ایمنسٹی اسکیم۔۔۔ ملکی معیشت کو مستحکم کرسکے گی
ماہرین اقتصادیات کی اسلام آباد میں منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو
حکومت کی جانب سے گزشتہ دنوں اندرون و بیرون ملک پڑے کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا جس کے تحت ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار 30لاکھ لوگوں تک لے جانے کیلئے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کو این ٹی این قرار دینے اور انفرادی ٹیکس دہندگان کیلئے ٹیکس کی شرح کم کر دی گئی، جس میں حکومت کی جانب سے ملکی تاریخ میں پہلی بار 12 لاکھ روپے سالانہ تک آمدنی رکھنے والے ٹیکس دہندگان کیلئے ٹیکس کی شرح صفر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
اس سکیم کو بعض حلقوں کی جانب سے سراہا جارہا ہے جبکہ بعض کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ا س اہم موضوع پر ایکسپریس فورم اسلام آبادمیں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین اقتصادیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر محمد اقبال ( ممبر ان لینڈ ریونیو فیڈرل بورڈ آف ریونیو)
حکومت کی جانب سے متعارف کروایا جانے والا اقتصادی ریفامز پیکیج ملکی اقتصادی ترقی کیلئے معاون ثابت ہوگا۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی صورت میں حکومت نے لوگوں کو ایک موقع فراہم کیاہے کہ وہ بیرون ملک سے اپنا پیسہ وطن واپس لائیں، اس اقدام سے نہ صرف باہر سے پیسہ ملک میں آئے گا بلکہ معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مددملے گی۔ ایمنسٹی سکیم دینے سے ملکی معیشت کے حجم میں اضافہ ہوگا ، معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔ حکومت پُرامید ہے کہ اس ایمنسٹی سکیم سے دنیابھرسے پاکستانیوں کا کثیر سرمایہ ملک میں آئے گا کیونکہ دنیا بھر میں ریونیو مالیاتی قوانین سخت ہورہے ہیں جس کے باعث لوگوں کے لئے باہر پیسہ چھپا کر رکھنا مشکل ہوگیا ہے جبکہ مستقبل میں قوانین مزید سخت ہورہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانیوں کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے اثاثہ جات کو قانونی دھارے میں لاسکتے ہیں۔ اس طرح وہ ملک کی خدمت بھی کریں گے کیونکہ اس وقت ملک کو مالیاتی خسارے کا چیلنج درپیش ہے جسے قابو کرنے کیلئے ذرمبادلہ کی ضرورت ہے اور اگر اس سکیم کے تحت پانچ سے چھ ارب ڈالر حاصل ہوجاتے ہیں تو پاکستان کو کسی بیرونی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اس پیکیج کے تحت حکومت نے نان فائلرز کے گرد گھیر مزید تنگ کیا ہے۔ نان فائلرز کیلئے جہاں فارن کرنسی اکاونٹ کھولنا ناممکن ہوگا وہیں وہ چالیس لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد بھی نہیں خرید سکیں گے جبکہ ہر قسم کی ٹرانزیکشن پر انہیں فائلر کے مقابلہ میں زیادہ ٹیکس دینا ہوگا۔ علاوہ ازیں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بھی نان فائلرز کی مشکلات میں مزید اضافہ ہونے جارہا ہے ۔ جہاں تک تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس سلیبز کی تعداد کم کرنا ہے تو یہ ایک تاریخی اقدام ہے جس سے تنخواہ دار ملازمین کو ریلیف تو ملے گا ہی بلکہ اس سے ٹیکس نیٹ بھی بڑھے گا اور یہی نہیں چند روز قبل اعلان کردہ آڈٹ پالیسی کے تحت سیکشن 214 ڈی میں بھی ترمیم کا اعلان کیا گیا ہے جس سے تنخواہ دار ملازمین کو ٹیکس آڈٹ سے بھی چھوٹ دیدی گئی ہے جبکہ اس آڈٹ پالیسی کے تحت پیرامیٹرک بنیادوں پر قرعہ اندازی کے ذریعے مزید 44 ہزار 868ٹیکس دہندگان کو ٹیکس سال 2016کے آڈٹ کیلئے منتخب کر لیا گیا ہے اور اس قرعہ اندازی کے ذریعے انکم ٹیکس کارپوریٹ کے1499، انکم ٹیکس نان کارپوریٹ کے 34515، سیلز ٹیکس کارپوریٹ کے 1274،سیلز ٹیکس نان کارپوریٹ کے 7532، فیڈرل ایکسائز کارپوریٹ کے 28اور فیڈرل ایکسائز کے 20ٹیکس دہندگان کا آڈٹ کیا جائے گا۔ دوسری جانب ایمنسٹی سکیم کے تحت بیرون ملک سے پیسہ اپنے ملک لانے کے لئے سٹیٹ بینک ایک علیحدہ میکانزم مرتب کررہاہے اور سٹیٹ بینک کے اسی طریقہ کار کے تحت بیرون ملک سے لوگ اپنا سرمایہ پاکستان لائیں گے۔ اس سکیم کے تحت آنے والاپیسہ ملک میں رہے گا۔ ایمنسٹی سکیم کے تحت ڈالر لانے والے افراد کو ملک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کے حساب سے پیسہ ملے گا۔ موجود ہ حکومت نے اوای سی ڈی کے ساتھ معاہدہ کیاہے جس کے تحت رواں مالی سال کے دوران ستمبر یا اکتوبر میں اس معاہدے کے تحت مختلف ممالک سے معلومات کا تبادلہ شروع کردیں گے۔ اس اقدام کے بعد کسی بھی شخص کے لئے بیرون ملک اپنا پیسہ چھپانا ناممکن ہوجائے گا ۔ جو لوگ اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے اور اپنا سرمایہ ظاہر نہیں کریں گے ، حکومت او ای سی ڈی سے ان کے بارے میں معلومات لے گی، بعدازاں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔ جون 2018ء کے بعد ان کی مشکلات بڑھ جائیں گی ،پھر اوی ای سی ڈی کے تحت معلومات کے تبادلہ کے آغاز سے دنیا بھر سے ان لوگوں کے بارے میں معلومات بھی ملنا شروع ہوجائیں گی جن کی بنیاد پر سخت کارروائی ہوگی۔ اس کے علاوہ اس پیکیج کے تحت ایک اور تاریخی اقدام اٹھایا گیا ہے جس کے تحت حکومت کو ٹیکس دہندگان کی ڈکلئیر کردہ ویلیو کے 100 فیصد کے برابر ادائیگی کرکے جائیداد خریدنے کے اختیارات بھی دے دئیے گئے ہیں حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں گے جس سے کوئی بھی نان فائلر اپنا فارن کرنسی اکاونٹ نہیں کھول سکے گا نان فائلرز چالیس لاکھ سے زائد کی مالیت کی جائیداد نہیں خرید سکیں گے ۔
فراز فضل شیخ ایڈووکیٹ ( سیکرٹری جنرل راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن)
حکومت کی جانب سے دی جانے والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت اس کوشش میں ہے کہ مختلف ممالک میں موجود اربوں روپے کا کالا دھن واپس لاکر ملک میں کاروباری سرگرمیوں میںلگایاجائے تاہم اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ حکومت نے یہ اقدام انتہائی قلیل مدت میں اٹھایاگیاہے اور اس سکیم کا دورانیہ مختصر ہونے کی وجہ سے اس کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے نفاذ کے حوالے سے وقت ایک بہت اہم عنصر ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں ایمنسٹی سکیم دی گئی مگر وہاں یہ سکیمیں 35 فیصد ریٹ پردی گئیں۔ ہمارے ہاں تو حکومت اس کی شرح بہت کم رکھی رہی ہے جو 2 یا اڑھائی فیصد مقررکیاگیاہے۔ اگر اس سکیم کو زیادہ وقت کے لئے لاتے تو اس کے نتائج قدرے مختلف ہوتے۔ یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی ضرورت شدت سے محسوس کی جار ہی تھی۔ ملک میں 12 لاکھ روپے تک کوئی خاص ٹیکس نہیں ہوتا اور کاروباری طبقہ جتنا زیادہ کماتاہے اس حساب سے ان کا منافع بڑھ جاتاہے اور اس پر اسی حساب سے ٹیکس ادا کرناپڑتاہے۔ حکومت کا ریونیو بھی اسی حساب سے اوپر جاتاہے ملک میں ایمنسٹی سکیم متعارف کروانے پر کسی بھی قسم کی شرائط عائد نہیں ہونی چائیں ۔ جو بھی شخص بیرون ملک سے اپنا پیسہ پاکستان لائے گا وہ یہاں پر کسی نہ کسی شعبے میں اس کو لگائے گا اور وہ تمام پیسہ ملک کی مختلف صنعتوں میں لگایاجائے گا چاہے وہ پیسہ رئیل اسٹیٹ میں لگے یا اس سے کوئی صنعت لگائی جائے، اس سے ملک کو ہی فائدہ ہوگا۔ ملک میں چندہفتوں بعد ا نتخابات ہورہے ہیں اور انتخابات سے قبل ایسی سکیم لانا ایمنسٹی سکیم کم اور الیکشن ایمنسٹی زیادہ لگ رہی ہے یہ سکیم انتخابات سے چند ہفتے قبل لائی گئی ہے یہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے زیادہ الیکشن سکیم لگ رہی ہے موجودہ حکومت کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی سکیم دیتے وقت ایک پہلو پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ حکومت کا ایمنسٹی سکیم دینے کا ارادہ تھا تو اس سے قبل اس سلسلے میں باقاعدہ ہوم ورک کرناچاہیے تھا تاکہ تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر سکیم دی جاتی۔ اس سکیم میں بہت سی غلطیاں ہیں اور ایمنسٹی سکیم لانے سے قبل حکومت نے تمام متعلقہ شراکت داروں کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا۔ اگر حکومت ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے تمام شراکت داروںکو ساتھ لے کر چلتی تو اس کے اثرات یکسر مختلف ہوتے اور یہ زیادہ کامیاب ہوسکتی تھی۔ حکومت نے یہ سکیم متعارف کرواتے وقت ایسے لوگوں کو ساتھ ملایا ہے جن سے یہ تاثر پیداہورہاہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم الیکشن کے لئے لائی گئی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں ٹیکس دہندگان کو بہت تنگ کیاگیا، عوام کی بڑی تعداد سابق وزیر خزانہ کے اقدامات سے بہت تنگ تھی۔ ان کے بعد جب یہ سکیم لائی گئی ہے تو لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ حکومت کا یہ اقدام صرف ووٹ بینک کی بحالی کے لئے کیاگیاہے۔ عوام میں پائی جانے والی اس غلطی فہمی کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے ایک بڑی ٹیکس ایمنسٹی سکیم ایک غلط وقت پر دے دی ہے۔ ملکی اکثریت تنخواہ دار طبقہ ہے مگر اس طبقے کو اس سکیم سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ حکومت کی جانب سے تو یہ بات مدنظر رکھ ٹیکس ایمنسٹی سکیم لائی گئی کہ اس سے انقلابی تبدیلی آجائے گی تاہم ایسی کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ بلاشبہ تبدیلی لانے اور صورتحال بہتر کرنے کیلئے یہ قدم اٹھایاگیاہے۔
ڈاکٹر وقار احمد ( ماہر معاشیات)
وزارت خزانہ کاکہناہے کہ دبئی، برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں نئے قوانین کا اطلاق ہوگیاہے اور اب وہاںپر بھی لوگوں کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے ہوں گے۔ حکومت کی جانب سے دی جانے والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کامیاب نہ ہوسکنے کی بعض وجوہات ہیں۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ آنے سے چند ہفتے قبل کا وقت درست نہیں ہے۔ اس سکیم کے بارے میں ایف اے ٹی ایف اور او ای سی ڈی نے کہاہے کہ ان کے ایمبٹ میں نہیں آتی۔ حکومت نے ایمنسٹی سکیم کے تحت ملک میں پیسہ لانے کی اجازت دے دی ہے مگر اس بات کا تعین کیسے ہوگا کہ جو پیسہ اس ایمنسٹی سکیم کے تحت آرہاہے وہ دہشت گردی، منی لانڈرنگ یاکسی بھی غیر قانونی طریقے سے کمایاہوانہیں ہے۔ حکومت کے لئے اس بات کا تعین کرنامشکل ہوگا۔ ا س سکیم کے حوالے سے ایف بی آرحکام کو اس بات کی پریشانی ہے کہ وہ رواںمالی سال کے لئے اپنے اہداف کیسے حاصل کریں گے۔ اگر ڈیڑھ سو ارب روپے نکل جاتاہے تو ان کے لئے اپنا ہدف حاصل کرنامشکل ہوجائے گا۔ موجودہ حکومت نے ملک میں حال ہی میں پراپرٹی کا نیا نظام متعارف کروایاہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پراپرٹی ٹیکس کامعاملہ وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا بلکہ یہ صوبائی معاملہ ہے۔ اس سے قبل ملک میں بڑے بڑے گروپوں نے 35 فیصد کے حساب سے ٹیکس دیا ہے اور اب حکومت کہہ رہی کہ صر ف 2 فیصد ادا کرو۔ حکومت کو اس سکیم کو سیکٹر کے لئے مخصوص کرناچاہیے تھا۔ صنعتی شعبے میں لگایاجاتاتو اس سے صنعتی شعبہ بہتر ہوتا۔ حکومت کے اپنے معاشی وزراء ہی اس سکیم کے حوالے سے مختلف آراء دے رہے ہیں ایک وزیر اڑھائی فیصد اور دوسراپانچ فی صد کی شرح کی بات کر رہاہے۔ حکومت نے فوائد حاصل کرنے کے لئے ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرادی ہے مگر اس سے قبل اس کے مختلف پہلووں کا تفصیلی جائزہ نہیں لیاگیاہے یہ سکیم جلد بازی میں لائی گئی ہے اوراس سکیم کے نفاذ کے حوالے سے جو آرڈیننس جاری کیاگیاہے اس میں بھی کئی غلطیاں ہیں جس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ سارا کچھ جلدبازی میں کیا گیا ہے ۔ آرڈیننس میں 4.8ملین کی بجائے 48ملین لکھاگیاہے۔ اس سکیم کے حوالے سے اداروں کے درمیان رابطہ نہیں تھا۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم لائے جانے کے چند روز بعدہی ایف بی آر نے نئی ٹیکس آڈٹ پالیسی دے دی ہے جس کے تحت ہردوسال بعد آڈٹ کیاجائے گا۔ ایک طرف تو حکومت ایمنسٹی سکیم لارہی ہے اور دوسری طرف ہر دوسال بعد آڈٹ کی بات ہورہی ہے۔نئی ایمنسٹی سکیم ایف بی آر کے قوانین کے متصادم ہے۔ اس سکیم سے حکومت ملک میں ہنڈی کو فروغ دے رہی ہے۔ اس سے قبل آنے والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو دیکھاجائے تو 2013میں حکومت نے ایمنسٹی سکیم دی تھی اور اڑھائی ارب روپے کا اعلان کیاگیاتھا مگر اس سکیم سے اتنا فائدہ نہیں ہوا۔
نعیم صدیقی (سربراہ ٹیکس کمیٹی اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
