حکمت و دانش کی سیاست
عوام کے صبر و تحمل کے باوجود حکمران اس معصوم قوم کی قدر نہیں کرتے۔
حکومتوں کی تبدیلی کو عموماً معمول کاعمل سمجھا جاتا ہے۔ حکومت ایک معینہ مدت کے لیے قائم ہوتی ہے اوروہ مدت پوری کر کے رخصت ہوجاتی ہے اور دوبارہ سے الیکشن ہوجاتے ہیں اور نئی حکومت قائم ہو جاتی ہے مگر پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، ان میں سے ایک دو کے علاوہ کسی نے اپنی معینہ مدت پوری نہیں کی اور کسی نہ کسی وجہ سے رخصت کر دی گئیں لیکن کوئی بھی حکومت بے گناہی میں نہیں ماری گئی۔
ہر حکمران کو پورا موقع ملا کہ وہ حکمرانی کے مزے لوٹے لیکن سب ہی ایسے بے لگام ہوگئے اور اس طرح کی غلطیاں بلکہ حماقتیں کرنے لگے کہ ان کے خلاف کبھی تو اپوزیشن کی تحریکیں کامیاب ہو گئیں اور کبھی مارشل لاء نے ان کو رخصت کر دیا۔
کوئی بھی حکومت لے لیجیے اگر آپ یاد کریں تو اس کی کوئی ایسی بڑی غلطی آپ کو نظر آجائے گی جو اس کو لے ڈوبی ۔مثلاً ایوب خان کو لیجیے یہ بھی دوسرے حکمرانوں کی طرح عام مقبولیت کی گھن گرج میں تخت نشین ہوئے اور نسبتاً ایک بہتر حکومت کا آغاز کیا ۔ ان کا بنیادی جمہوریتوں کانظام بہت اچھا تھا لیکن اس کو انتخابی حق دے کر انھوں نے نہ صرف اس اچھے نظام کو بلکہ اپنی حکومت کو بھی ختم کر دیا۔
عوام نے انھیں اس پر بھی ڈھیل دے دی اور اپوزیشن نے محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں اسی نظام کو قبول کر کے اس کے تحت الیکشن لڑالیکن جب الیکشن میں دھاندلی کی گئی تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔ پھر بھٹو صاحب کی حکومت آگئی جنھیں قائد اعظم کے بعد سب سے زیادہ عوامی مقبولیت ملی۔
بھٹو حکومت جیسی بھی تھی چلتی رہی اور چلتی رہتی اگروہ الیکشن میں اپنے آپ کواور اپنے چند ساتھیوں کو بلامقابلہ کامیاب کرانے کی حماقت نہ کر بیٹھتے اور الیکشن منصفانہ کرا دیتے تو بچ جاتے حالانکہ وہ بے مثال مخالفانہ تحریک کے باوجود الیکشن جیت رہے تھے ۔ مرحوم نواب زادہ نصر اللہ خان کا اس وقت یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ بھٹوا ور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور تحریک کی بھی کوئی انتہا نہ تھی لیکن الیکشن میں دھاندلی کی غلطی اور حماقت اس حکومت کے خاتمے کا اصل سبب بن گئی ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہہ ہمارے ہاں حکومتیں اپنی غلطی سے آتی جاتی رہیں ۔عوام کے صبر و تحمل کے باوجود حکمران اس معصوم قوم کی قدر نہیں کرتے۔ ان دنوں بھی موجودہ حکومت کے خلاف تحریک تو نہیں لیکن ایک مہم ضرور شروع ہے اور یہ مہم اس حکومت کے قیام کے فوراً بعد ہی شروع کر دی گئی تھی جس کے نتیجہ میں میاں نواز شریف کووزیر اعظم کے عہدے سے رخصت ہونا پڑا۔
