سیاست میں ایک نئی روایت
آج کی سیاست میں وہی سیاستدان کامیاب رہتے ہیں جو اپنی پارٹی سربراہ اور اس کے خاندان کی جی حضوری اور چاپلوسی کرتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کے رنگ بھی نرالے ہیں، ہمارے سیاستدان جم کر کسی ایک پارٹی کے ساتھ اپنا سیاسی رشتہ کم ہی نبھاتے ہیں اور جو سیاست میں روایات اور اقدار برقرار رکھنے کے اسیر ہیں وہ اپنی صاف ستھری سیاست کے دعویٰ کے باعث کسی سیاسی پارٹی کے وارے میں نہیں آتے۔
آج کی سیاست میں وہی سیاستدان کامیاب رہتے ہیں جو اپنی پارٹی سربراہ اور اس کے خاندان کی جی حضوری اور چاپلوسی کرتے ہیں۔ پارٹی کے تمام عہدے اور مراعات انھی کے لیے ہوتی ہیں اور پھر جب پارٹی کے اقتدار کا سورج غروب ہوتا ہے تو یہی سیاستدان کسی دوسری اقتدار یافتہ پارٹی کے سائے تلے اپنی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ بقول مولانا آزاد سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور عوام کی خدمت کے لیے ضروری ہے کہ بر سر اقتدار رہا جائے تا کہ عوامی مسائل حل ہوتے رہیں۔
دراصل یہ عوامی مسائل کے بجائے اپنے مسائل کے حل پر توجہ دینے کی وجہ ہوتی ہے اور اسی مضبوط وجہ سے سیاست میں پارٹیاں بدلنے کو سیاستدان معیوب نہیں سمجھتے۔ یہی سیاستدان کبھی تو کسی آمر کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور جب اس کا اقتدار ختم ہو جاتا ہے تو یہی سیاستدان جمہوریت کے حق میں زور و شور سے تقریریں کرتے نظر آئیں گے۔
اس کی کئی زندہ مثالیں ہمارے سامنے آج بھی موجود ہیں جو کہ کبھی تو پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار کے جھولے جھول رہے تھے اور ان کے گن گاتے تھے اور آج یہی حکومتی وزراء میں شامل ہیں اور ان کی زبان جمہوریت کے فوائد گنتے تھکتی نہیں اور ہماری سیاسی پارٹیاں ان کو جیسے تیسے قبول بھی کر لیتی ہیں کہ مارکیٹ میں یہی جنس دستیاب ہے اور کاروبار تو چلانا ہی ہے۔ سیاست میں اگر کچھ نئی روایات متعارف ہوئی ہیں تو وہ نوخیز جناب عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف نے کرائی ہیں۔
انھوں نے گزشتہ الیکشن کے بعد سے لے کر اب تک ایک بھر پور اور توانا اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے، مسلسل ملک کی بہتری کی بات کی اور پاکستانی عوام کو اس بات پر آمادہ بھی کر لیا کہ انھیں ان جماندرو قسم کے سیاستدانوں سے چھٹکارا حاصل کر کے صاف ستھرے لوگوں کو اپنا حکمران منتخب کرنا ہے تا کہ پاکستان ترقی کرے۔ وہ نئے پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں جس میں عام آدمی کے لیے انصاف ہو اور اس کے بنیادی حقوق اس کو عملاً حاصل ہوں۔
یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اقتدار ان لوگوں کے پاس ہو جو روائتی سیاست سے ہٹ کر عوام کی حکمرانی کے اصولوں پر اپنے طرز حکمرانی کی بنیاد رکھیں اور ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب سیاستدان عوام کے تابع ہوں اور سیاست اپنے ذاتی مفادات سے جس قدر ممکن ہو بالاتر ہو کر کریں۔
عمران خان کی صورت میں پاکستانی عوام کو ایک منفرد قسم کا سیاسی لیڈر ملا ہے جس نے دو دہائیوں کی جدو جہد کے بعد عوام میں اپنی جگہ پکی کی ہے اور عوام نے بھی اس کی لیڈری پر لبیک کہا ہے۔ یہ عمران خان گزشتہ کئی برسوں سے سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ کو ان کی تما م تر برائیوں کے ساتھ بے نقاب کرتے آ رہے ہیں۔
