ٹھٹھہ NA237NA238 ہمیشہ پیپلز پارٹی اور شیرازی برادران ہی مدمقابل رہے
ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 238 سجاول میں بھی ہمیشہ پیپلز پارٹی اور شیرازی برادران مدمقابل آتے رہے ہیں۔
ٹھٹھہ ضلع میں قومی اسمبلی کی دو اور سندھ اسمبلی کی پانچ نشستیں ہیں۔
یہاں سے قومی اسمبلی کی نشستیں این اے 237 اوراین اے 238 جبکہ سندھ اسمبلی کی پی ایس 84 ٹھٹھہ، پی ایس85 میرپور ساکرو، پی ایس 86 سجاول، پی ایس 87 جاتی اور پی ایس 88 گھوڑا باڑی شامل ہیں۔ان حلقوں میں کئی برسوں سے شیرازی برادران اور پیپلز پارٹی کے امیدوار ایک دوسرے کے مقابل آتے رہتے ہیں۔
2002 میں این اے دو سو37 پر الیکشن میں چار امیدواروں کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع تھی۔ ان امیدواروں میں مسلم لیگ ق کے سید ایاز شاہ شیرازی، پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر واحد سومرو، ایم کیو ایم کے سید مہر علی شاہ اور متحدہ مجلس عمل کے مولوی محمد الیاس شامل تھے، لیکن الیکشن میں مسلم لیگ ق کے سید ایاز علی شاہ شیرازی 57 ہزار 193 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے واحد سومرو نے53 ہزار 616 ووٹ لیے تھے۔ تیسرے نمبر پر ایم کیو ایم کے سید مہر علی شاہ ایڈوکیٹ نے تین ہزار 606 ووٹ لیے۔
2008کے الیکشن میں سید ریاض شاہ شیرازی کو مسلم لیگ ق کا ٹکٹ ملا اور ایک بار پھر شیرازی برادران اور پیپلز پارٹی میدان میں اترے اور پی پی پی کے ڈاکٹر عبدالواحد سومرو نے 85 ہزار138 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جب کہ ان کے مقابلے میں شیرازی برادران اور مسلم لیگ ق کے سید ریاض شاہ 56ہزار 52 ووٹ حاصل کر سکے۔ ٹھٹھہ کے حلقہ پی ایس84 پر بھی 2002کے الیکشن میں شیرازی برادران اور پیپلز پارٹی کے امیدوار الیکشن میں ایک دوسرے سے ٹکرائے۔
مسلم لیگ ق نے شیرازی برادران کے سید منظور حسین شاہ کو ٹکٹ دیا، جبکہ ان کے مدمقابل پی پی کے سینیئر رہنما بابو غلام حسین میمن آئے، اس مقابلے کو بہت سخت قرار دیا جا رہا تھا اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی، کیونکہ قاف لیگ کے سید منظور حسین شاہ27ہزار 939 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ پیپلز پارٹی کے بابو غلام حسین میمن نے22 ہزار148 ووٹ حاصل کیے ۔اسی طرح 2008کے الیکشن میں یہ حلقہ ایک بار پھر لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنا رہا، ق لیگ نے اس حلقہ سے شیرازی برادران کے سید فیاض شاہ شیرازی کو ٹکٹ دیا اور پی پی پی کے عبدالجلیل میمن مدمقابل آئے اور پھر عبدالجلیل میمن38 ہزار 768 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے، جب کہ قاف لیگ کے سید فیاض شاہ شیرازی 26 ہزار 276 ووٹ حاصل کر سکے۔
پی پی کے عبدالجلیل میمن تین سال بعد ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور ضمنی الیکشن میں اس سیٹ پر مرحوم کے بھائی صادق علی میمن بلا مقابلہ کامیاب ہوئے، جس کے بعد پی پی پی نے انہیں صوبائی وزیر بھی بنایا۔پی ایس 85 میرپورساکرو پر بھی شیرازی برادران اور پیپلز پارٹی مدمقابل رہے، 2002 میں یہاں پر الیکشن سے قبل قاف لیگ کے امیدوار کی بھاری اکثریت سے کامیابی کی پیشگوئیاں کی جا رہی تھیں، مگر یہاں سے پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو 17 ہزار206 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائیں جبکہ شیرازی برادران کے سید ایاز علی شاہ شیرازی قاف لیگ کے ٹکٹ سے 15 ہزار 26 ووٹ حاصل کر پائے۔
