حق حکمرانی

آئین کا آرٹیکل 62 اور63 ہے کیا ؟ جس کو اتنا متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہمیں الیکشن میں امیدواروں کے لیے فر شتے نہیں انسان تلاش کرنے چاہیں یہ وہ الفاظ ہیں جو آج کل ہمارے میڈیا میں آئین کے آر ٹیکل 62 اور 63 کو لے کر اتنے تواتر سے بولے جا رہے ہیں کہ واقعی اب گمان ہونے لگا ہے کہ شاید ہماری قسمت میں کوئی دیانت دار حکمران لکھے ہی نہیں ہیں ۔

ہماری اس قوم کی ایک یہ عجیب بد قسمتی ہے کہ اگر یہاں کوئی کام اچھا شروع ہونے لگتا ہے بھی تو اس کو اس قدر متنازعہ بنا دیا جاتا ہے کہ اس کی اچھائی بھی لوگوں کی نظر میں برائی بن کے کھٹکنے لگتی ہے ۔ یہی حال آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کے ساتھ بھی ہوا ۔ آئین کے اس آرٹیکل کا آج کل اتنا زیادہ چرچا ہے کہ اس کو مذاق بنا کے رکھ دیا گیا ہے ۔ ہر خاص و عام چاہے وہ اس کا علم رکھتا ہے یا نہیں اس پہ بحث کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے ۔

آئین کا آرٹیکل 62 اور63 ہے کیا ؟ جس کو اتنا متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دراصل یہ آئین کی وہ شقیں ہیں جو کہ الیکشن لڑنے کے لیے امیدواروں کی قابلیت کی جانچ کرتی ہیں۔ اگر ہمارا آئین کہتا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کسی بھی امیدوار کا ایک اچھا مسلمان ہونا ضروری ہے ۔ یہ بھی لازم ہے کہ وہ صادق اور امین ہو اس نے کوئی گناہ کبیرہ نہ کیا ہو تو اس میں ایسی کیا قابل اعتراض بات ہے ۔ اگر آئین ملک سے وفاداری کا ، نظریہ پاکستان کی پاسداری کا حلف مانگتا ہے تو اس میں کیا برا ہے ۔

آئین کی ان شقوں کو ان تمام لوگوں نے جو پچھلے چونسٹھ برسوں میں اس ملک کے ہر سیاہ ، سفید کے مالک بن کر بیٹھے رہے ہیں اور آ ج بھی کسی نہ کسی حوالے سے ہمارے سروں پر مسلط ہیں ۔ جنہوں نے اس ملک کی بنیادوں کو اس قدر کھوکھلا کر دیا ہے کہ یہ ملک آئی ایم ایف ، امریکا، ورلڈ بینک کی بیساکھیوں کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے نے میڈیا میں اپنے ان حواریوں کے ذریعے متنازعہ بنا دیا ہے کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے سیاست صرف لوٹ مار ، کرپشن اور ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے ایک بہترین تجارت ہے ۔ یہ لوگ اس ملک پہ حکمرانی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور نسل در نسل یہی سلسلہ جاری ہے ۔ انھی لوگوں نے آئین کی ان شقوں کی اصل روح ختم کرنے کے لیے گلی کوچوں میں اس پر ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے ۔

ہماری قوم کی اس وقت سب سے بڑی خرابی وہ انتہا پسندی ہے جو کہ ہر سوچ میں کہیں نہ کہیں جنم لے رہی ہے یقین جانیے اگر طالبان انتہا پسند ہیں اور ہمارے لیے خطرناک ہیں تو دوسری طرف لبرلزم کا نعرہ لگانے والے اور اسلام کے خلاف باتیں کرنے والے ان سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں ۔

یہ لوگ جنہوں نے کسی موقعے پر بھی قائد اعظم کو نہیں بخشا جو کبھی قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، کبھی دہری شہریت کے مالک ، کبھی ان کو قائداعظم آرٹیکل 62 ، پر اترتے دکھائی نہیں دیتے ۔ تو کبھی پاکستان کا مطلب بدلنا چاہتے ہیں ۔ ان کی نظر میں کبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام کھٹکتا ہے اور کبھی دو قومی نظریہ غلط ثابت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔


