کب جاگو گے

روٹی کپڑا مکان کا نعرہ کل بھی دھوکا تھا آج بھی دھوکا ہے، یہ خدا کا کام ہے بندہ نہیں کرسکتا۔

جب کبھی پاکستان میں عوامی جدوجہد ہوگی تو اس کا پس منظر لکھتے ہوئے تاریخ داں بہت سے ایسے واقعات تحریر کریں گے جو اس دور میں ہر دو اعتبار سے باعث حیرت ہوں گے یا تو ان کی کم Intensity کی وجہ سے کہ وہ دور اس سے زیادہ تاریک تر ہوگا یا وہ بہت اچھا دور ہوگا اور اس دور کے واقعات اس وقت ظلم محسوس ہوں گے۔

عوامی جدوجہد 47ء کے بعد کبھی نہیں ہوئی۔ جو کچھ بھی اس نام پر ہر دور میں ہوتا رہا وہ محض دھوکا تھا جس کا ثبوت موجودہ حالات ہیں اگر عوامی جدوجہد کا کوئی ریکارڈ ہوتا تو اس ظالمانہ دور کو کون برداشت کرتا جس میں صرف عوام اور وہ بھی غریب عوام کی چمڑی ادھیڑی جا رہی ہے۔ سارے قرض عوام کے سر، مہنگائی عوام کے لیے، بے روزگاری عوام کے لیے، عدم تحفظ عوام کے لیے اور اس کے علاوہ بھی بجلی، گیس ، ٹرانسپورٹ، صاف پانی، ملاوٹ سے پاک غذا یہ سب عوام کے لیے خواب ۔

روٹی کپڑا مکان کا نعرہ کل بھی دھوکا تھا آج بھی دھوکا ہے، یہ خدا کا کام ہے بندہ نہیں کرسکتا، جو ہوا اور سیاسی، قومی بین الاقوامی وجوہات اپنی جگہ مگر دراصل مرحوم نے خود اپنے وعدے کا پاس نہیں کیا اور دوسرے کاموں میں لگ گئے، اسلامی دنیا کی بات کرنا بھی ایک مقصد تھا مگر حاصل کچھ نہ ہوا، نہ ملک کے حالات بدلے نہ عوام کی حالت۔

بھٹو صاحب کی کارکردگی کے اثرات بین الاقوامی کچھ بھی ہوں قومی ٹھیک نہیں تھے، ان کا وژن قائد اعظم کا وژن نہیں تھا قائد عوام کا وژن تھا جس میں عوام نہیں ٹیلینٹڈ کزن اور اس قبیل کے دوسرے افراد شامل تھے اور زور سندھ پر تھا۔ کوٹہ سسٹم ایک بدترین منافرت جس کے ذریعے نااہلوں کو اہلوں پر ترجیح دی گئی اور اب تک دی جا رہی ہے۔کوٹہ سسٹم کی اس سازش میں اب تک ملک کی تمام پارٹیاں شریک ہیں اور یہ ظلم جاری و ساری ہے اور صرف ایک صوبے سندھ میں ہے بقیہ علاقے اس سے آزاد ہیں۔ کمال کی بات ہے کہ پاکستان کے ایک صوبے میں یہ ظلم جاری ہے اور کوئی آواز نہیں۔

تو ہم عرض کر رہے تھے کہ قیام پاکستان کے بعد عوامی جدوجہد کا کوئی منظر نظر نہیں آیا، صرف تقریریں اور باتیں اور عوام کل بھی سو رہے تھے آج بھی سو رہے ہیں۔ کچھ جاگ عدلیہ نے پیدا کی ہے اور اسے عوام شوق اور دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انصاف ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ بیدار بھی ہوجائیں اور شاید ہو رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا اس کا خاصا اظہار کر رہا ہے عدالت نے بہت کام سنبھال لیے ہیں کیونکہ حکومت نے عملاً کام نظام سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مفلوج کر رکھا ہے کاغذی تشہیری اخباری مہم چلا رکھی تھی چلا رکھی ہے عوام کے پیسے سے عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ ۔

سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے 55 لاکھ سرکاری خزانے میں واپس جمع کروائے ہیں، ذرا چیک کرلیں کسی اور اکاؤنٹ سے تو ٹرانسفر نہیں ہوئے ۔ کورٹ اس مشین کو منگوالے تو بہت سی چابیاں ہاتھ آجائیں گی، قارون کے خزانے کی اور پاکستان کے عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس مل جائے گا ملک قرضوں سے آزاد ہوجائے گا جس کا سود ادا کرتے کرتے عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے پٹرول مہنگا کرکے عوام سے پیسہ وصولا جا رہا ہے۔


