رابعہ قتل کیس پرتشدد احتجاج پر پی ٹی آئی قیادت کے خلاف مقدمہ درج
پرتشدد احتجاج کا اصل ذمے دارمجیب افغانی ہے جس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، سعید آفریدی
پنجاب میں زینب زیادتی و قتل کیس کے بعد اکراچی میں بچیوں کے ساتھ مبینہ زیادتی کے واقعات پر احتجاج میں حصہ لینے والے تحریک انصاف کی مقامی قیادت کے خلاف تیسرا مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کرلیا گیا۔
ڈسٹرکٹ ویسٹ انویسٹی گیشن پولیس کے ایک اعلیٰ افسر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام نہ ظاہر کرنے پر نمائندہ ایکسپریس کو بتایا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے اعلیٰ افسران نے وزیر داخلہ سندھ، آئی جی ویگر متعلقہ اداروں کو بریفنگ دی تھی کہ اورنگی ٹاؤن سے اغوا کے بعد قتل کی جانے والی 6سالہ رابعہ جس کی لاش منگھوپیر تھانے کی حدود سے ملی تھی۔
اغوا اور قتل کے حوالے سے مقتولہ کے اہل خانہ اور علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا جس کے دوران بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ہمراہ علاقائی عہدیداران و کارکنان احتجاج میں شامل ہوگئے تھے اور انھوں نے بڑھ چڑھ کا حصہ لیا اور پرامن احتجاج کو پی ٹی آئی کے کارکنان نے پرتشدد احتجاج بنا کر سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بریفنگ کی روح کے مطابق اعلیٰ افسران نے اور ایک سیاسی پارٹی کے دباؤ پر پی ٹٰی آئی کے عہدیداران و کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا، ایس ایچ او پیر آباد عرس محمد راجڑ نے اپنی مدعیت میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب مقدمہ الزام نمبر 145/18زیر دفعات 147,148,149,,353,324,427,337.A.1انسداد دہشت گردی ایکٹ 7ATAتحت مقدمہ درج کرلیا۔
پولیس نے مقدمے میں بتایا کہ 100سے 150سے زائد شر پسندوں نے پتھراؤ، جلاؤ گھیراؤ اور جان سے مارنے کی نیت سے فائرنگ کی پولیس نے منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور لاٹھی چارج شروع کردیا، اس دوران فائرنگ سے الیاس ہلاک اور عدنان زخمی ہوگیا جبکہ پتھراؤ سے پولیس افسر واہلکار بھی زخمی ہوئے۔
پولیس نے موقع سے جہاںزیب، اجمل،فضل قادر، زاہد، امان اور اسماعیل کو گرفتار کرلیا جبکہ فرار ہونے والے جن کے نام معلوم ہوئے جو ہنگامے میں شامل تھے۔ ان میں پی ٹی آئی کے ڈسٹرکٹ ویسٹ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سعید آفریدی، کراچی کمیٹی ممبر عطا اﷲ، یوسی نائب ناظم ڈاکٹر حسن، یوسی کے فنانس سیکریٹری ضیا الرحمن، کارکن جمشید، کریم اور مجیب افغانی شامل تھے جن کو پولیس تاحال گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔
پیرآباد تھانے کے تفتیشی افسر انسپکٹر شبیر حسین نے بتایا کہ پولیس کو مذکورہ کیس میں مرکزی7ملزمان کی تلاش ہے جنھوں نے پرامن احتجاج کو پرتشدد بنادیا، مفرور 7ملزمان کے نام اعلیٰ افسران کی ہدایت پر صیغہ راز میں رکھے ہیں۔
مذکورہ مقدمے میں نامزد ڈسٹرکٹ ویسٹ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سعید آفریدی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جائے وقوعہ پر پولیس کے افسران بھی موجود تھے اور وہ جانتے ہیںکہ جس وقت فائرنگ ہوئی میں اور میرے کارکنان وہاں موجود نہیں تھے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے کارکنان نے سڑک پر گڑھا کھود کر بچی رابعہ کی قبر بنانے کی کوشش کی، پرتشدد احتجاج کا اصل ذمے دار مجیب افغانی ہے جس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، ہمیں معلوم ہے کس کے ایما پر پولیس نے ہمارے خلاف دہشت گردی مقدمہ درج کیا،ہمارے پاس مذکورہ واقعے کی وڈیو کلپ موجود ہے جو عدالت میں پیش کریںگے۔
واضح رہے کہ پنجاب میں زینب قتل و زیادتی کیس کے بعد کراچی میں بچیوں کے ساتھ مبینہ زیادتی کے واقعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی جماعت پی ٹی آئی کے خلاف مذکورہ تیسرا مقدمہ درج کیا گیا اس قبل سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے حکم پر اس وقت کے ایس ایچ او ابراہیم حیدری نذیر چانڈیو نے اسکول میں ہنگامے کا مقدمہ الزام نمبر 10/18اور11/18 رہنما حلیم عادل شیخ اور دیگر کارکنان کے خلاف درج کیا تھا۔
