تین باتیں جو زندگی بھر آپ کے کام آئیں گی
اور یہ سب باتیں میں نے ایک بلی کا مشاہدہ کرکے دریافت کی ہیں
پاکستان کے مایہ ناز مزاح نگار انور مسعود نے ایک نجی پروگرام میں کہا: ''ادب/ لٹریچر یہ نہیں کہ آپ کیا چیزیں شامل کررہے ہیں۔ ادب یہ ہے کہ آپ کیا چیزیں چھوڑ رہے ہیں۔'' یہ بلاگ لکھتے ہوئے کچھ ایسی ہی کیفیت میری بھی ہے۔
جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن الفاظ کی محدودیت کی وجہ سے مختصر بات کرنا مجبوری ہے۔
میرے ایک قریبی رشتے دار نے گھر میں بلی پالی ہوئی ہے، یا یوں کہ لیجیے کہ گود لی ہوئی ہے، اس کا نام سمبا ہے۔
ایک دن بلی گھر آئی تو بچوں نے اسے کھانا کھلانا۔ بس، تب سے بلی اسی گھر کی ہوگئی۔
گاؤں، دیہات میں پالتو جانور رکھنا نہیات آسان ہوتا ہے۔ کشادہ اور کھلے گھر ہوتے ہیں۔ لیکن شہر میں بند اور تنگ گھروں میں پالتو جانور رکھنا ایک دشوارعمل ہے، خاص طور پر ایسا جانور جیسے پنجرے میں نہ رکھا جا سکتا ہو۔ کوئی پتا نہیں کہ جانور کب اور کس چیز پر منہ مار جائے یا کہیں گندگی پھیلا دے۔
اسے خوش قسمتی کہیے یا محض اتفاق کہ سمبا میں یہ دونوں عادات نہیں تھیں۔ نہ تو وہ کچن میں جاتی، اور اگر کبھی چلی بھی جاتی تو شیلف پر نہ چڑتی، اور گندگی ہمیشہ گھر میں موجود کیاری میں کرتی۔
اسے نہ تو کوئی ٹریننگ دی گئی تھی اور نہ یہ پہلے کسی کے گھر رہتی تھی۔ قدرتی طور پر اس میں یہ سمجھ بوجھ تھی۔
خاندان کے باقی لوگ تو سمبا کے چال چلن اور اس کی شرارتوں پر دھیان دیتے لیکن ایک لکھاری ہونے کی حیثیت سے میرا دھیان اُس کی فطرت پر جاتا رہا، اور کچھ ایسے انمول سبق سیکھنے کو ملے جو شاید میں ساری عمر بھی نہ سیکھ سکتا۔
ان میں سے تین باتیں قارئین کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں:
1۔ پکی پکائی کھا کر آپ نکمے ہوجائیں گے
جب سمبا پہلے دن گھر آئی تو سب بچوں نے کہا کہ بلی کو cat food کھلانا ہے۔ بچوں کی فرمائش پر سرتسلیم خم کیا گیا اور اس کےلیے cat food لایا گیا۔
بس وہ کھانا کھانے کی دیر تھی کہ بلی کے اندر سے محنت کرکے، خود شکار کرکے کھانا کھانے کی حس جیسے ختم ہی ہوگئی۔
اسے شکار کرنا اب بھی آتا ہے لیکن شکار کھانے کے بجائے اُس کے ساتھ کھیلتی ہے۔ اسے ہوا میں اچھالتی ہے۔ وہ بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے بھاگتی ہے۔ لیکن اُسے کھاتی نہیں۔
کھانا وہ تبھی کھاتی ہے جب اپسے پلیٹ میں رکھ کر دیا جائے۔ اور اگر بالفرض اسے کھانا نہ ملا تو بھوکی رہے گی لیکن خود شکار کرکے نہیں کھائے گی۔
یقین جانیے یہی فطرت اس شخص کی بھی ہوجاتی ہے جسے پکی پکائی کھانے کی عادت پڑجائے۔
اس کی صلاحتیں تو قائم رہتی ہیں لیکن محنت اور عظمت سے اپنے ہاتھ سے روٹی کھانا مشکل ہوجاتا ہے۔
اور پھروہ رب پر توکل اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنے کے بجائے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجاتا ہے؛ اور ان سے امیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ یہی مزاج اس کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ نہ دنیا میں عزت ملتی ہے اور نہ آخرت میں۔
2۔ اپنے بچوں کو معاشرے سے آشنا کروائیے
جیسا کہ پہلے عرض کیا، یہ پیدائشی پالتو بلی نہیں تھی لیکن پالتو بن گئی تھی۔