وہ کسی معافی تلافی کے حق میں نہیں بلکہ ان کے بارے میں اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بلا ضرورت نازک سیاسی مواقع پر ایسے اقدامات بھی کر جاتے ہیں جن سے ان کی پارٹی کو سیاسی نقصان ہوتا ہے لیکن وہ اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں اور خود اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ پچھلے چند برسوں میں کئی سیاسی شکستوں کے بعد بھی نہ تو وہ خود ناامید ہوئے اور نہ ہی انھوں نے اپنے مداحوں کو مایوس ہونے دیا بلکہ وہ ان سیاسی شکستوں سے مسلسل سیکھتے ہی رہے اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی نیک نامی کو آیندہ الیکشن میں کیش کرائیں جس کا جرات مندانہ آغاز انھوں نے اپنی ہی پارٹی کے بیس اراکین صوبائی اسمبلی کے خلاف سینیٹ الیکشن میں ووٹ کو بیچنے کا الزام لگا کر ان کو شوکاز نوٹس اور پارٹی سے نکالنے کو اعلان کر کے کیا ہے، جس پر ان ممبران نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان میں سے بعض نے اس کو جھوٹ قرار دیا ہے۔
لیکن کچھ تو دال میں کالا ہے جس کا ثبوت سینیٹ میں پیپلز پار ٹی کے خیبر پختونخوا سے دو ارکان کا منتخب ہونا ہے جن کو تحریک انصاف کے اراکین نے ہی ووٹ دیئے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے پاس تو اپنے ایک رکن کو بھی منتخب کرانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ووٹ نہیں تھے۔ جناب عمران خان کہتے ہیں کہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے اپنے کرپٹ ممبران کو نکالنے کی جرات کریں، انھوں نے اپنے اس اقدام کو ووٹ کے تقدس کا نام دیا ہے۔
ان کا یہ فیصلہ عام انتخابات سے پہلے اس وقت سامنے آیا ہے جب الیکشن میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں اس وقت سیاسی پارٹیاں اپنے ارکان کو اپنے ساتھ جڑا رہنے کے لیے ان کی خوشامدیں کر رہی ہیں جبکہ عمران خان نے ایک بار پھر اپنے اس جرات مندانہ اقدام سے قوم کو اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ان کی پارٹی میں کرپٹ لوگوں کی کوئی جگہ نہیں اور اگر کوئی کرپٹ ان کی پارٹی میں موجود ہے تو وہ خود ان سے کنارہ کر لے اور ان کی پارٹی چھوڑ دے۔
ہمارے ملک میں اس طرح کی یہ پہلی روایت اور سیاسی ایکشن ہے جو کہ ایک پارٹی کے سربراہ نے اپنے ارکان اسمبلی کے خلاف لیا ہے۔ عمران خان اسی سیاسی معاشرے کی پیدا وار ہیں جس میں ہم سب زندگی گزار رہے ہیں وہ اشرافی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن انھوں نے اپنی ذات کو پاکستانی عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت دی ہے ان کا موجودہ ایکشن ان کے کردار کی مضبوطی کو مزید واضح کر رہا ہے۔ اور یہ پیغام ہے پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں کے لیے کہ ان کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں اور پاکستانی عوام ان کو مزید قبول نہیں کریں گے۔
عمران خان کے طرز سیاست سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن ان کے اکثر اقدامات ان کے واضح اور صاف ذہن کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے لیے کس قدر مخلص ہیں اور یہی ایک بات ہے جس سے ان کی تمام غلطیاں درگزر کی جا سکتی ہیں۔ ان کے طرز سیاست کا مزید اظہار آیندہ الیکشن میں ہو جائے گا اور اگر وہ انتخابات جیت کر اقتدار میں آ جاتے ہیں تو پھر ان کے سیاسی کردار کے بارے میں بات کرنے میں مزید آسانی ہو جائے گی۔
