قانون کی حکمرانی یا بندوق کی

اب نقل ہونا اور بوٹی مافیا معمول کی باتیں ہیں اور اس سے بڑے جرم کا چارج ممبران پارلیمنٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

h.sethi@hotmail.com

یہ میرے لاء کالج میں طالبعلمی کے دنوں کی بات ہے، ایک واقف کا میرے دوست کے ہمراہ آیا کہ میں اس کے ساتھ نسبت روڈ لاہور چلوں۔ ہم ایک مکان پر پہنچے جو دیال سنگھ کالج کے قریب تھا۔ چائے کی پیالی کے ساتھ ہی ایک امتحانی پرچہ آ گیا کہ اس میں درج دو سوالوں کے جواب لکھ دیں۔پتہ چلا کہ دیال سنگھ کالج کا ہال امتحانی سینٹر ہے اور طالبعلموں کو پانی پلانے والے ملازم کے ذریعے پرچہ ہو کر وہاں آیا ہے اور سوال کا جواب تیار کر کے دینے کے لیے مجھے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا ہے۔ میں اپنے ہاسٹل کے ساتھی پر سخت ناراض ہو کر وہاں سے چلا آیا اور یوں مجھے نقل مارنے کے ایک طریقہ واردات کا پہلی بار علم ہوا۔

میرے عدم تعاون کا ذکر پڑھ کر قارئین کو اس میں میری کوئی بڑائی دکھائی نہیں دے گی نہ انوکھا پن کیونکہ بہت سے لوگ ہیں جو مجھ جیسی سوچ کے حامل ہونے کی وجہ سے نالائق طلباء کے لیے امتحانی سینٹر سے باہر بیٹھ کر بوٹی مافیا پر لعن طعن کرتے ہوئے اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیں گے لیکن اس قصے کا ڈراپ سین ضرور حیران کن ہے کہ کمرۂ امتحان میں بیٹھے مذکورہ نالائق Cheater نے ریزلٹ کے مطابق ٹاپ کی فرسٹ ڈویژن میں امتحان پاس کر لیا تھا کیونکہ منصوبہ ساز نے میرے مزاج کا ادراک رکھتے ہوئے اس امتحان کے پرچے حل کرنے کے لیے متبادل بندوبست اور مجھ سے کہیں لائق دو عدد اشخاص کا اسی مکان کے دوسرے کمروں میں انتظام کر رکھا تھا۔ میں فرسٹ ڈویژن پانے والے سٹوڈنٹ کو نہیں جانتا لیکن ان دونوں لائق فائق بوٹی مینوفیکچررز سے واقف ہوں کہ دنیا کمانے میں انھوں نے کوئی ثانی پیدا نہیں ہونے دیا۔ لوگ منہ پر ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے لیکن پیٹھ پیچھے شیطان کی اولاد کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

امتحانی پرچہ حل کرنے کے دوران چھوٹی موٹی آنکھ مچولی ہمیشہ سے رہی ہے جسے ایگزامینر بھی درگزر کر دیا کرتے ہیں اور امتحان میں بیٹھے طلبہ محتاط رہتے ہیں کہ اس کا اثر تعلیم اور کیریئر دونوں کے لیے فیصلہ کن اور نقصان دہ ہوتا ہے لیکن اخلاقی اور قانونی کمزوریوں نے اصولوں کی پامالی کی طرف رخ کیا تو نہ حکمرانوں نے اس کا نوٹس لیا نہ مذہبی پیشواؤں نے' جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹی برائیاں بڑھتی اور بڑی ہوتی گئیں اور اب یہ حالت ہے کہ اصول، اخلاق، قانون اور مذہب کے نام لیوا خود بھی عملاً اپنا مقام کھو کر بدراہ ہو گئے اور جب سالار قافلہ ہی منزل کے مقام اور تعین سے بیگانہ ہو جائے تو قافلے تو بکھر جاتے یا لٹ جاتے ہیں۔


