سیاست کے مدوجذر
اس الیکشن کے حوالے سے ’’جھرلو پھرنے‘‘ کی اصطلاح انھی دنوں سے زبان زدِ عام ہوئی۔
چند روز قبل مسلم لیگ (ن) کے ایک جلسہ میں خطاب کے دوران میاں نوازشریف نے جذباتی انداز میں کئی بار یہ نعرہ بلند کیا کہ ''ووٹ کو عزت دو''۔ ان کی پشت پر ڈاکٹر آصف کرمانی بھی کھڑے ان نعروں میں سر ملا رہے تھے۔
یہ نعرے سن کر اگر ایک طرف طمانیت ہوئی کہ چلو کسی جماعت کو ووٹ کے ساتھ ہونے والی بے حرمتی کا احساس تو ہوا۔ مگر دوسری طرف یہ بھی یاد آیا کہ ہمارے یہاں تو ووٹ کی حرمت کا روز اول ہی سے کوئی تصور نہیں ہے۔ بلکہ عوام کی رائے کو ہمیشہ روندا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ جمہوری معاشروں میں ووٹ کی کلیدی حیثیت ہوتی ہے، بلکہ ان معاشروں کی عمارت ہی ووٹ کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر آصف کرمانی ماضی کے مسلم لیگی رہنما احمد سعید کرمانی کے فرزند ہیں۔ انھیں دیکھ کر ریلوے یونین کے چیئرمین منظور رضی سمیت کئی بزرگوں کا سنایا ایک واقعہ یاد آگیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 1951 میں انتخابات ہورہے تھے۔
مغلپورہ اور اس کے اطراف پر مشتمل حلقے سے بابائے مزدور مرزا ابراہیم مرحوم کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور مزدور اتحاد کے امیدوار تھے۔ ان کے مدمقابل مسلم لیگی امیدوار احمد سعیدکرمانی مرحوم تھے۔ ان دنوں لاہور کے ڈپٹی کمشنر وی وی جعفری تھے (جو 1988 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وفاقی مشیر بنائے گئے)۔
شام کو جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، تو تقریباً 90 فیصد پولنگ اسٹیشنوں سے موصولہ نتائج کے مطابق مرزا صاحب مرحوم کو واضح برتری حاصل تھی۔ مگر رات ہوتے ہی ڈپٹی کمشنر کو ''اوپر'' سے یہ احکامات وصول ہوئے کہ مرزا ابراہیم کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ راتوں رات نتائج تبدیل کردیے گئے۔ یوں اگلی صبح احمد سعید کرمانی کی کامیابی کا سرکاری طور پر اعلان کردیا گیا۔
اس الیکشن کے حوالے سے ''جھرلو پھرنے'' کی اصطلاح انھی دنوں سے زبان زدِ عام ہوئی۔ اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل ایک مرتبہ کراچی میں مرزا ابراہیم مرحوم کی یاد میں PMA (پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن) ہاؤس کراچی میں منعقدہ تقریب میں کرمانی مرحوم نے یہ تسلیم کیا کہ مجھے اپنی ناکامی کا یقین ہوگیا تھا، مگر صبح کامیابی کے اعلان سے میں خود بھی حیران ہوگیا تھا۔ یہ کرمانی مرحوم کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ انھوں نے حقیقت بیان کرکے تاریخ کے صفحات کو درست رکھنے میں مدد دی۔
یہ واقعہ تحریر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ طاقتور ریاستی حلقوں نے وطن عزیز میں جمہوری عمل کے تسلسل کی راہ میں روز اول ہی سے رکاوٹیں ڈالیں۔ ملک میں متوازی حکمرانی کا تصور تو قیام پاکستان سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔ جس کی مثال قیام پاکستان کے سرکاری اعلان سے تین روز قبل دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں بانی پاکستان کی پالیسی تقریر کے بعض حصوں کا بااثر بیوروکریٹس کے ایما پر سنسر کیا جانا تھا۔ اس کے علاوہ ملک کے چیف ایگزیکٹو (وزیراعظم) کا روز اول ہی سے بے دست و پا ہونا بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
