سندھ پولیس ماضی و حال
سندھ پولیس کے شعبہ ٹریفک پر نظر دوڑاتے ہیں تو وہاں بھی تنزلی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
1843میں انگریز کی جانب سے میانی اور دُبے کے مقام پر ہونے والی جنگوں میں تالپور حکمرانوں کو شکست دیکر سندھ پر مکمل طور پر اختیار حاصل کرنے کے بعدانگریز کی جانب سے پہلی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کے طور پر قائم ہونے والا ادارہ سندھ پولیس ہے۔
ایشیا کی اس پہلی لاء انفورسمنٹ ایجنسی کا تنظیمی ڈھانچہ برطانوی پولیس ادارے '' رائیل آئرش کانسٹیبلری'' کی طرز پر بنایا گیا ۔صوبہ سندھ میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنا اس ادارے کی بنیادی ذمے داری قرار پائی ۔ ساتھ ہی دارالحکومت کراچی میں ٹریفک کے نظام کے انتظامات کی نگہداشت بھی سندھ پولیس کی ذمے داریوں میں شامل تھا۔
انگریز راج کے تقریباً سو سالہ دور ِ حکمرانی کے دوران یہ محکمہ نہایت مستحکم اورنظم و ضبط رکھنے والے ادارے کے طور پر کام کرتا رہا ۔برصغیر کی پہلی اور قدیم ترین پولیس ہونے کے ناطے تو اب تک سندھ پولیس کو ایک رول ماڈل ادارہ بن جانا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس یہ ادارہ اپنی اس کارکردگی کو بحال نہ رکھ سکا اُلٹا یہ خطے کا بدنام ادارہ بن گیا ۔
سندھ پولیس کی کارکردگی کی خرابی کی وجہ اس ادارے کو حکومت ، سیاسی قوتوں اور بااثر افراد و قوتوں کی جانب سے اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے ۔ پہلے پہل تو صرف حکومت مخالف افراد و تنظیموں کے خلاف پولیس کا استعمال شروع ہوا جو آہستہ آہستہ سیاسی مخالفین اور پھر بااثر افراد کے مخالفین کو زیر کرنے، اُنہیں جھوٹے مقدموں میں پھانسنے اور اُن کی چھترول یا اُن کا خاتمہ کرنے تک پھیل گیا ۔
انتظامیہ کی جانب سے پولیس کو ذاتی طور پر استعمال کرنے کی وجہ سے اس ادارے میں بھی ذاتی پسند ناپسند کی بناء پر کام ہونے لگا ،جس کی بناء پر رشوت ستانی ، اقربا پروری اور جرائم پیشہ افراد سے روابط جیسے کام عموماً ہونے لگے ۔ پھر ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے والے پتھاریداروں کے لیے کام کرنے کے الزامات بھی اس ادارے پر لگے اور پھر ان داغوں کو دھونے کے لیے پولیس نے مقابلے کرکے ان مقابلوں میں دھاڑیل یعنی ڈاکوؤں کوEncounterکرنا شروع کیا ۔
ان تمام غیر قانونی کاموں کے باوجود سندھ حکومت یا سندھ اسمبلی نے قانون سازی کرنے کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہ دی ۔ یوں سندھ پولیس صوبہ میں سفید و سیاہ کی مالک بنتی گئی ۔بات یہاں تک بڑھی کہ مجرموں کے علاوہ معصوم شہریوں کو مار کر جھوٹے مقابلے دکھا کر ایک طرف عوام میں پولیس کی دہشت قائم کی گئی تو دوسری جانب انھی جھوٹے مقابلوں کی بناء پر میڈل اور انعام و اکرام بھی بٹورے گئے ۔
2006میں کراچی پولیس نے نواب شاہ کے ایک بیوپاری کو ڈاکومعشوق بروہی بتا کر ایک جھوٹے مقابلے میں ہلاک کردیا ، مقتول کی تصاویر کی اخبارات میں اشاعت پر ورثاء ظاہر ہو ئے اور انھوں نے انکشاف کیا کہ مقتول کا نام معشوق بروہی نہیں بلکہ رسول بخش بروہی تھا اور یہ کوئی ڈاکو نہیں بلکہ مزدور تھا، اس کے باوجود مقابلے میں شامل افسران و اہلکاران کو ترقی و انعامات سے نوازا گیا۔