وہ اکثر گھر ہی میں رہتی۔ البتہ اگر کبھی باہر جاتی تو دوسری بلیوں سے مار کھا کر آجاتی اور اس مار سے بچانے کےلیے گھر والے خاص خیال رکھتے کہ یہ باہر نہ جائے۔ اگر کبھی چوٹ لگ جاتی تو ڈاکٹر کے پاس بھی لے کر جاتے۔
یقیناً یہ ایک نیک کام ہے کہ ایک معصوم جانور کا اتنا خیال رکھا جائے۔
لیکن دوسرے زاویئے سے دیکھا جائے تو بالفرض کسی وقت سمبا کو گھر سے نکالنا پڑگیا تو اس کی کیا حالت ہوگی؟
اس کےلیے تو معاشرے میں زندہ رہنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
نہ وہ شکار کرکے کھا سکتی ہے اور نہ ہی دوسری بلیوں کے ساتھ رہ سکتی ہے۔ بلکہ بلیاں کیا انسانوں اور دوسرے جانوروں کے ساتھ اس کا رہنا محال ہوجائے گا۔
آپ ملاحظہ کریں تو بالکل ایسی ہی حالت ان بچوں کی ہوجاتی ہے جنہیں والدین ہمیشہ اپنے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔
بے جا لاڈ پیار اور محبت ان کی عادت تو خراب کرتی ہی ہے بلکہ معاشرے میں آزادانہ طور پر رہنا بھی ان کےلیے محال ہو جاتا ہے۔ اخلاق و تمدن سے عاری شخص جب معاشرے میں جاتا ہے تو ہر سطح پر اسے ایک نئے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔
اس لیے والدین کو چاہیے کہ معاشرے سے ڈرنے کے بجائے بچوں کی تربیت کریں، انہیں ایسی عادات سکھائیں جن سے وہ معاشرے میں جا کر اپنے آپ کو سنبھال سکیں۔ ساری عمر آپ ان کی حفاظت نہیں کرسکتے، ایک نہ ایک دن انہیں آپ ان کے بغیر رہنا پڑے گا۔
3۔ دوست اور خوشامدیوں میں فرق پہچانیے
دوست بنانا انسانوں اور جانور کےلیے فطری عمل ہے۔ سمبا گھر سے باہر تو نہیں جاسکتی تھی، لیکن جو بلی گھر میں آتی اس سے وہ دوستی کرلیتی۔
چند ہی دنوں میں بلی کی ایک دوست کیارہ (Kiara) اور ایک بلا کیو (Kio) دوست بن گئے۔ جب بھی وہ دونوں گھر آتے تو سمبا ان کے ساتھ کھیلتی، انہیں اپنے کھانے میں بھی شریک کرتی۔
شروع شروع میں تو کیو، سمبا کو مارتا اور اس کا کھانا بھی لے جاتا جبکہ کیارہ اس کے ساتھ آرام سے کھانا کھاتی اور ایک اچھی دوست بن کر رہتی۔ کھانا چھن جانے پر بچاری سمبا روتی اور اپنا سا منہ لے کر گھر والوں کے پاس آجاتی کہ اسے اور کھانا دیں۔
یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔ پھر ایک دن ایک عجیب چیز دیکھنے کو ملی۔
سمبا کو کھانا دیا گیا۔ اس نے کیارہ اور کیو کو بلایا۔ جیسے ہی کیو پاس آیا، اسے ایک لگائی اور پھر اسے اپنی پلیٹ میں سے ایک بوٹی نکال کر دی جسے وہ دور جا کر کھانے لگا۔ اور پھر یہ عمل تقریباً ہر کھانے میں ہونے لگا۔
اب جب بھی کھانے کی باری آتی تو کیو اس سے بڑے ادب سے پیش آتا۔
لیکن جیسے ہی کھیلنے کی باری آتی تو وہ پوری کوشش کرتا کہ اسے باہر لے جائے اور اس کی پھینٹی لگائے۔ سمبا اپنے دوست اور خوشامدی کو جان چکی تھی۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اگر آپ کے پاس کوئی عملی مہارت (skill) یا خوبی ہے تو لوگوں کا ہجوم آپ کے پاس لگا رہے گا۔
وہ خوبی ہنر کی بھی ہو سکتی ہے، پیسے کی بھی، یا پاور کی بھی۔ یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے دوستوں اور خوشامدیوں میں فرق کو پہچانے۔
