کلامِ اقبال ماضی حال اور استقبال
ایک انقلابی شاعر ہونے کے ناتے وہ عملی زندگی میں فرد کے کردار کی اہمیت سے آگاہ تھے۔
اقبال، شاعرِامروز و فردا بھی ہیں اور نقوشِ حیات میں تغیر و تبدل کے لیے ماضی سے رجوع کے قائل بھی_کلامِ اقبال میں مثبت ماضی پسندی کا اظہار ملتا ہے اور اقبال ماضی کو استقبال کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔
ایک انقلابی شاعر ہونے کے ناتے وہ عملی زندگی میں فرد کے کردار کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ چناں چہ اس کے جذبات و احساسات کی دنیا کے ہنگامے ان کی نظر سے پنہاں نہ تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ عہدِ اقبال میں اردو شاعری نے جن مضامین کو تخصیصی طور پر اپنایا، ان میں فرد بطور موضوع نہایت اہم ٹھہرا۔ بالخصوص زمانی تثلیث کو مدنظر رکھتے ہوئے اس موضوع پر متنوع اسالیب میں اظہارِ خیال کیا گیا۔ اقبال نے بھی اپنے انقلابی رنگ و آہنگ کی ترسیل کے لیے مرکزی موضوع کے طور پر فرد ہی کا انتخاب کیا اور سلسلۂ روز و شب کی فلسفیانہ تعبیرات کرتے ہوئے منفرد نکات پیش کیے۔ اقبال، تعیینِ ذات، تلقین عمل اور تحریکِ حیات کے پیام بر ہیں۔ وہ نہ صرف لمحہ موجود کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور جا ری زمانے میں ہر آن تحرک و حرارت کے داعی ہیں بل کہ دوش کے آئینے میں فردا کے نقوش دیکھتے ہیں، اقبال کے الفاظ میں:
سامنے رکھتا ہوں اُس دورِ نشاط افزا کو مَیں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میَں
_____
یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اِکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
ماضی سے رجوع کے سلسلے میں اقبال کے ہاں اوّلین صورت یہ ہے کہ انھوں نے قرآن میں مذکور اشخاص و واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حال کے ماضی سے اتصال کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص انبیائے کرام کی زندگی کی روشن جھلکیاں دکھا کر عہدِ حاضر کے مسائل سے نبردآزما ہونے اور اس کے نتیجے میں مستقبل کو تابناکی سے ہمکنار کرنے کی آرزوئیں کلام اقبال میں جا بجا ملتی ہیں۔ معجزاتِ انبیا سر تا سر خیر کے علائم ہیںجو فرعون، سامری، قارون اور نمرود جیسی شر کی قوتوں سے برسرِ پیکار ہیں۔ اقبال انھیں تاریخی کرداروں سے عہدِ موجود میں حق و باطل کی آویزش میں رہ نمائی لینے پر اُکساتے ہیں۔ یہاں ماضی سے مربوط یہ اشخاص اور قصّے محض تاریخی بیانات نہیں بل کہ زمانۂ حال کی اصلاح و فلاح کے لیے رمزی معنویت رکھتے ہیں۔ اسی ذیل میں قرآنی آیات، سورتوں کے اسمائے مبارکہ یا قرآنی تصورات پر مبنی تمام تر لفظیاتی سرمایہ یوں نمود کرتا ہے کہ ہر دور میں اس سے فیض یابی کی صورت ابھرتی ہے۔ کیا اقبال کے ایسے اشعار عہدِ موجود میں ہماری رہ نمائی نہیں کرتے جب وہ بلند بانگ لہجے میں گویا ہوتے ہیں:
نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں
وہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اللّٰہی!
_____
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی، میَں شعلۂ سینائی!
