جشن آزادی نئے مقصد کے ساتھ
جھنڈیاں لگانا اور جشن منانا کوئی بری بات نہیں بلکہ یہ پاکستان سے ہمارے پیار کا اظہار ہے۔
اگست کا مہینہ شروع ہوچکا تھا اور کالج میں بھی گرمیوں کی چُھٹیاں ہوچکی تھیں۔ قاسم کو پچھلے اگست کا مہینہ یاد آرہا تھا۔ پچھلے سال بھی وہ اسی طرح گہری سوچ میں تھا۔ یوم آزادی نزدیک آچکا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ہم ہر سال جشن آزادی مناتے ہیں، جھنڈیاں لگاتے ہیں اور نغمے گاتے ہیں۔ مگر اس سے ہمارے ملک کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ یہی سوچ لیے وہ داداجان کے کمرے میں داخل ہوا۔
جب ان سے اپنی اُلجھن بیان کی تو داداجان بولے؛ ''دیکھو بیٹا! یوم آزادی کے موقع پر جھنڈیاں لگانا، جشن منانا یا مِلّی نغمے پڑھنا کوئی بری بات نہیں۔ یہ تو وطن کے ساتھ ہمارے پیار کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ ہاں! رہی بات وطن کو فائدہ پہنچانے کی تو اس سال تم اس طرح سے جشن آزادی منائوکہ ملک کے لوگوں کا بھی کچھ فائدہ ہو۔''
''مگر کیسے؟'' قاسم نے سوال کیا۔
''بیٹا! برسات کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ اس موسم میں مچھر بہت زیادہ ہوتے ہیں جو ڈینگی اور ملیریا جیسی مہلک بیماریوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔ تم اس سلسلے میں بہت کچھ کرسکتے ہو۔'' دادا جان نے اسے سمجھایا تو قاسم بولا؛ ''ٹھیک ہے داداجان! اب میں ملک کو ڈینگی اور ملیریا سے بچاکر ہی دم لوںگا۔''
شام تک قاسم نے ایک پرچہ تیار کیا جس پر مختلف رسالوں اور اخباروں سے اکٹھی کرکے ڈینگی اورملیریا سے بچنے کی احتیاطی تدابیر لکھی تھیں۔ وہ گھر سے نکلا۔ محلے میں ہرطرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تھے۔ جگہ جگہ پانی کھڑا تھا جن پہ مکھیاں اور مچھر بھنبھنا رہے تھے۔ قاسم کو یہ سب دیکھ کر بہت دُکھ ہوا۔
اسے یاد آیا کہ پچھلے برس قریشی صاحب کا بڑا بیٹا ڈینگی بخار کی وجہ سے مرتے مرتے بچا تھا۔ لوگ پھر بھی گلیاں صاف کیوں نہیں رکھتے؟'' قاسم نے سوچا۔ اس نے سب سے پہلے اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز کو وہ پرچہ دکھایا اور انہیں اپنا خیال سنایا۔ اس کے دوستوں نے اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ ان سب نے پہلے گھروں کے قریب گڑھوں کو مٹی سے بھردیا۔ باقی جوہڑوں میں استعمال شدہ موبل آئل چھڑک دیا تاکہ مچھروں کی افزایش نہ ہو۔
اس کے بعد محلے کی نالیوں کی صفائی شروع کی تاکہ وہاں پانی کھڑا نہ ہو۔ اُنہیں یوں صفائی کرتا دیکھ کر کچھ لڑکے ان پر ہنسنے لگے۔ ''دیکھو! یہ نالیاں صاف کررہے ہیں۔'' ایک لڑکا بولا ''ہاں ہاں! صاف کرو، پھر گلیوں میں جھاڑو بھی دینا۔'' اس کی بات سن کر دوسرے لڑکے ہنسنے لگے۔
قاسم انہیں ہنستا دیکھ کر بولا؛ ''مجھے افسوس ہے آپ کی ذہنیت پر، کیاآپ کو معلوم نہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور اپنے محلے، شہر اور ملک کو صاف ستھرا رکھنا ہمارا قومی اور اخلاقی فرض ہے۔'' یہ سُن کر سب لڑکوں کے سر شرم سے جُھک گئے۔ ایک لڑکا کہنے لگا؛ ''مگر ہم پورا ملک تو صاف نہیں کرسکتے؟'' قاسم بولا؛ ''پورا ملک نہ سہی۔ ہم اپنا شہر یا محلہ تو صاف کرسکتے ہیں؟ اگر سب لوگ اپنا اپنا محلہ صاف کر دیںگے تو پھر نہ مچھر پیدا
ہوں گے اور نہ ہی ڈینگی اورملیریا جیسی بیماریاں ہوںگی۔''