ابھی تو وہ ملکی اقتدار سے دور ہیں صرف ایک صوبے میں اقتدار ان کی پارٹی کے پا س ہے، جب ملکی اقتدار ان کے پاس ہو گا تو پھر ان کی شخصیت کے جوہر کھل کر سامنے آئیں گے۔ تنقید و تعریف کے لیے ہمارے قلم ہر وقت تیار ہیں بس دیر خان صاحب کی جانب سے ہے۔ وہ بسم اللہ کریں پورا کلمہ ہم پڑھ لیں گے جو ہمیں یاد ہے۔
آج کی سیاست میں وہی سیاستدان کامیاب رہتے ہیں جو اپنی پارٹی سربراہ اور اس کے خاندان کی جی حضوری اور چاپلوسی کرتے ہیں۔ پارٹی کے تمام عہدے اور مراعات انھی کے لیے ہوتی ہیں اور پھر جب پارٹی کے اقتدار کا سورج غروب ہوتا ہے تو یہی سیاستدان کسی دوسری اقتدار یافتہ پارٹی کے سائے تلے اپنی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ بقول مولانا آزاد سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور عوام کی خدمت کے لیے ضروری ہے کہ بر سر اقتدار رہا جائے تا کہ عوامی مسائل حل ہوتے رہیں۔
دراصل یہ عوامی مسائل کے بجائے اپنے مسائل کے حل پر توجہ دینے کی وجہ ہوتی ہے اور اسی مضبوط وجہ سے سیاست میں پارٹیاں بدلنے کو سیاستدان معیوب نہیں سمجھتے۔ یہی سیاستدان کبھی تو کسی آمر کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور جب اس کا اقتدار ختم ہو جاتا ہے تو یہی سیاستدان جمہوریت کے حق میں زور و شور سے تقریریں کرتے نظر آئیں گے۔
اس کی کئی زندہ مثالیں ہمارے سامنے آج بھی موجود ہیں جو کہ کبھی تو پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار کے جھولے جھول رہے تھے اور ان کے گن گاتے تھے اور آج یہی حکومتی وزراء میں شامل ہیں اور ان کی زبان جمہوریت کے فوائد گنتے تھکتی نہیں اور ہماری سیاسی پارٹیاں ان کو جیسے تیسے قبول بھی کر لیتی ہیں کہ مارکیٹ میں یہی جنس دستیاب ہے اور کاروبار تو چلانا ہی ہے۔ سیاست میں اگر کچھ نئی روایات متعارف ہوئی ہیں تو وہ نوخیز جناب عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف نے کرائی ہیں۔
انھوں نے گزشتہ الیکشن کے بعد سے لے کر اب تک ایک بھر پور اور توانا اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے، مسلسل ملک کی بہتری کی بات کی اور پاکستانی عوام کو اس بات پر آمادہ بھی کر لیا کہ انھیں ان جماندرو قسم کے سیاستدانوں سے چھٹکارا حاصل کر کے صاف ستھرے لوگوں کو اپنا حکمران منتخب کرنا ہے تا کہ پاکستان ترقی کرے۔ وہ نئے پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں جس میں عام آدمی کے لیے انصاف ہو اور اس کے بنیادی حقوق اس کو عملاً حاصل ہوں۔
یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اقتدار ان لوگوں کے پاس ہو جو روائتی سیاست سے ہٹ کر عوام کی حکمرانی کے اصولوں پر اپنے طرز حکمرانی کی بنیاد رکھیں اور ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب سیاستدان عوام کے تابع ہوں اور سیاست اپنے ذاتی مفادات سے جس قدر ممکن ہو بالاتر ہو کر کریں۔
عمران خان کی صورت میں پاکستانی عوام کو ایک منفرد قسم کا سیاسی لیڈر ملا ہے جس نے دو دہائیوں کی جدو جہد کے بعد عوام میں اپنی جگہ پکی کی ہے اور عوام نے بھی اس کی لیڈری پر لبیک کہا ہے۔ یہ عمران خان گزشتہ کئی برسوں سے سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ کو ان کی تما م تر برائیوں کے ساتھ بے نقاب کرتے آ رہے ہیں۔
