ڈھائی فیصد سے بھی کم
موجودہ بجٹ میں کم ازکم ڈھائی فیصد رقم تو تعلیم و صحت کے لیے رکھی جائے اور ملک میں صحت اور تعلیم کو اہمیت دی جائے۔
پاکستان جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کی تاریخ کا مرکب ہے اور جو جمہوری حکومتیں خود کو کہلاتی ہیں، تو اگر ان کا جمہوری عینک لگا کر معائنہ کیا جائے تو وہ بھی مجموعی طور پر عملاً اور مزاجاً بادشاہی ہے، کیونکہ جس ملک میں لنڈا کی مصنوعات ترقی یافتہ ممالک خصوصاً غریب عوام کے لیے بھیجتے ہیں، وہاں ایسی کاریں حکمران طبقہ اور ان کا اتحادی استعمال کر رہا ہے جو پاکستان پر بوجھ ہے۔
پاکستان کی زرمبادلہ کی پوزیشن سے حکمران خوب واقف ہیں جو ملک کو اس حد تک پست کرچکے ہیں کہ اب جب کہ قرضوں کو واپس دینا ہے تو اس کے لیے بھی امداد کا کاسہ گدائی پھیلانا ضروری ہے۔ کیونکہ ملک میں 15 سال سے زائد عرصے میں بھی بجلی کے بحران پر قابو نہ پایا جاسکا۔ اس لیے ایکسپورٹس گڈز میں اب کپاس اور دھاگوں کا ہی سلسلہ رہ گیا ہے جس سے گارمنٹس اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات یہاں تک کہ گارمنٹس بھی ایکسپورٹ نہیں کیے جاسکتے، لہٰذا ایکسپورٹ روبہ زوال ہے اور اگر صورتحال یوں ہی جاری رہی اور کاروباری حکمران عوام پر اپنی حکمرانی جاری رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو جلد یعنی تین ماہ میں ایک ڈالر ڈیڑھ سو کے قریب تر پہنچ سکتا ہے اور اگر حکمران باز نہ آئے اور اپنے انداز شاہانہ نہ بدلے تو ملک کا وجود خدانخواستہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اس پہلو کو سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان سے لیس نیٹو کے آٹھ نو ممالک کے ملا کر اتنے سامان حرب نہ تھے جتنے سوویت یونین کے پاس تھے۔ مگر روبل کے روبہ زوال ہونے نے سوویت یونین کو لخت لخت کردیا۔
لہٰذا معاشی طور پر پاکستان کی تعمیر سب سے بڑا جہاد ہے۔ اور حکمرانوں کی ناکہ بندی اور ان کے پاس معاشی آمدورفت کا حساب کتاب بے حد ضروری ہے۔ یہ بڑی بات ہے کہ خواص کا احتساب جاری ہے مگر اس کا دائرہ وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ مفلوک الحال عوام مدافعتی کردار ادا نہیں کرسکتے، کیونکہ ان کی روحانی قوت اسراف بے جا کرنے والوں نے صلب کرلی ہے۔
سوویت یونین کے پاس بے حد نیوکلیئر پاور تھی مگر گوربا چوف خسارے میں جانے والی ریاستوں کو خود نوک قلم سے آزادی کے پروانے پر دستخط کر رہے تھے۔ تاریخ کے یہ صفحات نسلوں کے لیے پروانہ ہدایت ہیں جب کہ ہمارے حکمران تو کاروباری میدان کے انمول کھلاڑی ہیں ان میں سے ایک ایسا کھلاڑی بھی ہے جس کے امدادی ادارے پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ خود لیڈروں کو امداد دیتا ہے مگر جب پاکستان میں پانچ سالہ بجٹ کا دور آتا ہے تو پھر ان لیڈروں کی کنجوسی قابل غور ہوتی ہے۔
