میاں صاحب کا سیاسی مستقبل
میاں صاحب کی جانب سے سجدہ سہو میں تاخیر ہو گئی جس کا خمیازہ اب ان کی پارٹی کو بھگتنا ہے۔
میاں محمد نواز شریف جب تیسری بار اقتدار سے سرفراز ہوئے تو وہ پہلے والے میاں نوا زشریف نہیں تھے۔ یوں تو وہی اسلام آباد تھا، تقریباً وہی ان کی ٹیم تھی، وہی قوم تھی اور وہی ملک تھا، سب کچھ وہی تھا مگر میاں صاحب وہ نہ تھے۔
گوشہ نشین کھوئے کھوئے سے مردم بیزار اور ایک محدود دنیا میں گم سم۔ اسلام آباد میں ہفتہ کے چند دن گزارنے کے بعد مری یا پھر لاہور کی نواحی بستی رائیونڈ میں ویک اینڈ اور پھر واپس اسلام آباد یا بیرون ملک کے کسی دورے پر، انھوں نے لاہور بھی چھوڑ دیا اور اس شہر کی ایک پر سکون آبادی ماڈل ٹاؤن میں اپنے گھر کو بھی جسے مزید پر فضاء بنانے کے لیے انھوں نے ایک بہت بڑا پارک بھی بنوایا تھا ۔
اسلام آباد سے لاہوراگرموٹر وے پر سفر کیا تو لاہور کے گرد بیرونی حلقہ بناتے ہوئے اس شہر سے کترا کر نکل گئے اور رائے ونڈ پہنچ گئے اور ہوائی جہاز سے آئے تو اپنے بھائی کی بڑے ذوق و شوق سے بنائی گئی سڑکوں کو چھوڑ کر ہیلی کاپٹر میں اڑتے ہوئے گھر چلے گئے۔ یہی نہیں سیاسی اصطلاح میںایک عوامی اور جمہوری حکمران اور لیڈر ہونے کے باوجود انھوں نے عوام کے ساتھ اپنے چند پسندیدہ ذرائع ابلاغ کے علاوہ باقی سب سے بھی قریب قریب مکمل احتراز کیا ۔
جلسہ جلوس تو دور کی بات تھی ٹی وی پر بھی وہ بڑی بے دلی کے ساتھ بے معنی تقریر کرتے دکھائی دیے بالعموم لوگ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اس تقریر میں کیا تھا اور اس کی کیا ضرورت تھی، یہ بات تو چند سطروں کی ایک پریس ریلیز میں بھی کہی جا سکتی تھی۔ ان کے بہی خواہ بھی ان کے اس رویئے سے خاصے پریشان رہے اور اس مخصمے میں بھی کہ کیا وجہ ہے وہ عوام سے اس قدر دور کیوں رہتے ہیں جب کہ ان کے ساتھیوں کے بھاری مینڈیٹ کے گیت گاتے گلے سوکھ گئے ۔
اخبارات میں ان کے خیرخواہ بار بار ان کا رخ عوام کی طرف کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ان سے اصرار کرتے رہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت دوسرے صوبوں میں بھی گزارنے کی کوشش کریں خصوصاً دور دراز علاقوں میں جہاں پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں اور جن کی دکھی زندگیوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی لیکن وزیر اعظم ہاؤس کے بھاری مینڈیٹ کے نشے کی وجہ سے ان کی عوام سے دوری ختم نہ ہوسکی اور یہ نشہ تب دھیما پڑا جب میاں صاحب اقتدار سے رخصت ہو گئے حالانکہ ان کے ساتھی اس کے باوجود ان کو ستے خیراں کی ہی خبریں دیتے رہے۔
اقتدار سے علیحدگی کے بعد میاں صاحب کو عوام کی یاد ستانے لگی کیونکہ اب اس بات کی ضرورت تھی کہ عوام کی عدالت میں اپنے آپ کو پیش کیا جائے تا کہ عوام میں اپنے خلاف فیصلے کو ایک بار پھر ظالمانہ ثابت کرنے کی کوشش کر کے آیندہ الیکشن کی راہ ہموار کی جاسکے ۔ میاں صاحب ملک بھر اور خاص طور پر پنجاب میں عوامی جلسوں سے دھواں دھار خطابات کر رہے ہیں، وہ عدلیہ اور در پردہ فوج کو اپنا ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں ۔
