ابھی یا کبھی نہیں
ماضی میں تو ایسا خود آنے کے لیے کیا گیا لیکن اب ایک تبدیلی یہ ہے کہ شاید خود نہیں آنا۔
حالیہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ الیکشن 2018 کسی طور غیر جانبدار نہ ہوگا، بلکہ اس میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے امکانات موجود ہیں، یعنی ایسی پری پول رگنگ جس میں ایک فریق کو مکمل آزادی ہوگی کہ وہ جیسے چاہے اپنی حکمت عملی وضع کرے، جس پر چاہے کرپشن کے، پیسے لینے کے الزامات لگادے، اور جسے چاہے ایماندار قرار دے، جب کہ باقی فریقین کو وہ سہولتیں بھی شاید حاصل نہ ہوں جو بنیادی ہیں اور اس کا حق ہیں، لیکن یہ سب کچھ نیا نہیں، اس سے قبل بھی کم و بیش یہی کچھ ہوتا رہا، ایسی حکومتیں بنائی جاتی رہیں، انھیں کچھ وقت بھی دیا گیا، پھر کوئی اچھا مہورت دیکھ کر فارغ کردیا۔
ماضی میں تو ایسا خود آنے کے لیے کیا گیا لیکن اب ایک تبدیلی یہ ہے کہ شاید خود نہیں آنا بلکہ سارا گند انھی سیاستدانوں پر ڈال کر اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنا ہے اور یہ سیاستدان الامان۔ یہ حکومت کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے، اقتدار ان کے لہو میں دوڑتا ہے کیونکہ اقتدار کے ساتھ پیسا جڑا ہے، اربوں، کھربوں ڈالر، جو اس غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے، جسے وہ آج کل خون تھوک کر کماتا ہے، اپنے بچوں کو قطار لگا کر فروخت کرتا ہے، یا خود موت کو گلے لگاکر بچوں کو بھی مار دیتا ہے۔
ایسی خبریں آئے دن اخبار میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن یہ غریب آدمی بھی ایک بڑا بدمعاش ہے، بلکہ بہت بڑا بدمعاش، جو مان کر نہیں دیتا اور اپنا قیمتی ووٹ انھی بدکردار، بے ایمان، کرپٹ، بدعہد، جھوٹے سیاستدانوں کو دیتا ہے اور اس بار بھی دے گا۔
اس غریب عوام کے کچھ سوال تو ان رہنماؤں سے بنتے ہیں، مثًلا پچھلے یا گزرے ہوئے پانچ سال میں آخر ان کے لیے کیا کیا گیا؟ یا ستر سال میں، کوئی ایک ایسا عوامی منصوبہ جس سے انھیں براہ راست فائدہ ہوا ہو، آخر آج ان کی اس حالت زار کا ذمے دار کون ہے؟ کیوں نہیں ان کے بچے ترقی کرسکے؟
بہت سے سوالات تو بہت سیدھے ہیں، مثًلا آپ کے بچے ملک سے باہر تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں، آپ ملک سے باہر بغرضِ علاج کیوں جاتے ہیں، یا چند سال میں آپ نے دولت کا یہ انبار کہاں سے لگالیا؟ لیکن انھوں نے کبھی کچھ نہیں پوچھا اور نہ کبھی کچھ پوچھیں گے۔ یعنی کمال حیرت اس امر پر ہے کہ نواز شریف و اہلِ خانہ بلاوجہ اپنی منی لانڈرنگ ثابت کرنے پر تلے ہیں، ارے آپ اس عوام کو تو موقع دے کر دیکھیے یہ آپ سے کہیں زیادہ اچھا دفاع آپ کا کریں گے، جو آپ بھی بھول گئے وہ انھیں یاد ہے۔
