ہندو خاندانوں کی نقل مکانی کا معاملہ

وہ پاکستان چھوڑ کر نہیں بلکہ بھارت میں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے جا رہے ہیں.

سندھ میں ہندو کمیونٹی عدم تحفظ کا شکار ہے تو حکومت کو اسے تحفظ فراہم کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے، امتیاز خان

KARACHI:
جیکب آباد سے ہندو خاندانوں کی نقل مکانی کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں' ایک ٹی وی چینل کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سندھ میں اغوأ برائے تاوان کی مبینہ وارداتوں سے تنگ آ کر نقل مکانی کرنے والے 4 ہندو خاندان واہگہ بارڈر کے ذریعے آنکھوں میں آنسو لیے بھارت چلے گئے۔

اس رپورٹ کے مطابق ہندو برادری کے کچھ افراد کا کہنا تھا وہ جان کے تحفظ کے لیے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے برعکس ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بعض دیگر افراد کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر نہیں بلکہ بھارت میں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے جا رہے ہیں اور جلد واپس لوٹ آئیں گے۔ ایک ہندو خاندان کے افراد کا کہنا تھا کہ وہ قریبی رشتے داروں کی شادی میں شرکت کے لیے بھارت جا رہے ہیں' ویزے کی ایک ماہ کی مقررہ مدت میں پاکستان واپس آئیں گے۔

سندھ کے صوبائی وزیر مکیش چاولہ نے بھی کہا ہے کہ ڈھائی سو ہندو افراد سندھ سے مذہبی یاترا کے لیے جا رہے ہیں، کوئی ہندو بدامنی کے لیے نہیں جا رہا۔ اس بارے میں اصل اور زمینی حقائق کیا ہیں یہ تو تفصیلی تحقیقی رپورٹیں سامنے آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا تاہم وزیر داخلہ رحمان ملک کی جانب سے یہ کہنا کہ ہندوئوں کی نقل مکانی پاکستان کے خلاف بڑی سازش ہے اس امر کا ثبوت ہے کہ بہرحال اس معاملے میں دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔

وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ وزارت داخلہ کی اجازت کے بغیر اقلیتی شہری ملک نہیں چھوڑ سکتے' بھارتی سفارتخانہ یہ بتائے کہ اس نے 250 ویزے کیسے جاری کیے؟ بہرحال ان خبروں اور رپورٹوں میں اگر تھوڑی سی بھی سچائی ہے تو یہ ایک تشویش ناک معاملہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والی کسی اقلیتی کمیونٹی کے افراد امن و امان نہ ملنے کی وجہ سے ملک چھوڑ جائیں۔

کیونکہ ہمارا آئین اس ملک میں بسنے والے ہر فرد کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 8نومبر 1945کو بمبے میں اے پی اے کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ''اقلیتوں کو اس امر کا یقین کر لینا چاہیے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا'


کوئی بھی مہذب حکومت اقلیتوں کو سیکیورٹی اور اعتماد کا مکمل احساس دیے بغیر کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتی' انھیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ حکومت ان کو یہ تحفظ فراہم کرے گی' پاکستان میں اقلیتوں کو یہ تحفظ ملے گا'' قائد اعظم کا یہ فرمان اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں اقلیتوں کو مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہو چنانچہ اگر ماضی میں اس حوالے سے زیادہ کام نہیں ہو سکا تو ضروری ہے کہ اب اس سلسلے میں اقدامات عمل میں لائے جائیں۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ اس سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے اور اسمبلیوں میں اقلیتی نشستوں کی تعداد بڑھانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ جب ان نشستوں کی تعداد بڑھے گی تو پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے زیادہ اور بہتر قانون سازی کرا سکیں گی تاہم یہ بعد کی باتیں اور اقدامات ہیں فی الحال ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ میں رونما ہونے والے اس مبینہ واقعہ کی ٹھوس اور مکمل تحقیقات کی جائے تاکہ یہ حقیقت سامنے آئے کہ وہاں سے ہندو خاندانوں نے نقل مکانی کی ہے یا نہیں اور اگر کی ہے تو اس کے پس منظر میں کیا عوامل کارفرما تھے۔

ویسے بھی ہم ذات پات اور ہندو انتہا پسندی پر بھارت کو مطعون کرتے ہیں لیکن جب ہمارے اپنے ہاں بھی یہی سب کچھ ہونے لگے گا تو کیا فرق رہ جائے گا۔ بہت سے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی صورتحال کو تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا یا کم از کم اس صورتحال کو قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر نہیں کہا جا سکتا چنانچہ اگر یہ رپورٹیں درست ثابت ہوئیں تو اس سے عالمی برادری میں پاکستان کی بدنامی ہو گی اور اس پر نئے نئے الزامات عائد کیے جائیں گے۔

اگر سندھ میں ہندو کمیونٹی عدم تحفظ کا شکار ہے تو حکومت کو اسے تحفظ فراہم کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے سندھ سے مبینہ بدامنی کے باعث ہندو خاندانوں کی بھارت نقل مکانی کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے ہندو صوبائی وزیر مکیش چاولہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو 24 گھنٹے میں جیکب آباد پہنچ کر اقلیتی برادری سے ملاقات کر کے ان کے مسائل معلوم کرے گی۔

کمیٹی 3 روز کے اندر اپنی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کرے گی۔ امید کی جاتی ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں مناسب اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔ توقع ہے کہ اگر اندرون سندھ میں ہندو آبادی کو کسی قسم کے خطرات لاحق ہیں تو حکومت ان خطرات اور ہندو برادری کے تحفظات دور کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔ پاکستان ایک لبرل اور جدید سوچ رکھنے والے لوگوں کا ملک ہے'

یہ ثابت کرنے کے لیے ہمیں اپنے ملک کی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہی ہو گا۔ ماضی قریب میں امریکا اور بعض دیگر ممالک کی جانب سے پاکستان کو انتہا پسندانہ سوچ والا معاشرہ قرار دیا گیا تھا جب یہاں ہندوئوں سمیت تمام اقلیتوں کے تحفظ کا بندوبست ہو گا اور ان کے حقوق کی پاسداری کا خیال رکھا جائے گا تو پاکستان پر لگی یہ چھاپ ختم ہونے کی توقع بھی کی جا سکے گی۔
Load Next Story