_____
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا
_____
صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا اِلٰہ میں ہے
_____
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات
_____
مشکلیں اُمّتِ مرحوم کی آساں کر دے
مُورِ بے مایہ کو ہمدوشِ ثرّیا کر دے
کلامِ اقبال میں ماضی سے رجوع کی ایک صورت تاریخ مسلم و غیر مسلم کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے علامتی و رمزی اسلوب میں اصلاحِ احوال سے عبارت ہے۔ اس سلسلے میں علامہ کا انتخاب دیدنی ہے۔ وہ صرف ایسی ہستیوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے ہاں حرکی و عملی نظریات ملتے ہیں اور جن کی حیات حرارتِ زیست سے مملو رہی جو مخالف قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور خودی و خودشناسی کا سبق دے کر تاریخ میں امر ہو گئے۔ اقبال کا تاریخ مسلم سے وابستہ تمام تر شعری سرمایہ اسلام کی اکملیت و حقانیت کا عکاس ہے اور عہدِ حاضر کے دینی و اخلاقی، سیاسی و سماجی اور اقتصادی و معاشی مسائل کی گرہ کشائی میں معاون ٹھہرتا ہے۔ اقبال اس تناظرمیں ملتِ اسلامیہ کے روشن مستقبل کی صورت گری یوں کر دیتے ہیں:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
_____
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیّری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
_____
قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دِجلہ و فرات
_____
کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات
اقبال کا کلیدی موضوع چوں کہ اثبات خودی ہے لہٰذا تاریخِ غیر مسلم میں بھی وہ جہاں کہیں حرکی و عملی پہلو دیکھتے ہیں، انھیں کمال خوبی سے شعری قالب عطا کر دیتے ہیں۔ ایرانی و رومی اکا سرہ و قیاصرہ کی قوت و شوکت ہو یا چینی و ترکستانی خطوں سے متعلق فغفور و خاقان کی جاہ و حشمت اقبال انھیں اس طرح اپنے نقطۂ نظر کے تابع کر لیتے ہیں کہ یہ تاریخی حوالے استعماریت و ملوکیت کی رمزوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ اقبال عہدِ حاضرکے فرد کو ان کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہتے ہیں:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
_____
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نَے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں
_____
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
یہی نہیں اقبالِ باکمال کا قلم ماضی کی نقش گری کرتے ہوئے نیم تاریخی ادبی روایات میں بھی نئے رنگ بھر دیتا ہے، جو سر تا سر اخلاص اور عمل سے عبارت ہیں۔ مثلاً عہدِ حاضر کی تہذیب و اصلاح کے لیے ان شعری روایات میں تازگی پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
گرچہ اسکندر رہا محرومِ آبِ زندگی
فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناؤ نوش
_____
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو تو کیا
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
_____
ترا اے قیس کیونکر ہو گیا سوزِ دروں ٹھنڈا
کہ لیلیٰ میں تو ہیں اب تک وہی انداز لیلائی!