موجودہ حکومت کی جانب سے یہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم ایک خاص طبقے کے لئے متعارف کرائی گئی ہے اور اس سے صرف چند لاکھ لوگوں کو فائدہ ہوگا ۔ملک میں لاکھوں مزدور اور ایسے افراد موجود ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ پندرہ ہزار روپے سے بھی کم ہے، انہیں اس سکیم سے فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت ایک خاص طبقے کو ڈیڑھ سو ارب روپے کا ریلیف دے رہی ہے۔ امراء کو ایمنسٹی سکیم دینے کی بجائے حکومت کو چاہیے تھاکہ اتنی بڑی رقم عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی۔ 150 ارب روپے کی بڑی رقم سے عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرتی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں بجلی، گیس، پانی ودیگرضروریات زندگی کی اشیاء پر سبسڈی دے کر عوام کو بہت بڑا فائدہ پہنچایا جا سکتا تھا۔ اگر حکومت پیداواری شعبے میں اتنی سبسڈی دیتی تو کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہونے سے نہ صرف پیداواری صلاحیت بڑھتی بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آتے۔ زیادہ پیسہ قومی دھارے میں آجاتا تو اس سے عوام کے لئے مواقع بڑھ جاتے۔ ملک میں ریٹرنز جمع کرانے والوں میں سے اکثریت نچلے طبقے سے ہے۔ حکومت انکم ٹیکس کو خود کار نظام کے تحت چلارہی ہے اور ملک کا انکم ٹیکس کا نظام آٹوپائلٹ پر لگادیاگیاہے۔ 13.5فیصد انڈسٹری 58فیصد ملک کو سپورٹ فراہم کررہی ہے اگر اس ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو اوپر سے نچلی سطح تک لایاجاتا تو اس کے زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوتے۔ مختلف اشیائے ضروریہ سستی ہوجاتیں ۔ اب تو پیسہ دفن ہوگیاہے۔ رولنگ انوسٹمنٹ ہوئی ہے۔ حکومت یہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم لے آئی ہے مگر آئین کے آرٹیکل 89(2)B کے تحت قومی اسمبلی اور سینٹ کو طاقت حاصل ہے کہ وہ اس میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیاہے کہ وہ خود اس کا جائزہ لے گی۔ آرڈیننس کے ذریعے کس بھی سکیم کا نفاذ ایک کمزور طریقہ کار ہوتا ہے۔ اس سے قبل 2013ء میں متعارف کروائی گئیں۔ ایمنسٹی سکیم کا معاملہ زیر سماعت ہے ، سٹرائک ڈاؤن ہوئی ہے اور اس سابقہ سکیم کا معاملہ ابھی تک عدالت میں زیر التواہے تو اس طرح کی ہی ایک او رسکیم لائی جار ہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف ایشیائی ترقیاتی بنک اور آئی ایم ایف نے اس سکیم کی مخالفت کی ہے۔ موجودہ حکومت نے یہ سکیم ایک خاص طبقے کے لئے متعارف کروائی ہے اور اس کا مقصدصرف اور صرف اپنا ووٹ بینک واپس لاناہے۔ اشرافیہ اپنے لئے ایک سکیم لے کر آیاہے۔ موجودہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کوئی پہلی ایمنسٹی سکیم نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ملک میں مختلف ادوار میں کئی ایمنسٹی سکیمیں متعارف کروائی گئیں مگر اب تک لائی گئی تمام ایمنسٹی سکیمیں ناکام ہوئیں۔ ایمسنیسٹی سکیم ایک معافی ہے اگر اس کا مفہوم نکالاجائے تو معافی ہی نکلتاہے اور معافی جرمانے کی تو ہو سکتی ہے جرم کی نہیں۔ موجودہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں کئی نقائص موجود ہیں۔ اگر اس سکیم کی پارلیمنٹ نے منظوری دی تو یہ طے ہوگاکہ یہ درست ہے۔ 11.7ارب میں سے 4 ارب ان اٹینڈنٹ ہیں۔ ہماری معیشت میں ایک بہت بڑاحصہ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر کا بھی ہے اور جتنی بھی ترسیلات زر ملک میں آتی ہیں وہ تمام نان فائلرز کی جانب سے بھیجی جاتی ہیں کیونکہ وہ بیرون ملک سے پیسے بھیجتے ہیں مگر یہاں پر اپنے ملک میں تورجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ملک میں ترسیلا ت زر بھیجنے والوں میں سے ایک تہائی کا تعلق خیرپختونخواہ سے ہے۔ خیبر پختونخواہ سے لوگوں کو کہاجاتاہے کہ ریٹرنز فائل کرو اگر حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم دینی ہی تھی تو پھر یہ بات لازم کیوںکی جارہی ہے کہ ریٹرنز فائل کرو۔ ملک میں روزگار کے مواقع پید اکرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جب روزگار ہوگا تو معیار زندگی بہتر ہوگا۔ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے اور زرعی شعبے کی یہ حالت ہے کہ تیرہ سال قبل کپاس کی پیداوار ساڑھے آٹھ سو ملین بیلز تھی اور آج بھی وہ پیدوار وہیں کی وہیں کھڑی ہے جبکہ دیگر ممالک بالخصو ص بھارت اور بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں لہٰذا اس طرف توجہ دینا ہوگی۔
