جنگل کا قانون

مسلمانوں کے معاملے میں عالمی برادری تو منافقت اختیار کیے ہوئے ہی ہے، مگر مسلم ممالک بھی مثبت کردار ادا نہیں کر رہے۔

انسان بھی کتنا عجیب ہے، درندگی و سفاکیت خود کرتا ہے اور اپنے گناہوں کا بار جنگل کے قانون پر ڈال دیتا ہے۔ حالانکہ دنیا پر جنگل سے بھی بھیانک قانون رائج ہے۔ دنیا کا قانون (ہم جسے قانون کہتے ہیں) اگر جنگل میں نافذ ہوجائے تو جنگل کا جنگل اجڑ جائے۔

جنگل میں کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے کمزور کسی نہ کسی طرح بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہوہی جاتا ہے، لیکن ''مہذب اور تعلیم یافتہ'' انسانوں کی اس دنیا میں قانون بھی طاقتور ظالم کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ دنیا کے اس ظالمانہ دستور کے سب سے زیادہ شکار مسلمان ہیں۔ دنیا کے کئی حصوں میں بیرونی طاقتوں نے مسلمانوں پر جنگیں مسلط کی ہوئی ہیں۔

مسلمان ہر جگہ مظلوم اور متاثر ہیں، جن کے خلاف منظم انداز میں ریاستی اور غیر ریاستی دہشتگردی کی جارہی ہے۔ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نہ تو عالمی برادری کو نظر آتے ہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ کی آنکھ کھلتی ہے، لیکن اگر مسلمان صرف اپنے حق کے لیے آواز بھی اٹھاتے ہیں تو دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر اس کی واضح مثالیں ہیں۔

فلسطین اور کشمیر کے نہتے عوام برسوں سے مظالم کا شکار ہیں۔ دنوں جگہوں پر درندگی و سفاکیت کے حالیہ واقعات نے جہاں انسانیت کو شرمسار کیا ہے، وہیں ایک بار پھر عالمی برادری کی منافقت کا پردہ چاک کردیا ہے۔ اسرائیلی درندوں کی جانب سے فلسطین میں نئے سرے سے خون کی ہولی کھیلی گئی۔

فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے ستر سال 15 مئی کو پورے ہونے والے ہیں۔ اس ظلم و ناانصافی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرنے کے لیے فلسطینی عوام نے اپنی ہردلعزیز تنظیم حماس کی اپیل پر چھ ہفتوں پر مشتمل احتجاجی مارچ کا آغاز کیا۔ یہ احتجاجی مہم 30 مارچ سے 15 مئی تک جاری رہے گی، جو کہ 70 سال قبل 1948ء میں اپنے گھروں سے نکالے گئے ساڑھے 7 لاکھ فلسطینیوں کی یاد میں ہرسال چلائی جاتی ہے۔

مارچ کے دوران ماہر اسرائیلی نشانہ بازوں اور ٹینکوں نے نہتے مظاہرین پر براہ راست فائر کھول دیے، حالانکہ پرامن احتجاج تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کی رو سے ان کا حق ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائی میں تقریباً2 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے، جن میں سے کم از کم 17 افراد شہید ہوئے ہیں اور جمعہ کے روز بھی نہتے مظاہرین پر فائرنگ کرکے مزید 10نوجوانوں کو شہید کردیا، جس کے بعد 30 مارچ 'یوم الارض' سے اب تک شہدا کی تعداد30 ہوگئی ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد 2000 سے زائد ہوگئی ہے۔

جب کہ بھارتی فوج نے بھی مقبوضہ کشمیر میں سرچ آپریشن کے نام پر ضلع شوپیاں اور اسلام آباد میں حملے کر کے 20کشمیری نوجوانوں کو شہید اور 3سو سے زائد کو لہولہان کر دیا۔ حالیہ برسوں میں علاقے میں ایک ہی دن کے اندر ہونے والا یہ سب سے زیادہ جانی نقصان ہے۔ کشمیر میں بھارتی درندگی پر کشمیر اور پاکستان بھر میں احتجاج کیا گیا اور چھ اپریل کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی کے طور پر منایا گیا۔