یاد رہے کہ اصلاحِ احوال کی خاطر اقبال محض ماضی بعید کے قصّے نہیں سناتے بل کہ عصری تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ چناں چہ اس ضمن میں وہ ایسے منفرد شعر کہہ گئے ہیں جو آج بھی مسلم دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جیسے:
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
_____
ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
_____
طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرئہ ارض کی تقدیر بدل جائے
_____
سُنا ہے میں نے سخن رس ہے ترکِ عثمانی
سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعرِ غریب
سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب
آج کل چند ''اقبال شناسوں'' کی طرف سے 'پورا اقبال' پڑھنے اور پڑھانے کی طرف تواتر سے توجہ دلائی جا رہی ہے اور موقف یہ اختیار کیا جاتاہے کہ آخر اقبال کو محض 'کاخِ امرا کے درودیوار ہٹا دو' یا ''جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا'' کا پیغام بر شاعر ہی کیوں سمجھا جاتا ہے۔ اس کے کلام میں بہت سے ایسے عناصر ہیں جو پیغام امن اور محبت سے منسلک ہیں ۔گزارش یہ ہے کہ اقبال ہنگامی حالات کا شاعر ہے ایسے میں جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہوا کرتی ہے۔ ملت اسلامیہ کے لیے یہ گھڑی محشر کی ہے اور ہم عرصۂ محشر میں ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جو علامہ 1908ء سے 1938ء تک تواتر اور تسلسل سے دیتے رہے۔ یہ حرکت، عمل اور انقلاب کا پیغام ہے۔ جب گردوپیش میں علی الاعلان ناانصافی، عدم مساوات، ظلم و تشدد، حق تلفی اور بدعنوانی کا راج ہو اور میرٹ کا قتلِ عام ہونے لگے تو ایسے حالات میں بلند آہنگی کمزوری کہلاتی ہے۔ یہی دورِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ ہے، یہی ضربِ کلیمی ہے اور یہی اقبال کا وہ انقلابی آہنگ ہے جو ادبیاتِ شرق و غرب میں اس کی پہچان ٹھہرا ۔ بالخصوص مسلم دنیا نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور مصر، ایران، ترکی، انڈونیشیا، تیونس اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اقبال دوستی اور اقبال فہمی کی مستحکم روایات قائم ہوئیں۔ اربابِ علم کی نگاہوں سے ڈاکٹر عبدالوہاب عزام، ڈاکٹر طہٰ حسین، محمد عاکف، ڈاکٹر علی نہاد تارلان، سید محیط طباطبائی، علی خامنہ ای، ڈاکٹر غلام حسین یوسفی، ڈاکٹر حسین خطیبی، ڈاکٹر علی شریعتی، ڈاکٹر بہادر جوہان اور ڈاکٹر احمد خالد جیسے ادبا و شعرا اور مترجمین کی کاوشیں پنہاں نہیں ہیں۔ یہ سبھی 'اقبال پسند' اس شاعرِ انقلاب کے اخلاص، درد مندی اور دل سوزی سے متاثر ہوئے اور بخوبی ادراک رکھتے تھے کہ اقبال ہی ایک ایسا شاعر ہے جو ملتِ اسلامیہ کے ماضی، حال اور استقبال پر ایسی گہری نظر رکھتا ہے کہ ہر دورِ ابتر میں اس کے کلام سے رہ نمائی لی جا سکتی ہے۔
ایک انقلابی شاعر ہونے کے ناتے وہ عملی زندگی میں فرد کے کردار کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ چناں چہ اس کے جذبات و احساسات کی دنیا کے ہنگامے ان کی نظر سے پنہاں نہ تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ عہدِ اقبال میں اردو شاعری نے جن مضامین کو تخصیصی طور پر اپنایا، ان میں فرد بطور موضوع نہایت اہم ٹھہرا۔ بالخصوص زمانی تثلیث کو مدنظر رکھتے ہوئے اس موضوع پر متنوع اسالیب میں اظہارِ خیال کیا گیا۔ اقبال نے بھی اپنے انقلابی رنگ و آہنگ کی ترسیل کے لیے مرکزی موضوع کے طور پر فرد ہی کا انتخاب کیا اور سلسلۂ روز و شب کی فلسفیانہ تعبیرات کرتے ہوئے منفرد نکات پیش کیے۔ اقبال، تعیینِ ذات، تلقین عمل اور تحریکِ حیات کے پیام بر ہیں۔ وہ نہ صرف لمحہ موجود کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور جا ری زمانے میں ہر آن تحرک و حرارت کے داعی ہیں بل کہ دوش کے آئینے میں فردا کے نقوش دیکھتے ہیں، اقبال کے الفاظ میں:
سامنے رکھتا ہوں اُس دورِ نشاط افزا کو مَیں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میَں
_____
یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اِکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