اقتدار سے علیحدگی کے بعد وہ ایک بپھرے ہوئے سیاستدان کا روپ دھارے ہوئے ہیں، ان کے خطابات ان کی پاکستان پسند شخصیت کا ساتھ نہیں دیتے، اپنی حب الوطنی کو ان کے اپنے الفاظ نے مشکوک بنا دیا اور یہ تاثر عام ہے کہ میاں صاحب جب تک اقتدار میں ہوں وہ پاکستانی ہیں جب کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد ان کو پاکستان میں سو خرابیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے جب سے عوام سے رابطہ شروع کیا ہے لوگ لپک لپک کر ان کے قریب پہنچے ہیں ۔
اسلام آباد میں رہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا کہ پاکستان کے لوگ کس قدر پیار کرنے والے ہیں ،کسی حکمران نے عوام سے پیار نہیں کیا بلکہ پیار کے ترسے ہوئے یہ لوگ آج تک کسی حکمران کی جانب سے پیار کے منتظر ہی ہیں ۔
میاں نواز شریف کوئی ان کے آئیڈیل حکمران نہیں ہیں لیکن وہ اب کسی آئیڈیل کی تلاش میں بھی نہیں ہیں ۔ انھیں کسی ایسے حکمران کی تلاش ہے جو جھوٹ موٹ کاہی سہی ان سے ہمدردی کا تھوڑا بہت اظہار ہی کر دے، ان کے تو اپنے ان کے دشمن بن گئے ہیں۔ وہ تنہا ہیں ، وہ میاں صاحب کی پالیسیوں سے خوش نہیں تھے لیکن جب انھوں نے عوام سے رجوع کیا تو عوام نے اختلافات کے باوجود ان کا بھر پور استقبال کیا۔
میاں صاحب کو اب معلوم ہو گیا ہوگا کہ ان کی اصل طاقت عوام ہیں، وہ سیاستدان نہیں جو اقتدار کے تحفظ اور ان کی پناہ میں لوٹ مچانا چاہتے ہیں جو کسی حکمران کو اپنے خفیہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب مطلب نکل جاتا ہے تو ناواقف نہیں بلکہ دشمن بن جاتے ہیں ۔سیاست کی دنیا میں اس منافقت کے لیے انھوں نے اس جملے میں جواز تراش رکھا ہے کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔
میاں صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ روائتی سیاستدان نہیں رہے اور خواہ کتنا بھی نقصان ہو جائے، وہ سمجھوتا نہیں کریں گے۔ وہ اپنے اس دعوے پر قائم رہیں اور صرف عوام سے سمجھوتا کریں ، عوام نے گزشتہ الیکشن میں ان سے سمجھوتا کیا، وہ اب عوام کا ساتھ دیں، پاکستان کے لیے کسی ایسے انقلاب کی قیادت کریں جس کی بنیاد خونریزی پر نہیں امن اور ووٹ پر رکھی جائے۔
میاں صاحب نہ انقلابی ہیں اور نہ ہی اس انقلاب کے دعویدار ہیں جس کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے اور جس کی عمارت انسانی جسموں پر تعمیر کی جاتی ہے، وہ اپنے اختیار اور اقتدار کو جس کی تکمیل ہو چکی ہے عوام کی خدمت میں پیش کر دیں تا کہ ان کی کار کردگی سے ان کی پارٹی فائدہ اٹھا سکے ۔ وہ خود تو تاحیات نااہلی کے بعد پارلیمانی سیاست سے باہر کر دئے گئے ہیں۔
سیاست میں وقت کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے، عوام ان کے سجدہ سہو کے منتظر رہے لیکن میاں صاحب کی جانب سے سجدہ سہو میں تاخیر ہو گئی جس کا خمیازہ اب ان کی پارٹی کو بھگتنا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ میاں صاحب کبھی سیاستدان تھے ہی نہیں ۔ حالات اور وقتی ضرورت نے ان کو سیاستدان بنا دیا جس کی اب ضرورت نہیں رہی۔ اب وہ میاں نواز شریف بن کر ہی سیاست کریں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا۔ کامیابی کا کوئی راستہ بھی اسی سے نکلے گا۔
