریشر گروپس دیر پا ثابت نہیں ہوتے ان کے بے ثباتی کی مثالیں دنیا بھر میں موجود ہیں۔

اب زمانہ بدل گیا ہے یہ جمہوری اقدار کا دور ہے کسی بھی پارٹی کی بقا اور اس کی عوام میں پذیرائی کا دار و مدار اس کے منشور پر عمل اور قائدین کے کردار پر ہوتا ہے۔ ملکی قوانین کے تحت چلنے اور عوامی مفادات کے لیے کام کرنے والی سیاسی پارٹیوں سے لوگ کبھی بدظن نہیں ہوتے اور انھیں کبھی اجڑنے نہیں دیتے۔ 22 اگست کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم کو منجدھار سے نکالا اور اس کی قیادت سنبھال لی مگر پارٹی کے اندر ہی کچھ لوگوں کو ان کی قیادت پسند نہیں آئی۔

قیادت کی تبدیلی کے بعد بھی چونکہ پارٹی کا لسانی کردار برقرار تھا چنانچہ یہ عنصر صوبے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ باہمی اعتماد کی راہ میں حائل رہا۔ مہاجروں کے مسائل بے شک گمبھیر ہیں جنھیں بہر صورت حل ہونا چاہیے مگر صوبے کے دوسرے لوگوں کے بھی مسائل ہیں جن کا وہ بھی حل چاہتے ہیں کاش کہ دوسروں کو دشمن بنانے کے بجائے دوستی اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دیاجاتا تو اچھے نتائج کا نکلنا یقینی تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ پارٹی کی شخصی پالیسیاں اسے لے ڈوبیں۔ ان ہی پالیسیوں کی بدولت ماضی میں پارٹی پر ایک نہیں دو آپریشنز ہوئے جن کا باقاعدہ مقابلہ کیا گیا۔ وہیں سے اس میں عسکری عنصر شامل ہوا ساتھ ہی ''را'' کا فیکٹر بھی عود کر آیا۔ چنانچہ پھر عوامی مسائل تو کیا حل ہوتے ریاست سے باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی بالآخر ریاستی طاقت جو امن کے لیے استعمال کی گئی تھی عسکریت پسندی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

اس سے بلاشبہ کراچی کے عوام کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم ہوا۔ بھتے اور ہڑتالوں کی وجہ سے معیشت کا جام پہیہ پھر سے رواں ہوگیا۔ پتھارے داروں سے لے کر تاجر حضرات جو اپنے کاروبار کی تباہی سے تنگ آچکے تھے نے اطمینان کا اظہار کیا۔ اب گزرے ہوئے دور کو پھر سے واپس لانے کی کوشش عوام کے ساتھ سراسر مذاق کے مترادف ہے۔

ایم کیو ایم کی موجودگی میں اب مہاجر الائنس کی کیوں ضرورت پیش آرہی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ مصطفی کمال نے سچ ہی کہا تھا کہ ایم کیو ایم اب عوام میں اپنا مکمل بھرم کھوچکی ہے۔ چنانچہ اس کے نام کو بدل دینا چاہیے۔


پی ایس پی کی جانب سے مہاجر الائنس کے قیام کو ایک غیر سنجیدہ عمل قرار دیا گیا ہے اور اسے مہاجروں کے لیے نئی مصیبت کا نیا باب قرار دیا ہے۔ جہاں تک فاروق ستار کا تعلق ہے ان کی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ پارٹی کے تباہی کے دہانے پر پہنچنے کے بعد بھی کامران ٹیسوری کو پارٹی میں اعلیٰ عہدے پر رکھنے پر بضد ہیں۔

ادھر بہادر آباد کے ساتھی بھی پارٹی کی تباہی کی پرواہ کیے بغیر کامران ٹیسوری کے خلاف چلے آرہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ در اصل دونوں ہی گروپ عوام کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ پارٹی پرانی سیاست اختیار کیے بغیر نہیں چل سکتی مگر اب صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران اس سازش کو بھانپ کر ہی دوسری پارٹیوں کا رخ کررہے ہیں۔

فاروق ستار ایک طرف اپنے ممبران کے پارٹی چھوڑنے سے سخت پریشان ہیں اور اس سلسلے میں ان کا کہناہے کہ ہمارے ممبران کی وفاداریاں تبدیل کرائی جارہی ہیں اور ان پر شدید دباؤ ہے مگر دوسری طرف انھوں نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ پارٹی چھوڑنے والے ممبران کے عمل سے پارٹی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ اب الیکشن قریب ہیں۔

جہاں تک اردو بولنے والوں کا تعلق ہے وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ایم کیو ایم سے جڑے تھے مگر ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں قومیتوں کی سیاست میں الجھادیاگیا اور ایک لسانی اکائی بناکر دوسری قوموں کے سامنے لاکھڑا کیا گیا جب کہ مہاجر کبھی بھی کسی قوم کے خلاف نہیں تھے اور نہ اب ہیں چنانچہ اب وہ لسانی سیاست سے بیزار ہوکر ہی غیر لسانی پارٹیوں کا رخ کررہے ہیں۔

ایم کیو ایم سے دوسری پارٹیوں میں جانے والے منتخب ممبران واضح کرچکے ہیں کہ انھوں نے کسی دباؤ یا چمک کی وجہ سے پارٹی کو نہیں چھوڑا ہے وہ پارٹی کے قائدین کے باہمی کبھی نہ ختم ہونے والے جھگڑوں اور عوامی مسائل سے ان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اپنے حلقے کے عوام کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے پھر کراچی کی حالت زار نے انھیں رسوا کرکے رکھ دیا ہے اب تو پارٹی کے حالات بھی سدھرنے والے نہیں لگتے۔ چنانچہ پارٹی کو چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

واضح ہو کہ اب عام انتخابات میں چند ہی ماہ رہ گئے ہیں۔ چنانچہ ایم کیو ایم کے رہنما اپنے باہمی جھگڑوں کو ختم کرکے اپنے بچے کچھے ممبران کی فکر کریں اور آئندہ انتخابات کی تیاری کریں مگر اب باہمی اختلافات کو چیلنج اتنی گہری ہوچکی ہے کہ سینیٹ میں بھی دونوں دھڑوں کو اپنے اپنے پارلیمانی لیڈر مقرر کرنا پڑے ہیں چنانچہ ایسے حالات میں اگر مصطفی کمال کی دعوت کو ہی قبول کرلیا جائے تو بھی کراچی کی سیاست میں دبدبہ قائم رکھا جاسکتا ہے۔

ادھر پی ایس پی میں شامل ہونے والے ایم کیو ایم کے لوگ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اب مسائل کے حل اور امن کے دائمی قیام کے لیے پی ایس پی کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔
Load Next Story