مہنگائی اور مزدوری کا بہانہ درسی کتابیں اور کامپیاں 10 سے 15 فیصد مہنگی
شہریوں کونئے تعلیمی سال کے آغاز پر بچوں کے یونیفارم کی خریداری اوراسکولوں کی ایڈوانس فیس،سالانہ فیس کے اخراجات کاسامنا
نئے تعلیمی سال کے آغاز پر درسی کتب، کاپیوں اور اسٹیشنری کی خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرنے والے والدین کو منہ زور مہنگائی کا سامنا ہے کاغذ کی قیمت میں اضافے اور لیبر کی مہنگی مزدوری کو جواز بناکر درسی کتابوں اور کاپیوں کی قیمت میں 10سے 15فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔
شہریوں کی بڑی تعداد کراچی کے مرکزی اردوبازار سے بچوں کی کتابیں اور کاپیاں خریدنے کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ اس بازار میں تھوک قیمت پر کاپیاں فروخت کی جاتی ہیں تاہم ہر سال کی طرح اس سال بھی کاپیاں کتابیں اور اسٹیشنر ی کی خریداری کے لیے بازار کا رخ کرنے والے والدین کو مہنگائی کا سامنا ہے۔
خریداری کے لیے آنے والے والدین نے ایکسپریس کو بتایا کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر کاپیوں کتابوں کی قیمت میں ہی نہیں بلکہ یونیفارم، بستوں، پانی کے تھرماس اور لنچ باکس تک کی قیمتوں میں اضافہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اسکولوں کی ایڈوانس فیس، سالانہ فیس کی مد میں بھی اضافی خرچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اوسط معیار کے اسکول میں پڑھنے والے ایک بچے کے نئے تعلیمی سال کے اخراجات 8سے 10ہزار روپے تک پہنچ جاتے ہیں، بڑے نجی اسکولوں نے اپنی کاپیوں اور کتابوں کے لیے بڑی بک اسٹورز کو مخصوص کیا ہوا ہے جو معروف پبلشرز کی کتابیں مہنگے داموں فروخت کرنے کے علاوہ اسکول کے لوگو اور نام والی کاپیاں بھی لاگت سے 200فیصد زائد قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔
اسکولوں کی جانب سے والدین کو پابند کیا جاتا ہے کہ صرف مخصوص دکان یا ہم سے ہی یونیفارم اور کاپی کتابیں خریدیں بصورت دیگر بچوں کو اسکول سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
اردو بازار کے دکانداروں کے مطابق اسکولوں کی جانب سے اپنے نام اور لوگو والی کاپیوں کی شرط عائد کرنے کی وجہ سے شہری اردو بازار میں نسبتاً کم قیمت پر فروخت ہونے والی کاپیاں نہیں خریدرہے جس کی وجہ سے ہر سال کاپیاں فروخت کرنے والوں کا کاروبار متاثر ہورہا ہے۔
اردو بازار میں کاپیاں 500سے600روپے درجن قیمت پر فروخت کی جارہی ہیں اسی طرح بڑی کاپیاں اور رجسٹرز بھی 800سے 900روپے درجن فروخت ہورہے ہیں کاپیاں فروخت کرنے والوں کے مطابق کاغذ کی قیمت بڑھنے سے کاپیوں کی لاگت میں 10سے 15فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم زیادہ تر دکاندار پرانا اسٹاک فروخت کررہے ہیں جس کی وجہ سے خریداروں کو رعایت دی جارہی ہے۔
درسی کتب مہنگی ہونے سے پرانی کتابوں کی فروخت بڑھ گئی،کئی گاہک بچوں کی پرانی کتابیں عطیہ کردیتے ہیں،دکاندار