اس حلقہ سے کامیاب ہونے والی سسی پلیجو نے اپنی کامیابی کی خوشی میں ہزاروں افراد میں مٹھائی تقسیم کی۔ اس حلقہ پر 2008 کے الیکشن میں بھی پی پی پی اور شیرازی برادران کے مدمقابل کوئی اور امیدوار نہیں آ سکا اور پی پی پی اور شیرازی برادران کے درمیان ہی مقابلہ ہوا۔ اس بار قاف لیگ نے شیرازی برادران کے سید امیر حیدر شاہ شیرازی کو ٹکٹ دیا، جن کا مقابلہ پی پی پی کی سسی پلیجو سے ہوا اور ایک بار پھر سسی پلیجو کامیاب قرار پائیں، جنہوں نے28 ہزار 915 ووٹ حاصل کیے، جب کہ شیرازی برادران کے سید امیر حیدر شاہ صرف 16 ہزار 990 ووٹ لے پائے، پی پی نے حکومت قائم کرنے کے بعد سسی پلیجو کو وزارت بھی دی۔
ٹھٹھہ کے حلقہ پی ایس 88 گھوڑا باڑی سے2002کے الیکشن میں پی پی پی اور شیرازی برادران ہی مدمقابل ہوئے۔ قاف لیگ نے سید کریم ڈنو شاہ کو ٹکٹ دیا، جو 15 ہزار 903 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ پی پی پی کے محمد عثمان جلبانی13 ہزار726 ووٹ حاصل کر سکے۔ 2008 کے الیکشن میں اسی حلقہ سے پی پی پی نے عثمان جلبانی کو ٹکٹ دیا، جو 19 ہزار514ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ ق لیگ کے ٹکٹ پر شیرازی برادران کے کریم ڈنو شاہ شیرازی نے15 ہزار 390 ووٹ حاصل کیے۔
ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 238 سجاول میں بھی ہمیشہ پیپلز پارٹی اور شیرازی برادران مدمقابل آتے رہے ہیں، 2002 کے الیکشن میں شیرازی برادری نے اپنے امیدوار محمد علی ملکانی کو مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر پیپلز پارٹی کے امیدوار ارباب وزیر میمن کے سامنے لا کھڑا کیا اور محمد علی ملکانی نے 70 ہزار 233 ووٹ لے کر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، جبکہ پی پی پی کے امیدوار ارباب وزیر میمن کو 40 ہزار722 ووٹ ملے۔
2008 کے الیکشن میں ایک بار پھر شیرازی برادران نے قاف لیگ کی سیٹ پر اپنے امیدوار سید ایاز علی شاہ شیرازی کو پی پی پی کے امیدوار ارباب وزیر میمن کے مقابل کھڑا کیا اور سید ایاز شاہ شیرازی نے 76ہزار812 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی، جبکہ ارباب وزیر میمن کو62 ہزار 175 ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس86 سجاول سے2002 میں شیرازی برادری کے سید ایاز شاہ شیرازی نے قاف لیگ کے ٹکٹ پر 34 ہزار 714 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، جبکہ پی پی پی کے شمس الدین میمن نے 21 ہزار 408 ووٹ حاصل کیے۔
2008 کے الیکشن میں شیرازی برادری کے شاہ حسین شاہ شیرازی نے 40 ہزار 918 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی، یہاں سے پی پی پی کے سید مسعود مصطفیٰ شاہ 27 ہزار 890 ووٹ حاصل کر سکے۔ پی ایس87 جاتی سے2002کے الیکشن میں شیرازی برادران نے ق لیگ کے ٹکٹ پر محمد عثمان ملکانی کو میدان میں اتارا، جنہوں نے31 ہزار 327 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ پی پی پی کے پیر غلام رحمانی جیلانی صرف 19 ہزار 433 ووٹ حاصل کر سکے۔
2008 کے الیکشن میں پی پی پی نے غلام قادر ملکانی کی صورت میں ایک مضبوط امیدوار میدان میں اتارا، لیکن شیرازی برادری نے ملکانی برادری کے ہی محمد علی ملکانی کو یہاں سے الیکشن لڑا دیا، دونوں جانب سے ملکانی برادری کے امیدوار ہونے کے باعث تمام لوگوں کی نظریں اس حلقہ پر تھیں اور یہاں مقابلہ بھی سخت ہوا۔ نتائج آئے تو قاف لیگ کے امیدوار محمد علی ملکانی 33 ہزار 388 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائے، جبکہ پی پی پی کے امیدوار 32 ہزار 198 ووٹ حاصل کر سکے۔