آج جب ہم سیاسی منظرنامہ پر نظر ڈالتے ہیں، تو سیاسی عمل عوام اور ان کی خواہشات سے کٹا نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک بنگالی ہمارے ساتھ رہے، سیاست میں اربن مڈل اور ورکنگ کلاس کی بھرپور نمایندگی موجود رہی۔ مگر بنگالیوں کی علیحدگی کے بعد سیاست سے حقیقی (Genuine) مڈل کلاس کیڈر ختم ہوتا چلا گیا۔ جس کے نتیجے میںسیاست میں موروثیت کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔
مڈل کلاس سے جو کیڈر ابھر کر سامنے آیا، اسے فیوڈل سیاستدانوں نے یا تو Co-opt کرکے اپنے جیسا بنالیا یا پھر منتظمہ کے ساتھ مل کر جبراً سیاسی عمل سے دور کردیا۔ ریاستی منتظمہ اور فیوڈل سیاستدانوں کا جو گٹھ جوڑ ابتدائی دنوں میں قائم ہوا تھا، وہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد مزید مضبوط ہوگیا۔
عبداللہ ہارون کالج کھڈا (لیاری) میں سیاسیات کے استاد پروفیسر اقبال احمد خان مرحوم کہا کرتے تھے کہ ''سقوط ڈھاکا دراصل مغربی پاکستان میں مڈل کلاس سیاست کا سقوط ہے''۔ یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ کیونکہ 1971 کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں مڈل کلاس کے نام پر Parasite قسم کا کیڈر سیاسی میدان میں اتارا گیا، جو بظاہر مڈل اور ورکنگ کلاس کی نمایندگی کرتا نظر آیا، مگر درحقیقت اسٹبلشمنٹ کے مفادات کا نگہبان ہوتا ہے۔
سیاسی عزم وبصیرت کی کمی اور غیر واضح اہداف کے باعث ایسی مڈل کلاس قیادتیں اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ جس کی واضح مثال PSP اور ایم کیوایم (حقیقی، بہادرآباد اور پیرکالونی) کا موجودہ کیڈر ہے۔
یہی کلیہ میاں صاحب اور ان کی جماعت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ میاں صاحب خود باقی قومی رہنماؤں کے مقابلے میں خاصے واضح اور بہتر ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ملک کے بالادست طبقات (Deep State) کے ساتھ انھوں نے جس جدل کا آغاز کیا ہے، اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ لیکن ان کی جماعت کی اکثریت کا عموی رویہ بھی فیوڈل مائنڈسیٹ سے مختلف نہیں ہے، جو دیگر رہنما اور کارکنان آج کل میاں صاحب کے دائیں بائیں موجود ہیں، ان میں چند ایک کو چھوڑ باقی سبھی Parasite ہیں۔
جو مشکل گھڑی آتے ہی کسی دوسرے آشیانے کی طرف اڑ رہے ہیں اور کچھ اڑ جانے کی تیاریوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خود ان کی سیاسی بصیرت بھی محدود ہے۔ کیونکہ اپنے تینوں ادوار میں ان کے بیشتر اقدامات ایسے نہیں کہ ان کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ ان سے بہتر عوامی اور جمہوری رویوں کا مظاہرہ محمد خان جونیجو مرحوم نے کیا تھا۔
ایک ملین ڈالر سوال یہ بھی ہے کہ بالفرض محال میاں صاحب اس جدل میں کامیاب ہوجاتے ہیں (جس کے امکان انتہائی محدود ہیں) تو کیا وہ ان اہداف کو حاصل کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کریںگے جن کا وہ تسلسل کے ساتھ اعادہ کر رہے ہیں۔ ان رکاوٹوں کو دور کرسکیں گے، جو ہر بار ان کے دور اقتدار کو قبل از وقت ختم کرنے کا باعث بنیں۔
ہمارا گمان یہ ہے کہ وہ شاید ایسا نہ کرسکیں۔ کیونکہ محسوس یہ ہورہا ہے کہ جب تک دیگر سیاسی قوتیں ساتھ نہ ہوں، کوئی ایک سیاسی جماعت کے لیے بالادست طبقات (Deep State)کے عزائم کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو سیاسی قوتوں میں سیاسی عزم وبصیرت کی کمی ہی ان کے سیاسی عزائم کی تکمیل کی راہ میں بنیادی رکاوٹ بنی ہے۔