اپنے بجٹ میں پاکستانی حکمرانوں کے تعلیم اور صحت کے بجٹ پر نظر کریں تو یہ کبھی بھی ڈھائی فیصد تک نہ پہنچ سکا جب کہ میرے مولا اور آقا محمدؐ نے رمضان المبارک میں اس شرح کا فرداً فرداً نفاذ کیا۔ مگر حیف ان اسلامی جمہوریہ کے حکمرانوں پر جو تعلیم اور صحت جیسی اہم چیزوں کو نہ صرف نظرانداز کرتے ہیں اور بجٹ میں ڈھائی فیصد بھی عوام پر خرچ کرنا تو کجا تعلیم اور صحت کی مد میں دنیا بھر میں کشکول گدائی پھیلاتے ہیں۔ یہ کشکول یورپی یونین، امریکا، عالمی بینک سے آتی ہے۔
ایک رپورٹ جو گزشتہ چند روز قبل اردو روزناموں میں شایع ہوچکی ہے، اس کے مطابق 355 ملین امریکی ڈالر کی امداد سندھ حکومت کو دی گئی۔ اس کے علاوہ گلوبل پارٹنر فار ایجوکیشن سے بھی خطیر رقوم عالمی اداروں سے دی گئیں مگر سندھ میں تعلیم کا برا حال ہے اور یہی کم و بیش پورے ملک کا حال ہے مگر سندھ کے عوام تعلیم کی مد میں زبردست کسمپرسی کا شکار ہیں۔ سندھ میں گلوبل پارٹنرز کی مد کی رقوم کہاں جاتی ہے کچھ معلوم نہیں، کیونکہ اسی رپورٹ کے تحت سندھ کے زیادہ تر اسکول پینے کے پانی اور ٹوائلٹ سے محروم ہیں اکثر کی چہار دیواری بھی نہیں اور چھتیں مخدوش ہیں۔ کیا ایسے اسکولوں کے ادارے کے ارباب اقتدار کو آسائشوں کی اجازت ہونی چاہیے۔
وہ دن قریب تر آنے کو ہے جب عدالتی اداروں کے بجائے عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور عوام کو منظم کرنے والا زیادہ عرصہ نہیں جلد منظم ہونے کو ہے۔ طلبا یونین جلد ایسے اقدام کی طرف دیکھنے کو ہیں۔ قبل اس کے کہ گورنمنٹ کالجوں کی چہار دیواری کا انہدام ہو، یہ منظم ہونے کو ہیں۔ چنگاریاں تو دکھائی دے رہی ہیں چشم بینا کی نظر درکار ہے۔ ورکرز پارٹی میں تو ہلکی حرکت کا احساس پیدا ہوا ہے مگر یہاں پر پارٹ ٹائم لیڈروں کی بہتات ہے۔ مزدور کسان پارٹیاں آپس کے انضمامی عمل میں مصروف ہیں۔
کراچی جو ایک زمانے میں تحریکوں کا منبع ہوتا تھا وہاں جعلی عوامی پارٹیوں کی ہلچل نمایاں ہے لیکن فی الحال کراچی میں کہیں بھی کوئی انقلابی لہر دکھائی نہیں دے رہی ہے، البتہ ابھی چھوٹے چھوٹے پیمانے پر ان کے یکجا ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی میں ایک انقلابی کتاب سورج پر کمند کی رونمائی کے بعد کئی چھوٹی چھوٹی میٹنگیں ہوئیں، مگر بڑا دھماکا ابھی تک نہیں سنا گیا، البتہ غریب اور خستہ حال پڑھے لکھے لوگ بڑی مشکلوں سے زندہ رہنے کے بجائے جدوجہد کے لیے تیار ہونے پر آمادہ نظر آتے ہیں، خصوصاً جو پندرہ بیس ہزار آمدنی والے مرد و زن ہیں اور پڑھے لکھے بھی ہیں مگر وہ اپنی اولاد کو پڑھانے کی سکت نہیں رکھتے، کسی طریقہ سے قرض ادھار کرکے جو زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔
عجیب اتفاق ہے کہ پرانی حکومتیں اپنی مدت پوری کرچکی ہیں، ڈیڑھ دو ماہ میں عبوری حکومت کا نقارہ بجنے کو ہے، دیکھیں اس درمیان پانچ سالہ بجٹ کون پیش کرے گا؟ کیونکہ موجودہ حکومت اپنے دن تو پورے کرچکی ہے لہٰذا اس کو آنے والی حکومت کا بجٹ پیش کرنے کا اختیار کیوں کر ہوگا؟ لہٰذا ایسی صورتحال میں کہ ہر پارٹی ایک دوسرے پر بڑی شدت سے حملہ آور ہے، نگراں حکومت کیسے بنائی جاسکتی ہے؟
اس لیے صورتحال اس طرف لے جا رہی ہے کہ عبوری حکومت چیف جسٹس کو ہی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر چیف جسٹس نے حکومت کے خدو خال نہ بنائے تو سیاسی کشمکش میں تصادم کی راہ سامنے رہ جاتی ہے اور ایک اور وزنی پہلو کہ جو بوجہ موجودہ حکومت نے عوام پر لادا ہے اس کے واپسی کے دن تو قریب تر آرہے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر آپ کو یاد ہو تو فرانس میں ایک زر واجب الادا پر ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں پاکستان بلیک لسٹ میں جانے سے بچ گیا تھا اور حکومت کو 3 ماہ کی مہلت ملی تھی مگر اس دوران تو حکومت کی روانگی ہے تو غالباً پاکستان اس کڑے امتحان سے غالباً ایک اور استثنیٰ سے باآسانی نکل جائے گا، مگر آنے والے وقت کے مطابق حتمی رائے نہیں دے سکتا۔
مگر میری یہ استدعا ضرور ہے کہ موجودہ بجٹ میں کم ازکم ڈھائی فیصد رقم تو تعلیم و صحت کے لیے رکھی جائے اور ملک میں صحت اور تعلیم کو اہمیت دی جائے ورنہ طوائف الملوکی کے پھیل جانے کا شدید اندیشہ ہے۔ سندھ حکومت کو محترمہ بینظیر بھٹو کی فکری اور روحانی طرز کو دیکھتے ہوئے تعلیم اور صحت کی مد پر توجہ کی ضرورت ہے بصورت دیگر سندھ سب سے زیادہ بدنظمی کا شکار ہوسکتا ہے۔
پاکستان کی زرمبادلہ کی پوزیشن سے حکمران خوب واقف ہیں جو ملک کو اس حد تک پست کرچکے ہیں کہ اب جب کہ قرضوں کو واپس دینا ہے تو اس کے لیے بھی امداد کا کاسہ گدائی پھیلانا ضروری ہے۔ کیونکہ ملک میں 15 سال سے زائد عرصے میں بھی بجلی کے بحران پر قابو نہ پایا جاسکا۔ اس لیے ایکسپورٹس گڈز میں اب کپاس اور دھاگوں کا ہی سلسلہ رہ گیا ہے جس سے گارمنٹس اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات یہاں تک کہ گارمنٹس بھی ایکسپورٹ نہیں کیے جاسکتے، لہٰذا ایکسپورٹ روبہ زوال ہے اور اگر صورتحال یوں ہی جاری رہی اور کاروباری حکمران عوام پر اپنی حکمرانی جاری رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو جلد یعنی تین ماہ میں ایک ڈالر ڈیڑھ سو کے قریب تر پہنچ سکتا ہے اور اگر حکمران باز نہ آئے اور اپنے انداز شاہانہ نہ بدلے تو ملک کا وجود خدانخواستہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اس پہلو کو سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان سے لیس نیٹو کے آٹھ نو ممالک کے ملا کر اتنے سامان حرب نہ تھے جتنے سوویت یونین کے پاس تھے۔ مگر روبل کے روبہ زوال ہونے نے سوویت یونین کو لخت لخت کردیا۔
