دو روپے اور مصافحہ

ٹامسن نے حیران ہوکر پوچھا۔ ’’کیا ہوا مولوی صاحب آپ کو؟‘‘

ٹامسن نے حیران ہوکر پوچھا۔ ’’کیا ہوا مولوی صاحب آپ کو؟‘‘۔ فوٹو: فائل

NILI, AFGHANISTAN:
ٹامسن صاحب (جو غالباً شمال مغربی صوبے کے لیفٹنٹ گورنر تھے) مولوی نذیر احمد کے بڑے قدر داں اور دوست تھے۔ ان کی آمد کی اطلاع پاکر مولوی صاحب ان سے ملنے گئے۔ چپراسی نے ایک ملّا شکل کے کالے آدمی کو دیکھا تو کوٹھی کے دروازے پر ہی روک لیا۔ مولوی صاحب نے لاکھ چاہا کہ کسی طرح تعارفی کارڈ صاحب تک پہنچادے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اسے یہ بھی بتایا کہ میرے پرانے ملنے والے ہیں، مگر وہ بھلا انھیں کیوں گردانتا؟ آخر کار مولوی صاحب نے دو روپے بٹوے میں سے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھے اور کہا۔

''بھائی اب تو للّہ پہنچا دے۔'' یہی تو وہ چاہتا تھا۔ جھٹ کارڈ لے کر اندر چلاگیا۔ فوراً ہی مولوی صاحب کی طلبی ہوگئی۔ مولوی صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو ٹامسن صاحب کھڑے ہوگئے اور بولے۔

''مولوی صاحب مزاج شریف۔۔۔''یہ کہہ کر انھوں نے مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ مولوی صاحب نے کہا۔ ''مزاج میرا اس وقت ٹھیک نہیں ہے اور میں آپ سے ہاتھ بھی نہیں ملاسکتا۔''

ٹامسن نے حیران ہوکر پوچھا۔ ''کیا ہوا مولوی صاحب آپ کو؟''

وہ بولے، ''آپ کا چپراسی دو روپے مجھ سے لینے کے بعد آپ تک مجھے لایا ہے۔'' صاحب تو یہ سنتے ہی آگ بگولا ہوگئے۔ اس چپراسی کو آواز دے کر بلایا اور پوچھا۔ ''تم نے مولوی صاحب سے دو روپے لیے؟'' روپے اس کی جیب میں موجود تھے انکار کیسے کرتا؟ کہا، ''جی ہاں!''۔ صاحب نے خفگی سے کہا۔ ''تم برخاست'' اور مولوی صاحب سے بولے، ''لائیے اب ہاتھ ملائیے۔''

مولوی صاحب نے ہاتھ نہیں بڑھایا اور کہا، ''مگر وہ میرے دو روپے تو مجھے واپس نہیں ملے۔''


صاحب نے پھر اس چپراسی کو آواز دی اور اس سے مولوی صاحب کے دو روپے واپس دلوائے۔

بولے، ''اب ہاتھ ملائیے۔''مولوی صاحب نے اب بھی ہاتھ نہیں بڑھایا۔ صاحب نے متعجب ہوکر پوچھا۔

''اب کیا بات ہے۔''

مولوی صاحب نے کہا، ''میرے دو روپے واپس مل گئے، اس کا قصور معاف کیجیے اور اسے بحال کردیجیے۔''

صاحب مولوی صاحب کی بات بھی نہیں ٹال سکتے تھے۔ بولے،''جاؤ مولوی صاحب کے کہنے پر ہم نے تمہیں بحال کیا۔'' یہ کہہ کر پھر ہاتھ بڑھایا اور اب کے مولوی صاحب نے بھی ہاتھ بڑھا دیا۔

(شاہد احمد دہلوی کی کتاب گنجینۂ گوہر سے انتخاب)
Load Next Story