گزشتہ دنوںجام ساقی کی یاد میں آرٹس کونسل کراچی میں جلسہ ہوا۔ جس میں دیگر باتوں کے علاوہ سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹررضا ربانی، وفاقی وزیر سینیٹر حاصل بزنجو اور برادرِ عزیز شاہ محمد شاہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم لوگ خواہ کسی بھی جماعت میں رہیں، لیکن جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کو اپنی اولین ذمے داری تصور کریں۔ ان رہنماؤں کا یہ عزم اگر اخلاص پر مبنی ہے، تو یہی ملک میں سیاسی جدوجہد کو ایک نئی سمت دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر جماعت میں ایسے رہنما اور کارکنان بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو خلوص نیت کے ساتھ جمہوری اداروں کو مستحکم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادتیں بالادست طبقات کے ساتھ مفاہمت کرلیتی ہیں۔ جب کہ درمیانہ درجہ کی موقع پرست قیادت جو زیادہ تر Electables پر مشتمل ہوتی ہے، مشکل وقت میں اپنی جماعت کو چھوڑ جاتی ہے۔
ایک دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ جب بھی سیاسی جماعتوں کواقتدار میں آنے کا موقع ملا، انھوں نے عوامی بہبود کے منصوبوں کو ترجیح دینے کے بجائے ان منصوبوں کو فوقیت دی جن میں کک بیکس اور بھاری کمیشن ملنے کی توقع ہو۔ یہ طرزعمل ہمیشہ عوام کو بدظن کرنے کا باعث بنا۔ بارہا ان صفحات پر لکھا کہ مسلم لیگ، جن منصوبوں کو قومی ترقی قرار دے رہی ہے، وہ ترقی کا دوسرا مرحلہ (Phase) ہیں۔ ترقی کا اولین مرحلہ تعلیم اور صحت کے معیار میں بہتری کے ساتھ روزگار کے ذرایع پیدا کرنا ہے۔
دوسری بات یہ کہ جمہوری اداروں کے قیام اور استحکام کے مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس کے بغیر بالادست طبقات (Deep State) کو نکیل ڈالنا ممکن نہیں ہے۔
یہ نعرے سن کر اگر ایک طرف طمانیت ہوئی کہ چلو کسی جماعت کو ووٹ کے ساتھ ہونے والی بے حرمتی کا احساس تو ہوا۔ مگر دوسری طرف یہ بھی یاد آیا کہ ہمارے یہاں تو ووٹ کی حرمت کا روز اول ہی سے کوئی تصور نہیں ہے۔ بلکہ عوام کی رائے کو ہمیشہ روندا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ جمہوری معاشروں میں ووٹ کی کلیدی حیثیت ہوتی ہے، بلکہ ان معاشروں کی عمارت ہی ووٹ کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر آصف کرمانی ماضی کے مسلم لیگی رہنما احمد سعید کرمانی کے فرزند ہیں۔ انھیں دیکھ کر ریلوے یونین کے چیئرمین منظور رضی سمیت کئی بزرگوں کا سنایا ایک واقعہ یاد آگیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 1951 میں انتخابات ہورہے تھے۔
مغلپورہ اور اس کے اطراف پر مشتمل حلقے سے بابائے مزدور مرزا ابراہیم مرحوم کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور مزدور اتحاد کے امیدوار تھے۔ ان کے مدمقابل مسلم لیگی امیدوار احمد سعیدکرمانی مرحوم تھے۔ ان دنوں لاہور کے ڈپٹی کمشنر وی وی جعفری تھے (جو 1988 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وفاقی مشیر بنائے گئے)۔
شام کو جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، تو تقریباً 90 فیصد پولنگ اسٹیشنوں سے موصولہ نتائج کے مطابق مرزا صاحب مرحوم کو واضح برتری حاصل تھی۔ مگر رات ہوتے ہی ڈپٹی کمشنر کو ''اوپر'' سے یہ احکامات وصول ہوئے کہ مرزا ابراہیم کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ راتوں رات نتائج تبدیل کردیے گئے۔ یوں اگلی صبح احمد سعید کرمانی کی کامیابی کا سرکاری طور پر اعلان کردیا گیا۔