یہ سبق بالخصوص سیاست دانوں کےلیے نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انہیں پوری زندگی اس مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی خوشامدی انکا بیڑا غرق کرتے ہیں۔ جنہیں وہ دوست سمجھتے ہیں درحقیقت وہی ان کی حکومت گرا دیتے ہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن الفاظ کی محدودیت کی وجہ سے مختصر بات کرنا مجبوری ہے۔
میرے ایک قریبی رشتے دار نے گھر میں بلی پالی ہوئی ہے، یا یوں کہ لیجیے کہ گود لی ہوئی ہے، اس کا نام سمبا ہے۔
ایک دن بلی گھر آئی تو بچوں نے اسے کھانا کھلانا۔ بس، تب سے بلی اسی گھر کی ہوگئی۔
گاؤں، دیہات میں پالتو جانور رکھنا نہیات آسان ہوتا ہے۔ کشادہ اور کھلے گھر ہوتے ہیں۔ لیکن شہر میں بند اور تنگ گھروں میں پالتو جانور رکھنا ایک دشوارعمل ہے، خاص طور پر ایسا جانور جیسے پنجرے میں نہ رکھا جا سکتا ہو۔ کوئی پتا نہیں کہ جانور کب اور کس چیز پر منہ مار جائے یا کہیں گندگی پھیلا دے۔
اسے خوش قسمتی کہیے یا محض اتفاق کہ سمبا میں یہ دونوں عادات نہیں تھیں۔ نہ تو وہ کچن میں جاتی، اور اگر کبھی چلی بھی جاتی تو شیلف پر نہ چڑتی، اور گندگی ہمیشہ گھر میں موجود کیاری میں کرتی۔
اسے نہ تو کوئی ٹریننگ دی گئی تھی اور نہ یہ پہلے کسی کے گھر رہتی تھی۔ قدرتی طور پر اس میں یہ سمجھ بوجھ تھی۔
خاندان کے باقی لوگ تو سمبا کے چال چلن اور اس کی شرارتوں پر دھیان دیتے لیکن ایک لکھاری ہونے کی حیثیت سے میرا دھیان اُس کی فطرت پر جاتا رہا، اور کچھ ایسے انمول سبق سیکھنے کو ملے جو شاید میں ساری عمر بھی نہ سیکھ سکتا۔
ان میں سے تین باتیں قارئین کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں:
1۔ پکی پکائی کھا کر آپ نکمے ہوجائیں گے
جب سمبا پہلے دن گھر آئی تو سب بچوں نے کہا کہ بلی کو cat food کھلانا ہے۔ بچوں کی فرمائش پر سرتسلیم خم کیا گیا اور اس کےلیے cat food لایا گیا۔
بس وہ کھانا کھانے کی دیر تھی کہ بلی کے اندر سے محنت کرکے، خود شکار کرکے کھانا کھانے کی حس جیسے ختم ہی ہوگئی۔
اسے شکار کرنا اب بھی آتا ہے لیکن شکار کھانے کے بجائے اُس کے ساتھ کھیلتی ہے۔ اسے ہوا میں اچھالتی ہے۔ وہ بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے بھاگتی ہے۔ لیکن اُسے کھاتی نہیں۔
کھانا وہ تبھی کھاتی ہے جب اپسے پلیٹ میں رکھ کر دیا جائے۔ اور اگر بالفرض اسے کھانا نہ ملا تو بھوکی رہے گی لیکن خود شکار کرکے نہیں کھائے گی۔
یقین جانیے یہی فطرت اس شخص کی بھی ہوجاتی ہے جسے پکی پکائی کھانے کی عادت پڑجائے۔
اس کی صلاحتیں تو قائم رہتی ہیں لیکن محنت اور عظمت سے اپنے ہاتھ سے روٹی کھانا مشکل ہوجاتا ہے۔
اور پھروہ رب پر توکل اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنے کے بجائے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجاتا ہے؛ اور ان سے امیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ یہی مزاج اس کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ نہ دنیا میں عزت ملتی ہے اور نہ آخرت میں۔
2۔ اپنے بچوں کو معاشرے سے آشنا کروائیے
جیسا کہ پہلے عرض کیا، یہ پیدائشی پالتو بلی نہیں تھی لیکن پالتو بن گئی تھی۔
وہ اکثر گھر ہی میں رہتی۔ البتہ اگر کبھی باہر جاتی تو دوسری بلیوں سے مار کھا کر آجاتی اور اس مار سے بچانے کےلیے گھر والے خاص خیال رکھتے کہ یہ باہر نہ جائے۔ اگر کبھی چوٹ لگ جاتی تو ڈاکٹر کے پاس بھی لے کر جاتے۔