اس کیس پر سندھ بھر میں شدید احتجاج ہوا اور بالآخر سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا ۔ اور ورثاء کی خواہشات کے عین مطابق FIRدرج کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ۔ عدالت نے اس مقابلے کو جھوٹا قرار دیکر تمام ملوث پولیس اہلکاران کو گرفتار کرنے کا حکم دیا لیکن واقعے میں ملوث قرار دیے گئے پولیس ٹیم کے سربراہ اے ایس پی عمر شاہد بیرون ملک فرار ہوگئے اور دیگر ان کی گرفتاری میں بھی ٹال مٹول سے کام لیا گیا ۔اور پھر روایتی طریقہ اختیار کیا گیا شواہد مٹائے گئے ، ورثاء کو ڈرایا دھمکایا گیا۔
ماضی پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ اس ملک میں صرف ایسے مزدور و غریب ہی پولیس کی اس بے باکی کا نشانہ نہیں بنے بلکہ وقت کی وزیر اعظم کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو جیسے طاقتور بھی پولیس کے ان نام نہاد مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل ہوئے ہیں ، جس کا کیس ابھی تک عدالتوں میں ہے لیکن اس جھوٹے مقابلے میں مارے جانے والے افراد کے قاتل پولیس اہلکار آج بھی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور تمام سہولیات سے فیض یاب بھی ہیں۔
اسی طرح کے کئی واقعات ہیں جو منظر عام پر نہ آسکنے کی وجہ سے ان مقابلوں میں مارے جانے والے معصوم لوگوں کو انصاف نہیں مل سکا اور ان کے ورثاء روتے بلکتے انصاف کے حصول کی حسرتیں دل میں لیے راہ ِ حقیقی کے سفر پر روانہ ہوتے رہے ۔ اور یوں سندھ پولیس کو کچھ کالی بھیڑوں نے اپنے کالے کرتوتوں سے ایشیا کی سب سے بدنام ترین پولیس بنادیا ہے۔
آج ایماندار و باہمت پولیس افسر کی شہرت رکھنے والے سندھ پولیس کے موجودہ آئی جی اللہ ڈنو خواجہ بالمعروف اے ڈی خواجہ بھی ایسی کالی بھیڑوں کے خلاف کوئی واضح اور اعلانیہ اقدام کرنے سے اگر گھبراتے ہیں تو اس کی وجہ ان کالی بھیڑوں کی اس محکمہ میں اکثریت اور ان کے سروں پر موجود نادیدہ قوتوں کا ہاتھ ہے جن کے آگے آئی جی کیا اس ملک کے حکمران بھی مات کھاجاتے ہیں ۔
اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جھوٹے مقابلے کے ذریعے نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث ایس ایس پی راؤ انوار میڈیا پر دھڑلے سے کہتا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کے یہ مقابلے سندھ پولیس کی پالیسی رہی ہے ۔
حکومت کی جانب سے پولیس کوایک خودمختار ادارہ بنانے سے گریز اور اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی روش ہی اس ادارے کی تباہی کا سبب ہے۔ کیونکہ وقت کے حکمران اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے اسی پولیس کو استعمال کرتے ہیں اور جو پولیس افسر ان کی زیادہ جی حضوری کرتا ہے انھیں وہ میڈیا کے ذریعے اور سرکاری تقریبات وغیرہ میں ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں ۔
اسی طرح جب اسٹریٹ کرائیم کے حوالے سے سندھ پولیس کی کارکردگی پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں24 جولائی 2017کوایک مقامی اردواخبار میں شایع ہونے والی کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی رپورٹ برائے 2017میں اغوا برائے تاوان ڈکیتی ، چھینا جھپٹی بالخصوص گاڑیاںاور موبائیلچھیننے کے واقعات میں نمایاں اضافہ نظر آتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2017کے دوران کراچی کے مختلف اضلاع سے 1314گاڑیاں ، 21004موٹر سائیکل اور 16729موبائیل فون چھینے گئے ۔ ان میں سے اکثر واقعات ٹریفک کے جام ہونے کے دوران ہونے کی اطلاعات ہیں ۔ جب کہ اے ٹی ایم مراکز ، گھروں اور دفاتر و دوکانوں سمیت پارکوں اور بازاروں میں رش کے اوقات میں ہونے والے واقعات اس سے علاوہ ہیں ۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائیم کی یہ گمبھیر صورتحال دنیا کے بڑے شہروں میں ہونے والی شرح سے کہیں زیادہ ہے ۔
