پاکستان میں خواتین کو ہراساں کرنے سے بچاؤ کی ایپ تیار
اس موبائل ایپ کو پولیس کے ہیلپ لائن سینٹر سے بھی منسلک کیا جائے گا
خواتین کو پبلک مقامات پر گھورنے، جملے کسنے اور ہراساں کرنے والے مرد ہوشیار ہوجائیں کیونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی (پنجاب) نے ایسی موبائل ایپ تیارکی ہے جس کے ذریعے ایسا کرنے والوں کی فوری اطلاع پولیس کو ہوسکے گی اور ایسے مردوں کو حوالات کی ہوا بھی کھانا پڑسکتی ہے۔
آج کل خواتین کو عوامی مقامات ، بازاروں، شاپنگ سینٹرز اور دفاترمیں ہراساں کیے جانے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، خواتین کو گھورنا، نازیبا حرکت کرنا ، انہیں دیکھ کر جملے کسنا اور چھونے کی کوشش کرنا ہراساں کیے جانے کی مختلف شکلیں ہیں۔ پاکستان بھی ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں ایسے ناپسندیدہ اور غیراخلاقی واقعات رونما ہوتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرکے دوران ، بازارمیں خریداری کرتے ہوئے کئی نگاہیں خواتین کو گھورتی ہیں، کوئی جملے کستا ہے تو کچھ لوگ خواتین کو چھونے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمرسیف نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی اس لیے نہیں ہوپاتی کہ خواتین ان حرکتوں کو نظرانداز کردیتی ہیں اور پولیس میں کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی۔ خواتین کو ہراساں کیے جانے کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں مگرآج تک ایسے کوئی اعداد و شمار میسر نہیں جن کی مدد سے یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ خواتین کو کن مقامات پر اور کن اوقات میں ہراساں کیا جاتا ہے اسی وجہ سے ہم نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔
ڈاکٹر عمرسیف نے بتایا کہ اپریل 2017ء میں ورلڈ بینک کی معاونت سے ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا گیا اس مقصد کے لیے ری کیپ کے نام سے موبائل ایپ تیار کی گئی اور پھر اس ایپ کی مدد سے لاہور میں منتخب خواتین سے سروے کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے کو لیا گیا، اس اقدام سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کن مقامات پر کن اوقات میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے زیادہ واقعات ہوتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں حکومت اقدامات اٹھائے گئے، ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوگی اوران جگہوں کو محفوظ بنایا جائے گا جہاں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
اس منصوبے کے سربراہ اور آئی ٹی یو کے ڈائریکٹر ڈیٹا سائنس لیب ڈاکٹر فیصل کامران نے بتایا کہ انہوں نے پہلے مرحلے میں 2 ہزار کے قریب خواتین سے سروے کیا ہے اس سروے کی روشنی میں اعداد و شمارجمع کیے جارہے ہیں، دوسرے مرحلے میں تعلیمی ادارے، شاپنگ سنٹرز، بازار، تفریح گاہوں اور دفاتر کا سروے کیا جائے گا اور پھر اس موبائل ایپ کو عام کردیا جائے گا۔
ڈاکٹر فیصل کامران نے بتایا کہ اس موبائل ایپ کو پولیس کے ہیلپ لائن سینٹر سے بھی منسلک کیا جائے گا جس سے خواتین خود کو ہراساں کیے جانے کی فوری اطلاع کرسکیں گی جس کے بعد ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس اقدام کا مقصد خواتین کو خود مختار بنانا اور انہیں ہراساں کیے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس پالیسی بنانا ہے۔
ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک طالبہ اقصٰی کا کہنا تھا کہ انہیں سب سے زیادہ اس وقت خوف اور غیر محفوظ ہونے کا احساس ہوتا ہے جب وہ اسٹاپ پر اکیلے گاڑی کے انتظار میں کھڑی ہوں۔ ایک اور طالبہ نے کہا کہ کئی مرد انہیں گھور کر دیکھتے ہیں، عجیب و غریب جملے بولتے ہیں، قریب آنے اور چھونے کی کوشش کرتے ہیں ہم مجبور ہوتی ہیں کسی کو ایسی گھٹیا حرکت کے بارے میں بتا بھی نہیں سکتیں۔
آج کل خواتین کو عوامی مقامات ، بازاروں، شاپنگ سینٹرز اور دفاترمیں ہراساں کیے جانے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، خواتین کو گھورنا، نازیبا حرکت کرنا ، انہیں دیکھ کر جملے کسنا اور چھونے کی کوشش کرنا ہراساں کیے جانے کی مختلف شکلیں ہیں۔ پاکستان بھی ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں ایسے ناپسندیدہ اور غیراخلاقی واقعات رونما ہوتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرکے دوران ، بازارمیں خریداری کرتے ہوئے کئی نگاہیں خواتین کو گھورتی ہیں، کوئی جملے کستا ہے تو کچھ لوگ خواتین کو چھونے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمرسیف نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی اس لیے نہیں ہوپاتی کہ خواتین ان حرکتوں کو نظرانداز کردیتی ہیں اور پولیس میں کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی۔ خواتین کو ہراساں کیے جانے کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں مگرآج تک ایسے کوئی اعداد و شمار میسر نہیں جن کی مدد سے یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ خواتین کو کن مقامات پر اور کن اوقات میں ہراساں کیا جاتا ہے اسی وجہ سے ہم نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔
ڈاکٹر عمرسیف نے بتایا کہ اپریل 2017ء میں ورلڈ بینک کی معاونت سے ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا گیا اس مقصد کے لیے ری کیپ کے نام سے موبائل ایپ تیار کی گئی اور پھر اس ایپ کی مدد سے لاہور میں منتخب خواتین سے سروے کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے کو لیا گیا، اس اقدام سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کن مقامات پر کن اوقات میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے زیادہ واقعات ہوتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں حکومت اقدامات اٹھائے گئے، ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوگی اوران جگہوں کو محفوظ بنایا جائے گا جہاں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
اس منصوبے کے سربراہ اور آئی ٹی یو کے ڈائریکٹر ڈیٹا سائنس لیب ڈاکٹر فیصل کامران نے بتایا کہ انہوں نے پہلے مرحلے میں 2 ہزار کے قریب خواتین سے سروے کیا ہے اس سروے کی روشنی میں اعداد و شمارجمع کیے جارہے ہیں، دوسرے مرحلے میں تعلیمی ادارے، شاپنگ سنٹرز، بازار، تفریح گاہوں اور دفاتر کا سروے کیا جائے گا اور پھر اس موبائل ایپ کو عام کردیا جائے گا۔
ڈاکٹر فیصل کامران نے بتایا کہ اس موبائل ایپ کو پولیس کے ہیلپ لائن سینٹر سے بھی منسلک کیا جائے گا جس سے خواتین خود کو ہراساں کیے جانے کی فوری اطلاع کرسکیں گی جس کے بعد ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس اقدام کا مقصد خواتین کو خود مختار بنانا اور انہیں ہراساں کیے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس پالیسی بنانا ہے۔
ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک طالبہ اقصٰی کا کہنا تھا کہ انہیں سب سے زیادہ اس وقت خوف اور غیر محفوظ ہونے کا احساس ہوتا ہے جب وہ اسٹاپ پر اکیلے گاڑی کے انتظار میں کھڑی ہوں۔ ایک اور طالبہ نے کہا کہ کئی مرد انہیں گھور کر دیکھتے ہیں، عجیب و غریب جملے بولتے ہیں، قریب آنے اور چھونے کی کوشش کرتے ہیں ہم مجبور ہوتی ہیں کسی کو ایسی گھٹیا حرکت کے بارے میں بتا بھی نہیں سکتیں۔