درسی کتب کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پرانی کتابوں کی فروخت میں بھی اضافہ ہورہا ہے پرانی کتابیں فروخت کرنے والے دکانداروں کے مطابق ان کے پاس ایسے لاتعداد گاہک موجود ہیں جو ہر سال اپنے بچوں کی سابقہ کتابیں واپس کرکے قیمت کا فرق دے کر اگلی جماعت کی کتابیں لے جاتے ہیں اس طرح نئی کتابوں کے مقابلے میں ان کا خرچ بھی نصف رہ جاتا ہے۔
پرانی کتابیں فروخت کرنے والوں کے مطابق مشہور پبلشرز کی نئی کتابوں کی قیمت عوام کی قوت خرید سے باہر ہیں اس لیے زیادہ تر والدین مشہور پبلشرز کی کتابیں ڈھونڈتے ہوئے آتے ہیں دکانداروں کے مطابق بعض گاہک اپنی پرانی کتابیں بلا قیمت بھی دے جاتے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ ضرورت مند طلبہ اور والدین کو یہ کتابیں مفت دے دی جائیں۔
تاریخی اردوبازارمیں صفائی نہ ہونے اور سیوریج کی خرابی سے والدین اور طلبہ پریشان
اردو کے نام سے بازار نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں علمی مراکزبن چکے ہیں جہاں تشنگان علم دنیا کے اعلیٰ دماغوں کی تصانیف پرمبنی کتابیں خرید کر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں اردو بازار کے کئی پبلشر ز اور دکاندار کتب بیچتے بیچتے اپنی تیسری اور چوتھی نسل تک پہنچ گئے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد برصغیر کے مختلف علاقوں سے آنے والے علمی ذوق رکھنے والے افراد نے کراچی میں اردو بازار آباد کیا ابتدا میں اردو بازار میں صرف 10 سے 15 کتابوں کے اسٹال موجود تھے اور گزرتے کے وقت کے ساتھ اردو بازار کئی گلیوں پر مشتمل ایک بڑی کتابوں کی مارکیٹ میں بدل گیا اردو بازار میں کتابوں، کاپیوں ، اسٹیشنری سامان، سائنس کے طلبہ کا لیباریٹری سامان اور دنیا بھر سے کتابیں منگوانے والے پبلشرز موجود ہیں۔
اردو بازار کے قریب کتابیں چھاپنے والے پرنٹرز اور کتابیں تیار کرنے والے بائنڈروںکی دکانیں بھی کثیر تعداد میں کھل چکی ہیں اور پرنٹنگ کی صنعت کا مرکز بھی اردو بازار ہی بن گیا اب یہ پرنٹنگ کی صنعت اولڈ سٹی ایریا کے پاکستان چوک ، برنس روڈ کی گلیوں سے ابراہیم اسماعیل چندریگر روڈ تک پہنچ گئی ہے۔
اردو بازار میں بنیادی سہولتوں صفائی اور نکاسی آب کے مسائل ہمیشہ سے ہی گاہکوں اور دکانداروں کو پریشان کیے رکھتے ہیں اکثر و بیشتر گلیوں میں سیوریج کا گندا پانی کھڑا رہتا ہے اور صفائی کا بہتر انتظام نہیں ہے شہر بھر سے کتابیں اور کاپیاں لینے آنے والے والدین اکثر اردو بازار آکر ٹریفک جام، رش ناقص صفائی کی صورتحال سے پریشان رہتے ہیں اسی گلی میں ہی شہر کا اہم ترین سوبھراج اسپتال بھی موجود ہے۔
پرانی کلرپینسلیں نئی پینسلوں سے کم قیمت پرفروخت ہونے لگی
اردو بازار میں پرانی پنسلوں کی فروخت کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے پرانی کلر پنسلیں لاٹ کی شکل میں درآمد کی جاتی ہیں جن میں ہر رنگ کی پنسلیں شامل ہیں ٹھیلوں پر فروخت ہونے والے پرانی کلر پنسلیں نئی اور عام پنسلوں کے مقابلے میں زیادہ دیرپا اور رنگ پختہ نہ ہونے کے باوجود قیمت کم ہونے کی وجہ سے فروخت ہورہی ہیں۔
پرانی پنسلیں فروخت کرنے والوں کے مطابق سیاہ نئی پنسل کی قیمت 8روپے ہے جبکہ ٹھیلے پر پرانی پنسل چار روپے میں فروخت کی جارہی ہے اسی طرح بڑے سائز کی کلر پنسل10روپے میں فروخت ہورہی ہے جبکہ موٹی اور بڑی کلر پنسل بیس روپے کی فروخت کی جارہی ہے، پرانی پینسلیں فروخت کرنیوالے ٹھیلوں پر خریداروں کا رش دیکھا جارہا ہے۔