حالانکہ سندھ پولیس کا چوکی سطح کا نیٹ ورک کتنا مضبوط ہے یہ تب پتا چلتا ہے کہ جب کسی پولیس عملدار کے رشتہ دار یا دوست وغیرہ سے سڑک پر کہیں موبائیل چِھن جائے تو تھانیدار فوری طور پر ان تمام مجرموں کو تھانے بلالیتا ہے اور نہ صرف وہ بلکہ دیگر چھینے گئے موبائیل بھی پیش کیے جاتے ہیں کہ آپ اپنا پہچان کر اٹھالیں ۔یعنی کچھ عرصہ پہلے ٹی وی پر چلنے والے ایک پروگرام کے یہ الفاظ سو فیصد درست ہو جاتے ہیں کہ ''پولیس کو سب پتا ہے ''۔۔۔
ایسا ہی ایک جملہ ایک فلم کے دوران ایک ایماندار پولیس افسر کی زبانی بھی ادا ہوتا ہے کہ ''اگر پولیس چاہے تو کسی مسجد /مندر کے آگے سے ایک چپل تک چوری نہیں ہوسکتی ''۔۔۔ یہ بھی سولہ آنے سچ ہے ۔ لیکن شاید سندھ پولیس جرائم کو روکنا ہی نہیں چاہتی ، وہ تو بس یا تو حکومت کے مخالفین کوواٹر کینن اور لاٹھیوں سے کچلنے میں مہارت رکھتی ہے پھر چاہے وہ محکمہ صحت کے ملازمین ہوں یا محکمہ تعلیم کے اساتذہ ہوں یا پھر جھوٹے مقابلے کرکے غریب و مزدور لوگوں کو مار کر ایوارڈ و تمغے لینے کی عادی ہوچکی ہے ۔
اسی طرح سندھ پولیس کے شعبہ ٹریفک پر نظر دوڑاتے ہیں تو وہاں بھی تنزلی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔سندھ پولیس کے قیام کے وقت موٹر گاڑیوں اور ٹرام کے ساتھ ساتھ کراچی میں تانگے کثیر تعداد میں چلتے تھے ، جو باقاعدہ نمبر پلیٹ اور دیگر ٹریفک قوانین کے ماتحت ہوتے تھے جیسے : شہر کی صفائی ستھرائی کے خیال سے گھوڑوں کو تھیلے باندھنے ، مختلف مقرر کردہ مقامات پرگھوڑوں کے سستانے کے لیے جگہیں مختص ہوتی تھیں جہاں اُن کے دانے پانی اور حاجت و صفائی ستھرائی کا انتظام ہوتا تھا ، رات میںبگی یعنی تانگے میں لالٹین کا ہونا لازم تھا، ایک تانگے کے لیے دو گھوڑے (جو وقتاً فوقتاً تبدیل کیے جاتے تھے یعنی جانوروں کو تکلیف نہ دینے کے لیے بھی قانون ہوتے تھے )وغیرہ، تاکہ سڑکیں گند و کچرہ سے محفوظ رہیں اوررات گئے تک لوگوں کو سیر و تفریح اور سفر کی سہولت کا ماحول بھی میسر رہے۔
تانگوں سمیت اونٹھ گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں اور موٹر گاڑیوں کے لیے بھی نگہداشت و مینٹی ننس کو یقینی بنانے کے اُمور بھی اس سندھ پولیس کے حوالے تھے، جنھیں وہ احسن طریقے سے سرانجام دیتی رہی۔پھر دیگر اُمو رکی طرح ٹریفک کے شعبے میں بھی رشوت ستانی ، اور اقربا پروری نے اس شعبے میں کام کرنے والے پولیس اہلکاروں کو کمزور اور لالچی بنادیا ۔ دوران ِ ڈیوٹی ان کی ساری توجہ زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی طرف رہتی ۔
