شوگر فری اشیا خواتین کا نیا فیشن یا ضرورت
بہت کم خواتین کے علم میں یہ بات ہوگی کہ شکر ترک کرنے کے بعد بھی وہ دراصل شکر کھا رہی ہوتی ہیں۔
ISLAMABAD:
ہماری خواتین ڈائٹ کنٹرول کے نام پر آج کل ہر چیز شوگر فری استعمال کررہی ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی وہ صحیح ہیں یا پھر یہ صرف فیشن اور اسٹیٹس ہے۔
خواتین کا عام خیال یہ ہے کہ شکر، گڑ یا رس سے تیار اشیا ہی میں ہی شوگر ہوتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر کم یا زیادہ مقدار میں تقریباً تمام اناجوں، دالوں، سبزیوں، پھلوں اور میووں کے علاوہ ڈیری کی مصنوعات میں بھی ہوتی ہے جو اچھے اور برے کولیسٹرول کی طرح ہوتی ہے، جب کہ خالص شکر اور گڑ کا استعمال اور بہت زیادہ استعمال مضر صحت ہوسکتا ہے۔
خواتین کی زندگی میں مٹھاس لازمی جزو ہے۔ سال گرہ ہو یا شادی کی سال گرہ، منگنی ہو یا شادی یا پھر کوئی تہوار یا خوشی کا کوئی موقع، منہ میٹھا کرانے کی روایت بہت قدیم ہے۔ مردوں کے مقابلے میں ویسے بھی خواتین میٹھے کی زیادہ رسیا ہوتی ہیں، لیکن ہر چیز کی طرح میٹھا بھی اعتدال میں لینا ضروری ہے۔ شوگر اور مٹاپے میں مبتلا خواتین اس مرض سے بچنے کے لیے ضرورتاً اور دبلا ہونے کے خبط میں مبتلا خواتین شوگر فری اشیا کا استعمال فیشن اور اسٹیٹس سمبل کے طور پر کر رہی ہیں۔
پھیکی چائے، کافی، اور پھیکا دودھ یا اس میں مصنوعی شوگر کی گولیاں ڈال کر استعمال کرتی ہیں۔ خواتین کے ساتھ لڑکیاں بھی شوگر فری اشیا کی شوقین ہوگئی ہیں۔ شوگر اور مٹاپے میں مبتلا خواتین شوگر فری اشیا کا ٹیگ دیکھتے ہی بغیر تصدیق کہ اس میں کتنی شوگر یا کیلوریز ہیں، ان پر یوں جھپٹ پڑتی ہیں کہ گویا یہ عنقا ہونے جا رہی ہوں۔ یہی حال ڈائٹنگ کے خبط میں مبتلا خواتین کا ہے۔
دبلی پتلی اسمارٹ خواتین مختلف محفلوں میں شوگر فری کے الفاظ ہی پڑھنے پر اکتفا کرتی ہیں اور وہاں موجود لوازمات سے کام چلالیتی ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتیں کہ شوگر فری اشیا کو میٹھا کرنے کے لیے جو کیمیائی مادہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ خواتین کی آنتوں میں گیس پیدا کرتا ہے، بلکہ شوگر فری اشیا میں ان کی کم زیادہ مقدار بھی گیس کی تکلیف میں مبتلا کرسکتی ہے۔ ہماری خواتین تو آنکھ بند کرکے شوگر فری کے نام پر سب کچھ چٹ کر جاتی ہیں۔
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جتنا یہ خواتین شوگر والی اشیا استعمال نہیں کرتیں، اس سے کئی گنا زیادہ شوگر فری کے نام پر استعمال کرتی ہیں جو آگے چل کر خطرناک ہوسکتی ہے۔ اگر شوگر فری اشیا کا بھی اعتدال سے استعمال نہ کیا جائے تو یہ بھی صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ایک دن میں شوگر فری مصنوعات کا معمولی استعمال ہی بہتر ہے۔
بہت کم خواتین کے علم میں یہ بات ہوگی کہ شکر ترک کرنے کے بعد بھی وہ دراصل شکر کھا رہی ہوتی ہیں جیسے دلیہ، گندم کا آٹا یا ڈبل روٹی، چاول، مکئی، دالیں، سبزیاں اور پھل، ان سب میں بھی قدرتی شکر ہوتی ہے اور اوپر سے شوگر فری اشیا کی شکر، یہ سب مل کر محفوظ کے بجائے مشکوک ہوجاتی ہیں۔ ڈائٹنگ کرنے والی خواتین گندم، مکئی، جو، باجرے وغیرہ کے سیریلز استعمال کرتی ہیں جو شکر کے حامل ہوتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ یہ پڑھ کر کچھ خواتین کو حیرت ہو کہ ڈبل روٹی، نان، دلیہ، ساگودانہ، مکھن نکلے دودھ، گائے کے دودھ، بالائی اور اراروٹ وغیرہ میں بھی کاربو ہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں جو ہماری فیشن زدہ اور نام نہاد ڈائٹنگ کرنے والی خواتین کی غذا کا جزو ہوتے ہیں۔ وہ مزے لے لے کر سلاد کے نام پر آلو، مٹر، شکرقندی، چقندر، بندگوبھی، مایونیز، گاجر، چنے اور پھلیاں استعمال کرتی ہیں، بلکہ ان کا پھیکا پن دور کرنے کے لیے مقرر کردہ مٹھاس سے زیادہ سوربیٹول استعمال کرکے اپنے لیے ڈائٹ خوراک تیار کرتی ہیں اور بے فکری سے معدے میں اتار لیتی ہیں جسے ان کے جسم کی مشینری منٹوں میں شکر میں تبدیل کردیتی ہے اور غیر محسوس طریقے سے وہ بجائے دبلا ہونے کے اور بھی بھاری بھرکم ور وزنی ہونے لگتی ہیں۔
ہماری فیشن زدہ اور تعلیم یافتہ خواتین اشیا پر لو فیٹ یا نو فیٹ تحریر دیکھ کر ہی مطمئن ہوجاتی ہیں اور اس کی غذائی حیثیت جانچے بغیر اس پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ اکثریت کو تو ان غذائی اجزا میں موجود کیلوریز کی صحیح مقدار کا بھی علم نہیں ہوتا، صرف شوگر فری یا لو فیٹ، نو فیٹ پڑھ کر یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ یہ شکر سے نہیں بنی ہیں۔
ہماری خواتین اس عام غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ مٹاپے اور شوگر کی وجہ شکر کا کثرت سے استعمال ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماہرین کے خیال میں ضروری نہیں کہ شوگر کی بیماری صرف میٹھا کھانے کی شوقین خواتین کو لاحق ہو، یہ بیماری جینیاتی اور طرز زندگی سے متعلق عوامل کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کا جسمانی وزن مقررہ حد سے زیادہ ہے تو آپ کو ٹائپ ٹو شوگر کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
اگر خاندان میں کسی کو شوگر ہے تو یہ خطرے کا الارم ہے۔ آپ کو پہلی فرصت میں شوگر پر نظر ڈالنی ہوگی اور اپنے لیے صرف صحت بخش خوراک کا ڈائٹ پلان بنانا ہوگا۔ مٹاپے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم جو غذا کھاتے ہیں، اس سے بننے والے حرارے پوری طرح استعمال نہیں کرتے اور وہ جسم میں فاضل چربی کی صورت میں جمع ہوکر وزن بڑھانے کا سبب بنتے ہیں، اس لیے ورزش کی عادت اختیار کریں تاکہ وزن قابو میں رہے۔
اہم بات خواتین کے لیے میٹھی اشیا کا چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ ان کا استعمال محدود کرنا ہے۔ شوگر اور مٹاپے سے بچنے کے لیے ڈبوں میں بند اور فریز شدہ خوراک کا استعمال بند کریں۔ سلم اور اسمارٹ نیس کے لیے جنک فوڈ اور فاسٹ فوڈ سے بچیں، کیوں کہ ان میں شکر کی بڑی مقدار شامل کی جاتی ہے۔
میٹھی ڈشوں میں مصنوعی مٹھاس استعمال کرنے کے بجائے قدرتی مٹھاس سے بھرپور اشیا جیسے شہد، کھجور، شکرقند، چقندر، تازہ میٹھے رس دار پھل اور ان کا گودا استعمال کریں۔ دبلا، پتلا، چھریرا جسم حاصل کرنے کے لیے فاقہ کرنے یا اجناس، دالیں، سبزیاں، گوشت اور ڈیری مصنوعات کو ترک کرنے کے بجائے بغیر چھنے آٹے کی روٹی، ڈبل روٹی، نان خوراک کا حصہ بنائیں۔ چھلکے اور ریشے والی کاربو ہائیڈریٹس کی اشیا کا استعمال کریں ایسے اناج اور سیریلز کا استعمال کریں جو سالم یا پھر کٹے ہوئے ہوں اور وہ دالوں، اناج اور پھلیوں پر مشتمل ہوں۔
نشاستہ اور شکر آپ کو سبزی ترکاری اور میوہ جات، مغزیات سے حاصل ہوجائے گی۔ مصنوعی شوگر یا شوگر فری اشیا پر مشتمل خوراک استعمال نہ کریں۔ تازہ ناشتہ اور گھر کا کھانا کھائیں۔ خود شوگر فری اشیا کا استعمال کرنے کے بجائے ماہرین سے مدد لیں، ہلکی پھلکی ورزش کو اپنا معمول بنائیں۔