خریداروں کے مطابق بچے روز پنسل گم کردیتے ہیں اور تعلیمی اخراجات میں پنسل ہی واحد چیز ہے جس کی موجودگی ہر حال میں یقینی بنانا ہوتی ہے اس لیے زیادہ تر گاہک نصف قیمت پر پرانی پنسلوں کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں پرانی پنسلوں کے معیار پر والدین نے ملی جلی رائے کا اظہار کیا بعض کا کہنا تھا کہ یہ معیار میں نئی پنسلوں جیسی ہیں ۔
لوڈشیڈنگ سے کتابوں پرکورچڑھانے والوں کا کام متاثر
نئی کاپیوں اور کتابوں پر پلاسٹک کے کور چڑھانے کا کام بھی دن رات جاری ہے۔ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر والدین اپنے بچوں کی کاپیوں اور کتابوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان پر پلاسٹک کے کور چڑھوانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ کتابیں کاپیاں اور بچے صاف ستھرے رہیں۔
اس سال بھی نئے تعلیمی سال کے آغاز پر کتابوں اور کاپیوں پر پلاسٹک کے کور چڑھانے کی دکانوں پر والدین کا رش دیکھا جارہا ہے تاہم پلاسٹک کور چڑھانے والے دکانداروں کا کہنا ہے کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کام بری طرح متاثر ہورہا ہے اور کاریگروں کو زیادہ اجرت دے کر رات کے وقت کام کیا جارہا ہے پلاسٹک کور کی اجرت میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں 20سے 25فیصد تک اضافہ کردیا گیا ہے۔
گزشتہ سال جن کاپیوں پر20روپے کا کور چڑھایا جارہا تھا اب ان کے لیے25 روپے وصول کیے جارہے ہیں کتابوں کے کور کی اجرت میں10روپے تک کا اضافہ کردیا گیا ہے دکانداروں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک مہنگا ہونے، بجلی مہنگی ہونے اور عمومی مہنگائی بڑھنے سے اجرت بڑھانے پر مجبور ہیں۔
شہریوں کی بڑی تعداد کراچی کے مرکزی اردوبازار سے بچوں کی کتابیں اور کاپیاں خریدنے کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ اس بازار میں تھوک قیمت پر کاپیاں فروخت کی جاتی ہیں تاہم ہر سال کی طرح اس سال بھی کاپیاں کتابیں اور اسٹیشنر ی کی خریداری کے لیے بازار کا رخ کرنے والے والدین کو مہنگائی کا سامنا ہے۔
خریداری کے لیے آنے والے والدین نے ایکسپریس کو بتایا کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر کاپیوں کتابوں کی قیمت میں ہی نہیں بلکہ یونیفارم، بستوں، پانی کے تھرماس اور لنچ باکس تک کی قیمتوں میں اضافہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اسکولوں کی ایڈوانس فیس، سالانہ فیس کی مد میں بھی اضافی خرچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اوسط معیار کے اسکول میں پڑھنے والے ایک بچے کے نئے تعلیمی سال کے اخراجات 8سے 10ہزار روپے تک پہنچ جاتے ہیں، بڑے نجی اسکولوں نے اپنی کاپیوں اور کتابوں کے لیے بڑی بک اسٹورز کو مخصوص کیا ہوا ہے جو معروف پبلشرز کی کتابیں مہنگے داموں فروخت کرنے کے علاوہ اسکول کے لوگو اور نام والی کاپیاں بھی لاگت سے 200فیصد زائد قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔
اسکولوں کی جانب سے والدین کو پابند کیا جاتا ہے کہ صرف مخصوص دکان یا ہم سے ہی یونیفارم اور کاپی کتابیں خریدیں بصورت دیگر بچوں کو اسکول سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
اردو بازار کے دکانداروں کے مطابق اسکولوں کی جانب سے اپنے نام اور لوگو والی کاپیوں کی شرط عائد کرنے کی وجہ سے شہری اردو بازار میں نسبتاً کم قیمت پر فروخت ہونے والی کاپیاں نہیں خریدرہے جس کی وجہ سے ہر سال کاپیاں فروخت کرنے والوں کا کاروبار متاثر ہورہا ہے۔
اردو بازار میں کاپیاں 500سے600روپے درجن قیمت پر فروخت کی جارہی ہیں اسی طرح بڑی کاپیاں اور رجسٹرز بھی 800سے 900روپے درجن فروخت ہورہے ہیں کاپیاں فروخت کرنے والوں کے مطابق کاغذ کی قیمت بڑھنے سے کاپیوں کی لاگت میں 10سے 15فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم زیادہ تر دکاندار پرانا اسٹاک فروخت کررہے ہیں جس کی وجہ سے خریداروں کو رعایت دی جارہی ہے۔
درسی کتب مہنگی ہونے سے پرانی کتابوں کی فروخت بڑھ گئی،کئی گاہک بچوں کی پرانی کتابیں عطیہ کردیتے ہیں،دکاندار
درسی کتب کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پرانی کتابوں کی فروخت میں بھی اضافہ ہورہا ہے پرانی کتابیں فروخت کرنے والے دکانداروں کے مطابق ان کے پاس ایسے لاتعداد گاہک موجود ہیں جو ہر سال اپنے بچوں کی سابقہ کتابیں واپس کرکے قیمت کا فرق دے کر اگلی جماعت کی کتابیں لے جاتے ہیں اس طرح نئی کتابوں کے مقابلے میں ان کا خرچ بھی نصف رہ جاتا ہے۔
پرانی کتابیں فروخت کرنے والوں کے مطابق مشہور پبلشرز کی نئی کتابوں کی قیمت عوام کی قوت خرید سے باہر ہیں اس لیے زیادہ تر والدین مشہور پبلشرز کی کتابیں ڈھونڈتے ہوئے آتے ہیں دکانداروں کے مطابق بعض گاہک اپنی پرانی کتابیں بلا قیمت بھی دے جاتے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ ضرورت مند طلبہ اور والدین کو یہ کتابیں مفت دے دی جائیں۔
تاریخی اردوبازارمیں صفائی نہ ہونے اور سیوریج کی خرابی سے والدین اور طلبہ پریشان
اردو کے نام سے بازار نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں علمی مراکزبن چکے ہیں جہاں تشنگان علم دنیا کے اعلیٰ دماغوں کی تصانیف پرمبنی کتابیں خرید کر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں اردو بازار کے کئی پبلشر ز اور دکاندار کتب بیچتے بیچتے اپنی تیسری اور چوتھی نسل تک پہنچ گئے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد برصغیر کے مختلف علاقوں سے آنے والے علمی ذوق رکھنے والے افراد نے کراچی میں اردو بازار آباد کیا ابتدا میں اردو بازار میں صرف 10 سے 15 کتابوں کے اسٹال موجود تھے اور گزرتے کے وقت کے ساتھ اردو بازار کئی گلیوں پر مشتمل ایک بڑی کتابوں کی مارکیٹ میں بدل گیا اردو بازار میں کتابوں، کاپیوں ، اسٹیشنری سامان، سائنس کے طلبہ کا لیباریٹری سامان اور دنیا بھر سے کتابیں منگوانے والے پبلشرز موجود ہیں۔
اردو بازار کے قریب کتابیں چھاپنے والے پرنٹرز اور کتابیں تیار کرنے والے بائنڈروںکی دکانیں بھی کثیر تعداد میں کھل چکی ہیں اور پرنٹنگ کی صنعت کا مرکز بھی اردو بازار ہی بن گیا اب یہ پرنٹنگ کی صنعت اولڈ سٹی ایریا کے پاکستان چوک ، برنس روڈ کی گلیوں سے ابراہیم اسماعیل چندریگر روڈ تک پہنچ گئی ہے۔