اس لحاظ سے رش و مال بردار گاڑیوں کے روٹس پر ڈیوٹیاں لگوانے کے لیے بھی رشوت دینے کا آغاز ہوا اور اب تو نیلامی کے ذریعے ٹھیکے کی بنیاد پر ایس ایچ اوز کی معرفت ڈیوٹیاں لگتی ہیں اور ٹریفک اہلکاران کی رشوت میں اس کا اپنا ، سارجنٹ ، ایس ایچ اوسمیت تمام بالا عملداروں تک کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ان سب کے حصے کے بعد اپنے حصے میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیاجائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب قوانین کی زیادہ سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوں، یوں وہ ماحول پیدا کیا گیا کہ جس سے ان کی اوپر کی کمائی میں اضافہ ہوتارہے ۔ جس کے نتیجے میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
اب یہ صورتحال ہے کہ میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر اس لاقانونیت کے نظام کے خلاف چلنے والی خبروںکی بنیاد پر انتظامی طور پر جب اقدامات کیے جارہے ہیں تو بھی اس میں بہتری نہیں آ پارہی ۔
سندھ پولیس کے موجودہ مونوگرام میں ایک جملہ لکھا ہوا صاف نظر آتا ہے کہ ''Striving to Serve''یعنی'' خدمت کے لیے کوشاں ''۔ مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت ؟۔۔ سندھ پولیس کے نام پر قائم کردہ ایسٹ انڈیا کمپنی طرز کے ادارے کے بڑے بڑے عملداروں کی ؟۔۔ صوبائی حکومت کی ؟۔۔ یا پھر اُن نادیدہ قوتوں کی جو ملک کے سفید و سیاہ کی مالک ہیں ؟؟؟
آئی جی سندھ و دیگر ایماندار و فرض شناس افسران اگر میں پولیس میں حقیقی اصلاحات (Reforms) لانا چاہتے ہیں تو اُنہیں چاہیے کہ پولیس کوحکومتی اثر رسوخ سے آزاد کراکر پولیس کمیشن کے طور پر خودمختار ادارہ بناکر اس کی نگرانی و نگہداشت کے فرائض عدالتی نظام کے ماتحت کی جانے کی سفارشات کے لیے کام کریں ۔ تو شاید مستقبل میں سندھ پولیس اپنے ماضی کی طرح ایک مستحکم و منظم ادارہ بن سکے اور اسٹریٹ کرائیم و دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے ۔ ہم بھی اپنا ٹریفک کا نظام دنیا کو دکھانے کے اہل ہوجائیں اورسب سے بڑی بات شاید یہ جھوٹے مقابلوں کے ڈرامے بھی بند ہوجائیں بصورت ِ دیگر نہ جانے کتنے نقیب اللہ کے والدین روتے گڑگڑاتے رہیں گے ۔۔۔!!!
ایشیا کی اس پہلی لاء انفورسمنٹ ایجنسی کا تنظیمی ڈھانچہ برطانوی پولیس ادارے '' رائیل آئرش کانسٹیبلری'' کی طرز پر بنایا گیا ۔صوبہ سندھ میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنا اس ادارے کی بنیادی ذمے داری قرار پائی ۔ ساتھ ہی دارالحکومت کراچی میں ٹریفک کے نظام کے انتظامات کی نگہداشت بھی سندھ پولیس کی ذمے داریوں میں شامل تھا۔
انگریز راج کے تقریباً سو سالہ دور ِ حکمرانی کے دوران یہ محکمہ نہایت مستحکم اورنظم و ضبط رکھنے والے ادارے کے طور پر کام کرتا رہا ۔برصغیر کی پہلی اور قدیم ترین پولیس ہونے کے ناطے تو اب تک سندھ پولیس کو ایک رول ماڈل ادارہ بن جانا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس یہ ادارہ اپنی اس کارکردگی کو بحال نہ رکھ سکا اُلٹا یہ خطے کا بدنام ادارہ بن گیا ۔
سندھ پولیس کی کارکردگی کی خرابی کی وجہ اس ادارے کو حکومت ، سیاسی قوتوں اور بااثر افراد و قوتوں کی جانب سے اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے ۔ پہلے پہل تو صرف حکومت مخالف افراد و تنظیموں کے خلاف پولیس کا استعمال شروع ہوا جو آہستہ آہستہ سیاسی مخالفین اور پھر بااثر افراد کے مخالفین کو زیر کرنے، اُنہیں جھوٹے مقدموں میں پھانسنے اور اُن کی چھترول یا اُن کا خاتمہ کرنے تک پھیل گیا ۔
