آئیں کامیابی کی نفسیات سمجھتے ہیں
احترام اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ خود زندگی پرانی ہے۔
اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ بغیر قربانی دیے سب کچھ حاصل کر لیں گے تو آپ غلط سوچتے ہیں، کامیابی کی نفسیات کو جاننے کا بہترین طریقہ عظیم اور کامیاب لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ ہے ،کامیابی کے معنیٰ سمجھنے میں اس سے بڑھ کر کوئی چیز مدد گار ثابت نہیں ہوسکتی ۔ ابراہام لنکن اور بینجمن فرینکلن کی زندگی کی کہانی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کہانیوں میں شامل ہیں۔
ایک نے امریکا میں غلامی کا خاتمہ کیا جب کہ دوسرا ایک نامور اسکالر، موجد او ر سیاسی مدبر تھا یہ دونوں افراد انسانی تعلقات اور دوسروں کو تسلیم کرنے کے فن میں ماہر تھے ان کا عظیم ترین وصف یہ تھا کہ وہ ہر قسم کے انسانوں کے ساتھ نباہ کرسکتے تھے اور ان میں موجود بہترین اوصاف کو کھوجنے میں قادر تھے اسی ہنر نے ان کی کامیابی میں کسی دوسرے ہنر کی نسبت زیادہ کردار ادا کیا تھا۔
لنکن جب صدر بن کر وائٹ ہاؤس پہنچا تو اس کے ساتھ کام کرنے والوں میں سب میں دو چیزیں مشترک تھیں (1) بے پناہ ٹیلنٹ (2) انا۔ وہ یہ بھی سو چتے تھے کہ وہ صدر سے برتر ہیں تاہم لنکن نے ان سے پیچھا چھڑوانے کے بجائے انھیں عزت دی احترام دیا، وہ ان کی صلاحیتوں کی تعریفیں کیا کرتا تھا، ان سے مشورے لیا کرتا تھا انھیں اپنے ٹیلنٹس اور توانائی ملک اور قوم کے لیے استعمال کرنے کی تحریک دیتا تھا اس کے اس برتاؤ اور رویے کی وجہ سے ہر ایک فرد فاتح بن جاتا تھا۔
دوسری طرف فرینکلن کے متعلق ہمیشہ یہ کہاجاتا ہے کہ وہ پیدائشی سفارت کار تھا ایک ایسا شخص جس کی شخصیت پیدائشی طور پر دوسروں کو خوشگوار تاثر دینے والی تھی لیکن حقیقت یہ نہیں تھی فرینکلن کے اپنے اعترافات کے مطابق اس کی شخصیت میں کئی خلاتھے اس نے محنت اور مستقل مزاجی کے ذریعے انسانی تعلقات کے ہنر میں کاملیتPerfection حاصل کی جو بالاخر اس کی عظیم سفارت کارانہ کامیابیوں کا باعث بنی۔
فرینکلن اپنی آپ بیتی میں بتاتا ہے کہ دوسروں پر تنقیدکرنے کے لیے اپنے فطری میلان پر غلبہ پانے میں اسے کتنی جدوجہد کرنی پڑی تھی۔ اس نے اپنے آپ کو بہتربنانے کی اپنی کوشش کو ایک ''دلیرانہ اور کٹھن پر وجیکٹ'' کہا ہے اس نے اپنے آپ کو تربیت دی کہ اسے دوسرے لوگوں میں مثبت خصوصیات دیکھنی ہے اور پھر یہ کہنے کا عہد کیا کہ''ہر اس شخص میں خوبیاں ہیں جنھیں میں جانتا ہوں ''۔
لنکن اور فرینکلن دونوں نے زندگی میں کامیابی کی کلید دریافت کرلی تھی اور وہ کلید تھی دوسروں کو تسلیم کرنا۔ وہ دونوں دہری جیت کی عظیم قوت سے واقف تھے اور انھوں نے دوسرے لوگوں کو اپنی بہترین خصوصیات باہر لانے میں مدد دی انھوں نے دوسروں کو بلند کرکے خود کو تاریخ میں بلند ترین مقامات پر پہنچا دیا۔
دوسری طرف ناکام لوگ اپنی زندگی کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ آئیں ! اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ نامور مصنف ہال اربن لکھتا ہے ''زیادہ عرصہ نہیں گزرا میں نے ایک مذہبی پیشوا سے سناکہ دوسروں کے بارے میں فیصلہ دینے میں بڑے خطرات ہوتے ہیں یہ بات نہ صرف روحانی بلکہ نفسیاتی نکتہ نظر سے بھی بامعنیٰ لگتی ہے جب میں اپنی زندگی کے مختلف مراحل کے دوران مختلف لوگوں کے متعلق دیے گئے اپنے فیصلوں کے متعلق سوچتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے غلطی کی ہے.