اب رواں سال الیکشن کا اعلان ہوتے ہی ٹھٹھہ میں ایک بار پھر سیاسی سرگرمیاں زور پکڑ گئی ہیں اور اس الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کئی پارٹیوں نے اپنے امیدوار میدان میں کھڑے کر دیئے ہیں، مگر اب سے قبل ہر الیکشن میں ایک دوسرے کے مدمقابل آنے والی پارٹیوں قاف لیگ اور پیپلز پارٹی میں اتحاد ہونے کے بعد شیرازی برادران پہلے ق لیگ سے خفا ہوئے اورپیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔
یہ شمولیت شیرازی برادران کے سربراہ سید اعجاز علی شاہ شیرازی اور شفقت حسین شاہ شیرازی نے سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے ملاقات کے بعد کی لیکن اس شمولیت میں سب سے اہم کردار صدر مملکت کے ہمشیرہ فریال تالپور اور منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی نے انجام دیا حالانکہ شیرازی برادری کی پی پی پی میں شمولیت کی پی پی پی ضلع ٹھٹھہ کے رہنماؤں نے بھی سخت مخالفت کی اور آہستہ آہستہ پی پی پی میں پھوٹ پڑتی نظر آنے لگی اور ضلعی قیادت نے اس فیصلے پر اپنی اعلیٰ قیادت پر بھی سخت تنقید کی، مگر اوپر کے فیصلے کی وجہ سے سب خاموش ہو گئے۔
الیکشن 2013 میں پی پی پی کی اعلیٰ قیادت نے شیرازی برادران کو ٹھٹھہ کی پی ایس 84، پی ایس86سجاول، پی ایس 87 جاتی اور قومی اسمبلی کی نشست 238دے دیں جس پر پی پی پی ضلع ٹھٹھہ کے صدر ارباب وزیر میمن نے اپنے پارٹی عہدے سے استعفی دے دیا اور وزیر اعلیٰ سندھ سمیت پارٹی قیادت پر سخت تنقید کی۔کیونکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے ٹھٹھہ سے صرف ایک ہی نشست پی ایس85سے سسی پلیجو کو نامزد کیا، جبکہ پی ایس 88 گھوڑا باڑی سے صدر زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی میدان میں ہیں جبکہ این اے 237 سے صادق علی میمن کو نامزد کر دیا گیا جبکہ این اے 238 پر ارباب رمیز الدین کو نامزد کردیا گیا ہے۔
پی ایس88گھوڑا باڑی پراویس مظفرٹپی کا مقابلہ کرنے کے لیے فنکشنل لیگ، ن لیگ، ایم کیو ایم سمیت کچھ ایسے آزاد امیدوار میدان میں آ گئے ہیں، جن کا اپنا ووٹ بینک بھی ہے، اس حلقہ پر تمام لوگوں نگاہیں گڑی ہوئی ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی پی پی کو اس سیٹ سے ناکامی ہو، مگر ابھی تک اس حلقہ کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکا۔
الیکشن 2013 گیارہ مئی کو ہونے ہیں، جس کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئی ہیں اور کاغذات نامزدگی فارم بھی دو تین امیدواروں کے علاوہ تقریباً تمام امیدواروں کے بحال ہو چکے ہیں، مگر پیپلز پارٹی کو ایک نقصان اٹھانا پڑا، جب کہ پی پی پی کے امیدوار و سابق صوبائی وزیر صادق میمن کے این اے 237 کے کاغذات نامزدگی ان کی دُہری شہریت کے باعث مسترد کر دیئے گئے۔ حلقہ 237 پر ٹکٹ نہ ملنے پر پی پی پی کے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عبدالواحد سومرو اور بابو غلام حسین نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی شیرازی برادران نے بھی پارٹی چھوڑ کر آزادحیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کردیاہے۔ 2013کے الیکشن میں شیرازی برادران نے ہر سیٹ پر اور پی پی پی نے بھی شیرازی برادران کو ملنے والی تمام سیٹوں پر اپنے آزاد امیدوار کھڑے کیے ہیں، جس کی وجہ سے پی پی پی اور شیرازی برادران میں اختلافات پیداہوگئے تھے، مگر شیرازی برادران کا اپنا ووٹ بینک ہے۔
