آؤ ظالم کی مدد کریں

ظالم کو ظلم روا رکھنے اور مظلوم کو ظلم برداشت کرنے کی سزا مل کر رہتی ہے۔

ظالم کو ظلم روا رکھنے اور مظلوم کو ظلم برداشت کرنے کی سزا مل کر رہتی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ظلم کی اندھیر نگری اور زبردستی کا عالم یہ ہے کہ اگر زیردست اور مظلوم طبقہ ظلم و ستم کی اس چکی اور کال کوٹھڑی سے نکلنا بھی چاہے تو نہ نکل سکے۔

ظلم اگر انفرادی سطح پر ہو تو شخصی طور پر یا چند افراد مل کر بھی اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ مگر جب ظلم اجتماعی اور نظام کی قوت سے حملہ آور ہو تو پھر انفرادی حیثیت کے بہ جائے کسی مضبوط نظریاتی و حکیمانہ اور تنظیمی و اجتماعی طاقت کے ذریعے سے اس کا توڑ کرنا اور اس کی جگہ نظام عدل قائم کرنا ممکن ہے۔

ہاں ایک تجرباتی و تاریخی حقیقت ضرور مدنظر رہے کہ یہ سب طفلانہ و جذباتی کھیل نہیں بل کہ عقل و شعور اور صبر و استقامت پر مبنی اجتماعی جدوجہد کا متقاضی اعلیٰ ترین نصب العین ہے۔

تمام انسانوں کے محسن اعلی اور مظلوموں کے ملجا و ماویٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظلم و ستم کے مکمل انسداد کے لیے مظلوم طبقے کی جو حکیمانہ اور نظری و عملی راہ نمائی فرمائی ہے، یقینی طور پر عقلی و عملی حوالے سے حرف آخر ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم :

'' اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ''

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے مگر ظالم کی مدد سے کیا مراد ہے؟


خاتم النبینؐ نے فرمایا: '' اسے ظلم سے روکو۔''

حدیث نبویؐ کے مطالعے کی روشنی میں اگر ہم اپنے سماج میں موجود ان گنت تحریکوں اور جماعتوں کا اصولی تحلیل و تجزیہ کریں جو مظلوموں کی حامی اور ظلم و ستم کے خاتمے کی دعوے دار و علم بردار ہیں تو یہ تلخ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ تمام تر بلند بانگ دعوؤں اور ان تھک کوششوں کے باوجود ظلم کی مقدار اور مظلوموں کی تعداد روز افزوں ہے۔ آخر وجہ کیا ہے ۔۔۔۔ ؟ بلاشبہ ہم کسی کی نیت اور اخلاص پر شک و شبے کے متحمل تو نہیں ہوسکتے مگر ان تمام تحریکات کی بنیادی فکر اور حکمت عملی میں موجود نقائص اور خرابیوں کی نشان دہی کرنا بہ ہر حال علمی دیانت کا لازمی تقاضا ہے۔ نبی اکرمؐ نے نہایت لطیف پیرائے میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔ جس کے مطابق آج ہم سب صرف مظلوموں کی مدد کرتے ہیں۔ اور ظالم و جابر طبقے کی مدد یعنی اسے ظلم سے روکنا ہمارے منشور اور پروگرام کا حصہ ہی نہیں ہوتا۔ لہٰذا سر توڑ کوشش و مساعی کے باوجود ظلم کی روش بد کا خاتمہ ہوتا ہے اور نہ مظلوموں کی پیداوار میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔

آئے روز کے برپا ظلم کے نتیجے میں جب کوئی مظلوم آہ و بکا اور چیخ و پکار کرتا ہے تو ہم اس کی طرف ضرور دوڑ پڑتے ہیں لیکن نہ اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی دوسری طرف انسداد ظلم کی کوئی موثر تدبیر اور نتیجہ خیز سبیل کرتے ہیں۔

بے شک مظلوم کی پکار پر اس کی مدد لازم ٹھہری لیکن جب تک ظلم کے مرکز کا شعور اور اس کا خاتمہ پیش نظر نہیں ہوگا اس وقت تک ہم مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے نام پر درحقیقت ان کے زخموں پر یوں ہی نمک پاشی کرتے رہیں گے۔ گویا ظالموں کی مدد کے بغیر مظلوموں کی مدد محض ایک منطقی ردعمل تو ہوسکتا ہے لیکن انسداد ظلم کا اصل منہاج نہیں۔

ظالم و مظلوم دونوں کا بنیادی تعلق عالم گیر انسانی برادری سے ہے اور قرآن حکیم کی رو سے شروع میں تمام انسان ایک ہی وحدت اور جماعت تھے لیکن بعد میں قلیل سے ظالم طبقے نے مظلوم اکثریت کو اپنا محکوم اور غلام بناکر وحدت انسانیت کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ جب ظلم کی پاداش میں اجتماعی عذاب کسی بھی شکل میں آتا ہے تو پھر ظالم کو ظلم روا رکھنے اور مظلوم کو ظلم برداشت کرنے کی سزا مل کر رہتی ہے۔

سورۂ حج کی آیت نمبر پینتالیس میں حق تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم:

''سو کتنی ہی بستیوں کو ہم نے تباہ و برباد کر ڈالا، اس لیے کہ ان کے باشندے ظالم تھے۔'' آج ایک دفعہ پھر فرعونی ظلم سیاسی جبر کی صورت میں، قارونیت معاشی استحصال کی شکل میں اور ہامانیت مذہبی رہبانیت، انتہاپسندی اور ظالم طبقے کی حمایت کے بھیس میں شاداں و فرحاں اور مصروف رقصاں ہے۔ لہٰذا قوم کے دانش مند، ہم درد اور باشعور نوجوان طبقے کو سیدنا موسیٰ کلیم اللہ ؑ اور امام الانبیا سیدنا و مولانا محمد الرسول اللہ ﷺ کی عظیم اجتماعی سنت کی پیروی میں دور حاضر کی فرعونی، قارونی اور ہامانی تکون کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے ان کی مدد کا بیڑہ اٹھانا ہے تاکہ دھرتی پر کوئی ظالم باقی رہے اور نہ مظلوم۔
Load Next Story