اگرچہ موجودہ مہم کے پس منظر میں کچھ دوسرے اسباب بھی کام کر رہے ہیں لیکن جن پالیسیوں کے کندھے کو استعمال کیا جارہا ہے وہ اس حکومت کی اپنی پیداوار ہیں ۔ بجلی کا بحران جس کے خاتمے کا دعویٰ کیا گیا تھا تقریباً جوں کا توں موجود ہے، ہمارے مالیاتی ماہرین نے ملکی معیشت کو مصنوعی سہارا دیے رکھا بلکہ وینٹی لیٹر پر رکھا اور جیسے ہی وینٹی لیٹر اتارا گیا معیشت دھڑام سے نیچے آ گری اور ڈالر ایک بار پھر اونچی اڑان پر ہے۔
ترقی کے دعوے معلوم نہیں کہاں غائب ہوگئے کہ عام آدمی آج بھی اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ٹیکسوں کا بوجھ اس قدر کر دیا گیا ہے کہ ملک میں جو سرمایہ کاری باہر سے آرہی تھی وہ ختم ہو گئی، بیرون ملک پاکستانی اپنی بچتوں سے پاکستان میں پلاٹ یا مکان خرید لیتے تھے تا کہ ان کا سرمایہ ان کے اپنے ملک میں محفوظ رہے لیکن ہماری حکومت کے عقلمند وزیر خزانہ جو ان دنوں لندن میں صاحب فراش ہیں، انھوں نے ٹیکسوں کی بھر مار کر کے اس اس اہم شعبے میں سرمایہ کاری کی کمر توڑ دی اور اب صورتحال یہ ہے کہ بیرون ملک سے پاکستان میںزرمبادلہ کی منتقلی نہ ہونے کے برابر رہ گئی سوائے چند سر پھرے پاکستانیوں کے کوئی آدمی بھی پاکستان رقم بھیجنے کو تیار نہیں ۔ مشکلات اور شکائتیں اتنی طویل ہیں کہ ان کے ذکر سے ہی کالم کی گنجائش ختم ہو جائے۔
ایک پرانی مثال یاد آرہی ہے کہ جب کسی کسان کی گائے بیمار ہو گئی تو اس نے دوسرے سے پوچھا کہ تمہاری گائے کو جب یہی بیماری لگی تھی تو تم نے اسے کیا دیا تھا ۔ اس نے جوب دیا کہ تارپین کا تیل۔ چنانچہ اس نے بھی اپنی گائے کو تارپین کا تیل پلا دیا جس سے وہ مر گئی ۔ شکایت لے کر وہ دوسرے کسان کے پاس پہنچا اور پتایا کہ میری گائے تو تارپین کا تیل پی کر مر گئی تو اس نے جواب دیا کہ میری بھی تو مر گئی تھی۔ اس وقت جو لوگ حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں کان ناک اور آنکھیں بنے ہوئے ہیں ان کے پاس تارپین کے اس تیل کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام آباد کی یہ نسل کئی حکومتوں کو تارپین کا تیل دے چکی ہے۔
مختصراً عرض ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکمرانوں نے بھی اپنی شامت خود لائی ہے لیکن دانشمند لوگوں کے خیال میں اس میں اصلاح کی گنجائش موجود ہے ۔ کسی بھی منتخب حکومت کو رخصت کرنے کا آزمودہ نسخہ صدراتی اختیار ختم ہو چکا ہے ۔
اقتدار سے دور رہنے کا عزم رکھنے والی فوج کسی کی بھی بے جا حمائت یا ہاتھ تھامنے پر تیار نہیں البتہ فوج نے واضح کیا ہے کہ وہ ملکی سالمیت اور قانون کی حکمرانی کی حفاظت کریں گے۔ضرورت ہے تو اس بات کی سیاستدان سیاست کریں، انتقام کی سیاست نہ کریں، پرانے گلے شکوے اگر ہیں تو ان کو بھول جائیں۔