گروہ در گروہ غلام ابن غلام، ابن غلام۔ سوچ کر نہیں دیتے، سمجھ کر نہیں دیتے، ایک بیزار کن صورتحال ہے، باقی چیزیں ثانوی رہ جائیں گی، اگر کبھی یہ لوگ ہوش کے ناخن لے لیں تو، کس کا مارشل لاء، کیسے سیاستدان، بیس کروڑ عوم کے سامنے کس میں ہمت ہے ٹھہرنے کی؟ اصل خرابی تو یہیں پر ہے کہ آخر ایسا کیا ہو کہ اس جتھے کو عقل آجائے، جن میں کوئی سندھی ہے، کوئی پنجابی، بلوچی، پشتو، اور کوئی فلاں فلاں، لیکن نہیں ہیں تو ایک قوم، باقی سب کچھ ہیں، بلکہ جو نیا فتنہ ملک میں جنم لے اس میں بھی پیش پیش۔
میں خود بھی اسی عوام کا حصہ ہوں لہٰذا تلخ و ترش ہوکر بھی چاہتا ہوں کہ کاش ہم اپنے حقیقی مسئلے کو جان پائیں، کاش ہم ان کرپٹ سیاستدانوں کی شاطرانہ چالوں کو سمجھ پائیں، پھر الیکشن ہیں، پھر پانچ سال کا سوال ہے، پھر غربت کا سامنا ہے، پھر بچوں کی اسکول فیس، بجلی کے ہوش ربا بلز، مہینے کا راشن، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گٹر کا بدبو دار پانی، ملاوٹ شدہ غذا، اسپتالوں میں دم توڑتے مریض، جہاں ادویات کے نام پر جعلی اور expired گولیاں، سیرپ، اور اس پر روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی۔ کیسے ہوگا گزارا؟
ابھی چند ماہ ہیں یہ سوچنے کے لیے، ابھی فیصلہ باقی ہے، یہ جو حکومتیں بناتے ہیں، اب ان کی گرفت بھی ضروری ہے، انھیں بھی بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم آج ان سے کتنی محبت کرتے ہیں، آج کا سب سے مقبول نعرہ ہونا چاہیے ''بہت ہوگیا''۔ اب بس۔ جہاں سے زمین، آسمان بدلیں، ہوا و فضا بدلیں، ہمارے دن رات بدلیں، انگوٹھے والوں کو انگوٹھا دکھادو، انھیں بتادو کہ ہم اب بھی ایک قوم بن سکتے ہیں، ہم میں زندگی کے آثار باقی ہیں۔
کون کہتا ہے ہم مردہ قوم ہیں، جب نکلیں گے، جب اٹھیں گے تو ظالم کے ہاتھ توڑ دیں گے، اپنا نصیب بدل دیں گے، ساتھیو یہ وقت آزمائے ہوؤں کو آزمانے کا نہیں، یا ان کا بھی نہیں جو آزمائے تو نہ گئے لیکن ایک صوبے میں ان کی حکومت نے ان کا سارا کچا چٹھا کھول دیا، یہ وقت تو خود اپنی صفوں میں سے قیادت چننے کا ہے، کس طرح؟
اس طرح کہ اپنی گلی سے اپنا امیدوار لائیے، جو آپ کی طرح سے غریب یا مڈل کلاس ہو، آپ کے مسائل سے واقف ہو، ان تمام گرم وسرد سے گزرا ہو جن سے آپ اور آپ کے معصوم بچے گزرتے ہیں، وہی سمجھ سکتا ہے آپ کے ہمارے مسائل کا حل، ان کا دکھ۔ ابھی وقت ہے دوستو سنبھلنے کا۔ یہ وقت بھی گیا تو پھر پیچھے رہ جائے گی مفلسی، غربت، پچھتاوا، اور ان بے ایمان سیاستدانوں کی جھوٹی باتیں۔