لہٰذا معاشی طور پر پاکستان کی تعمیر سب سے بڑا جہاد ہے۔ اور حکمرانوں کی ناکہ بندی اور ان کے پاس معاشی آمدورفت کا حساب کتاب بے حد ضروری ہے۔ یہ بڑی بات ہے کہ خواص کا احتساب جاری ہے مگر اس کا دائرہ وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ مفلوک الحال عوام مدافعتی کردار ادا نہیں کرسکتے، کیونکہ ان کی روحانی قوت اسراف بے جا کرنے والوں نے صلب کرلی ہے۔
سوویت یونین کے پاس بے حد نیوکلیئر پاور تھی مگر گوربا چوف خسارے میں جانے والی ریاستوں کو خود نوک قلم سے آزادی کے پروانے پر دستخط کر رہے تھے۔ تاریخ کے یہ صفحات نسلوں کے لیے پروانہ ہدایت ہیں جب کہ ہمارے حکمران تو کاروباری میدان کے انمول کھلاڑی ہیں ان میں سے ایک ایسا کھلاڑی بھی ہے جس کے امدادی ادارے پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ خود لیڈروں کو امداد دیتا ہے مگر جب پاکستان میں پانچ سالہ بجٹ کا دور آتا ہے تو پھر ان لیڈروں کی کنجوسی قابل غور ہوتی ہے۔
اپنے بجٹ میں پاکستانی حکمرانوں کے تعلیم اور صحت کے بجٹ پر نظر کریں تو یہ کبھی بھی ڈھائی فیصد تک نہ پہنچ سکا جب کہ میرے مولا اور آقا محمدؐ نے رمضان المبارک میں اس شرح کا فرداً فرداً نفاذ کیا۔ مگر حیف ان اسلامی جمہوریہ کے حکمرانوں پر جو تعلیم اور صحت جیسی اہم چیزوں کو نہ صرف نظرانداز کرتے ہیں اور بجٹ میں ڈھائی فیصد بھی عوام پر خرچ کرنا تو کجا تعلیم اور صحت کی مد میں دنیا بھر میں کشکول گدائی پھیلاتے ہیں۔ یہ کشکول یورپی یونین، امریکا، عالمی بینک سے آتی ہے۔
ایک رپورٹ جو گزشتہ چند روز قبل اردو روزناموں میں شایع ہوچکی ہے، اس کے مطابق 355 ملین امریکی ڈالر کی امداد سندھ حکومت کو دی گئی۔ اس کے علاوہ گلوبل پارٹنر فار ایجوکیشن سے بھی خطیر رقوم عالمی اداروں سے دی گئیں مگر سندھ میں تعلیم کا برا حال ہے اور یہی کم و بیش پورے ملک کا حال ہے مگر سندھ کے عوام تعلیم کی مد میں زبردست کسمپرسی کا شکار ہیں۔ سندھ میں گلوبل پارٹنرز کی مد کی رقوم کہاں جاتی ہے کچھ معلوم نہیں، کیونکہ اسی رپورٹ کے تحت سندھ کے زیادہ تر اسکول پینے کے پانی اور ٹوائلٹ سے محروم ہیں اکثر کی چہار دیواری بھی نہیں اور چھتیں مخدوش ہیں۔ کیا ایسے اسکولوں کے ادارے کے ارباب اقتدار کو آسائشوں کی اجازت ہونی چاہیے۔
وہ دن قریب تر آنے کو ہے جب عدالتی اداروں کے بجائے عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور عوام کو منظم کرنے والا زیادہ عرصہ نہیں جلد منظم ہونے کو ہے۔ طلبا یونین جلد ایسے اقدام کی طرف دیکھنے کو ہیں۔ قبل اس کے کہ گورنمنٹ کالجوں کی چہار دیواری کا انہدام ہو، یہ منظم ہونے کو ہیں۔ چنگاریاں تو دکھائی دے رہی ہیں چشم بینا کی نظر درکار ہے۔ ورکرز پارٹی میں تو ہلکی حرکت کا احساس پیدا ہوا ہے مگر یہاں پر پارٹ ٹائم لیڈروں کی بہتات ہے۔ مزدور کسان پارٹیاں آپس کے انضمامی عمل میں مصروف ہیں۔