بھارت اور اسرائیل جموں و کشمیر اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر اپنااپنا غاصبانہ قبضہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر ہونے والی درندگی ساری دنیا کے سامنے ہے کہ کس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہوکر ان کا ہی جینا حرام کر رکھا ہے۔ اسرائیل جب اور جہاں چاہے، امریکا سمیت عالمی بدمعاشوں کی سرپرستی میں کمزور فلسطینیوں پر بمباری شروع کردیتا ہے۔ 1948سے آج تک ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں قید ہے۔ دوسری جانب بھارت نے کشمیر میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ 1989 سے لے کر فروری 2018 تک قابض ہندوستانی فوج کے ہاتھوں 95000 بے گناہ کشمیری مسلمان شہید ہوئے۔ خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہیں ہیں۔ انتہاپسند ہنود و یہود کے اس ظالمانہ کھیل میں انھیں امریکا کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف درندگی پر کویت نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر مذمتی قرارداد پیش کرنا چاہی تو امریکا نے اسے ویٹو کر دیا، جب کہ مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ لوگوں کو خاک و خون میں تڑپانے پر قوموں کے حق خودارادیت اور انسانی حقوق کی علمبردار اقوام متحدہ نے اس کا نوٹس لیا، نہ امریکا سمیت بڑی طاقتوں کو وہ قراردادیں یاد آئیں، جن کے تحت انھوں نے خود بھارت کو کشمیریوں کا حق خودارادی تسلیم کرنے کا پابند کیا تھا۔

فلسطین اور کشمیر جدید دنیا میں انسا نی حقوق کی بدترین حق تلفیوں کے ایسے مظاہرہیں جو آج کی عالمی طاقتوں خصوصاً مغربی دنیا کی جانب سے انسانیت، عدل و انصاف اور تہذیب و شائستگی کے دعووں کے کھوکھلے پن کو پوری طرح کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ ان دونوں مسائل میں امریکا کا کردار آج پہلے سے کہیں زیادہ متعصبانہ اور جانبدارانہ ہے۔ امریکا اسرائیل اور بھارت کی پشت پناہی کی روش اختیار کیے ہوئے ہے۔

یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اقدام کی اقوام متحدہ کے ارکان کی بھاری اکثریت کی جانب سے مخالفت کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد پر مصر ہے۔ اسی طرح کشمیر کے معاملے میں بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کے ضمن میں امریکا اپنا کردار ادا کرنے سے مستقل طور پر گریزاں ہے۔ امریکا جس طرح اسرائیل کی ہر من مانی میں اس کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، اسی طرح بھارت کی بے جا نازبرداریاں بھی اس کی مستقل حکمت عملی بن چکی ہیں۔اقوام متحدہ عملاً امریکا ہی کا آلہ کار بن کر رہ گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے کردار میں ایک تضاد نمایا ں طور پر نظر آتا ہے۔ ایک طرف تو اقوام متحدہ جہاں ضرورت سمجھے بلاکسی تاخیر کے امن فوج بھیج دیتی ہے، مگر مسلمانوںکے معاملے میں ہمیشہ منافقت سے کام لیا جاتا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے چارٹرکے آرٹیکل (2) میں یہ بات رقم ہے کہ '' ہر شخص انسانی حقوق کے دیے گئے مسوّدے میں بغیر کسی نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب، سیاسی وابستگی، قومی یا سماجی تعلق کے حقوق اور آزادی کا مستحق ہے۔'' اس طرح کی 30 کے قریب شقیں ہیں جو لوگوں کو دوسروں کی غلامی سے نجات اور آزادی سے جینے کا حق دیتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مسودے میں کوئی امتیازی شق موجود نہیں، اس میں تمام ممالک، قوموں اور انسانوں کے لیے یکساں حقوق تسلیم کیے گئے ہیں، لیکن چند طاقت ور ممالک کی وجہ سے اس منشور کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے کی طرح رہ گئی ہے۔ ان حقائق سے ظاہر ہے کہ آج کی نام نہاد مہذب دنیا میں فی الحقیقت جنگل کا قانون رائج ہے اور اس کا نشانہ مسلمان ممالک بنے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں کے معاملے میں عالمی برادری تو منافقت اختیار کیے ہوئے ہی ہے، مگر افسوس ہے کہ مسلم ممالک بھی مثبت کردار ادا نہیں کر رہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کو ازسرنو فعال کیا جائے اور مسلم ممالک فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کے منصفانہ تصفیے کے لیے باہمی اتحاد و تعاون سے قابل عمل راستے تلاش کریں۔ مسلمانوں کو اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے، کوئی دوسرا آکر ان کے مسائل ہرگز حل نہیں کرے گا۔
Load Next Story