اس الیکشن کے حوالے سے ''جھرلو پھرنے'' کی اصطلاح انھی دنوں سے زبان زدِ عام ہوئی۔ اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل ایک مرتبہ کراچی میں مرزا ابراہیم مرحوم کی یاد میں PMA (پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن) ہاؤس کراچی میں منعقدہ تقریب میں کرمانی مرحوم نے یہ تسلیم کیا کہ مجھے اپنی ناکامی کا یقین ہوگیا تھا، مگر صبح کامیابی کے اعلان سے میں خود بھی حیران ہوگیا تھا۔ یہ کرمانی مرحوم کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ انھوں نے حقیقت بیان کرکے تاریخ کے صفحات کو درست رکھنے میں مدد دی۔
یہ واقعہ تحریر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ طاقتور ریاستی حلقوں نے وطن عزیز میں جمہوری عمل کے تسلسل کی راہ میں روز اول ہی سے رکاوٹیں ڈالیں۔ ملک میں متوازی حکمرانی کا تصور تو قیام پاکستان سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔ جس کی مثال قیام پاکستان کے سرکاری اعلان سے تین روز قبل دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں بانی پاکستان کی پالیسی تقریر کے بعض حصوں کا بااثر بیوروکریٹس کے ایما پر سنسر کیا جانا تھا۔ اس کے علاوہ ملک کے چیف ایگزیکٹو (وزیراعظم) کا روز اول ہی سے بے دست و پا ہونا بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
آج جب ہم سیاسی منظرنامہ پر نظر ڈالتے ہیں، تو سیاسی عمل عوام اور ان کی خواہشات سے کٹا نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک بنگالی ہمارے ساتھ رہے، سیاست میں اربن مڈل اور ورکنگ کلاس کی بھرپور نمایندگی موجود رہی۔ مگر بنگالیوں کی علیحدگی کے بعد سیاست سے حقیقی (Genuine) مڈل کلاس کیڈر ختم ہوتا چلا گیا۔ جس کے نتیجے میںسیاست میں موروثیت کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔
مڈل کلاس سے جو کیڈر ابھر کر سامنے آیا، اسے فیوڈل سیاستدانوں نے یا تو Co-opt کرکے اپنے جیسا بنالیا یا پھر منتظمہ کے ساتھ مل کر جبراً سیاسی عمل سے دور کردیا۔ ریاستی منتظمہ اور فیوڈل سیاستدانوں کا جو گٹھ جوڑ ابتدائی دنوں میں قائم ہوا تھا، وہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد مزید مضبوط ہوگیا۔
عبداللہ ہارون کالج کھڈا (لیاری) میں سیاسیات کے استاد پروفیسر اقبال احمد خان مرحوم کہا کرتے تھے کہ ''سقوط ڈھاکا دراصل مغربی پاکستان میں مڈل کلاس سیاست کا سقوط ہے''۔ یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ کیونکہ 1971 کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں مڈل کلاس کے نام پر Parasite قسم کا کیڈر سیاسی میدان میں اتارا گیا، جو بظاہر مڈل اور ورکنگ کلاس کی نمایندگی کرتا نظر آیا، مگر درحقیقت اسٹبلشمنٹ کے مفادات کا نگہبان ہوتا ہے۔
سیاسی عزم وبصیرت کی کمی اور غیر واضح اہداف کے باعث ایسی مڈل کلاس قیادتیں اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ جس کی واضح مثال PSP اور ایم کیوایم (حقیقی، بہادرآباد اور پیرکالونی) کا موجودہ کیڈر ہے۔