کراچی جو ایک زمانے میں تحریکوں کا منبع ہوتا تھا وہاں جعلی عوامی پارٹیوں کی ہلچل نمایاں ہے لیکن فی الحال کراچی میں کہیں بھی کوئی انقلابی لہر دکھائی نہیں دے رہی ہے، البتہ ابھی چھوٹے چھوٹے پیمانے پر ان کے یکجا ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی میں ایک انقلابی کتاب سورج پر کمند کی رونمائی کے بعد کئی چھوٹی چھوٹی میٹنگیں ہوئیں، مگر بڑا دھماکا ابھی تک نہیں سنا گیا، البتہ غریب اور خستہ حال پڑھے لکھے لوگ بڑی مشکلوں سے زندہ رہنے کے بجائے جدوجہد کے لیے تیار ہونے پر آمادہ نظر آتے ہیں، خصوصاً جو پندرہ بیس ہزار آمدنی والے مرد و زن ہیں اور پڑھے لکھے بھی ہیں مگر وہ اپنی اولاد کو پڑھانے کی سکت نہیں رکھتے، کسی طریقہ سے قرض ادھار کرکے جو زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔
عجیب اتفاق ہے کہ پرانی حکومتیں اپنی مدت پوری کرچکی ہیں، ڈیڑھ دو ماہ میں عبوری حکومت کا نقارہ بجنے کو ہے، دیکھیں اس درمیان پانچ سالہ بجٹ کون پیش کرے گا؟ کیونکہ موجودہ حکومت اپنے دن تو پورے کرچکی ہے لہٰذا اس کو آنے والی حکومت کا بجٹ پیش کرنے کا اختیار کیوں کر ہوگا؟ لہٰذا ایسی صورتحال میں کہ ہر پارٹی ایک دوسرے پر بڑی شدت سے حملہ آور ہے، نگراں حکومت کیسے بنائی جاسکتی ہے؟
اس لیے صورتحال اس طرف لے جا رہی ہے کہ عبوری حکومت چیف جسٹس کو ہی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر چیف جسٹس نے حکومت کے خدو خال نہ بنائے تو سیاسی کشمکش میں تصادم کی راہ سامنے رہ جاتی ہے اور ایک اور وزنی پہلو کہ جو بوجہ موجودہ حکومت نے عوام پر لادا ہے اس کے واپسی کے دن تو قریب تر آرہے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر آپ کو یاد ہو تو فرانس میں ایک زر واجب الادا پر ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں پاکستان بلیک لسٹ میں جانے سے بچ گیا تھا اور حکومت کو 3 ماہ کی مہلت ملی تھی مگر اس دوران تو حکومت کی روانگی ہے تو غالباً پاکستان اس کڑے امتحان سے غالباً ایک اور استثنیٰ سے باآسانی نکل جائے گا، مگر آنے والے وقت کے مطابق حتمی رائے نہیں دے سکتا۔
مگر میری یہ استدعا ضرور ہے کہ موجودہ بجٹ میں کم ازکم ڈھائی فیصد رقم تو تعلیم و صحت کے لیے رکھی جائے اور ملک میں صحت اور تعلیم کو اہمیت دی جائے ورنہ طوائف الملوکی کے پھیل جانے کا شدید اندیشہ ہے۔ سندھ حکومت کو محترمہ بینظیر بھٹو کی فکری اور روحانی طرز کو دیکھتے ہوئے تعلیم اور صحت کی مد پر توجہ کی ضرورت ہے بصورت دیگر سندھ سب سے زیادہ بدنظمی کا شکار ہوسکتا ہے۔