ماضی سے رجوع کے سلسلے میں اقبال کے ہاں اوّلین صورت یہ ہے کہ انھوں نے قرآن میں مذکور اشخاص و واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حال کے ماضی سے اتصال کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص انبیائے کرام کی زندگی کی روشن جھلکیاں دکھا کر عہدِ حاضر کے مسائل سے نبردآزما ہونے اور اس کے نتیجے میں مستقبل کو تابناکی سے ہمکنار کرنے کی آرزوئیں کلام اقبال میں جا بجا ملتی ہیں۔ معجزاتِ انبیا سر تا سر خیر کے علائم ہیںجو فرعون، سامری، قارون اور نمرود جیسی شر کی قوتوں سے برسرِ پیکار ہیں۔ اقبال انھیں تاریخی کرداروں سے عہدِ موجود میں حق و باطل کی آویزش میں رہ نمائی لینے پر اُکساتے ہیں۔ یہاں ماضی سے مربوط یہ اشخاص اور قصّے محض تاریخی بیانات نہیں بل کہ زمانۂ حال کی اصلاح و فلاح کے لیے رمزی معنویت رکھتے ہیں۔ اسی ذیل میں قرآنی آیات، سورتوں کے اسمائے مبارکہ یا قرآنی تصورات پر مبنی تمام تر لفظیاتی سرمایہ یوں نمود کرتا ہے کہ ہر دور میں اس سے فیض یابی کی صورت ابھرتی ہے۔ کیا اقبال کے ایسے اشعار عہدِ موجود میں ہماری رہ نمائی نہیں کرتے جب وہ بلند بانگ لہجے میں گویا ہوتے ہیں:
نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں
وہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اللّٰہی!
_____
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی، میَں شعلۂ سینائی!
_____
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا
_____
صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا اِلٰہ میں ہے
_____
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات
_____
مشکلیں اُمّتِ مرحوم کی آساں کر دے
مُورِ بے مایہ کو ہمدوشِ ثرّیا کر دے
کلامِ اقبال میں ماضی سے رجوع کی ایک صورت تاریخ مسلم و غیر مسلم کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے علامتی و رمزی اسلوب میں اصلاحِ احوال سے عبارت ہے۔ اس سلسلے میں علامہ کا انتخاب دیدنی ہے۔ وہ صرف ایسی ہستیوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے ہاں حرکی و عملی نظریات ملتے ہیں اور جن کی حیات حرارتِ زیست سے مملو رہی جو مخالف قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور خودی و خودشناسی کا سبق دے کر تاریخ میں امر ہو گئے۔ اقبال کا تاریخ مسلم سے وابستہ تمام تر شعری سرمایہ اسلام کی اکملیت و حقانیت کا عکاس ہے اور عہدِ حاضر کے دینی و اخلاقی، سیاسی و سماجی اور اقتصادی و معاشی مسائل کی گرہ کشائی میں معاون ٹھہرتا ہے۔ اقبال اس تناظرمیں ملتِ اسلامیہ کے روشن مستقبل کی صورت گری یوں کر دیتے ہیں:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
_____
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیّری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
_____
قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دِجلہ و فرات
_____
کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات
اقبال کا کلیدی موضوع چوں کہ اثبات خودی ہے لہٰذا تاریخِ غیر مسلم میں بھی وہ جہاں کہیں حرکی و عملی پہلو دیکھتے ہیں، انھیں کمال خوبی سے شعری قالب عطا کر دیتے ہیں۔ ایرانی و رومی اکا سرہ و قیاصرہ کی قوت و شوکت ہو یا چینی و ترکستانی خطوں سے متعلق فغفور و خاقان کی جاہ و حشمت اقبال انھیں اس طرح اپنے نقطۂ نظر کے تابع کر لیتے ہیں کہ یہ تاریخی حوالے استعماریت و ملوکیت کی رمزوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ اقبال عہدِ حاضرکے فرد کو ان کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہتے ہیں:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
_____
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نَے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں
_____
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
یہی نہیں اقبالِ باکمال کا قلم ماضی کی نقش گری کرتے ہوئے نیم تاریخی ادبی روایات میں بھی نئے رنگ بھر دیتا ہے، جو سر تا سر اخلاص اور عمل سے عبارت ہیں۔ مثلاً عہدِ حاضر کی تہذیب و اصلاح کے لیے ان شعری روایات میں تازگی پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
گرچہ اسکندر رہا محرومِ آبِ زندگی
فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناؤ نوش
_____
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو تو کیا
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
_____
ترا اے قیس کیونکر ہو گیا سوزِ دروں ٹھنڈا
کہ لیلیٰ میں تو ہیں اب تک وہی انداز لیلائی!
