پاک بھارت مذاکرات بحال ہونے چاہئیں

وقت آگیا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت ہٹ دھرمی اور ضد کو ترک کرکے زمینی حقیقتوں کو تسلیم کریں۔

وقت آگیا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت ہٹ دھرمی اور ضد کو ترک کرکے زمینی حقیقتوں کو تسلیم کریں۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز پی ایم اے کاکول میں137ویں لانگ کورس کی پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری امن کی خواہش کو ہرگز ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے جب کہ دشمن جانتے ہیں کہ وہ ہمیں کھلی جنگ میں شکست نہیں دے سکتے،کشمیر میں امن کا راستہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات ہیں۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطاب میں مزید کہا کہ دشمن ہمیں کمزور کرنے کے لیے ہمارے عزم کو کمزور کرنے کی کوششیں کررہے ہیں تاہم ہمیں اپنی قوم کا مکمل اعتماد اور حمایت حاصل ہے، ہم نے غیر معمولی قوتوں کے ہر اقدام کو شکست دی اور انشاء اللہ ایسا کرتے رہیں گے۔

پاک فوج کے سربراہ نے مزید کہا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہم آہنگی و پرامن بقائے باہمی چاہتا ہے جب کہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مکمل طور پر مسترد کیا، قوم اور پاک فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہے جب کہ ردالفساد ایک آپریشن ہی نہیں، قوم کے عزم کی علامت ہے۔

انھوں نے کہاکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے بنیادی حق کی مکمل سیاسی و اخلاقی حمایت کرتے ہیں اور یہی وقت ہے عالمی برادری برصغیر کے اس بد قسمت حصے میں امن کے لیے کردار ادا کرے ، ہماری بہادر افواج الحمدللہ ہر خطرے کا بھرپور جواب دینے کو تیار ہے۔

پاک فوج کے سربراہ نے انتہائی اہم نوعیت کے خارجہ اور داخلہ کثیر الجہتی موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے' بلاشبہ پاکستان کے ارد گرد حالات اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں اور موقع کی تلاش میں ہیں' مشرق اور شمال مغرب کے خطرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

انھی خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ بلاشبہ پاکستان کی مشرقی اور شمالی مغربی سرحد پر آئے روز ناخوشگوار واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز کشمیر میں کنٹرول لائن پر جارحیت کرتی رہتی ہیں۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز کی اس جارحیت سے پاکستانی شہریوں کا جانی و مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔


ادھر شمال مغرب سے افغانستان کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ روز بھی افغانستان کی جانب سے ہونے والی شرانگیز فائرنگ کے نتیجے میں ایف سی کے 2اہلکار شہید ہو گئے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو پاکستان کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ غصے اور اشتعال میں آئے لیکن پاکستان نے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہی اس کی امن پسندی کا ثبوت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تنازعہ کشمیر ہے' جب تک یہ تنازعہ حل نہیں ہو گا' دونوں ملکوں کے درمیان قیام امن ممکن نہیں ہے۔

پاک فوج کے سربراہ نے واضح کیا ہے کہ کشمیر میں امن کا راستہ پاک بھارت جامع مذاکرات ہے۔یہ بالکل درست بات ہے ، بھارت کی قیادت کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔بھارت نے ہی جامع مذاکرات کا سلسلہ منقطع کررکھا ہے ، اگر جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال ہوجائے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔دونوں ملکوں کی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ جنگ سے کوئی مسلہ حل نہیں ہوگا۔دونوں ملکوں کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں لیکن معاملات پھر بھی وہیں کے وہیں ہیں۔

بھارت کی قیادت اس خبط میں مبتلا ہے کہ وہ فوجی اور اقتصادی اعتبار سے بڑی طاقت ہے اور وہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی حاکمیت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا ، اب چونکہ بھارت کو امریکا اور اسرائیل کی حمایت بھی حاصل ہے اور اس کی اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ وہ کسی محدود جارحیت کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرسکتا ہے ، ادھر بھارت افغانستان کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے، افغان حکومت امریکا اور بھارت دونوں کے زیر اثر ہے اور وہ پاکستان کے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہے۔

پاک فوج کے سربراہ نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ دشمن کھلی جنگ میں ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔بھارت اور افغانستان کو چاہیے کہ وہ خطے کے وسیع تر مفاد میں اپنی جارحانہ پالیسی میں تبدیلی لائیں۔ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بحال کرے ، یہ اس خطے کی بہتری کے لیے انتہائی ضروری اقدام ہے۔مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تنازعہ حل کرنے کا آپشن موجود ہو تو اسے کسی صورت میں ضایع نہیں کرناچاہیے۔

وقت آگیا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت ہٹ دھرمی اور ضد کو ترک کرکے زمینی حقیقتوں کو تسلیم کریں، اپنے تنازعات کو مہذب قوموں کی طرح باہمی مذاکرات سے طے کریں،آج کا دور جنگ کا نہیں بلکہ جنگ سے بچنے کا دور ہے، جو ملک جنگ سے بچ جائیں گے ، ترقی کی منزل کی جانب وہی سفر جاری رکھ سکیں گی، جنوبی ایشیا میں ترقی کا بہت پوٹینشل ہے ، بات صرف عقل سے فیصلے کرنے کی ہے۔

 
Load Next Story