غلطی کا احساس اس وقت بہت زیادہ ہوجاتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ میں اب بھی ایسا ہی کرتاہوں''سچ تو یہ ہے کہ بیشتر لوگ دوسروں کے متعلق فیصلے دینے کے مسئلے سے دوچار ہیں'' ہم اورکچھ نہ کریں صرف اپنے اردگرد نظریں دوڑالیں تو ہمیں بھی پتہ چل جائے گا کہ لوگوں نے اپنے گھروں سے لے کر کام تک کی جگہوں پر دوسرے لوگوں کے متعلق فیصلے دینے کی عدالتیں قائم کررکھی ہیں جہاں وہ دن رات لوگوں کے متعلق فیصلے پہ فیصلے دیے جارہے ہیں۔
اس کام میں لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے دن رات کوششوں میں مصروف ہیں ہم سب صرف اپنی ذات کو ترجیح دینے میں لگے ہوئے ہیں ہم ہر چیزکو اپنے تناظر سے دیکھ رہے ہیں اور جو ہم جیسا نہیں ہے۔ اس کے متعلق ہماری رائے یہ ہوتی ہے کہ ''تم ٹھیک نہیں ہو کیونکہ تم مجھ جیسے نہیں ہو'' دوسرے لفظوں میں ''صرف وہ ہی اچھا ہے جسے میں پسند کرتا ہوں'' باقی سب کے سب غلط ہیں اور ہم اس معاملے میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ باقی سب ہمیں اپنے دشمن لگنے لگتے ہیں۔
دنیا میں ایک عظیم ترین انسان گزرا ہے اور اس نے تین عظیم ترین الفاظ لکھے تھے اس کانام شوائٹزر تھا اور وہ تین الفاظ تھے ''زندگی کا احترام کرو'' وہ لکھتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی مقدس ہے اور ہمارا فرض اس کو باثروت بنانا ہے بے شمار لوگ زندگی کے معنیٰ اور اس کی قدروقیمت کے متعلق سوچے بغیرزندگی گزار دیتے ہیں۔
احترام اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ خود زندگی پرانی ہے۔ ہمارے سماج کی تباہی اور بربادی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب ہم نے اپنے سماج سے ''احترام'' کو سماج بدرکردیا Sociologists ہمیں بتاتے ہیں کہ سماج کی تباہی اور بربادی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنی ذات کے اندر بہت زیادہ سمٹ جاتے ہیں انھیں اپنے علاوہ کوئی اچھا دکھائی نہیں دیتا ہے اور نہ ہی وہ کسی اورکو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ایسے لوگ اپنے اوپر خول پہ خول چڑھا تے رہتے ہیں۔
ذہن میں رہے ہم جس طرح دوسروں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں اسی طرح سے ہم پہچانے جاتے ہیں اور وہ ہی ہمیشہ ہماری کامیابی یا ناکامی کا کلیدی عمل ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو کہ نرم گفتار اور شائستہ اطوار ہو دیانت دار ہو کبھی ناکام نہیں ہوا۔ تعلقات عامہ کے ماہر ہینری سی روجرز نے 1984ء میں کہا تھا ''مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سب لوگ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اچھے اطوار کامیابی کی سب سے اہم کنجی ہے'' جب کہ ارل نائٹ انگیل کہتا ہے ''زندگی میں ہمیں اتنے ہی انعامات ملتے ہیں جتنا کہ ہم دوسروں کا خیال کرتے ہیں'' اب تو آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگیا کہ ہم ناکام کیوں ہیں۔
