عمران خان نے 20 پارٹی ارکان اسمبلی نکال کر تاریخ کا نیا باب رقم کر دیا
عمران خان کے اس جارحانہ اقدام کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی ٹکٹ لینے کے امیدواروں کوبھی یہ واضح پیغام مل گیا ہے۔
عمران خان نے اپنی پارٹی کے 20 اراکین صوبائی اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد پر نکال کر تاریخ میں ایک نیا باب رقم کر دیا۔
پاکستان کے سیاسی سرکس میں سیاسی گھوڑوں کی خریدو فروخت کا آغاز 1985 ء میں اس وقت ہوا جب نواز شریف نے فاروق لغاری کے مقابلے میں وزارت اعلیٰ پنجاب کا انتخاب جیتنے کا فیصلہ کیا۔
شریف خاندان کے نہایت قریبی بیوروکریٹ اورسابق چیف سیکرٹری پنجاب مہر جیون خان نے اپنی کتاب''جیون دھارا'' میں لکھا ہے کہ فاروق لغاری کو شکست دینے کیلئے نواز شریف نے ایک، ایک رکن اسمبلی کو پولیس کے اے ایس آئی اور تحصیلدار و پٹواری کی کئی نوکریاں فراہم کیں جنہوں نے یہ ''ملازمت کوٹہ'' لاکھوں روپے میں عوام کو فروخت کیا۔
1990 ء میں ایک مرتبہ پھر میاں صاحب کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کیلئے چھانگا مانگا اور مری کے ریسٹ ہاؤسز کااستعمال ملک کی سیاسی تاریخ کا سیاہ باب بن چکا ہے لیکن گزشتہ روز عمران خان نے اپنی پارٹی کے 20 اراکین صوبائی اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد پر نکال کر تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے جس نے کپتان کا اخلاقی و انتخابی مورال مزید بلند کردیا ہے۔
گزشتہ35 برس میں پاکستانی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کو فروغ ملا ہے۔ اس کی ابتدا تو مسلم لیگ(ن) کی جانب سے ہوئی لیکن بعد ازاں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ(ن) کا مقابلہ کرنے کیلئے خود بھی ہارس ٹریڈنگ کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا۔ دونوں جماعتوں نے طویل عرصہ تک سیاسی اصطبل کے برائے فروخت گھوڑوں کا خوب کاروبار کیا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک نیم سیاسی کاروباری فیملی نے سینیٹر بننے کیلئے فاٹا کے اراکین قومی اسمبلی کی خریداری میں نئے''نرخ'' متعارف کروائے اور یہ طریقہ اتنا مقبول ہوا کہ ہر پارٹی نے زیادہ سے زیادہ سینٹ نشستیں جیتنے کیلئے فاٹا اور کے پی کے کو ہی مرکز نگاہ بنا لیا۔ فاٹا میں زیادہ دلچسپی اور ''ریٹ'' زیادہ ہونے کی وجہ یہ رہی ہے کہ وہاں ایک سینٹ نشست کیلئے کم ارکان کو ''مینج'' کرنا پڑتا ہے۔
عمران خان نے سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ اور خریدو فروخت کی روک تھام کیلئے کئی سال پہلے حکومت کو تجاویز دی تھیں لیکن اس وقت نواز شریف نے ان سنی کردی تھی۔
گزشتہ روز مسلم لیگ(ن) کے کئی میڈیا منیجرز ٹی وی چینلز پر فرما رہے تھے کہ میاں نواز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے آئینی ترمیم متعارف کروائی، لیگی رہنماوں کی خوش فہمی اپنی جگہ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے جو قانون سازی کی تھی وہ بھی درحقیقت ایک طرح کی ہارس ٹریڈنگ ہی تھی اور اس کا دوسرا مقصد اپنے ''مشکوک'' ارکان کے ''فرار'' کو روکنا تھا ورنہ میاں شہباز شریف کی وزارت اعلی بچانے کیلئے ''یونی فیکیشن بلاک'' کی تشکیل کسے بھولی ہے۔
عمران خان کے بہت سے اقدامات اور خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کپتان نے پاکستان کی سیاست میں ''انہونی'' کو''ہونی'' میں تبدیل کیا ہے۔ عام انتخابات سے چند ہفتے یا چند مہینے پہلے اپنے 20 ارکان کو پارٹی سے نکال دینا ،یہ کام عمران خان ہی کر سکتا تھا۔
میاں نواز شریف اور مریم نواز ''ووٹ کو عزت دو'' کی جو تحریک چلا رہے ہیں وہ ان کے سیاسی عزائم کی آئینہ دار ہے لیکن عمران خان نے جن 20 ارکان کو نکالا ہے انہوں نے 2013 ء کے الیکشن میں مجموعی طور پر 2 لاکھ80 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے یعنی گزشتہ روز ان 2 لاکھ80 ہزار ووٹوں کی عزت بحال ہوئی ہے۔
