انفرادی و اجتماعی دعاؤں کے فضائل و برکات

دُعا کریمِ باوفا کے دروازے پربے نوا فقیر کی التجا اورقادرِ مطلق کی بارگاہ میں کم زورو ناتواں کے جھولی پھیلانے کانام ہے

دُعا کریمِ باوفا کے دروازے پربے نوا فقیر کی التجا اورقادرِ مطلق کی بارگاہ میں کم زورو ناتواں کے جھولی پھیلانے کانام ہے۔ فوٹو: فائل

خداوندِعالم کا تمام تر مخلوقات پر بہت بڑا احسان ہے، خصوصاً انسان پر کہ اُس نے اپنی بے انتہا رحمت کا دستر خوان بچھایا اور اُس کا لطف و کرم سبھی کے لیے عام ہے۔

اُس کی بارگاہ سے کوئی نااُمید نہیں ہوتا، اُس کی بارگاہ سے کسی کو دُھتکارا نہیں جاتا اور اُس کی بارگاہ میں کسی طرح کا کوئی بخل روا نہیں ہے۔ اُس کا جود و کرم اور اُس کی بخشش دائمی ہے اور اُس کی عطا سبھی تک پہنچنے والی ہے اور وہ خود منتظر ہے کہ اُس کے بندے اُس کی درگاہ میں پیش ہَوں۔

فیضِ بے نہایت کا مرکز، جودو کرم کا موجیں ماتا ہوا سمندر، ہدایت و رہبری کا انتظام کرنے والا، علم و دانش کو نازل کرنے والا خداوندِ ربّ العزت قرآنِ مجید فرقانِ حمید، سورۂ فرقان، آیت77 میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : ''اے پیغمبرؐ! کہہ دو کہ اگر تمہاری دُعائیں نہ ہوتیں تو پروردگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا۔''

سورۂ بقرہ، آیت186میں ارشاد ہوا، مفہوم : '' اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں اُن سے قریب ہوں، پکارنے والے کی آواز سُنتا ہوں، جب بھی پکارتا ہے، لہٰذا مجھ سے طلبِ قبولیت کریں اور مجھ پر ہی ایمان و اعتماد رکھیں، شاید اِس طرح راہِ راست پر آجائیں۔''

سورۂ ابراہیم، آیت39ہم سب کی یوں راہنمائی کررہی ہے:

''شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحٰق جیسی اولاد عطا کی، بے شک میرا پروردگار دُعاؤں کا سُننے والا ہے۔''

سورۂ غافر (مومن) آیت60 میں یہ رُشد و ہدایت ملتی ہے: '' اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دُعائیں کرو، میں قبول کروں گا اور یقیناً جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں، وہ عن قریب ذلّت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔''

دُعا کی اہمیت اور افادیت روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ دُعا خداوندعالم کی بارگاہ میں احتیاج اور ضرورت کے اظہار کا نام ہے۔ دُعا کائنات کے مالک اور ہر شے سے بے نیاز کی بارگاہ میں فقر و ناداری کے بیان کا نام ہے۔ دُعا کریم باوفا کے دروازے پر بے نوا فقیر کی التجا اور قادرِمطلق کی بارگاہ میں کم زور و ناتواں کے جھولی پھیلانے کا نام ہے۔ دُعا رحمن و رحیم، حکیم و کریم، سمیع و بصیر پروردگار کی بارگاہ میں ضعیف و ناتواں فقیر و مسکین و عاجز بندے کی امداد طلب کرنے کا نام ہے۔ دُعا خداوندِعالم، مالک الملک، غفور و ودود، علیم و قدیر، خدائے یگانہ اور بے عیب حکم راں کی بارگاہ میں تواضع، انکساری، خشوع اور خضوع سے پیش ہونے کا نام ہے۔ دُعا محبوبِ خدا، معشوقِ زاہدین، نورچشمِ عارفین، راز و نیازِ مشتاقین، مصیبت کے ماروں کی رات کا اُجالا، غریبوں کی تکیہ گاہ اور محتاجوں کے دل کا چَراغ ہے۔

مقامِ غور و فکر ہے، حضرت داؤد علیہ السلام سے خطاب ہُوا: '' اہلِ زمین سے کہو، کیوں مجھ سے دوستی نہیں کرتے؟ کیا میں اِس کا اہل نہیں ہُوں، میں ایسا خدا ہوں جس کے یہاں بخل نہیں ہے اور میرے علم میں جہل کا تصور نہیں، میرے صبر میں کم زوری کا دخل نہیں، میری صفت میں تبدیلی کا کوئی تصور نہیں، میرا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا، میری رحمت بے کراں ہے اور اپنے فضل و کرم سے واپس نہیں پلٹتا، روزِ ازل سے میں نے عہد کیا ہے اور محبت کی خوش بو پارہا ہوں، میں نے اپنے بندوں کے دل میں نورِ معرفت روشن کیا ہے، جو مجھے دوست رکھتا ہے، میں بھی اُس کو دوست رکھتا ہوں اور جو میرا رفیق (اور ہم دم) ہے، میں بھی اُس کا رفیق ( اور ہم دم) ہوں، اُس کا ہم نشین ہوں، جو شخص خلوت میں میرا ذکر کرتا ہے ، میں جلوت میں اُس کا ذکر کرتا ہوں اور اُس کا مونس ہوں جو میری یاد سے مانوس ہوتا ہے۔