ایک نے امریکا میں غلامی کا خاتمہ کیا جب کہ دوسرا ایک نامور اسکالر، موجد او ر سیاسی مدبر تھا یہ دونوں افراد انسانی تعلقات اور دوسروں کو تسلیم کرنے کے فن میں ماہر تھے ان کا عظیم ترین وصف یہ تھا کہ وہ ہر قسم کے انسانوں کے ساتھ نباہ کرسکتے تھے اور ان میں موجود بہترین اوصاف کو کھوجنے میں قادر تھے اسی ہنر نے ان کی کامیابی میں کسی دوسرے ہنر کی نسبت زیادہ کردار ادا کیا تھا۔
لنکن جب صدر بن کر وائٹ ہاؤس پہنچا تو اس کے ساتھ کام کرنے والوں میں سب میں دو چیزیں مشترک تھیں (1) بے پناہ ٹیلنٹ (2) انا۔ وہ یہ بھی سو چتے تھے کہ وہ صدر سے برتر ہیں تاہم لنکن نے ان سے پیچھا چھڑوانے کے بجائے انھیں عزت دی احترام دیا، وہ ان کی صلاحیتوں کی تعریفیں کیا کرتا تھا، ان سے مشورے لیا کرتا تھا انھیں اپنے ٹیلنٹس اور توانائی ملک اور قوم کے لیے استعمال کرنے کی تحریک دیتا تھا اس کے اس برتاؤ اور رویے کی وجہ سے ہر ایک فرد فاتح بن جاتا تھا۔
دوسری طرف فرینکلن کے متعلق ہمیشہ یہ کہاجاتا ہے کہ وہ پیدائشی سفارت کار تھا ایک ایسا شخص جس کی شخصیت پیدائشی طور پر دوسروں کو خوشگوار تاثر دینے والی تھی لیکن حقیقت یہ نہیں تھی فرینکلن کے اپنے اعترافات کے مطابق اس کی شخصیت میں کئی خلاتھے اس نے محنت اور مستقل مزاجی کے ذریعے انسانی تعلقات کے ہنر میں کاملیتPerfection حاصل کی جو بالاخر اس کی عظیم سفارت کارانہ کامیابیوں کا باعث بنی۔
فرینکلن اپنی آپ بیتی میں بتاتا ہے کہ دوسروں پر تنقیدکرنے کے لیے اپنے فطری میلان پر غلبہ پانے میں اسے کتنی جدوجہد کرنی پڑی تھی۔ اس نے اپنے آپ کو بہتربنانے کی اپنی کوشش کو ایک ''دلیرانہ اور کٹھن پر وجیکٹ'' کہا ہے اس نے اپنے آپ کو تربیت دی کہ اسے دوسرے لوگوں میں مثبت خصوصیات دیکھنی ہے اور پھر یہ کہنے کا عہد کیا کہ''ہر اس شخص میں خوبیاں ہیں جنھیں میں جانتا ہوں ''۔
لنکن اور فرینکلن دونوں نے زندگی میں کامیابی کی کلید دریافت کرلی تھی اور وہ کلید تھی دوسروں کو تسلیم کرنا۔ وہ دونوں دہری جیت کی عظیم قوت سے واقف تھے اور انھوں نے دوسرے لوگوں کو اپنی بہترین خصوصیات باہر لانے میں مدد دی انھوں نے دوسروں کو بلند کرکے خود کو تاریخ میں بلند ترین مقامات پر پہنچا دیا۔
دوسری طرف ناکام لوگ اپنی زندگی کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ آئیں ! اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ نامور مصنف ہال اربن لکھتا ہے ''زیادہ عرصہ نہیں گزرا میں نے ایک مذہبی پیشوا سے سناکہ دوسروں کے بارے میں فیصلہ دینے میں بڑے خطرات ہوتے ہیں یہ بات نہ صرف روحانی بلکہ نفسیاتی نکتہ نظر سے بھی بامعنیٰ لگتی ہے جب میں اپنی زندگی کے مختلف مراحل کے دوران مختلف لوگوں کے متعلق دیے گئے اپنے فیصلوں کے متعلق سوچتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے غلطی کی ہے.