شیرازی برادران کی پی پی پی میں شمولیت کے بعد یہی کہا جا رہا تھا کہ ٹھٹھہ کی دو قومی اور پانچ صوبائی نشستوں پر پی پی پی کے امیدوار ہی میدان ماریں گے مگر 2013کے الیکشن میں کئی پارٹیوں کے اور آزاد امیدواروں کے میدان میں آنے سے کوئی بھی امیدوار بھاری اکثریت سے نہیں جیت سکے گا، ٹھٹھہ کے حلقہ این اے 237 پر پی پی پی نے غلام قادر ملکانی کو نامزد کیا تھا جو شیرازی برادران کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی چھوڑ کر اُن کے گروپ سے مل گئے ہیں، مسلم لیگ ن کی ماروی میمن اور آزاد امیدوار محمد حسن جاکھرو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔
پی ایس 84 ٹھٹھہ سے پی پی پی کے سید اعجاز شاہ شیرازی، مسلم لیگ ن کے سید شہزاد شاہ حسینی اور پی پی پی کو چھوڑنے والے پی پی پی ضلع ٹھٹھہ کے سابق جنرل سیکریٹری پیر غلام رحمانی جیلانی میں مقابلہ کی توقع کی جا رہی ہے۔ پی ایس 85 میرپور ساکرو جہاں سے ہمیشہ پی پی پی کی فتح ہوتی ہے، اس بار اس سیٹ پر سسی پلیجو کے سامنے جام اویس بجار مقابلے پر کھڑے ہوئے ہیں۔ پی ایس 88 گھوڑا باڑی پر پیپلز پارٹی کے اویس مظفر ٹپی اور مسلم لیگ نون کی ماروی میمن کا ٹکراؤ ہوگا، اس کے علاوہ متحدہ کے غلام محمد خشک بھی مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہاں خشک برادری کا بھی کافی ووٹ بینک ہے۔
2013 کے الیکشن کے لیے ٹھٹھہ ضلع کی نشستوں کے لیے چھ سو اکتالیس پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں، جب کہ ضلع میں رجسٹرڈ ووٹوں کی مجموعی تعداد 6 لاکھ 63 ہزار 543 ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاسی بے وفائیاں ضلع کے متوقع نتائج میں بڑے اپ سیٹس کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔
یہاں سے قومی اسمبلی کی نشستیں این اے 237 اوراین اے 238 جبکہ سندھ اسمبلی کی پی ایس 84 ٹھٹھہ، پی ایس85 میرپور ساکرو، پی ایس 86 سجاول، پی ایس 87 جاتی اور پی ایس 88 گھوڑا باڑی شامل ہیں۔ان حلقوں میں کئی برسوں سے شیرازی برادران اور پیپلز پارٹی کے امیدوار ایک دوسرے کے مقابل آتے رہتے ہیں۔
2002 میں این اے دو سو37 پر الیکشن میں چار امیدواروں کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع تھی۔ ان امیدواروں میں مسلم لیگ ق کے سید ایاز شاہ شیرازی، پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر واحد سومرو، ایم کیو ایم کے سید مہر علی شاہ اور متحدہ مجلس عمل کے مولوی محمد الیاس شامل تھے، لیکن الیکشن میں مسلم لیگ ق کے سید ایاز علی شاہ شیرازی 57 ہزار 193 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے واحد سومرو نے53 ہزار 616 ووٹ لیے تھے۔ تیسرے نمبر پر ایم کیو ایم کے سید مہر علی شاہ ایڈوکیٹ نے تین ہزار 606 ووٹ لیے۔
2008کے الیکشن میں سید ریاض شاہ شیرازی کو مسلم لیگ ق کا ٹکٹ ملا اور ایک بار پھر شیرازی برادران اور پیپلز پارٹی میدان میں اترے اور پی پی پی کے ڈاکٹر عبدالواحد سومرو نے 85 ہزار138 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جب کہ ان کے مقابلے میں شیرازی برادران اور مسلم لیگ ق کے سید ریاض شاہ 56ہزار 52 ووٹ حاصل کر سکے۔ ٹھٹھہ کے حلقہ پی ایس84 پر بھی 2002کے الیکشن میں شیرازی برادران اور پیپلز پارٹی کے امیدوار الیکشن میں ایک دوسرے سے ٹکرائے۔