ڈسٹرکٹ ویسٹ انویسٹی گیشن پولیس کے ایک اعلیٰ افسر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام نہ ظاہر کرنے پر نمائندہ ایکسپریس کو بتایا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے اعلیٰ افسران نے وزیر داخلہ سندھ، آئی جی ویگر متعلقہ اداروں کو بریفنگ دی تھی کہ اورنگی ٹاؤن سے اغوا کے بعد قتل کی جانے والی 6سالہ رابعہ جس کی لاش منگھوپیر تھانے کی حدود سے ملی تھی۔
اغوا اور قتل کے حوالے سے مقتولہ کے اہل خانہ اور علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا جس کے دوران بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ہمراہ علاقائی عہدیداران و کارکنان احتجاج میں شامل ہوگئے تھے اور انھوں نے بڑھ چڑھ کا حصہ لیا اور پرامن احتجاج کو پی ٹی آئی کے کارکنان نے پرتشدد احتجاج بنا کر سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بریفنگ کی روح کے مطابق اعلیٰ افسران نے اور ایک سیاسی پارٹی کے دباؤ پر پی ٹٰی آئی کے عہدیداران و کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا، ایس ایچ او پیر آباد عرس محمد راجڑ نے اپنی مدعیت میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب مقدمہ الزام نمبر 145/18زیر دفعات 147,148,149,,353,324,427,337.A.1انسداد دہشت گردی ایکٹ 7ATAتحت مقدمہ درج کرلیا۔
پولیس نے مقدمے میں بتایا کہ 100سے 150سے زائد شر پسندوں نے پتھراؤ، جلاؤ گھیراؤ اور جان سے مارنے کی نیت سے فائرنگ کی پولیس نے منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور لاٹھی چارج شروع کردیا، اس دوران فائرنگ سے الیاس ہلاک اور عدنان زخمی ہوگیا جبکہ پتھراؤ سے پولیس افسر واہلکار بھی زخمی ہوئے۔
پولیس نے موقع سے جہاںزیب، اجمل،فضل قادر، زاہد، امان اور اسماعیل کو گرفتار کرلیا جبکہ فرار ہونے والے جن کے نام معلوم ہوئے جو ہنگامے میں شامل تھے۔ ان میں پی ٹی آئی کے ڈسٹرکٹ ویسٹ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سعید آفریدی، کراچی کمیٹی ممبر عطا اﷲ، یوسی نائب ناظم ڈاکٹر حسن، یوسی کے فنانس سیکریٹری ضیا الرحمن، کارکن جمشید، کریم اور مجیب افغانی شامل تھے جن کو پولیس تاحال گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔
پیرآباد تھانے کے تفتیشی افسر انسپکٹر شبیر حسین نے بتایا کہ پولیس کو مذکورہ کیس میں مرکزی7ملزمان کی تلاش ہے جنھوں نے پرامن احتجاج کو پرتشدد بنادیا، مفرور 7ملزمان کے نام اعلیٰ افسران کی ہدایت پر صیغہ راز میں رکھے ہیں۔
مذکورہ مقدمے میں نامزد ڈسٹرکٹ ویسٹ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سعید آفریدی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جائے وقوعہ پر پولیس کے افسران بھی موجود تھے اور وہ جانتے ہیںکہ جس وقت فائرنگ ہوئی میں اور میرے کارکنان وہاں موجود نہیں تھے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے کارکنان نے سڑک پر گڑھا کھود کر بچی رابعہ کی قبر بنانے کی کوشش کی، پرتشدد احتجاج کا اصل ذمے دار مجیب افغانی ہے جس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، ہمیں معلوم ہے کس کے ایما پر پولیس نے ہمارے خلاف دہشت گردی مقدمہ درج کیا،ہمارے پاس مذکورہ واقعے کی وڈیو کلپ موجود ہے جو عدالت میں پیش کریںگے۔
واضح رہے کہ پنجاب میں زینب قتل و زیادتی کیس کے بعد کراچی میں بچیوں کے ساتھ مبینہ زیادتی کے واقعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی جماعت پی ٹی آئی کے خلاف مذکورہ تیسرا مقدمہ درج کیا گیا اس قبل سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے حکم پر اس وقت کے ایس ایچ او ابراہیم حیدری نذیر چانڈیو نے اسکول میں ہنگامے کا مقدمہ الزام نمبر 10/18اور11/18 رہنما حلیم عادل شیخ اور دیگر کارکنان کے خلاف درج کیا تھا۔