غلطی کا احساس اس وقت بہت زیادہ ہوجاتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ میں اب بھی ایسا ہی کرتاہوں''سچ تو یہ ہے کہ بیشتر لوگ دوسروں کے متعلق فیصلے دینے کے مسئلے سے دوچار ہیں'' ہم اورکچھ نہ کریں صرف اپنے اردگرد نظریں دوڑالیں تو ہمیں بھی پتہ چل جائے گا کہ لوگوں نے اپنے گھروں سے لے کر کام تک کی جگہوں پر دوسرے لوگوں کے متعلق فیصلے دینے کی عدالتیں قائم کررکھی ہیں جہاں وہ دن رات لوگوں کے متعلق فیصلے پہ فیصلے دیے جارہے ہیں۔
اس کام میں لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے دن رات کوششوں میں مصروف ہیں ہم سب صرف اپنی ذات کو ترجیح دینے میں لگے ہوئے ہیں ہم ہر چیزکو اپنے تناظر سے دیکھ رہے ہیں اور جو ہم جیسا نہیں ہے۔ اس کے متعلق ہماری رائے یہ ہوتی ہے کہ ''تم ٹھیک نہیں ہو کیونکہ تم مجھ جیسے نہیں ہو'' دوسرے لفظوں میں ''صرف وہ ہی اچھا ہے جسے میں پسند کرتا ہوں'' باقی سب کے سب غلط ہیں اور ہم اس معاملے میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ باقی سب ہمیں اپنے دشمن لگنے لگتے ہیں۔
دنیا میں ایک عظیم ترین انسان گزرا ہے اور اس نے تین عظیم ترین الفاظ لکھے تھے اس کانام شوائٹزر تھا اور وہ تین الفاظ تھے ''زندگی کا احترام کرو'' وہ لکھتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی مقدس ہے اور ہمارا فرض اس کو باثروت بنانا ہے بے شمار لوگ زندگی کے معنیٰ اور اس کی قدروقیمت کے متعلق سوچے بغیرزندگی گزار دیتے ہیں۔
احترام اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ خود زندگی پرانی ہے۔ ہمارے سماج کی تباہی اور بربادی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب ہم نے اپنے سماج سے ''احترام'' کو سماج بدرکردیا Sociologists ہمیں بتاتے ہیں کہ سماج کی تباہی اور بربادی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنی ذات کے اندر بہت زیادہ سمٹ جاتے ہیں انھیں اپنے علاوہ کوئی اچھا دکھائی نہیں دیتا ہے اور نہ ہی وہ کسی اورکو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ایسے لوگ اپنے اوپر خول پہ خول چڑھا تے رہتے ہیں۔
ذہن میں رہے ہم جس طرح دوسروں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں اسی طرح سے ہم پہچانے جاتے ہیں اور وہ ہی ہمیشہ ہماری کامیابی یا ناکامی کا کلیدی عمل ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو کہ نرم گفتار اور شائستہ اطوار ہو دیانت دار ہو کبھی ناکام نہیں ہوا۔ تعلقات عامہ کے ماہر ہینری سی روجرز نے 1984ء میں کہا تھا ''مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سب لوگ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اچھے اطوار کامیابی کی سب سے اہم کنجی ہے'' جب کہ ارل نائٹ انگیل کہتا ہے ''زندگی میں ہمیں اتنے ہی انعامات ملتے ہیں جتنا کہ ہم دوسروں کا خیال کرتے ہیں'' اب تو آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگیا کہ ہم ناکام کیوں ہیں۔