ہماری خواتین ڈائٹ کنٹرول کے نام پر آج کل ہر چیز شوگر فری استعمال کررہی ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی وہ صحیح ہیں یا پھر یہ صرف فیشن اور اسٹیٹس ہے۔
خواتین کا عام خیال یہ ہے کہ شکر، گڑ یا رس سے تیار اشیا ہی میں ہی شوگر ہوتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر کم یا زیادہ مقدار میں تقریباً تمام اناجوں، دالوں، سبزیوں، پھلوں اور میووں کے علاوہ ڈیری کی مصنوعات میں بھی ہوتی ہے جو اچھے اور برے کولیسٹرول کی طرح ہوتی ہے، جب کہ خالص شکر اور گڑ کا استعمال اور بہت زیادہ استعمال مضر صحت ہوسکتا ہے۔
خواتین کی زندگی میں مٹھاس لازمی جزو ہے۔ سال گرہ ہو یا شادی کی سال گرہ، منگنی ہو یا شادی یا پھر کوئی تہوار یا خوشی کا کوئی موقع، منہ میٹھا کرانے کی روایت بہت قدیم ہے۔ مردوں کے مقابلے میں ویسے بھی خواتین میٹھے کی زیادہ رسیا ہوتی ہیں، لیکن ہر چیز کی طرح میٹھا بھی اعتدال میں لینا ضروری ہے۔ شوگر اور مٹاپے میں مبتلا خواتین اس مرض سے بچنے کے لیے ضرورتاً اور دبلا ہونے کے خبط میں مبتلا خواتین شوگر فری اشیا کا استعمال فیشن اور اسٹیٹس سمبل کے طور پر کر رہی ہیں۔
پھیکی چائے، کافی، اور پھیکا دودھ یا اس میں مصنوعی شوگر کی گولیاں ڈال کر استعمال کرتی ہیں۔ خواتین کے ساتھ لڑکیاں بھی شوگر فری اشیا کی شوقین ہوگئی ہیں۔ شوگر اور مٹاپے میں مبتلا خواتین شوگر فری اشیا کا ٹیگ دیکھتے ہی بغیر تصدیق کہ اس میں کتنی شوگر یا کیلوریز ہیں، ان پر یوں جھپٹ پڑتی ہیں کہ گویا یہ عنقا ہونے جا رہی ہوں۔ یہی حال ڈائٹنگ کے خبط میں مبتلا خواتین کا ہے۔
دبلی پتلی اسمارٹ خواتین مختلف محفلوں میں شوگر فری کے الفاظ ہی پڑھنے پر اکتفا کرتی ہیں اور وہاں موجود لوازمات سے کام چلالیتی ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتیں کہ شوگر فری اشیا کو میٹھا کرنے کے لیے جو کیمیائی مادہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ خواتین کی آنتوں میں گیس پیدا کرتا ہے، بلکہ شوگر فری اشیا میں ان کی کم زیادہ مقدار بھی گیس کی تکلیف میں مبتلا کرسکتی ہے۔ ہماری خواتین تو آنکھ بند کرکے شوگر فری کے نام پر سب کچھ چٹ کر جاتی ہیں۔
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جتنا یہ خواتین شوگر والی اشیا استعمال نہیں کرتیں، اس سے کئی گنا زیادہ شوگر فری کے نام پر استعمال کرتی ہیں جو آگے چل کر خطرناک ہوسکتی ہے۔ اگر شوگر فری اشیا کا بھی اعتدال سے استعمال نہ کیا جائے تو یہ بھی صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ایک دن میں شوگر فری مصنوعات کا معمولی استعمال ہی بہتر ہے۔
بہت کم خواتین کے علم میں یہ بات ہوگی کہ شکر ترک کرنے کے بعد بھی وہ دراصل شکر کھا رہی ہوتی ہیں جیسے دلیہ، گندم کا آٹا یا ڈبل روٹی، چاول، مکئی، دالیں، سبزیاں اور پھل، ان سب میں بھی قدرتی شکر ہوتی ہے اور اوپر سے شوگر فری اشیا کی شکر، یہ سب مل کر محفوظ کے بجائے مشکوک ہوجاتی ہیں۔ ڈائٹنگ کرنے والی خواتین گندم، مکئی، جو، باجرے وغیرہ کے سیریلز استعمال کرتی ہیں جو شکر کے حامل ہوتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ یہ پڑھ کر کچھ خواتین کو حیرت ہو کہ ڈبل روٹی، نان، دلیہ، ساگودانہ، مکھن نکلے دودھ، گائے کے دودھ، بالائی اور اراروٹ وغیرہ میں بھی کاربو ہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں جو ہماری فیشن زدہ اور نام نہاد ڈائٹنگ کرنے والی خواتین کی غذا کا جزو ہوتے ہیں۔ وہ مزے لے لے کر سلاد کے نام پر آلو، مٹر، شکرقندی، چقندر، بندگوبھی، مایونیز، گاجر، چنے اور پھلیاں استعمال کرتی ہیں، بلکہ ان کا پھیکا پن دور کرنے کے لیے مقرر کردہ مٹھاس سے زیادہ سوربیٹول استعمال کرکے اپنے لیے ڈائٹ خوراک تیار کرتی ہیں اور بے فکری سے معدے میں اتار لیتی ہیں جسے ان کے جسم کی مشینری منٹوں میں شکر میں تبدیل کردیتی ہے اور غیر محسوس طریقے سے وہ بجائے دبلا ہونے کے اور بھی بھاری بھرکم ور وزنی ہونے لگتی ہیں۔
ہماری فیشن زدہ اور تعلیم یافتہ خواتین اشیا پر لو فیٹ یا نو فیٹ تحریر دیکھ کر ہی مطمئن ہوجاتی ہیں اور اس کی غذائی حیثیت جانچے بغیر اس پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ اکثریت کو تو ان غذائی اجزا میں موجود کیلوریز کی صحیح مقدار کا بھی علم نہیں ہوتا، صرف شوگر فری یا لو فیٹ، نو فیٹ پڑھ کر یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ یہ شکر سے نہیں بنی ہیں۔
ہماری خواتین اس عام غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ مٹاپے اور شوگر کی وجہ شکر کا کثرت سے استعمال ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماہرین کے خیال میں ضروری نہیں کہ شوگر کی بیماری صرف میٹھا کھانے کی شوقین خواتین کو لاحق ہو، یہ بیماری جینیاتی اور طرز زندگی سے متعلق عوامل کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کا جسمانی وزن مقررہ حد سے زیادہ ہے تو آپ کو ٹائپ ٹو شوگر کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
اگر خاندان میں کسی کو شوگر ہے تو یہ خطرے کا الارم ہے۔ آپ کو پہلی فرصت میں شوگر پر نظر ڈالنی ہوگی اور اپنے لیے صرف صحت بخش خوراک کا ڈائٹ پلان بنانا ہوگا۔ مٹاپے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم جو غذا کھاتے ہیں، اس سے بننے والے حرارے پوری طرح استعمال نہیں کرتے اور وہ جسم میں فاضل چربی کی صورت میں جمع ہوکر وزن بڑھانے کا سبب بنتے ہیں، اس لیے ورزش کی عادت اختیار کریں تاکہ وزن قابو میں رہے۔
اہم بات خواتین کے لیے میٹھی اشیا کا چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ ان کا استعمال محدود کرنا ہے۔ شوگر اور مٹاپے سے بچنے کے لیے ڈبوں میں بند اور فریز شدہ خوراک کا استعمال بند کریں۔ سلم اور اسمارٹ نیس کے لیے جنک فوڈ اور فاسٹ فوڈ سے بچیں، کیوں کہ ان میں شکر کی بڑی مقدار شامل کی جاتی ہے۔
میٹھی ڈشوں میں مصنوعی مٹھاس استعمال کرنے کے بجائے قدرتی مٹھاس سے بھرپور اشیا جیسے شہد، کھجور، شکرقند، چقندر، تازہ میٹھے رس دار پھل اور ان کا گودا استعمال کریں۔ دبلا، پتلا، چھریرا جسم حاصل کرنے کے لیے فاقہ کرنے یا اجناس، دالیں، سبزیاں، گوشت اور ڈیری مصنوعات کو ترک کرنے کے بجائے بغیر چھنے آٹے کی روٹی، ڈبل روٹی، نان خوراک کا حصہ بنائیں۔ چھلکے اور ریشے والی کاربو ہائیڈریٹس کی اشیا کا استعمال کریں ایسے اناج اور سیریلز کا استعمال کریں جو سالم یا پھر کٹے ہوئے ہوں اور وہ دالوں، اناج اور پھلیوں پر مشتمل ہوں۔
نشاستہ اور شکر آپ کو سبزی ترکاری اور میوہ جات، مغزیات سے حاصل ہوجائے گی۔ مصنوعی شوگر یا شوگر فری اشیا پر مشتمل خوراک استعمال نہ کریں۔ تازہ ناشتہ اور گھر کا کھانا کھائیں۔ خود شوگر فری اشیا کا استعمال کرنے کے بجائے ماہرین سے مدد لیں، ہلکی پھلکی ورزش کو اپنا معمول بنائیں۔