مسلم لیگ ق نے شیرازی برادران کے سید منظور حسین شاہ کو ٹکٹ دیا، جبکہ ان کے مدمقابل پی پی کے سینیئر رہنما بابو غلام حسین میمن آئے، اس مقابلے کو بہت سخت قرار دیا جا رہا تھا اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی، کیونکہ قاف لیگ کے سید منظور حسین شاہ27ہزار 939 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ پیپلز پارٹی کے بابو غلام حسین میمن نے22 ہزار148 ووٹ حاصل کیے ۔اسی طرح 2008کے الیکشن میں یہ حلقہ ایک بار پھر لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنا رہا، ق لیگ نے اس حلقہ سے شیرازی برادران کے سید فیاض شاہ شیرازی کو ٹکٹ دیا اور پی پی پی کے عبدالجلیل میمن مدمقابل آئے اور پھر عبدالجلیل میمن38 ہزار 768 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے، جب کہ قاف لیگ کے سید فیاض شاہ شیرازی 26 ہزار 276 ووٹ حاصل کر سکے۔
پی پی کے عبدالجلیل میمن تین سال بعد ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور ضمنی الیکشن میں اس سیٹ پر مرحوم کے بھائی صادق علی میمن بلا مقابلہ کامیاب ہوئے، جس کے بعد پی پی پی نے انہیں صوبائی وزیر بھی بنایا۔پی ایس 85 میرپورساکرو پر بھی شیرازی برادران اور پیپلز پارٹی مدمقابل رہے، 2002 میں یہاں پر الیکشن سے قبل قاف لیگ کے امیدوار کی بھاری اکثریت سے کامیابی کی پیشگوئیاں کی جا رہی تھیں، مگر یہاں سے پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو 17 ہزار206 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائیں جبکہ شیرازی برادران کے سید ایاز علی شاہ شیرازی قاف لیگ کے ٹکٹ سے 15 ہزار 26 ووٹ حاصل کر پائے۔
اس حلقہ سے کامیاب ہونے والی سسی پلیجو نے اپنی کامیابی کی خوشی میں ہزاروں افراد میں مٹھائی تقسیم کی۔ اس حلقہ پر 2008 کے الیکشن میں بھی پی پی پی اور شیرازی برادران کے مدمقابل کوئی اور امیدوار نہیں آ سکا اور پی پی پی اور شیرازی برادران کے درمیان ہی مقابلہ ہوا۔ اس بار قاف لیگ نے شیرازی برادران کے سید امیر حیدر شاہ شیرازی کو ٹکٹ دیا، جن کا مقابلہ پی پی پی کی سسی پلیجو سے ہوا اور ایک بار پھر سسی پلیجو کامیاب قرار پائیں، جنہوں نے28 ہزار 915 ووٹ حاصل کیے، جب کہ شیرازی برادران کے سید امیر حیدر شاہ صرف 16 ہزار 990 ووٹ لے پائے، پی پی نے حکومت قائم کرنے کے بعد سسی پلیجو کو وزارت بھی دی۔
ٹھٹھہ کے حلقہ پی ایس 88 گھوڑا باڑی سے2002کے الیکشن میں پی پی پی اور شیرازی برادران ہی مدمقابل ہوئے۔ قاف لیگ نے سید کریم ڈنو شاہ کو ٹکٹ دیا، جو 15 ہزار 903 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ پی پی پی کے محمد عثمان جلبانی13 ہزار726 ووٹ حاصل کر سکے۔ 2008 کے الیکشن میں اسی حلقہ سے پی پی پی نے عثمان جلبانی کو ٹکٹ دیا، جو 19 ہزار514ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ ق لیگ کے ٹکٹ پر شیرازی برادران کے کریم ڈنو شاہ شیرازی نے15 ہزار 390 ووٹ حاصل کیے۔
ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 238 سجاول میں بھی ہمیشہ پیپلز پارٹی اور شیرازی برادران مدمقابل آتے رہے ہیں، 2002 کے الیکشن میں شیرازی برادری نے اپنے امیدوار محمد علی ملکانی کو مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر پیپلز پارٹی کے امیدوار ارباب وزیر میمن کے سامنے لا کھڑا کیا اور محمد علی ملکانی نے 70 ہزار 233 ووٹ لے کر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، جبکہ پی پی پی کے امیدوار ارباب وزیر میمن کو 40 ہزار722 ووٹ ملے۔