اس سکیم کو بعض حلقوں کی جانب سے سراہا جارہا ہے جبکہ بعض کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ا س اہم موضوع پر ایکسپریس فورم اسلام آبادمیں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین اقتصادیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر محمد اقبال ( ممبر ان لینڈ ریونیو فیڈرل بورڈ آف ریونیو)
حکومت کی جانب سے متعارف کروایا جانے والا اقتصادی ریفامز پیکیج ملکی اقتصادی ترقی کیلئے معاون ثابت ہوگا۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی صورت میں حکومت نے لوگوں کو ایک موقع فراہم کیاہے کہ وہ بیرون ملک سے اپنا پیسہ وطن واپس لائیں، اس اقدام سے نہ صرف باہر سے پیسہ ملک میں آئے گا بلکہ معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مددملے گی۔ ایمنسٹی سکیم دینے سے ملکی معیشت کے حجم میں اضافہ ہوگا ، معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔ حکومت پُرامید ہے کہ اس ایمنسٹی سکیم سے دنیابھرسے پاکستانیوں کا کثیر سرمایہ ملک میں آئے گا کیونکہ دنیا بھر میں ریونیو مالیاتی قوانین سخت ہورہے ہیں جس کے باعث لوگوں کے لئے باہر پیسہ چھپا کر رکھنا مشکل ہوگیا ہے جبکہ مستقبل میں قوانین مزید سخت ہورہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانیوں کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے اثاثہ جات کو قانونی دھارے میں لاسکتے ہیں۔ اس طرح وہ ملک کی خدمت بھی کریں گے کیونکہ اس وقت ملک کو مالیاتی خسارے کا چیلنج درپیش ہے جسے قابو کرنے کیلئے ذرمبادلہ کی ضرورت ہے اور اگر اس سکیم کے تحت پانچ سے چھ ارب ڈالر حاصل ہوجاتے ہیں تو پاکستان کو کسی بیرونی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اس پیکیج کے تحت حکومت نے نان فائلرز کے گرد گھیر مزید تنگ کیا ہے۔ نان فائلرز کیلئے جہاں فارن کرنسی اکاونٹ کھولنا ناممکن ہوگا وہیں وہ چالیس لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد بھی نہیں خرید سکیں گے جبکہ ہر قسم کی ٹرانزیکشن پر انہیں فائلر کے مقابلہ میں زیادہ ٹیکس دینا ہوگا۔ علاوہ ازیں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بھی نان فائلرز کی مشکلات میں مزید اضافہ ہونے جارہا ہے ۔ جہاں تک تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس سلیبز کی تعداد کم کرنا ہے تو یہ ایک تاریخی اقدام ہے جس سے تنخواہ دار ملازمین کو ریلیف تو ملے گا ہی بلکہ اس سے ٹیکس نیٹ بھی بڑھے گا اور یہی نہیں چند روز قبل اعلان کردہ آڈٹ پالیسی کے تحت سیکشن 214 ڈی میں بھی ترمیم کا اعلان کیا گیا ہے جس سے تنخواہ دار ملازمین کو ٹیکس آڈٹ سے بھی چھوٹ دیدی گئی ہے جبکہ اس آڈٹ پالیسی کے تحت پیرامیٹرک بنیادوں پر قرعہ اندازی کے ذریعے مزید 44 ہزار 868ٹیکس دہندگان کو ٹیکس سال 2016کے آڈٹ کیلئے منتخب کر لیا گیا ہے اور اس قرعہ اندازی کے ذریعے انکم ٹیکس کارپوریٹ کے1499، انکم ٹیکس نان کارپوریٹ کے 34515، سیلز ٹیکس کارپوریٹ کے 1274،سیلز ٹیکس نان کارپوریٹ کے 7532، فیڈرل ایکسائز کارپوریٹ کے 28اور فیڈرل ایکسائز کے 20ٹیکس دہندگان کا آڈٹ کیا جائے گا۔ دوسری جانب ایمنسٹی سکیم کے تحت بیرون ملک سے پیسہ اپنے ملک لانے کے لئے سٹیٹ بینک ایک علیحدہ میکانزم مرتب کررہاہے اور سٹیٹ بینک کے اسی طریقہ کار کے تحت بیرون ملک سے لوگ اپنا سرمایہ پاکستان لائیں گے۔ اس سکیم کے تحت آنے والاپیسہ ملک میں رہے گا۔ ایمنسٹی سکیم کے تحت ڈالر لانے والے افراد کو ملک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کے حساب سے پیسہ ملے گا۔ موجود ہ حکومت نے اوای سی ڈی کے ساتھ معاہدہ کیاہے جس کے تحت رواں مالی سال کے دوران ستمبر یا اکتوبر میں اس معاہدے کے تحت مختلف ممالک سے معلومات کا تبادلہ شروع کردیں گے۔ اس اقدام کے بعد کسی بھی شخص کے لئے بیرون ملک اپنا پیسہ چھپانا ناممکن ہوجائے گا ۔ جو لوگ اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے اور اپنا سرمایہ ظاہر نہیں کریں گے ، حکومت او ای سی ڈی سے ان کے بارے میں معلومات لے گی، بعدازاں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔ جون 2018ء کے بعد ان کی مشکلات بڑھ جائیں گی ،پھر اوی ای سی ڈی کے تحت معلومات کے تبادلہ کے آغاز سے دنیا بھر سے ان لوگوں کے بارے میں معلومات بھی ملنا شروع ہوجائیں گی جن کی بنیاد پر سخت کارروائی ہوگی۔ اس کے علاوہ اس پیکیج کے تحت ایک اور تاریخی اقدام اٹھایا گیا ہے جس کے تحت حکومت کو ٹیکس دہندگان کی ڈکلئیر کردہ ویلیو کے 100 فیصد کے برابر ادائیگی کرکے جائیداد خریدنے کے اختیارات بھی دے دئیے گئے ہیں حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں گے جس سے کوئی بھی نان فائلر اپنا فارن کرنسی اکاونٹ نہیں کھول سکے گا نان فائلرز چالیس لاکھ سے زائد کی مالیت کی جائیداد نہیں خرید سکیں گے ۔
فراز فضل شیخ ایڈووکیٹ ( سیکرٹری جنرل راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن)
حکومت کی جانب سے دی جانے والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت اس کوشش میں ہے کہ مختلف ممالک میں موجود اربوں روپے کا کالا دھن واپس لاکر ملک میں کاروباری سرگرمیوں میںلگایاجائے تاہم اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ حکومت نے یہ اقدام انتہائی قلیل مدت میں اٹھایاگیاہے اور اس سکیم کا دورانیہ مختصر ہونے کی وجہ سے اس کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے نفاذ کے حوالے سے وقت ایک بہت اہم عنصر ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں ایمنسٹی سکیم دی گئی مگر وہاں یہ سکیمیں 35 فیصد ریٹ پردی گئیں۔ ہمارے ہاں تو حکومت اس کی شرح بہت کم رکھی رہی ہے جو 2 یا اڑھائی فیصد مقررکیاگیاہے۔ اگر اس سکیم کو زیادہ وقت کے لئے لاتے تو اس کے نتائج قدرے مختلف ہوتے۔ یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی ضرورت شدت سے محسوس کی جار ہی تھی۔ ملک میں 12 لاکھ روپے تک کوئی خاص ٹیکس نہیں ہوتا اور کاروباری طبقہ جتنا زیادہ کماتاہے اس حساب سے ان کا منافع بڑھ جاتاہے اور اس پر اسی حساب سے ٹیکس ادا کرناپڑتاہے۔ حکومت کا ریونیو بھی اسی حساب سے اوپر جاتاہے ملک میں ایمنسٹی سکیم متعارف کروانے پر کسی بھی قسم کی شرائط عائد نہیں ہونی چائیں ۔ جو بھی شخص بیرون ملک سے اپنا پیسہ پاکستان لائے گا وہ یہاں پر کسی نہ کسی شعبے میں اس کو لگائے گا اور وہ تمام پیسہ ملک کی مختلف صنعتوں میں لگایاجائے گا چاہے وہ پیسہ رئیل اسٹیٹ میں لگے یا اس سے کوئی صنعت لگائی جائے، اس سے ملک کو ہی فائدہ ہوگا۔ ملک میں چندہفتوں بعد ا نتخابات ہورہے ہیں اور انتخابات سے قبل ایسی سکیم لانا ایمنسٹی سکیم کم اور الیکشن ایمنسٹی زیادہ لگ رہی ہے یہ سکیم انتخابات سے چند ہفتے قبل لائی گئی ہے یہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے زیادہ الیکشن سکیم لگ رہی ہے موجودہ حکومت کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی سکیم دیتے وقت ایک پہلو پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ حکومت کا ایمنسٹی سکیم دینے کا ارادہ تھا تو اس سے قبل اس سلسلے میں باقاعدہ ہوم ورک کرناچاہیے تھا تاکہ تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر سکیم دی جاتی۔ اس سکیم میں بہت سی غلطیاں ہیں اور ایمنسٹی سکیم لانے سے قبل حکومت نے تمام متعلقہ شراکت داروں کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا۔ اگر حکومت ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے تمام شراکت داروںکو ساتھ لے کر چلتی تو اس کے اثرات یکسر مختلف ہوتے اور یہ زیادہ کامیاب ہوسکتی تھی۔ حکومت نے یہ سکیم متعارف کرواتے وقت ایسے لوگوں کو ساتھ ملایا ہے جن سے یہ تاثر پیداہورہاہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم الیکشن کے لئے لائی گئی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں ٹیکس دہندگان کو بہت تنگ کیاگیا، عوام کی بڑی تعداد سابق وزیر خزانہ کے اقدامات سے بہت تنگ تھی۔ ان کے بعد جب یہ سکیم لائی گئی ہے تو لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ حکومت کا یہ اقدام صرف ووٹ بینک کی بحالی کے لئے کیاگیاہے۔ عوام میں پائی جانے والی اس غلطی فہمی کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے ایک بڑی ٹیکس ایمنسٹی سکیم ایک غلط وقت پر دے دی ہے۔ ملکی اکثریت تنخواہ دار طبقہ ہے مگر اس طبقے کو اس سکیم سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ حکومت کی جانب سے تو یہ بات مدنظر رکھ ٹیکس ایمنسٹی سکیم لائی گئی کہ اس سے انقلابی تبدیلی آجائے گی تاہم ایسی کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ بلاشبہ تبدیلی لانے اور صورتحال بہتر کرنے کیلئے یہ قدم اٹھایاگیاہے۔
ڈاکٹر وقار احمد ( ماہر معاشیات)
وزارت خزانہ کاکہناہے کہ دبئی، برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں نئے قوانین کا اطلاق ہوگیاہے اور اب وہاںپر بھی لوگوں کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے ہوں گے۔ حکومت کی جانب سے دی جانے والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کامیاب نہ ہوسکنے کی بعض وجوہات ہیں۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ آنے سے چند ہفتے قبل کا وقت درست نہیں ہے۔ اس سکیم کے بارے میں ایف اے ٹی ایف اور او ای سی ڈی نے کہاہے کہ ان کے ایمبٹ میں نہیں آتی۔ حکومت نے ایمنسٹی سکیم کے تحت ملک میں پیسہ لانے کی اجازت دے دی ہے مگر اس بات کا تعین کیسے ہوگا کہ جو پیسہ اس ایمنسٹی سکیم کے تحت آرہاہے وہ دہشت گردی، منی لانڈرنگ یاکسی بھی غیر قانونی طریقے سے کمایاہوانہیں ہے۔ حکومت کے لئے اس بات کا تعین کرنامشکل ہوگا۔ ا س سکیم کے حوالے سے ایف بی آرحکام کو اس بات کی پریشانی ہے کہ وہ رواںمالی سال کے لئے اپنے اہداف کیسے حاصل کریں گے۔ اگر ڈیڑھ سو ارب روپے نکل جاتاہے تو ان کے لئے اپنا ہدف حاصل کرنامشکل ہوجائے گا۔ موجودہ حکومت نے ملک میں حال ہی میں پراپرٹی کا نیا نظام متعارف کروایاہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پراپرٹی ٹیکس کامعاملہ وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا بلکہ یہ صوبائی معاملہ ہے۔ اس سے قبل ملک میں بڑے بڑے گروپوں نے 35 فیصد کے حساب سے ٹیکس دیا ہے اور اب حکومت کہہ رہی کہ صر ف 2 فیصد ادا کرو۔ حکومت کو اس سکیم کو سیکٹر کے لئے مخصوص کرناچاہیے تھا۔ صنعتی شعبے میں لگایاجاتاتو اس سے صنعتی شعبہ بہتر ہوتا۔ حکومت کے اپنے معاشی وزراء ہی اس سکیم کے حوالے سے مختلف آراء دے رہے ہیں ایک وزیر اڑھائی فیصد اور دوسراپانچ فی صد کی شرح کی بات کر رہاہے۔ حکومت نے فوائد حاصل کرنے کے لئے ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرادی ہے مگر اس سے قبل اس کے مختلف پہلووں کا تفصیلی جائزہ نہیں لیاگیاہے یہ سکیم جلد بازی میں لائی گئی ہے اوراس سکیم کے نفاذ کے حوالے سے جو آرڈیننس جاری کیاگیاہے اس میں بھی کئی غلطیاں ہیں جس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ سارا کچھ جلدبازی میں کیا گیا ہے ۔ آرڈیننس میں 4.8ملین کی بجائے 48ملین لکھاگیاہے۔ اس سکیم کے حوالے سے اداروں کے درمیان رابطہ نہیں تھا۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم لائے جانے کے چند روز بعدہی ایف بی آر نے نئی ٹیکس آڈٹ پالیسی دے دی ہے جس کے تحت ہردوسال بعد آڈٹ کیاجائے گا۔ ایک طرف تو حکومت ایمنسٹی سکیم لارہی ہے اور دوسری طرف ہر دوسال بعد آڈٹ کی بات ہورہی ہے۔نئی ایمنسٹی سکیم ایف بی آر کے قوانین کے متصادم ہے۔ اس سکیم سے حکومت ملک میں ہنڈی کو فروغ دے رہی ہے۔ اس سے قبل آنے والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو دیکھاجائے تو 2013میں حکومت نے ایمنسٹی سکیم دی تھی اور اڑھائی ارب روپے کا اعلان کیاگیاتھا مگر اس سکیم سے اتنا فائدہ نہیں ہوا۔
نعیم صدیقی (سربراہ ٹیکس کمیٹی اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