آج سے پندرہ برس قبل اچانک میڈیا میں Ghost Schools کا چرچا ہوا تو سروے نے تصدیق بھی کر دی۔ عمارت نہ استاد' طالب علم نہ کوئی کتاب لیکن رجسٹر حاضری اور وصولی تنخواہ کا ریکارڈ موجود اور ایسے سکولوں کے نشان کسی زمیندار' با اثر شخصیت یا وڈیرے کے ڈیرے پر ضرور پائے گئے جہاں اس کے مویشی بندھے ہوتے تھے۔گھوسٹ سکولوں کا چرچا ہوا' سروے ہوا لیکن نتیجہ جوں کا توں ہے بلکہ خیبر پختونخوا میں تو علم دشمنوں نے سیکڑوں اسکول بموں سے اڑا دیئے۔ انھی دنوں امتحانی مراکز میں وسیع پیمانے پر نقل چلنے اور بوٹی مافیا کی کارستانیوں پر وزیر اعلیٰ نے پنجاب کے تمام سینئر افسروں کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ بوٹی مافیا کا توڑ کرنے کے لیے امتحانی مراکز پر چھاپے ماریں۔ میں نے جہلم کے ایک کالج کے امتحانی مرکزپر چھاپہ مارا۔ یہاں مجھے ایک معروف طلبہ تنظیم کے جوابی حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال پورے صوبے میں متحرک انتظامیہ نے بوٹی مافیا کا غلبہ ختم کیا۔

ہر سالانہ امتحان پر ایک دو پرچے قبل ازوقت آؤٹ ہو جانا روایت بن چکی ہے۔ جزا و سزا کی غیرموجودگی کے سبب پرچہ آؤٹ ہو جانا اب معمول کی بات ہے۔ اب نقل ہونا اور بوٹی مافیا معمول کی باتیں ہیں اور اس سے بڑے جرم کا چارج ممبران پارلیمنٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ مشرف دور میں گریجویشن الیکشن کی لازمی شرط تھی۔ درجنوں نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا، بیسیوں نے مدرسے کی اسناد کو ڈگری ظاہر کر کے الیکشن لڑا، فیصلہ آ گیا کہ یہ سندات بی اے کے برابر ڈگریاں نہیں۔ پچاس سے زیادہ نان گریجویٹ پارلیمنٹ کی مدت پوری کر کے مراعات لے گئے، بہت سی کاروں پر جھنڈے لہرا گئے۔ رات گئی بات گئی۔ اندھیر نگری میں کون کسی کا محاسبہ کرتا ہے اور کون جوابدہ ہوتا ہے، کون ناجائز مراعات کی ریکوری کراتا ہے۔

اس سال کے شروع میں ایک اور ان ہونی بھی ہو گئی۔ فیڈرل سول سروس کے سالانہ امتحانوں کے حوالے سے صرف یہ اعتراض اٹھتا تھا کہ کئی امیدوار انٹرویو میں صرف اس لیے زیادہ مارکس لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ انٹرویو بورڈ میں ان کے کئی انکل بھی موجود ہوتے ہیں لیکن انہونی دراصل یہ ہوئی کہ ایک سینٹر سے جب سیل بند تحریری پرچے بذریعہ ڈاک اسلام آباد روانہ ہونے کو تھے تو محکمہ ڈاک کے چند ملازمین کی ملی بھگت سے امیدواروں نے سیل شدہ پیکٹ کھلوا کر تحریری جواب دوبارہ لکھے اور اسلام آباد بھجوائے۔ ایسی دھاندلی اس سے پہلے نہیں سنی گئی تھی۔

کچھ امتحانی مراکز میں گن پوائنٹ پر نقل کے الزامات بھی نوٹس میں آنے لگے ہیں۔ یہ شکایت بھی عام ہے کہ بعض طلبہ پرچہ حل کرنے سے پہلے ڈیسک پر ریوالور رکھ لیتے ہیں تا کہ وہ من مانی کریں اور ممتحن کی نظر ان طرف نہ اٹھے۔ اگر فرشتہ اجل کسی بیمار مریض کو ساتھ لے جانے کا فیصلہ کر چکا ہو تو یہ بھی ڈاکٹر کا جرم ٹھہرا اس لیے تعلیم اور صحت کے محکمے بھی طلبہ اور مریض کے رشتہ داروں کے سپرد کرنے پڑیں گے۔ اگر سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو ملک میں بہت جلد قانون کے بجائے بندوق کی حکمرانی آجائے گی، اب زیادہ وقت نہیں، 11 مئی 2013ء کے دن منعقد ہونے والے الیکشن میں عوام کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ کیسی اور کس قسم کی زندگی چاہتے ہیں۔ عذاب مسلسل میں گزر بسر' بندوق کی نالی کے آگے سفر یا امن، چین' خوشحالی' بے خوفی' ترقی اور عزت و آبرو والی زندگی۔
Load Next Story