2008 کے الیکشن میں ایک بار پھر شیرازی برادران نے قاف لیگ کی سیٹ پر اپنے امیدوار سید ایاز علی شاہ شیرازی کو پی پی پی کے امیدوار ارباب وزیر میمن کے مقابل کھڑا کیا اور سید ایاز شاہ شیرازی نے 76ہزار812 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی، جبکہ ارباب وزیر میمن کو62 ہزار 175 ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس86 سجاول سے2002 میں شیرازی برادری کے سید ایاز شاہ شیرازی نے قاف لیگ کے ٹکٹ پر 34 ہزار 714 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، جبکہ پی پی پی کے شمس الدین میمن نے 21 ہزار 408 ووٹ حاصل کیے۔
2008 کے الیکشن میں شیرازی برادری کے شاہ حسین شاہ شیرازی نے 40 ہزار 918 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی، یہاں سے پی پی پی کے سید مسعود مصطفیٰ شاہ 27 ہزار 890 ووٹ حاصل کر سکے۔ پی ایس87 جاتی سے2002کے الیکشن میں شیرازی برادران نے ق لیگ کے ٹکٹ پر محمد عثمان ملکانی کو میدان میں اتارا، جنہوں نے31 ہزار 327 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ پی پی پی کے پیر غلام رحمانی جیلانی صرف 19 ہزار 433 ووٹ حاصل کر سکے۔
2008 کے الیکشن میں پی پی پی نے غلام قادر ملکانی کی صورت میں ایک مضبوط امیدوار میدان میں اتارا، لیکن شیرازی برادری نے ملکانی برادری کے ہی محمد علی ملکانی کو یہاں سے الیکشن لڑا دیا، دونوں جانب سے ملکانی برادری کے امیدوار ہونے کے باعث تمام لوگوں کی نظریں اس حلقہ پر تھیں اور یہاں مقابلہ بھی سخت ہوا۔ نتائج آئے تو قاف لیگ کے امیدوار محمد علی ملکانی 33 ہزار 388 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائے، جبکہ پی پی پی کے امیدوار 32 ہزار 198 ووٹ حاصل کر سکے۔
اب رواں سال الیکشن کا اعلان ہوتے ہی ٹھٹھہ میں ایک بار پھر سیاسی سرگرمیاں زور پکڑ گئی ہیں اور اس الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کئی پارٹیوں نے اپنے امیدوار میدان میں کھڑے کر دیئے ہیں، مگر اب سے قبل ہر الیکشن میں ایک دوسرے کے مدمقابل آنے والی پارٹیوں قاف لیگ اور پیپلز پارٹی میں اتحاد ہونے کے بعد شیرازی برادران پہلے ق لیگ سے خفا ہوئے اورپیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔
یہ شمولیت شیرازی برادران کے سربراہ سید اعجاز علی شاہ شیرازی اور شفقت حسین شاہ شیرازی نے سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے ملاقات کے بعد کی لیکن اس شمولیت میں سب سے اہم کردار صدر مملکت کے ہمشیرہ فریال تالپور اور منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی نے انجام دیا حالانکہ شیرازی برادری کی پی پی پی میں شمولیت کی پی پی پی ضلع ٹھٹھہ کے رہنماؤں نے بھی سخت مخالفت کی اور آہستہ آہستہ پی پی پی میں پھوٹ پڑتی نظر آنے لگی اور ضلعی قیادت نے اس فیصلے پر اپنی اعلیٰ قیادت پر بھی سخت تنقید کی، مگر اوپر کے فیصلے کی وجہ سے سب خاموش ہو گئے۔
الیکشن 2013 میں پی پی پی کی اعلیٰ قیادت نے شیرازی برادران کو ٹھٹھہ کی پی ایس 84، پی ایس86سجاول، پی ایس 87 جاتی اور قومی اسمبلی کی نشست 238دے دیں جس پر پی پی پی ضلع ٹھٹھہ کے صدر ارباب وزیر میمن نے اپنے پارٹی عہدے سے استعفی دے دیا اور وزیر اعلیٰ سندھ سمیت پارٹی قیادت پر سخت تنقید کی۔کیونکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے ٹھٹھہ سے صرف ایک ہی نشست پی ایس85سے سسی پلیجو کو نامزد کیا، جبکہ پی ایس 88 گھوڑا باڑی سے صدر زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی میدان میں ہیں جبکہ این اے 237 سے صادق علی میمن کو نامزد کر دیا گیا جبکہ این اے 238 پر ارباب رمیز الدین کو نامزد کردیا گیا ہے۔