انتظامیہ کی جانب سے پولیس کو ذاتی طور پر استعمال کرنے کی وجہ سے اس ادارے میں بھی ذاتی پسند ناپسند کی بناء پر کام ہونے لگا ،جس کی بناء پر رشوت ستانی ، اقربا پروری اور جرائم پیشہ افراد سے روابط جیسے کام عموماً ہونے لگے ۔ پھر ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے والے پتھاریداروں کے لیے کام کرنے کے الزامات بھی اس ادارے پر لگے اور پھر ان داغوں کو دھونے کے لیے پولیس نے مقابلے کرکے ان مقابلوں میں دھاڑیل یعنی ڈاکوؤں کوEncounterکرنا شروع کیا ۔
ان تمام غیر قانونی کاموں کے باوجود سندھ حکومت یا سندھ اسمبلی نے قانون سازی کرنے کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہ دی ۔ یوں سندھ پولیس صوبہ میں سفید و سیاہ کی مالک بنتی گئی ۔بات یہاں تک بڑھی کہ مجرموں کے علاوہ معصوم شہریوں کو مار کر جھوٹے مقابلے دکھا کر ایک طرف عوام میں پولیس کی دہشت قائم کی گئی تو دوسری جانب انھی جھوٹے مقابلوں کی بناء پر میڈل اور انعام و اکرام بھی بٹورے گئے ۔
2006میں کراچی پولیس نے نواب شاہ کے ایک بیوپاری کو ڈاکومعشوق بروہی بتا کر ایک جھوٹے مقابلے میں ہلاک کردیا ، مقتول کی تصاویر کی اخبارات میں اشاعت پر ورثاء ظاہر ہو ئے اور انھوں نے انکشاف کیا کہ مقتول کا نام معشوق بروہی نہیں بلکہ رسول بخش بروہی تھا اور یہ کوئی ڈاکو نہیں بلکہ مزدور تھا، اس کے باوجود مقابلے میں شامل افسران و اہلکاران کو ترقی و انعامات سے نوازا گیا۔
اس کیس پر سندھ بھر میں شدید احتجاج ہوا اور بالآخر سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا ۔ اور ورثاء کی خواہشات کے عین مطابق FIRدرج کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ۔ عدالت نے اس مقابلے کو جھوٹا قرار دیکر تمام ملوث پولیس اہلکاران کو گرفتار کرنے کا حکم دیا لیکن واقعے میں ملوث قرار دیے گئے پولیس ٹیم کے سربراہ اے ایس پی عمر شاہد بیرون ملک فرار ہوگئے اور دیگر ان کی گرفتاری میں بھی ٹال مٹول سے کام لیا گیا ۔اور پھر روایتی طریقہ اختیار کیا گیا شواہد مٹائے گئے ، ورثاء کو ڈرایا دھمکایا گیا۔
ماضی پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ اس ملک میں صرف ایسے مزدور و غریب ہی پولیس کی اس بے باکی کا نشانہ نہیں بنے بلکہ وقت کی وزیر اعظم کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو جیسے طاقتور بھی پولیس کے ان نام نہاد مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل ہوئے ہیں ، جس کا کیس ابھی تک عدالتوں میں ہے لیکن اس جھوٹے مقابلے میں مارے جانے والے افراد کے قاتل پولیس اہلکار آج بھی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور تمام سہولیات سے فیض یاب بھی ہیں۔
اسی طرح کے کئی واقعات ہیں جو منظر عام پر نہ آسکنے کی وجہ سے ان مقابلوں میں مارے جانے والے معصوم لوگوں کو انصاف نہیں مل سکا اور ان کے ورثاء روتے بلکتے انصاف کے حصول کی حسرتیں دل میں لیے راہ ِ حقیقی کے سفر پر روانہ ہوتے رہے ۔ اور یوں سندھ پولیس کو کچھ کالی بھیڑوں نے اپنے کالے کرتوتوں سے ایشیا کی سب سے بدنام ترین پولیس بنادیا ہے۔
آج ایماندار و باہمت پولیس افسر کی شہرت رکھنے والے سندھ پولیس کے موجودہ آئی جی اللہ ڈنو خواجہ بالمعروف اے ڈی خواجہ بھی ایسی کالی بھیڑوں کے خلاف کوئی واضح اور اعلانیہ اقدام کرنے سے اگر گھبراتے ہیں تو اس کی وجہ ان کالی بھیڑوں کی اس محکمہ میں اکثریت اور ان کے سروں پر موجود نادیدہ قوتوں کا ہاتھ ہے جن کے آگے آئی جی کیا اس ملک کے حکمران بھی مات کھاجاتے ہیں ۔
اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جھوٹے مقابلے کے ذریعے نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث ایس ایس پی راؤ انوار میڈیا پر دھڑلے سے کہتا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کے یہ مقابلے سندھ پولیس کی پالیسی رہی ہے ۔
حکومت کی جانب سے پولیس کوایک خودمختار ادارہ بنانے سے گریز اور اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی روش ہی اس ادارے کی تباہی کا سبب ہے۔ کیونکہ وقت کے حکمران اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے اسی پولیس کو استعمال کرتے ہیں اور جو پولیس افسر ان کی زیادہ جی حضوری کرتا ہے انھیں وہ میڈیا کے ذریعے اور سرکاری تقریبات وغیرہ میں ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں ۔
اسی طرح جب اسٹریٹ کرائیم کے حوالے سے سندھ پولیس کی کارکردگی پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں24 جولائی 2017کوایک مقامی اردواخبار میں شایع ہونے والی کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی رپورٹ برائے 2017میں اغوا برائے تاوان ڈکیتی ، چھینا جھپٹی بالخصوص گاڑیاںاور موبائیلچھیننے کے واقعات میں نمایاں اضافہ نظر آتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2017کے دوران کراچی کے مختلف اضلاع سے 1314گاڑیاں ، 21004موٹر سائیکل اور 16729موبائیل فون چھینے گئے ۔ ان میں سے اکثر واقعات ٹریفک کے جام ہونے کے دوران ہونے کی اطلاعات ہیں ۔ جب کہ اے ٹی ایم مراکز ، گھروں اور دفاتر و دوکانوں سمیت پارکوں اور بازاروں میں رش کے اوقات میں ہونے والے واقعات اس سے علاوہ ہیں ۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائیم کی یہ گمبھیر صورتحال دنیا کے بڑے شہروں میں ہونے والی شرح سے کہیں زیادہ ہے ۔
حالانکہ سندھ پولیس کا چوکی سطح کا نیٹ ورک کتنا مضبوط ہے یہ تب پتا چلتا ہے کہ جب کسی پولیس عملدار کے رشتہ دار یا دوست وغیرہ سے سڑک پر کہیں موبائیل چِھن جائے تو تھانیدار فوری طور پر ان تمام مجرموں کو تھانے بلالیتا ہے اور نہ صرف وہ بلکہ دیگر چھینے گئے موبائیل بھی پیش کیے جاتے ہیں کہ آپ اپنا پہچان کر اٹھالیں ۔یعنی کچھ عرصہ پہلے ٹی وی پر چلنے والے ایک پروگرام کے یہ الفاظ سو فیصد درست ہو جاتے ہیں کہ ''پولیس کو سب پتا ہے ''۔۔۔
ایسا ہی ایک جملہ ایک فلم کے دوران ایک ایماندار پولیس افسر کی زبانی بھی ادا ہوتا ہے کہ ''اگر پولیس چاہے تو کسی مسجد /مندر کے آگے سے ایک چپل تک چوری نہیں ہوسکتی ''۔۔۔ یہ بھی سولہ آنے سچ ہے ۔ لیکن شاید سندھ پولیس جرائم کو روکنا ہی نہیں چاہتی ، وہ تو بس یا تو حکومت کے مخالفین کوواٹر کینن اور لاٹھیوں سے کچلنے میں مہارت رکھتی ہے پھر چاہے وہ محکمہ صحت کے ملازمین ہوں یا محکمہ تعلیم کے اساتذہ ہوں یا پھر جھوٹے مقابلے کرکے غریب و مزدور لوگوں کو مار کر ایوارڈ و تمغے لینے کی عادی ہوچکی ہے ۔