گوشہ نشین کھوئے کھوئے سے مردم بیزار اور ایک محدود دنیا میں گم سم۔ اسلام آباد میں ہفتہ کے چند دن گزارنے کے بعد مری یا پھر لاہور کی نواحی بستی رائیونڈ میں ویک اینڈ اور پھر واپس اسلام آباد یا بیرون ملک کے کسی دورے پر، انھوں نے لاہور بھی چھوڑ دیا اور اس شہر کی ایک پر سکون آبادی ماڈل ٹاؤن میں اپنے گھر کو بھی جسے مزید پر فضاء بنانے کے لیے انھوں نے ایک بہت بڑا پارک بھی بنوایا تھا ۔
اسلام آباد سے لاہوراگرموٹر وے پر سفر کیا تو لاہور کے گرد بیرونی حلقہ بناتے ہوئے اس شہر سے کترا کر نکل گئے اور رائے ونڈ پہنچ گئے اور ہوائی جہاز سے آئے تو اپنے بھائی کی بڑے ذوق و شوق سے بنائی گئی سڑکوں کو چھوڑ کر ہیلی کاپٹر میں اڑتے ہوئے گھر چلے گئے۔ یہی نہیں سیاسی اصطلاح میںایک عوامی اور جمہوری حکمران اور لیڈر ہونے کے باوجود انھوں نے عوام کے ساتھ اپنے چند پسندیدہ ذرائع ابلاغ کے علاوہ باقی سب سے بھی قریب قریب مکمل احتراز کیا ۔
جلسہ جلوس تو دور کی بات تھی ٹی وی پر بھی وہ بڑی بے دلی کے ساتھ بے معنی تقریر کرتے دکھائی دیے بالعموم لوگ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اس تقریر میں کیا تھا اور اس کی کیا ضرورت تھی، یہ بات تو چند سطروں کی ایک پریس ریلیز میں بھی کہی جا سکتی تھی۔ ان کے بہی خواہ بھی ان کے اس رویئے سے خاصے پریشان رہے اور اس مخصمے میں بھی کہ کیا وجہ ہے وہ عوام سے اس قدر دور کیوں رہتے ہیں جب کہ ان کے ساتھیوں کے بھاری مینڈیٹ کے گیت گاتے گلے سوکھ گئے ۔
اخبارات میں ان کے خیرخواہ بار بار ان کا رخ عوام کی طرف کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ان سے اصرار کرتے رہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت دوسرے صوبوں میں بھی گزارنے کی کوشش کریں خصوصاً دور دراز علاقوں میں جہاں پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں اور جن کی دکھی زندگیوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی لیکن وزیر اعظم ہاؤس کے بھاری مینڈیٹ کے نشے کی وجہ سے ان کی عوام سے دوری ختم نہ ہوسکی اور یہ نشہ تب دھیما پڑا جب میاں صاحب اقتدار سے رخصت ہو گئے حالانکہ ان کے ساتھی اس کے باوجود ان کو ستے خیراں کی ہی خبریں دیتے رہے۔
اقتدار سے علیحدگی کے بعد میاں صاحب کو عوام کی یاد ستانے لگی کیونکہ اب اس بات کی ضرورت تھی کہ عوام کی عدالت میں اپنے آپ کو پیش کیا جائے تا کہ عوام میں اپنے خلاف فیصلے کو ایک بار پھر ظالمانہ ثابت کرنے کی کوشش کر کے آیندہ الیکشن کی راہ ہموار کی جاسکے ۔ میاں صاحب ملک بھر اور خاص طور پر پنجاب میں عوامی جلسوں سے دھواں دھار خطابات کر رہے ہیں، وہ عدلیہ اور در پردہ فوج کو اپنا ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں ۔