موجودہ حکومت کی جانب سے یہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم ایک خاص طبقے کے لئے متعارف کرائی گئی ہے اور اس سے صرف چند لاکھ لوگوں کو فائدہ ہوگا ۔ملک میں لاکھوں مزدور اور ایسے افراد موجود ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ پندرہ ہزار روپے سے بھی کم ہے، انہیں اس سکیم سے فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت ایک خاص طبقے کو ڈیڑھ سو ارب روپے کا ریلیف دے رہی ہے۔ امراء کو ایمنسٹی سکیم دینے کی بجائے حکومت کو چاہیے تھاکہ اتنی بڑی رقم عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی۔ 150 ارب روپے کی بڑی رقم سے عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرتی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں بجلی، گیس، پانی ودیگرضروریات زندگی کی اشیاء پر سبسڈی دے کر عوام کو بہت بڑا فائدہ پہنچایا جا سکتا تھا۔ اگر حکومت پیداواری شعبے میں اتنی سبسڈی دیتی تو کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہونے سے نہ صرف پیداواری صلاحیت بڑھتی بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آتے۔ زیادہ پیسہ قومی دھارے میں آجاتا تو اس سے عوام کے لئے مواقع بڑھ جاتے۔ ملک میں ریٹرنز جمع کرانے والوں میں سے اکثریت نچلے طبقے سے ہے۔ حکومت انکم ٹیکس کو خود کار نظام کے تحت چلارہی ہے اور ملک کا انکم ٹیکس کا نظام آٹوپائلٹ پر لگادیاگیاہے۔ 13.5فیصد انڈسٹری 58فیصد ملک کو سپورٹ فراہم کررہی ہے اگر اس ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو اوپر سے نچلی سطح تک لایاجاتا تو اس کے زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوتے۔ مختلف اشیائے ضروریہ سستی ہوجاتیں ۔ اب تو پیسہ دفن ہوگیاہے۔ رولنگ انوسٹمنٹ ہوئی ہے۔ حکومت یہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم لے آئی ہے مگر آئین کے آرٹیکل 89(2)B کے تحت قومی اسمبلی اور سینٹ کو طاقت حاصل ہے کہ وہ اس میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیاہے کہ وہ خود اس کا جائزہ لے گی۔ آرڈیننس کے ذریعے کس بھی سکیم کا نفاذ ایک کمزور طریقہ کار ہوتا ہے۔ اس سے قبل 2013ء میں متعارف کروائی گئیں۔ ایمنسٹی سکیم کا معاملہ زیر سماعت ہے ، سٹرائک ڈاؤن ہوئی ہے اور اس سابقہ سکیم کا معاملہ ابھی تک عدالت میں زیر التواہے تو اس طرح کی ہی ایک او رسکیم لائی جار ہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف ایشیائی ترقیاتی بنک اور آئی ایم ایف نے اس سکیم کی مخالفت کی ہے۔ موجودہ حکومت نے یہ سکیم ایک خاص طبقے کے لئے متعارف کروائی ہے اور اس کا مقصدصرف اور صرف اپنا ووٹ بینک واپس لاناہے۔ اشرافیہ اپنے لئے ایک سکیم لے کر آیاہے۔ موجودہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کوئی پہلی ایمنسٹی سکیم نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ملک میں مختلف ادوار میں کئی ایمنسٹی سکیمیں متعارف کروائی گئیں مگر اب تک لائی گئی تمام ایمنسٹی سکیمیں ناکام ہوئیں۔ ایمسنیسٹی سکیم ایک معافی ہے اگر اس کا مفہوم نکالاجائے تو معافی ہی نکلتاہے اور معافی جرمانے کی تو ہو سکتی ہے جرم کی نہیں۔ موجودہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں کئی نقائص موجود ہیں۔ اگر اس سکیم کی پارلیمنٹ نے منظوری دی تو یہ طے ہوگاکہ یہ درست ہے۔ 11.7ارب میں سے 4 ارب ان اٹینڈنٹ ہیں۔ ہماری معیشت میں ایک بہت بڑاحصہ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر کا بھی ہے اور جتنی بھی ترسیلات زر ملک میں آتی ہیں وہ تمام نان فائلرز کی جانب سے بھیجی جاتی ہیں کیونکہ وہ بیرون ملک سے پیسے بھیجتے ہیں مگر یہاں پر اپنے ملک میں تورجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ملک میں ترسیلا ت زر بھیجنے والوں میں سے ایک تہائی کا تعلق خیرپختونخواہ سے ہے۔ خیبر پختونخواہ سے لوگوں کو کہاجاتاہے کہ ریٹرنز فائل کرو اگر حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم دینی ہی تھی تو پھر یہ بات لازم کیوںکی جارہی ہے کہ ریٹرنز فائل کرو۔ ملک میں روزگار کے مواقع پید اکرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جب روزگار ہوگا تو معیار زندگی بہتر ہوگا۔ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے اور زرعی شعبے کی یہ حالت ہے کہ تیرہ سال قبل کپاس کی پیداوار ساڑھے آٹھ سو ملین بیلز تھی اور آج بھی وہ پیدوار وہیں کی وہیں کھڑی ہے جبکہ دیگر ممالک بالخصو ص بھارت اور بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں لہٰذا اس طرف توجہ دینا ہوگی۔