یاد رہے کہ اصلاحِ احوال کی خاطر اقبال محض ماضی بعید کے قصّے نہیں سناتے بل کہ عصری تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ چناں چہ اس ضمن میں وہ ایسے منفرد شعر کہہ گئے ہیں جو آج بھی مسلم دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جیسے:
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
_____
ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
_____
طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرئہ ارض کی تقدیر بدل جائے
_____
سُنا ہے میں نے سخن رس ہے ترکِ عثمانی
سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعرِ غریب
سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب
آج کل چند ''اقبال شناسوں'' کی طرف سے 'پورا اقبال' پڑھنے اور پڑھانے کی طرف تواتر سے توجہ دلائی جا رہی ہے اور موقف یہ اختیار کیا جاتاہے کہ آخر اقبال کو محض 'کاخِ امرا کے درودیوار ہٹا دو' یا ''جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا'' کا پیغام بر شاعر ہی کیوں سمجھا جاتا ہے۔ اس کے کلام میں بہت سے ایسے عناصر ہیں جو پیغام امن اور محبت سے منسلک ہیں ۔گزارش یہ ہے کہ اقبال ہنگامی حالات کا شاعر ہے ایسے میں جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہوا کرتی ہے۔ ملت اسلامیہ کے لیے یہ گھڑی محشر کی ہے اور ہم عرصۂ محشر میں ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جو علامہ 1908ء سے 1938ء تک تواتر اور تسلسل سے دیتے رہے۔ یہ حرکت، عمل اور انقلاب کا پیغام ہے۔ جب گردوپیش میں علی الاعلان ناانصافی، عدم مساوات، ظلم و تشدد، حق تلفی اور بدعنوانی کا راج ہو اور میرٹ کا قتلِ عام ہونے لگے تو ایسے حالات میں بلند آہنگی کمزوری کہلاتی ہے۔ یہی دورِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ ہے، یہی ضربِ کلیمی ہے اور یہی اقبال کا وہ انقلابی آہنگ ہے جو ادبیاتِ شرق و غرب میں اس کی پہچان ٹھہرا ۔ بالخصوص مسلم دنیا نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور مصر، ایران، ترکی، انڈونیشیا، تیونس اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اقبال دوستی اور اقبال فہمی کی مستحکم روایات قائم ہوئیں۔ اربابِ علم کی نگاہوں سے ڈاکٹر عبدالوہاب عزام، ڈاکٹر طہٰ حسین، محمد عاکف، ڈاکٹر علی نہاد تارلان، سید محیط طباطبائی، علی خامنہ ای، ڈاکٹر غلام حسین یوسفی، ڈاکٹر حسین خطیبی، ڈاکٹر علی شریعتی، ڈاکٹر بہادر جوہان اور ڈاکٹر احمد خالد جیسے ادبا و شعرا اور مترجمین کی کاوشیں پنہاں نہیں ہیں۔ یہ سبھی 'اقبال پسند' اس شاعرِ انقلاب کے اخلاص، درد مندی اور دل سوزی سے متاثر ہوئے اور بخوبی ادراک رکھتے تھے کہ اقبال ہی ایک ایسا شاعر ہے جو ملتِ اسلامیہ کے ماضی، حال اور استقبال پر ایسی گہری نظر رکھتا ہے کہ ہر دورِ ابتر میں اس کے کلام سے رہ نمائی لی جا سکتی ہے۔