اقتدار سے علیحدگی کے بعد وہ ایک بپھرے ہوئے سیاستدان کا روپ دھارے ہوئے ہیں، ان کے خطابات ان کی پاکستان پسند شخصیت کا ساتھ نہیں دیتے، اپنی حب الوطنی کو ان کے اپنے الفاظ نے مشکوک بنا دیا اور یہ تاثر عام ہے کہ میاں صاحب جب تک اقتدار میں ہوں وہ پاکستانی ہیں جب کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد ان کو پاکستان میں سو خرابیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے جب سے عوام سے رابطہ شروع کیا ہے لوگ لپک لپک کر ان کے قریب پہنچے ہیں ۔
اسلام آباد میں رہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا کہ پاکستان کے لوگ کس قدر پیار کرنے والے ہیں ،کسی حکمران نے عوام سے پیار نہیں کیا بلکہ پیار کے ترسے ہوئے یہ لوگ آج تک کسی حکمران کی جانب سے پیار کے منتظر ہی ہیں ۔
میاں نواز شریف کوئی ان کے آئیڈیل حکمران نہیں ہیں لیکن وہ اب کسی آئیڈیل کی تلاش میں بھی نہیں ہیں ۔ انھیں کسی ایسے حکمران کی تلاش ہے جو جھوٹ موٹ کاہی سہی ان سے ہمدردی کا تھوڑا بہت اظہار ہی کر دے، ان کے تو اپنے ان کے دشمن بن گئے ہیں۔ وہ تنہا ہیں ، وہ میاں صاحب کی پالیسیوں سے خوش نہیں تھے لیکن جب انھوں نے عوام سے رجوع کیا تو عوام نے اختلافات کے باوجود ان کا بھر پور استقبال کیا۔
میاں صاحب کو اب معلوم ہو گیا ہوگا کہ ان کی اصل طاقت عوام ہیں، وہ سیاستدان نہیں جو اقتدار کے تحفظ اور ان کی پناہ میں لوٹ مچانا چاہتے ہیں جو کسی حکمران کو اپنے خفیہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب مطلب نکل جاتا ہے تو ناواقف نہیں بلکہ دشمن بن جاتے ہیں ۔سیاست کی دنیا میں اس منافقت کے لیے انھوں نے اس جملے میں جواز تراش رکھا ہے کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔
میاں صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ روائتی سیاستدان نہیں رہے اور خواہ کتنا بھی نقصان ہو جائے، وہ سمجھوتا نہیں کریں گے۔ وہ اپنے اس دعوے پر قائم رہیں اور صرف عوام سے سمجھوتا کریں ، عوام نے گزشتہ الیکشن میں ان سے سمجھوتا کیا، وہ اب عوام کا ساتھ دیں، پاکستان کے لیے کسی ایسے انقلاب کی قیادت کریں جس کی بنیاد خونریزی پر نہیں امن اور ووٹ پر رکھی جائے۔
میاں صاحب نہ انقلابی ہیں اور نہ ہی اس انقلاب کے دعویدار ہیں جس کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے اور جس کی عمارت انسانی جسموں پر تعمیر کی جاتی ہے، وہ اپنے اختیار اور اقتدار کو جس کی تکمیل ہو چکی ہے عوام کی خدمت میں پیش کر دیں تا کہ ان کی کار کردگی سے ان کی پارٹی فائدہ اٹھا سکے ۔ وہ خود تو تاحیات نااہلی کے بعد پارلیمانی سیاست سے باہر کر دئے گئے ہیں۔
سیاست میں وقت کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے، عوام ان کے سجدہ سہو کے منتظر رہے لیکن میاں صاحب کی جانب سے سجدہ سہو میں تاخیر ہو گئی جس کا خمیازہ اب ان کی پارٹی کو بھگتنا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ میاں صاحب کبھی سیاستدان تھے ہی نہیں ۔ حالات اور وقتی ضرورت نے ان کو سیاستدان بنا دیا جس کی اب ضرورت نہیں رہی۔ اب وہ میاں نواز شریف بن کر ہی سیاست کریں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا۔ کامیابی کا کوئی راستہ بھی اسی سے نکلے گا۔