میں پاکستان کی تمام تر خرابی کا حقیقی ذمے دار اکثر عوام کو قرار دیتا ہوں اور کیوں نہ دوں، جب ہم تعداد میں 22 کروڑ ہیں اور وہ محض چند سو، لیکن صرف عوام ہی ذمے دار نہیں، اس میں ایک بڑا حصہ ہماری اسٹبلشمنٹ کا ہے اور یہ اس وقت کا سب سے بڑا سچ ہے، اسے ماننا ہوگا، کیونکہ یہ ملک کی انمٹ تاریخ ہے کہ انھوں نے ملک میں کسی نظام کو پنپنے ہی نہیں دیا، حتیٰ کہ خود اپنے تخلیق کردہ نظام کو بھی، اسے بھی ہر آنے جانے والے عزیز ہموطنوں نے اس قدر بدلا کہ وہ اپنی اصل سے برباد ہوگیا، جیسا کہ ناظمین کا بلدیاتی نظام، ایوب خان مرحوم کا بی ڈی سسٹم، ضیاء الحق کا غیر جماعتی، غیر سیاسی لیکن جمہوری نظام، یہ سب آتے رہے اور جاتے رہے اور ملک کا بیڑہ غرق ہوتا رہا، نتیجہ کار ہم ان پڑوسی ممالک سے بھی کہیں پیچھے رہ گئے، پسماندہ ہوگئے جنھوں نے ہم سے ہی آزادی حاصل کی تھی۔
آج جو کہتے ہیں ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے انھیں یہ کہتے ہوئے شرم تک نہیں آتی، یا شاید انھیں پتا ہی نہیں کہ ترقی کہتے کسے ہیں، لیکن اپنا الو سیدھا کرنا ہے اپنی اور کم از کم اپنی کئی سو نسلوں کو اربوں پتی رکھنا ہے، لہٰذا یہ ڈھنڈورا تو پیٹنا ہی ہوگا۔ اب بھی کھیل جاری ہے، کہیں کھیلا جا چکا، جیسے بلوچستان اور سینیٹ میں، باقی کا کھیل باقی ہے جس میں کئی ایک ادارے اور ان کے سربراہان پوری قوت و شان و شوکت کے ساتھ شامل ہیں، حکم وہاں سے آتا ہے، تعمیل یہاں پر ہوتی ہے، انھی کے کہنے سے یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم مارشل لاء کو کسی طور برداشت نہیں کریں گے.
دیکھیے الیکشن کے بالکل قریب صرف ایک صوبے کے ادارے وزٹ کیے جارہے ہیں اور ایک وزیراعلیٰ کو تمام تر خرابیوں کا ذمے دار قرار دیا جارہا ہے، کیا یہ پری پول رگگنگ نہیں؟ ایک ہی جیسے کیس میں ایک باعزت بری، ایک نااہل، بات یہ ہے کہ ہر ڈاکو، چور یہ کہتا بھی ہے اور اس پر ایمان بھی رکھتا ہے کہ ہماری عوام کا حافظہ بڑا کمزور ہے، یہ لوگ بھول جائیں گے، پہلے بھی بھول گئے تھے۔
ماضی میں تو ایسا خود آنے کے لیے کیا گیا لیکن اب ایک تبدیلی یہ ہے کہ شاید خود نہیں آنا بلکہ سارا گند انھی سیاستدانوں پر ڈال کر اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنا ہے اور یہ سیاستدان الامان۔ یہ حکومت کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے، اقتدار ان کے لہو میں دوڑتا ہے کیونکہ اقتدار کے ساتھ پیسا جڑا ہے، اربوں، کھربوں ڈالر، جو اس غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے، جسے وہ آج کل خون تھوک کر کماتا ہے، اپنے بچوں کو قطار لگا کر فروخت کرتا ہے، یا خود موت کو گلے لگاکر بچوں کو بھی مار دیتا ہے۔
ایسی خبریں آئے دن اخبار میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن یہ غریب آدمی بھی ایک بڑا بدمعاش ہے، بلکہ بہت بڑا بدمعاش، جو مان کر نہیں دیتا اور اپنا قیمتی ووٹ انھی بدکردار، بے ایمان، کرپٹ، بدعہد، جھوٹے سیاستدانوں کو دیتا ہے اور اس بار بھی دے گا۔