یقیناً یہ ایک نیک کام ہے کہ ایک معصوم جانور کا اتنا خیال رکھا جائے۔
لیکن دوسرے زاویئے سے دیکھا جائے تو بالفرض کسی وقت سمبا کو گھر سے نکالنا پڑگیا تو اس کی کیا حالت ہوگی؟
اس کےلیے تو معاشرے میں زندہ رہنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
نہ وہ شکار کرکے کھا سکتی ہے اور نہ ہی دوسری بلیوں کے ساتھ رہ سکتی ہے۔ بلکہ بلیاں کیا انسانوں اور دوسرے جانوروں کے ساتھ اس کا رہنا محال ہوجائے گا۔
آپ ملاحظہ کریں تو بالکل ایسی ہی حالت ان بچوں کی ہوجاتی ہے جنہیں والدین ہمیشہ اپنے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔
بے جا لاڈ پیار اور محبت ان کی عادت تو خراب کرتی ہی ہے بلکہ معاشرے میں آزادانہ طور پر رہنا بھی ان کےلیے محال ہو جاتا ہے۔ اخلاق و تمدن سے عاری شخص جب معاشرے میں جاتا ہے تو ہر سطح پر اسے ایک نئے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔
اس لیے والدین کو چاہیے کہ معاشرے سے ڈرنے کے بجائے بچوں کی تربیت کریں، انہیں ایسی عادات سکھائیں جن سے وہ معاشرے میں جا کر اپنے آپ کو سنبھال سکیں۔ ساری عمر آپ ان کی حفاظت نہیں کرسکتے، ایک نہ ایک دن انہیں آپ ان کے بغیر رہنا پڑے گا۔
3۔ دوست اور خوشامدیوں میں فرق پہچانیے
دوست بنانا انسانوں اور جانور کےلیے فطری عمل ہے۔ سمبا گھر سے باہر تو نہیں جاسکتی تھی، لیکن جو بلی گھر میں آتی اس سے وہ دوستی کرلیتی۔
چند ہی دنوں میں بلی کی ایک دوست کیارہ (Kiara) اور ایک بلا کیو (Kio) دوست بن گئے۔ جب بھی وہ دونوں گھر آتے تو سمبا ان کے ساتھ کھیلتی، انہیں اپنے کھانے میں بھی شریک کرتی۔
شروع شروع میں تو کیو، سمبا کو مارتا اور اس کا کھانا بھی لے جاتا جبکہ کیارہ اس کے ساتھ آرام سے کھانا کھاتی اور ایک اچھی دوست بن کر رہتی۔ کھانا چھن جانے پر بچاری سمبا روتی اور اپنا سا منہ لے کر گھر والوں کے پاس آجاتی کہ اسے اور کھانا دیں۔
یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔ پھر ایک دن ایک عجیب چیز دیکھنے کو ملی۔
سمبا کو کھانا دیا گیا۔ اس نے کیارہ اور کیو کو بلایا۔ جیسے ہی کیو پاس آیا، اسے ایک لگائی اور پھر اسے اپنی پلیٹ میں سے ایک بوٹی نکال کر دی جسے وہ دور جا کر کھانے لگا۔ اور پھر یہ عمل تقریباً ہر کھانے میں ہونے لگا۔
اب جب بھی کھانے کی باری آتی تو کیو اس سے بڑے ادب سے پیش آتا۔
لیکن جیسے ہی کھیلنے کی باری آتی تو وہ پوری کوشش کرتا کہ اسے باہر لے جائے اور اس کی پھینٹی لگائے۔ سمبا اپنے دوست اور خوشامدی کو جان چکی تھی۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اگر آپ کے پاس کوئی عملی مہارت (skill) یا خوبی ہے تو لوگوں کا ہجوم آپ کے پاس لگا رہے گا۔
وہ خوبی ہنر کی بھی ہو سکتی ہے، پیسے کی بھی، یا پاور کی بھی۔ یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے دوستوں اور خوشامدیوں میں فرق کو پہچانے۔
یہ سبق بالخصوص سیاست دانوں کےلیے نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انہیں پوری زندگی اس مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی خوشامدی انکا بیڑا غرق کرتے ہیں۔ جنہیں وہ دوست سمجھتے ہیں درحقیقت وہی ان کی حکومت گرا دیتے ہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