قاسم کی باتوں نے ان لڑکوں کے دلوں پر گہرا اثر ڈالا اور انہوں نے بھی قاسم کے ساتھ اس نیک کام میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی جسے قاسم نے خوش دلی سے قبول کرلیا۔
قاسم! کن خیالوں میں کھوئے ہوئے ہو؟ پروگرام شروع ہونے والا ہے، چلو۔'' ناصر نے کہا تو قاسم ایک دم چونک پڑا۔
قاسم اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے گورنمنٹ ہائی اسکول کے ہال میں ایک تقریب منعقد کی گئی تھی۔ جب قاسم کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دی گئی تو وہ تالیوں کی گونج میں اسٹیج پر آیا۔ وہ حاضرین سے یوں مخاطب ہوا؛ ''آج یوم آزادی ہے۔ میں آپ کو گذشتہ برس کی کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں۔ پچھلے سال جب مَیں نے جشن آزادی کے موقع پر ملک کے لیے کچھ کرنا چاہا تو بالکل اکیلا تھا۔ مَیں نے اپنے داداجان کے مشورے پر چند دوستوں کے ساتھ ڈینگی اور ملیریا کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا۔ آہستہ آہستہ دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہوتے گئے اور آج ماشاء اﷲ ہم چار اضلاع میں ڈینگی اورملیریا کے بارے میں آگاہی پہنچا چکے ہیں۔ ہماری ایک تنظیم بن چکی ہے۔
آج میں آپ سے وہی بات کہوںگا جو پچھلے سال میرے داداجان نے مجھ سے کی تھی کہ۔۔۔۔ ''جھنڈیاں لگانا اور جشن منانا کوئی بری بات نہیں بلکہ یہ پاکستان سے ہمارے پیار کا اظہار ہے۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔ چاہے ہم اکیلے ہی کیوں نہ ہوں کیوں کہ قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے۔'' قاسم کی اس بات پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ قاسم دوبارہ گویا ہوا؛ ''اس مرتبہ ہم نے سیلاب زدگان کو دوبارہ ان کے گھر فراہم کرنے اور ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ بھی اس کام میں شریک ہوکر ہمارا ساتھ دیں، شکریہ۔'' قاسم کی تقریر کے اختتام کے ساتھ ہی پورا ہال ایک بار پھر تالیوں کی بھرپور آواز سے گونج اٹھا۔
جب ان سے اپنی اُلجھن بیان کی تو داداجان بولے؛ ''دیکھو بیٹا! یوم آزادی کے موقع پر جھنڈیاں لگانا، جشن منانا یا مِلّی نغمے پڑھنا کوئی بری بات نہیں۔ یہ تو وطن کے ساتھ ہمارے پیار کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ ہاں! رہی بات وطن کو فائدہ پہنچانے کی تو اس سال تم اس طرح سے جشن آزادی منائوکہ ملک کے لوگوں کا بھی کچھ فائدہ ہو۔''
''مگر کیسے؟'' قاسم نے سوال کیا۔
''بیٹا! برسات کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ اس موسم میں مچھر بہت زیادہ ہوتے ہیں جو ڈینگی اور ملیریا جیسی مہلک بیماریوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔ تم اس سلسلے میں بہت کچھ کرسکتے ہو۔'' دادا جان نے اسے سمجھایا تو قاسم بولا؛ ''ٹھیک ہے داداجان! اب میں ملک کو ڈینگی اور ملیریا سے بچاکر ہی دم لوںگا۔''
شام تک قاسم نے ایک پرچہ تیار کیا جس پر مختلف رسالوں اور اخباروں سے اکٹھی کرکے ڈینگی اورملیریا سے بچنے کی احتیاطی تدابیر لکھی تھیں۔ وہ گھر سے نکلا۔ محلے میں ہرطرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تھے۔ جگہ جگہ پانی کھڑا تھا جن پہ مکھیاں اور مچھر بھنبھنا رہے تھے۔ قاسم کو یہ سب دیکھ کر بہت دُکھ ہوا۔