ایک اخباری منظر، خبر کی صورت ملاحظہ فرمائیے۔ یکم مارچ ، اپنے ہی لوگوں کے پیسے کھانے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ سندھ ہائیکورٹ ضلع خیرپور میں 14 کروڑ سے زائد فنڈ خرد برد کرنے کے کیس میں ریمارکس، ملوث ٹھیکیداروں اور سرکاری افسران کا بیان حلفی جمع کرانے کا حکم، سندھ ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے آبائی ضلع خیرپور میں 14 کروڑ سے زائد فنڈز خورد برد کرنے سے متعلق تمام ملزمان کا بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کو نیب کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ضلع خیرپور کے فیض گنج تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن میں منی واٹر سپلائی اسکیم، اسٹریٹ ڈرینیج اسکیم میں خانہ پری کرکے خرد برد کی گئی ہے مقدمے میں 60 ٹھیکیدار اور 25 محکمہ بلدیات کے سرکاری افسران ملوث ہیں چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اپنے اپنے علاقے میں جائیں اور دوبارہ کام کروائیں ورنہ سب کو جیل بھیج دیں گے۔ آپ لوگوں نے اپنے شہر اور گاؤں تباہ کردیے اپنے ہی لوگوں کا پیسہ کھا گئے کوئی شرم ہونی چاہیے۔ عدالت نے تمام ملزمان سے کام کرانے کا بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دے دیا سماعت 9 مارچ تک ملتوی کردی۔

یہ ایک خبر دور افتادہ تحصیل کی ہے اور بداعمالی، بے ایمانی، ایمان فروشی کی ملک کی بے شمار وارداتوں میں سے ایک ایسا نمونہ ہے جیسے شیشے کے ڈیزائن والی قمیض کا ایک ننھا شیشہ ۔ سندھ کے بڑے شہروں کراچی، حیدر آباد، سکھر، میرپورخاص، لاڑکانہ سب کا یہی حال ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی کبھی بھٹو کی پارٹی تھی اب اس پر زرداریوں کا قبضہ ہے اور پرانوں میں سے جو اس کام کے شریک ہونے پر معترض نہیں وہ اس میں ہیں باقی اللہ اللہ کر رہے ہیں۔

عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم یہاں ہیں اور احد چیمہ اور کچھ اور وہاں کام سب ایک جیسا کر رہے تھے۔ چھوٹے شہروں میں چھوٹے چیمہ اور عزیر اور عاصم ہیں، کہیں کہیں شرجیل میمن بھی ہیں سندھ پنجاب میں، اگر وفاق کے اشتہارات کا سلسلہ چیک کیا جائے تو وہاں سے بھی کوئی نکل آئے گا یا نکل آئے گی۔ ایک جسٹس صاحب پانی کے مسئلے پر اور ٹریٹمنٹ پلانٹ کے معاملے پر سندھ کے دورے کر رہے ہیں اور انتظامیہ صنعت کاروں سے مل کر برے وقت کے ٹلنے کا انتظار کر رہی ہے۔

ان لوگوں نے ایشیا کے سب سے بڑے میٹھے پانی کے ذخیرے منچھر جھیل کو مل جل کر آلودہ کردیا دونوں صوبے ملوث ہیں کون جواب مانگے گا ، نقصان سندھ کے لوگوں کا ہوا۔ پانی ضایع کرنے کا الزام الگ کیوں وفاقی حکومت ڈاؤن اسٹریم پر ڈیم ٹھٹھہ میں نہیں بناتی ۔

پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) یہ دونوں پاکستان کے شہروں اور قصبات کی تباہی کے ذمے دار ہیں، دونوں کے خلاف تفتیش نیب کے ذریعے ہوکیونکہ حکومت قومی اور صوبائی ان کی ہی رہی ہیں اور ہیں۔ سندھ کے شہر کچرے کے ڈھیر ہیں۔ سڑکوں پر گٹر کا پانی پھیلا ہوا ہے۔ اخبارات کی تصاویر اور خبروں کے مطابق ریلوے اسٹیشنزکے باہر تک گٹر کا پانی جمع ہے حیدرآباد کا تو یہ حال ہے باقی جگہ بھی بہتر نہیں ہوں گی کیونکہ ہر جگہ طاقت صوبائی حکومت کے پاس ہے اور جو کچھ اداروں کو مل رہا ہے وہ بھی مل بانٹ کر کھا رہے ہیں۔ عوام کا حال برا ہے، عوامی مقامات کا حال بدترین ہے۔

اس لیے میں نے کہا کہ عوامی جدوجہد کبھی نہیں ہوئی۔ عوام بے حد صابر یا بے حد لاپرواہ ہیں ان کو اس سے غرض نہیں کہ پڑوس کا کیا حال ہے اور حکومت اور ادارے سمجھ چکے ہیں کہ انھیں موبائل فون، نیٹ کا نشہ چڑھ چکا ہے یہ فیس بک کے شوقین راتیں کالی کر رہے ہیں لڑنے جھگڑنے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں، انھیں ہوش نہیں ہے کہ شہر کا ملک کا کیا حال ہے اور انھیں کیا کرنا چاہیے فکس اٹ کچھ دن چلا مگر پھر شاید اسے Fix کردیا گیا ورنہ اور شہروں میں لوگوں میں رجحان پروان چڑھتا۔ یہ قوم گند میں بھی جینا سیکھ گئی ہے اور جی رہی ہے یہی دونوں پارٹیوں کا مقصد تھا اور ہے۔ کب جاگو گے؟
Load Next Story