اے داؤد ؑ! جو شخص مجھے تلاش کرے گا، میں اُسے مل جاؤں گا اور جس شخص کو میں مل جاؤں، پھر اُس کو مجھے گم نہیں کرنا چاہیے۔ اے داؤدؑ! (تمام) نعمتیں ہماری طرف سے ہیں (تو پھر) دوسروں کا شکر کیوں ادا کیا جاتا ہے، ہم ہی تو بلاؤں کو دُور کرتے ہیں، (پھر کیوں) دوسرے سے اُمید رکھی جاتی ہے، ہم ہی سب کو پناہ دینے والے ہیں، تو پھر کیوں دوسروں کی پناہ تلاش کی جاتی ہے۔ مجھ سے دُور بھاگتے ہیں، لیکن آخر کار میری طرف ہی آنا پڑے گا۔'' (ماخوذ از نہج الاعمال)

جس وقت مومنین ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دُعا کرتے ہیں اور اجتماعی شکل میں خداوندِعالم کی بارگاہ میں راز و نیاز، توبہ اور گِریہ کرتے ہیں اور تمام لوگ اُس کی بارگاہ میں دستِ گدائی پھیلاتے ہیں، حقیقت میں اُن کی دُعا بابِ قبولیت سے نزدیک ہوجاتی ہے، کیوں کہ دُعا کرنے والے اُس مجمعے میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے، جس کا دل ٹُوٹا ہوا ہو، یا جو حقیر و بے نوا ہو، یا کوئی خدا کا عاشق یا کوئی عارف ہوگا یا کوئی باایمان مخلص ہوگا، جس کے اِخلاص، گریہ و زاری اور اضطراب اور نالہ و فریاد کی وجہ سے سب لوگ رحمتِ الہٰی کے مستحق قرار پائیں اور سب کی دُعا مستجاب ہوجائے اور خداوندِعالم کی مغفرت کی بوچھار ہوجائے، جیسا کہ اسلامی روایات میں وارد ہوا ہے کہ ہوسکتا ہے خداوندِعالم اپنے اُس ایک بندے کی وجہ سے سب لوگوں کی دُعا قبول کرلے اور اُس کی گریہ و زاری کی وجہ سے تمام لوگوں پر رحمت نازل کردے۔ سب کی حاجتیں پوری کردے اور ان سب کو معاف کردے، اور ان کی خالی جھولیوں کو اپنے مخصوص فیض و کرم سے بھردے۔

حضرت امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں: ''جب چار افراد مل کر کسی ایک چیز کے بارے میں دُعا کرتے ہیں، جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں، اُن کی دُعا قبول ہوچکی ہوتی ہے۔ (یعنی اُن کے جدا ہونے سے پہلے ان کی دُعا قبول ہوجاتی ہے)'' (اصولِ کافی)

سرکار رسالت مآب آنحضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' کوئی چالیس افراد مل کر کسی کام کے لیے دُعا نہیں کرتے مگر یہ کہ خدا اُن کی دُعا قبول کرلیتا ہے ، یہاں تک کہ اگر یہ لوگ کسی پہاڑ کے بارے میں دُعا کریں تو وہ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔'' ( مستدرک الوسائل)

عالمِ ربّانی ابنِ فہد حلی ؒاپنی عظیم الشان کتاب ''عدۃالدّاعی'' میں روایت نقل کرتے ہیں، جیسا کہ صاحبِ وسائل الشیعہ نے بھی اِس روایت کو نقل کیا ہے:

''خداوند عالم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ اے عیسیٰ! مومنین کے مجمعے کے قریب ہوجاؤ اور ان کو حکم دو کہ میری بارگاہ میں تمہارے ساتھ دُعا کریں۔'' (وسائل الشیعہ)

حضرت امام جعفر صادقؓ نے ارشاد فرمایا: '' ہمارے والدِ بزرگوار ہمیشہ اِس طرح کِیا کرتے تھے کہ جب کسی کام کی وجہ سے غمگین اور پریشان ہوتے تھے تو عورتوں اور بچّوں کو جمع کیا کرتے تھے اور اُس وقت آپ دُعا فرماتے تھے اور اور وہ سب ''آمین'' کہتے تھے۔'' (وسائل الشیعہ)

اگرچہ اہلِ دُعا ہونا اہلِ دل ہونے کی علامت ہے۔ یوں تو اہلِ دل کی ایک طویل فہرست علماء، عرفاء اور سالکین کے حوالے سے موجود ہے، کیوں کہ جسے اپنی ذات کی اصلاح اور اپنے ربّ سے اتّصال مقصود ہو، وہ بغیر اِس راستے کے اُس منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔

حضرت امام سیّدِ سجادؓ کی بے مِثل کتاب'' صحیفۂ سجادیہ '' اِسلامی دُعائیہ ادب کی شاہ کار دستاویز ہے۔ بارگاہِ ربّ العزت میں خلوصِ دل اور بے لوث جذبے کے ساتھ یقیناً دُعاؤں کی یہ عالمی تحریک ہے، جس سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اِن تمام تر دُعاؤں اور مناجات سے بہتر استفادہ کریں۔
Load Next Story