اب روٹین کی سیاست نہیں چل سکتی ،کسی حکمت و دانش والی سیاست کی ضرورت ہے جو خود کردہ اور کچھ نا کردہ گناہوں سے حکمرانوں کو بچا سکے ۔ مگر یہ کیسے ہو گا میں تو اس بارے کچھ عرض نہیں کر سکتا کیونکہ جو کچرا اس وقت اسلام آباد میں جمع ہو چکا ہے، یہ اس کے بس کی بات نہیں اور حکمران انھی کے غیر دانشمندانہ مشوروں پر چل رہے اور اپنے دانشمند ساتھیوں کو دور کر دیا ہے جس کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں۔
ہر حکمران کو پورا موقع ملا کہ وہ حکمرانی کے مزے لوٹے لیکن سب ہی ایسے بے لگام ہوگئے اور اس طرح کی غلطیاں بلکہ حماقتیں کرنے لگے کہ ان کے خلاف کبھی تو اپوزیشن کی تحریکیں کامیاب ہو گئیں اور کبھی مارشل لاء نے ان کو رخصت کر دیا۔
کوئی بھی حکومت لے لیجیے اگر آپ یاد کریں تو اس کی کوئی ایسی بڑی غلطی آپ کو نظر آجائے گی جو اس کو لے ڈوبی ۔مثلاً ایوب خان کو لیجیے یہ بھی دوسرے حکمرانوں کی طرح عام مقبولیت کی گھن گرج میں تخت نشین ہوئے اور نسبتاً ایک بہتر حکومت کا آغاز کیا ۔ ان کا بنیادی جمہوریتوں کانظام بہت اچھا تھا لیکن اس کو انتخابی حق دے کر انھوں نے نہ صرف اس اچھے نظام کو بلکہ اپنی حکومت کو بھی ختم کر دیا۔
عوام نے انھیں اس پر بھی ڈھیل دے دی اور اپوزیشن نے محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں اسی نظام کو قبول کر کے اس کے تحت الیکشن لڑالیکن جب الیکشن میں دھاندلی کی گئی تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔ پھر بھٹو صاحب کی حکومت آگئی جنھیں قائد اعظم کے بعد سب سے زیادہ عوامی مقبولیت ملی۔
بھٹو حکومت جیسی بھی تھی چلتی رہی اور چلتی رہتی اگروہ الیکشن میں اپنے آپ کواور اپنے چند ساتھیوں کو بلامقابلہ کامیاب کرانے کی حماقت نہ کر بیٹھتے اور الیکشن منصفانہ کرا دیتے تو بچ جاتے حالانکہ وہ بے مثال مخالفانہ تحریک کے باوجود الیکشن جیت رہے تھے ۔ مرحوم نواب زادہ نصر اللہ خان کا اس وقت یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ بھٹوا ور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور تحریک کی بھی کوئی انتہا نہ تھی لیکن الیکشن میں دھاندلی کی غلطی اور حماقت اس حکومت کے خاتمے کا اصل سبب بن گئی ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہہ ہمارے ہاں حکومتیں اپنی غلطی سے آتی جاتی رہیں ۔عوام کے صبر و تحمل کے باوجود حکمران اس معصوم قوم کی قدر نہیں کرتے۔ ان دنوں بھی موجودہ حکومت کے خلاف تحریک تو نہیں لیکن ایک مہم ضرور شروع ہے اور یہ مہم اس حکومت کے قیام کے فوراً بعد ہی شروع کر دی گئی تھی جس کے نتیجہ میں میاں نواز شریف کووزیر اعظم کے عہدے سے رخصت ہونا پڑا۔
اگرچہ موجودہ مہم کے پس منظر میں کچھ دوسرے اسباب بھی کام کر رہے ہیں لیکن جن پالیسیوں کے کندھے کو استعمال کیا جارہا ہے وہ اس حکومت کی اپنی پیداوار ہیں ۔ بجلی کا بحران جس کے خاتمے کا دعویٰ کیا گیا تھا تقریباً جوں کا توں موجود ہے، ہمارے مالیاتی ماہرین نے ملکی معیشت کو مصنوعی سہارا دیے رکھا بلکہ وینٹی لیٹر پر رکھا اور جیسے ہی وینٹی لیٹر اتارا گیا معیشت دھڑام سے نیچے آ گری اور ڈالر ایک بار پھر اونچی اڑان پر ہے۔