اسے یاد آیا کہ پچھلے برس قریشی صاحب کا بڑا بیٹا ڈینگی بخار کی وجہ سے مرتے مرتے بچا تھا۔ لوگ پھر بھی گلیاں صاف کیوں نہیں رکھتے؟'' قاسم نے سوچا۔ اس نے سب سے پہلے اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز کو وہ پرچہ دکھایا اور انہیں اپنا خیال سنایا۔ اس کے دوستوں نے اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ ان سب نے پہلے گھروں کے قریب گڑھوں کو مٹی سے بھردیا۔ باقی جوہڑوں میں استعمال شدہ موبل آئل چھڑک دیا تاکہ مچھروں کی افزایش نہ ہو۔
اس کے بعد محلے کی نالیوں کی صفائی شروع کی تاکہ وہاں پانی کھڑا نہ ہو۔ اُنہیں یوں صفائی کرتا دیکھ کر کچھ لڑکے ان پر ہنسنے لگے۔ ''دیکھو! یہ نالیاں صاف کررہے ہیں۔'' ایک لڑکا بولا ''ہاں ہاں! صاف کرو، پھر گلیوں میں جھاڑو بھی دینا۔'' اس کی بات سن کر دوسرے لڑکے ہنسنے لگے۔
قاسم انہیں ہنستا دیکھ کر بولا؛ ''مجھے افسوس ہے آپ کی ذہنیت پر، کیاآپ کو معلوم نہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور اپنے محلے، شہر اور ملک کو صاف ستھرا رکھنا ہمارا قومی اور اخلاقی فرض ہے۔'' یہ سُن کر سب لڑکوں کے سر شرم سے جُھک گئے۔ ایک لڑکا کہنے لگا؛ ''مگر ہم پورا ملک تو صاف نہیں کرسکتے؟'' قاسم بولا؛ ''پورا ملک نہ سہی۔ ہم اپنا شہر یا محلہ تو صاف کرسکتے ہیں؟ اگر سب لوگ اپنا اپنا محلہ صاف کر دیںگے تو پھر نہ مچھر پیدا
ہوں گے اور نہ ہی ڈینگی اورملیریا جیسی بیماریاں ہوںگی۔''
قاسم کی باتوں نے ان لڑکوں کے دلوں پر گہرا اثر ڈالا اور انہوں نے بھی قاسم کے ساتھ اس نیک کام میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی جسے قاسم نے خوش دلی سے قبول کرلیا۔
قاسم! کن خیالوں میں کھوئے ہوئے ہو؟ پروگرام شروع ہونے والا ہے، چلو۔'' ناصر نے کہا تو قاسم ایک دم چونک پڑا۔
قاسم اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے گورنمنٹ ہائی اسکول کے ہال میں ایک تقریب منعقد کی گئی تھی۔ جب قاسم کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دی گئی تو وہ تالیوں کی گونج میں اسٹیج پر آیا۔ وہ حاضرین سے یوں مخاطب ہوا؛ ''آج یوم آزادی ہے۔ میں آپ کو گذشتہ برس کی کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں۔ پچھلے سال جب مَیں نے جشن آزادی کے موقع پر ملک کے لیے کچھ کرنا چاہا تو بالکل اکیلا تھا۔ مَیں نے اپنے داداجان کے مشورے پر چند دوستوں کے ساتھ ڈینگی اور ملیریا کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا۔ آہستہ آہستہ دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہوتے گئے اور آج ماشاء اﷲ ہم چار اضلاع میں ڈینگی اورملیریا کے بارے میں آگاہی پہنچا چکے ہیں۔ ہماری ایک تنظیم بن چکی ہے۔
آج میں آپ سے وہی بات کہوںگا جو پچھلے سال میرے داداجان نے مجھ سے کی تھی کہ۔۔۔۔ ''جھنڈیاں لگانا اور جشن منانا کوئی بری بات نہیں بلکہ یہ پاکستان سے ہمارے پیار کا اظہار ہے۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔ چاہے ہم اکیلے ہی کیوں نہ ہوں کیوں کہ قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے۔'' قاسم کی اس بات پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ قاسم دوبارہ گویا ہوا؛ ''اس مرتبہ ہم نے سیلاب زدگان کو دوبارہ ان کے گھر فراہم کرنے اور ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ بھی اس کام میں شریک ہوکر ہمارا ساتھ دیں، شکریہ۔'' قاسم کی تقریر کے اختتام کے ساتھ ہی پورا ہال ایک بار پھر تالیوں کی بھرپور آواز سے گونج اٹھا۔