اسی طرح سندھ پولیس کے شعبہ ٹریفک پر نظر دوڑاتے ہیں تو وہاں بھی تنزلی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔سندھ پولیس کے قیام کے وقت موٹر گاڑیوں اور ٹرام کے ساتھ ساتھ کراچی میں تانگے کثیر تعداد میں چلتے تھے ، جو باقاعدہ نمبر پلیٹ اور دیگر ٹریفک قوانین کے ماتحت ہوتے تھے جیسے : شہر کی صفائی ستھرائی کے خیال سے گھوڑوں کو تھیلے باندھنے ، مختلف مقرر کردہ مقامات پرگھوڑوں کے سستانے کے لیے جگہیں مختص ہوتی تھیں جہاں اُن کے دانے پانی اور حاجت و صفائی ستھرائی کا انتظام ہوتا تھا ، رات میںبگی یعنی تانگے میں لالٹین کا ہونا لازم تھا، ایک تانگے کے لیے دو گھوڑے (جو وقتاً فوقتاً تبدیل کیے جاتے تھے یعنی جانوروں کو تکلیف نہ دینے کے لیے بھی قانون ہوتے تھے )وغیرہ، تاکہ سڑکیں گند و کچرہ سے محفوظ رہیں اوررات گئے تک لوگوں کو سیر و تفریح اور سفر کی سہولت کا ماحول بھی میسر رہے۔
تانگوں سمیت اونٹھ گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں اور موٹر گاڑیوں کے لیے بھی نگہداشت و مینٹی ننس کو یقینی بنانے کے اُمور بھی اس سندھ پولیس کے حوالے تھے، جنھیں وہ احسن طریقے سے سرانجام دیتی رہی۔پھر دیگر اُمو رکی طرح ٹریفک کے شعبے میں بھی رشوت ستانی ، اور اقربا پروری نے اس شعبے میں کام کرنے والے پولیس اہلکاروں کو کمزور اور لالچی بنادیا ۔ دوران ِ ڈیوٹی ان کی ساری توجہ زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی طرف رہتی ۔
اس لحاظ سے رش و مال بردار گاڑیوں کے روٹس پر ڈیوٹیاں لگوانے کے لیے بھی رشوت دینے کا آغاز ہوا اور اب تو نیلامی کے ذریعے ٹھیکے کی بنیاد پر ایس ایچ اوز کی معرفت ڈیوٹیاں لگتی ہیں اور ٹریفک اہلکاران کی رشوت میں اس کا اپنا ، سارجنٹ ، ایس ایچ اوسمیت تمام بالا عملداروں تک کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ان سب کے حصے کے بعد اپنے حصے میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیاجائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب قوانین کی زیادہ سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوں، یوں وہ ماحول پیدا کیا گیا کہ جس سے ان کی اوپر کی کمائی میں اضافہ ہوتارہے ۔ جس کے نتیجے میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
اب یہ صورتحال ہے کہ میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر اس لاقانونیت کے نظام کے خلاف چلنے والی خبروںکی بنیاد پر انتظامی طور پر جب اقدامات کیے جارہے ہیں تو بھی اس میں بہتری نہیں آ پارہی ۔
سندھ پولیس کے موجودہ مونوگرام میں ایک جملہ لکھا ہوا صاف نظر آتا ہے کہ ''Striving to Serve''یعنی'' خدمت کے لیے کوشاں ''۔ مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت ؟۔۔ سندھ پولیس کے نام پر قائم کردہ ایسٹ انڈیا کمپنی طرز کے ادارے کے بڑے بڑے عملداروں کی ؟۔۔ صوبائی حکومت کی ؟۔۔ یا پھر اُن نادیدہ قوتوں کی جو ملک کے سفید و سیاہ کی مالک ہیں ؟؟؟
آئی جی سندھ و دیگر ایماندار و فرض شناس افسران اگر میں پولیس میں حقیقی اصلاحات (Reforms) لانا چاہتے ہیں تو اُنہیں چاہیے کہ پولیس کوحکومتی اثر رسوخ سے آزاد کراکر پولیس کمیشن کے طور پر خودمختار ادارہ بناکر اس کی نگرانی و نگہداشت کے فرائض عدالتی نظام کے ماتحت کی جانے کی سفارشات کے لیے کام کریں ۔ تو شاید مستقبل میں سندھ پولیس اپنے ماضی کی طرح ایک مستحکم و منظم ادارہ بن سکے اور اسٹریٹ کرائیم و دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے ۔ ہم بھی اپنا ٹریفک کا نظام دنیا کو دکھانے کے اہل ہوجائیں اورسب سے بڑی بات شاید یہ جھوٹے مقابلوں کے ڈرامے بھی بند ہوجائیں بصورت ِ دیگر نہ جانے کتنے نقیب اللہ کے والدین روتے گڑگڑاتے رہیں گے ۔۔۔!!!