عمران خان کے اس جارحانہ اقدام کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی ٹکٹ لینے کے امیدواروں کو بھی یہ واضح پیغام مل گیا ہے کہ کپتان نہ تو بلیک میل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کتابوں میں غداروں کیلئے معافی یا نرمی کی گنجائش ہے۔
پاکستان کے سیاسی سرکس میں سیاسی گھوڑوں کی خریدو فروخت کا آغاز 1985 ء میں اس وقت ہوا جب نواز شریف نے فاروق لغاری کے مقابلے میں وزارت اعلیٰ پنجاب کا انتخاب جیتنے کا فیصلہ کیا۔
شریف خاندان کے نہایت قریبی بیوروکریٹ اورسابق چیف سیکرٹری پنجاب مہر جیون خان نے اپنی کتاب''جیون دھارا'' میں لکھا ہے کہ فاروق لغاری کو شکست دینے کیلئے نواز شریف نے ایک، ایک رکن اسمبلی کو پولیس کے اے ایس آئی اور تحصیلدار و پٹواری کی کئی نوکریاں فراہم کیں جنہوں نے یہ ''ملازمت کوٹہ'' لاکھوں روپے میں عوام کو فروخت کیا۔
1990 ء میں ایک مرتبہ پھر میاں صاحب کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کیلئے چھانگا مانگا اور مری کے ریسٹ ہاؤسز کااستعمال ملک کی سیاسی تاریخ کا سیاہ باب بن چکا ہے لیکن گزشتہ روز عمران خان نے اپنی پارٹی کے 20 اراکین صوبائی اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد پر نکال کر تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے جس نے کپتان کا اخلاقی و انتخابی مورال مزید بلند کردیا ہے۔
گزشتہ35 برس میں پاکستانی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کو فروغ ملا ہے۔ اس کی ابتدا تو مسلم لیگ(ن) کی جانب سے ہوئی لیکن بعد ازاں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ(ن) کا مقابلہ کرنے کیلئے خود بھی ہارس ٹریڈنگ کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا۔ دونوں جماعتوں نے طویل عرصہ تک سیاسی اصطبل کے برائے فروخت گھوڑوں کا خوب کاروبار کیا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک نیم سیاسی کاروباری فیملی نے سینیٹر بننے کیلئے فاٹا کے اراکین قومی اسمبلی کی خریداری میں نئے''نرخ'' متعارف کروائے اور یہ طریقہ اتنا مقبول ہوا کہ ہر پارٹی نے زیادہ سے زیادہ سینٹ نشستیں جیتنے کیلئے فاٹا اور کے پی کے کو ہی مرکز نگاہ بنا لیا۔ فاٹا میں زیادہ دلچسپی اور ''ریٹ'' زیادہ ہونے کی وجہ یہ رہی ہے کہ وہاں ایک سینٹ نشست کیلئے کم ارکان کو ''مینج'' کرنا پڑتا ہے۔
عمران خان نے سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ اور خریدو فروخت کی روک تھام کیلئے کئی سال پہلے حکومت کو تجاویز دی تھیں لیکن اس وقت نواز شریف نے ان سنی کردی تھی۔
گزشتہ روز مسلم لیگ(ن) کے کئی میڈیا منیجرز ٹی وی چینلز پر فرما رہے تھے کہ میاں نواز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے آئینی ترمیم متعارف کروائی، لیگی رہنماوں کی خوش فہمی اپنی جگہ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے جو قانون سازی کی تھی وہ بھی درحقیقت ایک طرح کی ہارس ٹریڈنگ ہی تھی اور اس کا دوسرا مقصد اپنے ''مشکوک'' ارکان کے ''فرار'' کو روکنا تھا ورنہ میاں شہباز شریف کی وزارت اعلی بچانے کیلئے ''یونی فیکیشن بلاک'' کی تشکیل کسے بھولی ہے۔
عمران خان کے بہت سے اقدامات اور خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کپتان نے پاکستان کی سیاست میں ''انہونی'' کو''ہونی'' میں تبدیل کیا ہے۔ عام انتخابات سے چند ہفتے یا چند مہینے پہلے اپنے 20 ارکان کو پارٹی سے نکال دینا ،یہ کام عمران خان ہی کر سکتا تھا۔
میاں نواز شریف اور مریم نواز ''ووٹ کو عزت دو'' کی جو تحریک چلا رہے ہیں وہ ان کے سیاسی عزائم کی آئینہ دار ہے لیکن عمران خان نے جن 20 ارکان کو نکالا ہے انہوں نے 2013 ء کے الیکشن میں مجموعی طور پر 2 لاکھ80 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے یعنی گزشتہ روز ان 2 لاکھ80 ہزار ووٹوں کی عزت بحال ہوئی ہے۔
عمران خان کے اس جارحانہ اقدام کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی ٹکٹ لینے کے امیدواروں کو بھی یہ واضح پیغام مل گیا ہے کہ کپتان نہ تو بلیک میل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کتابوں میں غداروں کیلئے معافی یا نرمی کی گنجائش ہے۔