ترقی کے دعوے معلوم نہیں کہاں غائب ہوگئے کہ عام آدمی آج بھی اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ٹیکسوں کا بوجھ اس قدر کر دیا گیا ہے کہ ملک میں جو سرمایہ کاری باہر سے آرہی تھی وہ ختم ہو گئی، بیرون ملک پاکستانی اپنی بچتوں سے پاکستان میں پلاٹ یا مکان خرید لیتے تھے تا کہ ان کا سرمایہ ان کے اپنے ملک میں محفوظ رہے لیکن ہماری حکومت کے عقلمند وزیر خزانہ جو ان دنوں لندن میں صاحب فراش ہیں، انھوں نے ٹیکسوں کی بھر مار کر کے اس اس اہم شعبے میں سرمایہ کاری کی کمر توڑ دی اور اب صورتحال یہ ہے کہ بیرون ملک سے پاکستان میںزرمبادلہ کی منتقلی نہ ہونے کے برابر رہ گئی سوائے چند سر پھرے پاکستانیوں کے کوئی آدمی بھی پاکستان رقم بھیجنے کو تیار نہیں ۔ مشکلات اور شکائتیں اتنی طویل ہیں کہ ان کے ذکر سے ہی کالم کی گنجائش ختم ہو جائے۔
ایک پرانی مثال یاد آرہی ہے کہ جب کسی کسان کی گائے بیمار ہو گئی تو اس نے دوسرے سے پوچھا کہ تمہاری گائے کو جب یہی بیماری لگی تھی تو تم نے اسے کیا دیا تھا ۔ اس نے جوب دیا کہ تارپین کا تیل۔ چنانچہ اس نے بھی اپنی گائے کو تارپین کا تیل پلا دیا جس سے وہ مر گئی ۔ شکایت لے کر وہ دوسرے کسان کے پاس پہنچا اور پتایا کہ میری گائے تو تارپین کا تیل پی کر مر گئی تو اس نے جواب دیا کہ میری بھی تو مر گئی تھی۔ اس وقت جو لوگ حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں کان ناک اور آنکھیں بنے ہوئے ہیں ان کے پاس تارپین کے اس تیل کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام آباد کی یہ نسل کئی حکومتوں کو تارپین کا تیل دے چکی ہے۔
مختصراً عرض ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکمرانوں نے بھی اپنی شامت خود لائی ہے لیکن دانشمند لوگوں کے خیال میں اس میں اصلاح کی گنجائش موجود ہے ۔ کسی بھی منتخب حکومت کو رخصت کرنے کا آزمودہ نسخہ صدراتی اختیار ختم ہو چکا ہے ۔
اقتدار سے دور رہنے کا عزم رکھنے والی فوج کسی کی بھی بے جا حمائت یا ہاتھ تھامنے پر تیار نہیں البتہ فوج نے واضح کیا ہے کہ وہ ملکی سالمیت اور قانون کی حکمرانی کی حفاظت کریں گے۔ضرورت ہے تو اس بات کی سیاستدان سیاست کریں، انتقام کی سیاست نہ کریں، پرانے گلے شکوے اگر ہیں تو ان کو بھول جائیں۔
اب روٹین کی سیاست نہیں چل سکتی ،کسی حکمت و دانش والی سیاست کی ضرورت ہے جو خود کردہ اور کچھ نا کردہ گناہوں سے حکمرانوں کو بچا سکے ۔ مگر یہ کیسے ہو گا میں تو اس بارے کچھ عرض نہیں کر سکتا کیونکہ جو کچرا اس وقت اسلام آباد میں جمع ہو چکا ہے، یہ اس کے بس کی بات نہیں اور حکمران انھی کے غیر دانشمندانہ مشوروں پر چل رہے اور اپنے دانشمند ساتھیوں کو دور کر دیا ہے جس کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں۔