یہی کلیہ میاں صاحب اور ان کی جماعت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ میاں صاحب خود باقی قومی رہنماؤں کے مقابلے میں خاصے واضح اور بہتر ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ملک کے بالادست طبقات (Deep State) کے ساتھ انھوں نے جس جدل کا آغاز کیا ہے، اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ لیکن ان کی جماعت کی اکثریت کا عموی رویہ بھی فیوڈل مائنڈسیٹ سے مختلف نہیں ہے، جو دیگر رہنما اور کارکنان آج کل میاں صاحب کے دائیں بائیں موجود ہیں، ان میں چند ایک کو چھوڑ باقی سبھی Parasite ہیں۔
جو مشکل گھڑی آتے ہی کسی دوسرے آشیانے کی طرف اڑ رہے ہیں اور کچھ اڑ جانے کی تیاریوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خود ان کی سیاسی بصیرت بھی محدود ہے۔ کیونکہ اپنے تینوں ادوار میں ان کے بیشتر اقدامات ایسے نہیں کہ ان کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ ان سے بہتر عوامی اور جمہوری رویوں کا مظاہرہ محمد خان جونیجو مرحوم نے کیا تھا۔
ایک ملین ڈالر سوال یہ بھی ہے کہ بالفرض محال میاں صاحب اس جدل میں کامیاب ہوجاتے ہیں (جس کے امکان انتہائی محدود ہیں) تو کیا وہ ان اہداف کو حاصل کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کریںگے جن کا وہ تسلسل کے ساتھ اعادہ کر رہے ہیں۔ ان رکاوٹوں کو دور کرسکیں گے، جو ہر بار ان کے دور اقتدار کو قبل از وقت ختم کرنے کا باعث بنیں۔
ہمارا گمان یہ ہے کہ وہ شاید ایسا نہ کرسکیں۔ کیونکہ محسوس یہ ہورہا ہے کہ جب تک دیگر سیاسی قوتیں ساتھ نہ ہوں، کوئی ایک سیاسی جماعت کے لیے بالادست طبقات (Deep State)کے عزائم کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو سیاسی قوتوں میں سیاسی عزم وبصیرت کی کمی ہی ان کے سیاسی عزائم کی تکمیل کی راہ میں بنیادی رکاوٹ بنی ہے۔
گزشتہ دنوںجام ساقی کی یاد میں آرٹس کونسل کراچی میں جلسہ ہوا۔ جس میں دیگر باتوں کے علاوہ سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹررضا ربانی، وفاقی وزیر سینیٹر حاصل بزنجو اور برادرِ عزیز شاہ محمد شاہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم لوگ خواہ کسی بھی جماعت میں رہیں، لیکن جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کو اپنی اولین ذمے داری تصور کریں۔ ان رہنماؤں کا یہ عزم اگر اخلاص پر مبنی ہے، تو یہی ملک میں سیاسی جدوجہد کو ایک نئی سمت دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر جماعت میں ایسے رہنما اور کارکنان بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو خلوص نیت کے ساتھ جمہوری اداروں کو مستحکم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادتیں بالادست طبقات کے ساتھ مفاہمت کرلیتی ہیں۔ جب کہ درمیانہ درجہ کی موقع پرست قیادت جو زیادہ تر Electables پر مشتمل ہوتی ہے، مشکل وقت میں اپنی جماعت کو چھوڑ جاتی ہے۔
ایک دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ جب بھی سیاسی جماعتوں کواقتدار میں آنے کا موقع ملا، انھوں نے عوامی بہبود کے منصوبوں کو ترجیح دینے کے بجائے ان منصوبوں کو فوقیت دی جن میں کک بیکس اور بھاری کمیشن ملنے کی توقع ہو۔ یہ طرزعمل ہمیشہ عوام کو بدظن کرنے کا باعث بنا۔ بارہا ان صفحات پر لکھا کہ مسلم لیگ، جن منصوبوں کو قومی ترقی قرار دے رہی ہے، وہ ترقی کا دوسرا مرحلہ (Phase) ہیں۔ ترقی کا اولین مرحلہ تعلیم اور صحت کے معیار میں بہتری کے ساتھ روزگار کے ذرایع پیدا کرنا ہے۔
دوسری بات یہ کہ جمہوری اداروں کے قیام اور استحکام کے مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس کے بغیر بالادست طبقات (Deep State) کو نکیل ڈالنا ممکن نہیں ہے۔