مالیاتی پالیسی اور ملکی معیشت

توازن ادائیگی کی کیفیت کا تعین بدستور رقوم کی کم آمد اور قرضوں کی بھاری رقم کی واپسی سے ہو رہا ہے۔

توازن ادائیگی کی کیفیت کا تعین بدستور رقوم کی کم آمد اور قرضوں کی بھاری رقم کی واپسی سے ہو رہا ہے۔ فوٹو: فائل

QUETTA:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے آئندہ دو ماہ کے لیے مالیاتی پالیسی کا اعلان کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی کہا ہے کہ مہنگائی ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ نئی مانٹری پالیسی کے مطابق مارک اپ ریٹ میں کوئی تبدیلی کیے بغیر بنیادی شرح سود 9.5 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ جمعہ کے روز کراچی میں گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انور کی زیر صدارت مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں کیا گیا۔

اجلاس میں پاکستان کے توازن ادائیگی پر غور کیا گیا جس کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی 3 سہ ماہیوں کے دوران 2.2 ارب ڈالر کے قرضے واپس کیے گئے جب کہ آخری سہ ماہی میں مزید 838 ملین ڈالر کے قرضے ادا کیے جائیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے اپنی عالمی ذمے داریاں خاصی حد تک پوری کی ہیں تاہم اس سے مالی سال کے آنے والے مہینوں میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو برقرار رہنے کا امکان ہے۔ بورڈ نے یہ بھی کہا کہ توقعات کے برخلاف سال بہ سال گرانی کی شرح میں 1.5 فیصدی درجے کمی واقع ہوئی ہے۔

یہ جنوری 2013ء میں8.1 فیصد تھی جب کہ مارچ 2013ء میں 6.6 فیصد ہو گئی۔اس حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہفتہ وار یا ماہوار انڈیکس کے اعداد وشمار میں گرانی میں کمی نظرا ٓئے لیکن اگر سالانہ بنیادو ںپر دیکھا جائے تو گرانی میں اضافہ ہی نظر آئے گا۔ ادھر مختلف اقتصادی ماہرین ، جن میں ایوانہائے صنعت و تجارت کے بعض عہدیدار بھی شامل ہیں، کا کہنا ہے مارک اپ کی شرح برقرار رکھ کر کاروباری حلقوں کو کسی حد تک مایوس کیا گیا ہے۔ مانٹری پالیسی پر تنقید کرنے والوں کی دلیل یہ تھی کہ ملک کے صنعتی شعبہ کے موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مارک اپ کی شرح کم از کم آٹھ فیصد تک لائی جانی چاہیے تھی تاکہ نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ، کاروباری شعبے میں استحکام اور تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوتا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ صنعتکاری کا عمل تیز ہونے اور سے روزگار کے نئے مواقع پیدہ ہوں گے، اس لیے صنعتی شعبے کو قرضوں کی فراہمی بہت ضروری ہے اور اسی وجہ سے کاروباری برادری امید کر رہی تھی کہ اسٹیٹ بینک مارک اپ میں مناسب کمی کر دے گا ۔ شاید اسی نئی مانٹری پالیسی کا منفی اثر اسٹاک مارکیٹ میں مندے کی صورت میں ہوا جب بیشتر کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں گر گئیں۔ زر مبادلہ میں کمی کی اطلاعات بھی اثر انداز ہوئی۔ جمعہ کے روز اسٹاک مارکیٹ انڈیکس میں پچاس پوائنٹ کی کمی ہوئی۔


ان حالات میں اسٹیٹ بینک کے لیے پالیسی کے حوالے سے مختلف راہیں ہیں۔ اوّل الذکر چیلنج احتیاط کا تقاضا کرتا ہے جب کہ موخرالذکر پالیسی ریٹ میں ممکنہ نرمی لانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ فروری 2013ء کے مانٹری پالیسی بیان میں اسٹیٹ بینک نے اس پالیسی کے لیے 2 چیلنجوں: توازن ادائیگی کی صورتحال کو سنبھالنے اور گرانی میں ممکنہ اضافے کو روکنے کو اجاگر کیا تھا۔ تب سے اب تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر مزید 2 ارب ڈالر کم ہو گئے ہیں جس کی بڑی وجہ قرضوں کی واپسی ہے۔ توازن ادائیگی کی کیفیت کا تعین بدستور رقوم کی کم آمد اور قرضوں کی بھاری رقم کی واپسی سے ہو رہا ہے۔

علاوہ ازیں مالی سال 13ء کے بقیہ عرصے کے دوران اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی مد میں مزید 838 ملین (تراسی کروڑ اسی لاکھ) ڈالر واپس کرنا ہیں۔ اب تک اسٹیٹ بینک نے حالات کو سنبھالنے میں فعال کردار ادا کیا ہے لیکن زرمبادلہ میں مسلسل اضافہ ہی بازار میں پائیدار استحکام کا ضامن ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں شرح سود کا کردار بھی اہم ہے کیونکہ اس سے بیرونی کرنسی کے اثاثوں کے مقابلے میں روپے کی شکل میں موجود اثاثوں پر منافع کا تعین ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ روپے کی شکل میں موجود اثاثوں کو اتنا نفع آور رکھا جائے کہ ڈالروں کی سٹے بازانہ طلب کی حوصلہ شکنی ہو۔ روپے کی شکل میں موجود اثاثوں پر حقیقی منافع گرانی میں خاصی کمی کی وجہ سے کسی قدر بڑھا ہے تاہم قرضوں کی حقیقی لاگت بڑھی ہے جو معیشت میں کم ہوتی ہوئی نجی سرمایہ کاری اور پست نمو کی صورتحال میں اتنی خوش آئند نہیں۔

توانائی کی مسلسل قلت اور بینکاری نظام سے خاصے مالیاتی قرض کے باوجود نجی کاروبار کو دیے جانے والے قرضوں میں کچھ بحالی کے آثار دکھائی دیے ہیں۔ مالیاتی عدم توازن کا زری پالیسی کے حوالے سے اہم پہلو بینکاری نظام بشمول اسٹیٹ بینک سے بہت زیادہ قرض لینا ہے۔ ایک طرف اسٹیٹ بینک نے اپنے مالیاتی اعداد و شمار پیش کیے ہیں، دوسری طرف سبکدوش ہونے والی حکومت کا دعویٰ ہے کہ عالمی کساد بازاری اور قدرتی آفات کے باوجود مجموعی قومی پیداوار، معاشرتی ترقی، ٹیکس محصولات اور بیرون ملک سے ترسیلات میں بہت زیادہ اضافہ کیا جب کہ افراط زر، مہنگائی کی شرح اور بجٹ خسارے میں نمایاں کمی کی۔ عملاً صورت حال مختلف نظر آتی ہے۔

شرح سود پر ملک کے صنعت کاروں یا کاروباری حلقوں کی رائے اپنی جگہ رہی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا اقدام اپنی جگہ' اصل معاملہ ملکی معیشت کو استحکام دینا ہے۔ ملکی معیشت میں استحکام کے نتیجے میں ہی پاکستان میں سرمایہ کاری ہو گی جس کے نتیجے میں روزگار بڑھے گا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ توانائی کے بحران کی وجہ سے کاروباری طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے' معاشی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے' یوں ملک میں بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے حالات بھی خاصے خراب ہوئے ہیں۔معاشی ترقی کے لیے ہمہ جہت پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ انھی رپورٹوں کو مدنظر رکھ کر معاشی پالیسیوں میں ردوبدل کیا جانا چاہیے تاکہ ملک کی معیشت کی سمت درست ہو سکے۔
Load Next Story