اس غریب عوام کے کچھ سوال تو ان رہنماؤں سے بنتے ہیں، مثًلا پچھلے یا گزرے ہوئے پانچ سال میں آخر ان کے لیے کیا کیا گیا؟ یا ستر سال میں، کوئی ایک ایسا عوامی منصوبہ جس سے انھیں براہ راست فائدہ ہوا ہو، آخر آج ان کی اس حالت زار کا ذمے دار کون ہے؟ کیوں نہیں ان کے بچے ترقی کرسکے؟
بہت سے سوالات تو بہت سیدھے ہیں، مثًلا آپ کے بچے ملک سے باہر تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں، آپ ملک سے باہر بغرضِ علاج کیوں جاتے ہیں، یا چند سال میں آپ نے دولت کا یہ انبار کہاں سے لگالیا؟ لیکن انھوں نے کبھی کچھ نہیں پوچھا اور نہ کبھی کچھ پوچھیں گے۔ یعنی کمال حیرت اس امر پر ہے کہ نواز شریف و اہلِ خانہ بلاوجہ اپنی منی لانڈرنگ ثابت کرنے پر تلے ہیں، ارے آپ اس عوام کو تو موقع دے کر دیکھیے یہ آپ سے کہیں زیادہ اچھا دفاع آپ کا کریں گے، جو آپ بھی بھول گئے وہ انھیں یاد ہے۔
گروہ در گروہ غلام ابن غلام، ابن غلام۔ سوچ کر نہیں دیتے، سمجھ کر نہیں دیتے، ایک بیزار کن صورتحال ہے، باقی چیزیں ثانوی رہ جائیں گی، اگر کبھی یہ لوگ ہوش کے ناخن لے لیں تو، کس کا مارشل لاء، کیسے سیاستدان، بیس کروڑ عوم کے سامنے کس میں ہمت ہے ٹھہرنے کی؟ اصل خرابی تو یہیں پر ہے کہ آخر ایسا کیا ہو کہ اس جتھے کو عقل آجائے، جن میں کوئی سندھی ہے، کوئی پنجابی، بلوچی، پشتو، اور کوئی فلاں فلاں، لیکن نہیں ہیں تو ایک قوم، باقی سب کچھ ہیں، بلکہ جو نیا فتنہ ملک میں جنم لے اس میں بھی پیش پیش۔
میں خود بھی اسی عوام کا حصہ ہوں لہٰذا تلخ و ترش ہوکر بھی چاہتا ہوں کہ کاش ہم اپنے حقیقی مسئلے کو جان پائیں، کاش ہم ان کرپٹ سیاستدانوں کی شاطرانہ چالوں کو سمجھ پائیں، پھر الیکشن ہیں، پھر پانچ سال کا سوال ہے، پھر غربت کا سامنا ہے، پھر بچوں کی اسکول فیس، بجلی کے ہوش ربا بلز، مہینے کا راشن، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گٹر کا بدبو دار پانی، ملاوٹ شدہ غذا، اسپتالوں میں دم توڑتے مریض، جہاں ادویات کے نام پر جعلی اور expired گولیاں، سیرپ، اور اس پر روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی۔ کیسے ہوگا گزارا؟
ابھی چند ماہ ہیں یہ سوچنے کے لیے، ابھی فیصلہ باقی ہے، یہ جو حکومتیں بناتے ہیں، اب ان کی گرفت بھی ضروری ہے، انھیں بھی بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم آج ان سے کتنی محبت کرتے ہیں، آج کا سب سے مقبول نعرہ ہونا چاہیے ''بہت ہوگیا''۔ اب بس۔ جہاں سے زمین، آسمان بدلیں، ہوا و فضا بدلیں، ہمارے دن رات بدلیں، انگوٹھے والوں کو انگوٹھا دکھادو، انھیں بتادو کہ ہم اب بھی ایک قوم بن سکتے ہیں، ہم میں زندگی کے آثار باقی ہیں۔