وہ کسی معافی تلافی کے حق میں نہیں بلکہ ان کے بارے میں اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بلا ضرورت نازک سیاسی مواقع پر ایسے اقدامات بھی کر جاتے ہیں جن سے ان کی پارٹی کو سیاسی نقصان ہوتا ہے لیکن وہ اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں اور خود اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ پچھلے چند برسوں میں کئی سیاسی شکستوں کے بعد بھی نہ تو وہ خود ناامید ہوئے اور نہ ہی انھوں نے اپنے مداحوں کو مایوس ہونے دیا بلکہ وہ ان سیاسی شکستوں سے مسلسل سیکھتے ہی رہے اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی نیک نامی کو آیندہ الیکشن میں کیش کرائیں جس کا جرات مندانہ آغاز انھوں نے اپنی ہی پارٹی کے بیس اراکین صوبائی اسمبلی کے خلاف سینیٹ الیکشن میں ووٹ کو بیچنے کا الزام لگا کر ان کو شوکاز نوٹس اور پارٹی سے نکالنے کو اعلان کر کے کیا ہے، جس پر ان ممبران نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان میں سے بعض نے اس کو جھوٹ قرار دیا ہے۔
لیکن کچھ تو دال میں کالا ہے جس کا ثبوت سینیٹ میں پیپلز پار ٹی کے خیبر پختونخوا سے دو ارکان کا منتخب ہونا ہے جن کو تحریک انصاف کے اراکین نے ہی ووٹ دیئے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے پاس تو اپنے ایک رکن کو بھی منتخب کرانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ووٹ نہیں تھے۔ جناب عمران خان کہتے ہیں کہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے اپنے کرپٹ ممبران کو نکالنے کی جرات کریں، انھوں نے اپنے اس اقدام کو ووٹ کے تقدس کا نام دیا ہے۔
ان کا یہ فیصلہ عام انتخابات سے پہلے اس وقت سامنے آیا ہے جب الیکشن میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں اس وقت سیاسی پارٹیاں اپنے ارکان کو اپنے ساتھ جڑا رہنے کے لیے ان کی خوشامدیں کر رہی ہیں جبکہ عمران خان نے ایک بار پھر اپنے اس جرات مندانہ اقدام سے قوم کو اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ان کی پارٹی میں کرپٹ لوگوں کی کوئی جگہ نہیں اور اگر کوئی کرپٹ ان کی پارٹی میں موجود ہے تو وہ خود ان سے کنارہ کر لے اور ان کی پارٹی چھوڑ دے۔
ہمارے ملک میں اس طرح کی یہ پہلی روایت اور سیاسی ایکشن ہے جو کہ ایک پارٹی کے سربراہ نے اپنے ارکان اسمبلی کے خلاف لیا ہے۔ عمران خان اسی سیاسی معاشرے کی پیدا وار ہیں جس میں ہم سب زندگی گزار رہے ہیں وہ اشرافی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن انھوں نے اپنی ذات کو پاکستانی عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت دی ہے ان کا موجودہ ایکشن ان کے کردار کی مضبوطی کو مزید واضح کر رہا ہے۔ اور یہ پیغام ہے پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں کے لیے کہ ان کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں اور پاکستانی عوام ان کو مزید قبول نہیں کریں گے۔
عمران خان کے طرز سیاست سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن ان کے اکثر اقدامات ان کے واضح اور صاف ذہن کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے لیے کس قدر مخلص ہیں اور یہی ایک بات ہے جس سے ان کی تمام غلطیاں درگزر کی جا سکتی ہیں۔ ان کے طرز سیاست کا مزید اظہار آیندہ الیکشن میں ہو جائے گا اور اگر وہ انتخابات جیت کر اقتدار میں آ جاتے ہیں تو پھر ان کے سیاسی کردار کے بارے میں بات کرنے میں مزید آسانی ہو جائے گی۔
ابھی تو وہ ملکی اقتدار سے دور ہیں صرف ایک صوبے میں اقتدار ان کی پارٹی کے پا س ہے، جب ملکی اقتدار ان کے پاس ہو گا تو پھر ان کی شخصیت کے جوہر کھل کر سامنے آئیں گے۔ تنقید و تعریف کے لیے ہمارے قلم ہر وقت تیار ہیں بس دیر خان صاحب کی جانب سے ہے۔ وہ بسم اللہ کریں پورا کلمہ ہم پڑھ لیں گے جو ہمیں یاد ہے۔