اردو بازار میں بنیادی سہولتوں صفائی اور نکاسی آب کے مسائل ہمیشہ سے ہی گاہکوں اور دکانداروں کو پریشان کیے رکھتے ہیں اکثر و بیشتر گلیوں میں سیوریج کا گندا پانی کھڑا رہتا ہے اور صفائی کا بہتر انتظام نہیں ہے شہر بھر سے کتابیں اور کاپیاں لینے آنے والے والدین اکثر اردو بازار آکر ٹریفک جام، رش ناقص صفائی کی صورتحال سے پریشان رہتے ہیں اسی گلی میں ہی شہر کا اہم ترین سوبھراج اسپتال بھی موجود ہے۔
پرانی کلرپینسلیں نئی پینسلوں سے کم قیمت پرفروخت ہونے لگی
اردو بازار میں پرانی پنسلوں کی فروخت کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے پرانی کلر پنسلیں لاٹ کی شکل میں درآمد کی جاتی ہیں جن میں ہر رنگ کی پنسلیں شامل ہیں ٹھیلوں پر فروخت ہونے والے پرانی کلر پنسلیں نئی اور عام پنسلوں کے مقابلے میں زیادہ دیرپا اور رنگ پختہ نہ ہونے کے باوجود قیمت کم ہونے کی وجہ سے فروخت ہورہی ہیں۔
پرانی پنسلیں فروخت کرنے والوں کے مطابق سیاہ نئی پنسل کی قیمت 8روپے ہے جبکہ ٹھیلے پر پرانی پنسل چار روپے میں فروخت کی جارہی ہے اسی طرح بڑے سائز کی کلر پنسل10روپے میں فروخت ہورہی ہے جبکہ موٹی اور بڑی کلر پنسل بیس روپے کی فروخت کی جارہی ہے، پرانی پینسلیں فروخت کرنیوالے ٹھیلوں پر خریداروں کا رش دیکھا جارہا ہے۔
خریداروں کے مطابق بچے روز پنسل گم کردیتے ہیں اور تعلیمی اخراجات میں پنسل ہی واحد چیز ہے جس کی موجودگی ہر حال میں یقینی بنانا ہوتی ہے اس لیے زیادہ تر گاہک نصف قیمت پر پرانی پنسلوں کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں پرانی پنسلوں کے معیار پر والدین نے ملی جلی رائے کا اظہار کیا بعض کا کہنا تھا کہ یہ معیار میں نئی پنسلوں جیسی ہیں ۔
لوڈشیڈنگ سے کتابوں پرکورچڑھانے والوں کا کام متاثر
نئی کاپیوں اور کتابوں پر پلاسٹک کے کور چڑھانے کا کام بھی دن رات جاری ہے۔ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر والدین اپنے بچوں کی کاپیوں اور کتابوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان پر پلاسٹک کے کور چڑھوانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ کتابیں کاپیاں اور بچے صاف ستھرے رہیں۔
اس سال بھی نئے تعلیمی سال کے آغاز پر کتابوں اور کاپیوں پر پلاسٹک کے کور چڑھانے کی دکانوں پر والدین کا رش دیکھا جارہا ہے تاہم پلاسٹک کور چڑھانے والے دکانداروں کا کہنا ہے کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کام بری طرح متاثر ہورہا ہے اور کاریگروں کو زیادہ اجرت دے کر رات کے وقت کام کیا جارہا ہے پلاسٹک کور کی اجرت میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں 20سے 25فیصد تک اضافہ کردیا گیا ہے۔
گزشتہ سال جن کاپیوں پر20روپے کا کور چڑھایا جارہا تھا اب ان کے لیے25 روپے وصول کیے جارہے ہیں کتابوں کے کور کی اجرت میں10روپے تک کا اضافہ کردیا گیا ہے دکانداروں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک مہنگا ہونے، بجلی مہنگی ہونے اور عمومی مہنگائی بڑھنے سے اجرت بڑھانے پر مجبور ہیں۔