کون کہتا ہے ہم مردہ قوم ہیں، جب نکلیں گے، جب اٹھیں گے تو ظالم کے ہاتھ توڑ دیں گے، اپنا نصیب بدل دیں گے، ساتھیو یہ وقت آزمائے ہوؤں کو آزمانے کا نہیں، یا ان کا بھی نہیں جو آزمائے تو نہ گئے لیکن ایک صوبے میں ان کی حکومت نے ان کا سارا کچا چٹھا کھول دیا، یہ وقت تو خود اپنی صفوں میں سے قیادت چننے کا ہے، کس طرح؟
اس طرح کہ اپنی گلی سے اپنا امیدوار لائیے، جو آپ کی طرح سے غریب یا مڈل کلاس ہو، آپ کے مسائل سے واقف ہو، ان تمام گرم وسرد سے گزرا ہو جن سے آپ اور آپ کے معصوم بچے گزرتے ہیں، وہی سمجھ سکتا ہے آپ کے ہمارے مسائل کا حل، ان کا دکھ۔ ابھی وقت ہے دوستو سنبھلنے کا۔ یہ وقت بھی گیا تو پھر پیچھے رہ جائے گی مفلسی، غربت، پچھتاوا، اور ان بے ایمان سیاستدانوں کی جھوٹی باتیں۔
میں پاکستان کی تمام تر خرابی کا حقیقی ذمے دار اکثر عوام کو قرار دیتا ہوں اور کیوں نہ دوں، جب ہم تعداد میں 22 کروڑ ہیں اور وہ محض چند سو، لیکن صرف عوام ہی ذمے دار نہیں، اس میں ایک بڑا حصہ ہماری اسٹبلشمنٹ کا ہے اور یہ اس وقت کا سب سے بڑا سچ ہے، اسے ماننا ہوگا، کیونکہ یہ ملک کی انمٹ تاریخ ہے کہ انھوں نے ملک میں کسی نظام کو پنپنے ہی نہیں دیا، حتیٰ کہ خود اپنے تخلیق کردہ نظام کو بھی، اسے بھی ہر آنے جانے والے عزیز ہموطنوں نے اس قدر بدلا کہ وہ اپنی اصل سے برباد ہوگیا، جیسا کہ ناظمین کا بلدیاتی نظام، ایوب خان مرحوم کا بی ڈی سسٹم، ضیاء الحق کا غیر جماعتی، غیر سیاسی لیکن جمہوری نظام، یہ سب آتے رہے اور جاتے رہے اور ملک کا بیڑہ غرق ہوتا رہا، نتیجہ کار ہم ان پڑوسی ممالک سے بھی کہیں پیچھے رہ گئے، پسماندہ ہوگئے جنھوں نے ہم سے ہی آزادی حاصل کی تھی۔
آج جو کہتے ہیں ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے انھیں یہ کہتے ہوئے شرم تک نہیں آتی، یا شاید انھیں پتا ہی نہیں کہ ترقی کہتے کسے ہیں، لیکن اپنا الو سیدھا کرنا ہے اپنی اور کم از کم اپنی کئی سو نسلوں کو اربوں پتی رکھنا ہے، لہٰذا یہ ڈھنڈورا تو پیٹنا ہی ہوگا۔ اب بھی کھیل جاری ہے، کہیں کھیلا جا چکا، جیسے بلوچستان اور سینیٹ میں، باقی کا کھیل باقی ہے جس میں کئی ایک ادارے اور ان کے سربراہان پوری قوت و شان و شوکت کے ساتھ شامل ہیں، حکم وہاں سے آتا ہے، تعمیل یہاں پر ہوتی ہے، انھی کے کہنے سے یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم مارشل لاء کو کسی طور برداشت نہیں کریں گے.
دیکھیے الیکشن کے بالکل قریب صرف ایک صوبے کے ادارے وزٹ کیے جارہے ہیں اور ایک وزیراعلیٰ کو تمام تر خرابیوں کا ذمے دار قرار دیا جارہا ہے، کیا یہ پری پول رگگنگ نہیں؟ ایک ہی جیسے کیس میں ایک باعزت بری، ایک نااہل، بات یہ ہے کہ ہر ڈاکو، چور یہ کہتا بھی ہے اور اس پر ایمان بھی رکھتا ہے کہ ہماری عوام کا حافظہ بڑا کمزور ہے، یہ لوگ بھول جائیں گے، پہلے بھی بھول گئے تھے۔