پی ایس88گھوڑا باڑی پراویس مظفرٹپی کا مقابلہ کرنے کے لیے فنکشنل لیگ، ن لیگ، ایم کیو ایم سمیت کچھ ایسے آزاد امیدوار میدان میں آ گئے ہیں، جن کا اپنا ووٹ بینک بھی ہے، اس حلقہ پر تمام لوگوں نگاہیں گڑی ہوئی ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی پی پی کو اس سیٹ سے ناکامی ہو، مگر ابھی تک اس حلقہ کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکا۔
الیکشن 2013 گیارہ مئی کو ہونے ہیں، جس کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئی ہیں اور کاغذات نامزدگی فارم بھی دو تین امیدواروں کے علاوہ تقریباً تمام امیدواروں کے بحال ہو چکے ہیں، مگر پیپلز پارٹی کو ایک نقصان اٹھانا پڑا، جب کہ پی پی پی کے امیدوار و سابق صوبائی وزیر صادق میمن کے این اے 237 کے کاغذات نامزدگی ان کی دُہری شہریت کے باعث مسترد کر دیئے گئے۔ حلقہ 237 پر ٹکٹ نہ ملنے پر پی پی پی کے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عبدالواحد سومرو اور بابو غلام حسین نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی شیرازی برادران نے بھی پارٹی چھوڑ کر آزادحیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کردیاہے۔ 2013کے الیکشن میں شیرازی برادران نے ہر سیٹ پر اور پی پی پی نے بھی شیرازی برادران کو ملنے والی تمام سیٹوں پر اپنے آزاد امیدوار کھڑے کیے ہیں، جس کی وجہ سے پی پی پی اور شیرازی برادران میں اختلافات پیداہوگئے تھے، مگر شیرازی برادران کا اپنا ووٹ بینک ہے۔
شیرازی برادران کی پی پی پی میں شمولیت کے بعد یہی کہا جا رہا تھا کہ ٹھٹھہ کی دو قومی اور پانچ صوبائی نشستوں پر پی پی پی کے امیدوار ہی میدان ماریں گے مگر 2013کے الیکشن میں کئی پارٹیوں کے اور آزاد امیدواروں کے میدان میں آنے سے کوئی بھی امیدوار بھاری اکثریت سے نہیں جیت سکے گا، ٹھٹھہ کے حلقہ این اے 237 پر پی پی پی نے غلام قادر ملکانی کو نامزد کیا تھا جو شیرازی برادران کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی چھوڑ کر اُن کے گروپ سے مل گئے ہیں، مسلم لیگ ن کی ماروی میمن اور آزاد امیدوار محمد حسن جاکھرو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔
پی ایس 84 ٹھٹھہ سے پی پی پی کے سید اعجاز شاہ شیرازی، مسلم لیگ ن کے سید شہزاد شاہ حسینی اور پی پی پی کو چھوڑنے والے پی پی پی ضلع ٹھٹھہ کے سابق جنرل سیکریٹری پیر غلام رحمانی جیلانی میں مقابلہ کی توقع کی جا رہی ہے۔ پی ایس 85 میرپور ساکرو جہاں سے ہمیشہ پی پی پی کی فتح ہوتی ہے، اس بار اس سیٹ پر سسی پلیجو کے سامنے جام اویس بجار مقابلے پر کھڑے ہوئے ہیں۔ پی ایس 88 گھوڑا باڑی پر پیپلز پارٹی کے اویس مظفر ٹپی اور مسلم لیگ نون کی ماروی میمن کا ٹکراؤ ہوگا، اس کے علاوہ متحدہ کے غلام محمد خشک بھی مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہاں خشک برادری کا بھی کافی ووٹ بینک ہے۔
2013 کے الیکشن کے لیے ٹھٹھہ ضلع کی نشستوں کے لیے چھ سو اکتالیس پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں، جب کہ ضلع میں رجسٹرڈ ووٹوں کی مجموعی تعداد 6 لاکھ 63 ہزار 543 ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاسی بے وفائیاں ضلع کے متوقع نتائج میں بڑے اپ سیٹس کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