محترمہ ثریا خورشید اپنی کتاب فاطمہ جناح کے شب و روز میں لکھتی ہیں کہ فاطمہ جناح فرماتی ہیں ۔ بچے کو بنیادی طور پر اپنے مذہب سے لگاؤ ہونا چاہیے بچپن میں اس کے دل میں مذہب کی محبت اسے کبھی بھٹکنے نہ دے گی ۔ اب قائد اعظم کے مخالف انھیں ہمیشہ مغربی تہذیب کا دلدادہ سمجھتے تھے ۔ ان کی خوش پوشی اور روانی سے انگریزی بولنے کی مہارت سے غلط اندازے لگاتے تھے ۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ قائد اعظم صحیح العقیدہ مسلمان تھے اور انھیں اپنے مذہب سے والہانہ عقیدت تھی ۔ اسی لیے ہندو انھیں خرید نہ سکا اور نہ انگریز کو یہ جرات ہوئی کہ ان کے نظریات بدل سکے ۔ اس کے باوجود انھوں نے کبھی ایک مذہبی پیشوا ہونے کا دعوی نہیں کیا ۔

قائد اعظم نے 13 جنوری 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ، '' ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا ۔ بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں ۔ ''

پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ کل بھی تھا ،آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اگر آج چند صحافت میں اور سیاست میں بکے ہوئے لوگ اپنے سامراجی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا اور اسلام کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں تو ان کو یہ شک نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے ذاتی مفادات اس ملک کی بنیادوں کو ہلا دیں گے ۔ یہ ملک جس نے ہمیں سب کچھ دیا اس کی بد قسمتی رہی کہ بد سے بد ترین حکمران اس پر مسلط رہے اور اب یہ عالم ہے کہ ہر کوئی اسے مردار سمجھ کر گدھوں کی طرح نوچ رہا ہے لیکن یہ پھر بھی قائم ہے میرا اس بات پر ایمان ہے کہ یہی کلمہ ہے جس نے اس ملک کو آج تک بچائے رکھا ہے اور آیندہ بھی یہی اس کی حفاظت کرے گا ۔

آپ ہم فر شتے نہیں ڈھونڈ سکتے تو کم از کم ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تو اپنی تقدیر کے فیصلے نہ دیں جو لوٹ مار ، دھوکہ دہی ، اور ذاتی مفادات کو سیاست کا نام دے ہم سے جینے کا حق چھین لیں ۔ وہ لوگ جو پانچ سال عوام پہ مسلط رہنے کے بعد کہتے ہیں کہ سیاست کرنے سے اچھا ہے نسوار بیچ لوں ۔ کاش کہ انھوں نے واقعی سیاست کی جگہ اگر نسوار بیچ لی ہوتی تو شاید کچھ لوگوں کی صحت کو تو نقصان پہنچتا لیکن آج بلوچستان کے لوگ اتنے محروم اور مایوس نہ ہوتے ۔ جب سے پاکستان بنا ہے ہم پہ لٹیرے اپنا حق حکمرانی جتائے بیٹھے ہیں ۔

جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔ آپ آرٹیکل 62 اور 63 کے طریقہ کار پہ اعتراض ضرور کر سکتے ہیں لیکن اس کو سمجھنا اور اس کے مطابق فیصلے کرنا اس وقت سب سے زیادہ ضروری ہے یہ کل بھی ہمارے آئین کا حصہ تھا اور آیندہ بھی رہے گا ۔ کیونکہ یہ ہی ایک واحد راستہ ہے کرپٹ لوگوں سے جان چھڑوانے کا ۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ بد دیانت ، کرپٹ ، سیاسی شعبدہ بازوں سے جان چھڑا کر ان کا حق حکمرانی چھین کر ایسے نئے لوگوں کو سامنے لایا جائے جن کے کردار اور مخلصی پہ کسی کو شک نہ ہو ۔

sarahliaquat@hotmail.com
Load Next Story